سالہا سال سے یہ صورتِ حال ہمارے سامنے ہے کہ مذہبی تقاریر کو اخلاقیات کی دعوت تک محدود رکھا جاتا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سالہا سال سے یہ صورتِ حال ہمارے سامنے ہے کہ مذہبی تقاریر کو اخلاقیات کی دعوت تک محدود رکھا جاتا ہے ،خصوصاً وہ باضابطہ تقاریرجن کو میڈیا پر نشر کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اخلاقیات کا تعلق تمام معاملات سے جوڑا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں جس مسئلے کی تشخیص کی گئی وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق زوال کا شکار ہو گئے ہیں۔ چنانچہ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ اخلاقیات کی طرف دعوت دینااور اسے اسلام کی دعوت کا مرکزی نقطہ بنانا یقینی طور پرمسلمانوں کی حالت کو بدل دے گا۔ اس بنیاد پر پے در پے کانفرنسیں کی گئی اور کتابیں چھاپ کر مفت تقسیم کی گئی۔ یہ سب اسلامی اخلاقیات کو بحال کرنے اور ان کو مسلمانوں کے اعمال کی بنیاد بنانے کے لیے کیا گیا۔ اخلاقیات پر مبنی مضامین اور ادب کو معاشرتی اور علمی علوم کی سٹڈی میں شامل کیا گیا، حتیٰ کہ یونیورسٹیوں میں اخلاقی موضوعات کونصاب کے طور پر شامل کیا گیا۔ انھوں نے اخلاقیات کو دین اور دنیا میں تقسیم کیا۔ انھوں نے تمام مذاہب میں اخلاقی سوچ کے تقابل کی بات کی، اور دعویٰ کیا کہ اخلاقیات ہی تمام مذاہب کی سب سے اہم قدرِمشترک ہے۔ انھوں نے ہر پلیٹ فارم کو رسول اللہ ﷺ کے اخلاق اور اقدارپر تقاریر کے لیے استعمال کیا، اس بنا پرکہ آپ ﷺ اعلیٰ اخلاق کے حامل اور رواداری و درگزروالی شخصیت تھے، اور آپ ﷺ کا پیغام جاہلیت کے دور میں موجود اخلاقیات کو درست و کامل بنانے کے لیے تھا اور اسلام ایک اخلاقی تحریک پیدا کرنے اور اخلاقیات کو ربانی رنگ دینے کے لیے تھا۔
غور طلب بات ہے کہ اخلاقیات کی دعوت میں مبالغہ آرائی پیدا کر کے بہت سی حکومتیں اسے اپنے لیے استعمال کر رہی ہیں جہاں اس کے لیے بہت سے سرکاری اور نجی مواقع قائم کیےگئےہیں۔ لیکن ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس طرزِ عمل کوایک تنقیدی نظر اور مکمل آگہی سے دیکھیں، خصوصاً جب ہم امت میں اخلاقیات کے زوال سے متعلق دردناک واقعات سنتے ہیں۔ ہمارے معاشی مسائل بڑھ چکے ہیں، غربت میں اضافہ ہو گیا ہے، زمینوں پر اغیار کا قبضہ ہے، جہالت اور کرپشن عام ہو چکی ہے، چاہے اخلاقیات میں ہویا تنظیم و ادارہ میں یا سیاست میں یا پھرخاندانوں میں۔ بہت سی اقدار ختم ہو چکی ہیں اور اسلام اپنے ہی علاقوں میں اجنبی ہو گیا ہےاور بیوقوف لوگ ہماری طرف سے بولنے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کی تمام تر کوششوں کے کے باوجود ہوا جواخلاقی طریقے کی دعوت دیتے ہیں، چاہے وہ ایسا اخلاص کے ساتھ کریں یا عدم اخلاص کے ساتھ۔ اس طرزِ دعوت پر بحث کرنے اور اس کے فوائد و نقصانات بیان کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مختلف پہلوؤں کو پر نظر ڈالی جائے تاکہ ذہن میں موجود شکوک دور ہو سکیں اور اس کے بارے میں تصورات درست ہو سکیں۔
فیروز آبادی نے خُلق کی تعریف یوں کی ہے: میلان، اندرونی فطرت، انسانیت اور طرز ِزندگی ۔ ماہرینِ زبان لفظ خَلق اور خُلق میں فرق کرتے ہیں۔ علامہ راغب اصفہانی کہتے ہیں،
والخَلْق والخُلْق في الأصل واحد كالشَّرب والشُّرب، والصَّرم والصُّرم، لكن خُصَّ الخَلْق بالهيئات والأشكال والصور المـُدرَكة بالبصر، وخُصَّ الخُلْق بالقوى والسجايا المـُدرَكة بالبصيرة
"خَلق اور خُلق کی اصل ایک ہی ہے جیسے شَرب اور شُرب (پینا) یا صَرم اور صُرم (قطع و برید کرنا)۔ لیکن لفظ خَلق ہئیت، اشکال اور تصاویر کی طرف اشارہ کرتا ہے جنہیں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ لفظ خُلق اس طاقت و نفسیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو باطن و بصیرت سے پرکھی جاتی ہے"۔
جہاں تک شرعی تعریف کا تعلق ہے،تو لفظ خُلق قرآن میں اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے جو اپنے لفظی معنی کے مخالف نہیں۔ خُلق دو مرتبہ قرآن میں آیا ہے۔ پہلی آیت ہے،
اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا خُلُقُ الۡاَوَّلِيۡنَۙ
"یہ تو بس پہلے لوگوں کی ایک عادت ہے" (الشعراء : 137)
ابنِ عباسؓ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ یہاں لفظ خُلق سے مراد ہے ان (پہلے لوگوں)کا مذہب، روایات، اخلاق اور طرزِ زندگی ۔ دوسری آیت رسول اللہ ﷺ کی طرف اشارہ کرتی ہے،
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيۡمٍ
"اور بے شک آپ ﷺ تو بڑے ہی خوش خلق ہیں" (القلم: 4)
امام طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں، "اللہ تعالیٰ یہاں نبی ﷺ کو یہ یاد کروا رہے ہیں کہ اے محمد! بے شک آپ ادب کے عظیم مرتبے پر ہیں اور یہ قرآن کا ادب ہے جس کے ذریعے آپ کو ادب سکھایا گیا یعنی اسلام اور شریعت۔ ہم اور تفسیر کے علماء اس کے متعلق یہی کہتے ہیں”۔ اورابنِ عباس، مجاہد، ابن زید اور ضحاک نے آیت (خُلُقٍ عَظِيمٖ) کے متعلق اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے : دینِ عظیم ۔
سنت میں خُلق متعدد روایات میں کئی معنی میں آیا ہے جن کا یہاں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے خُلق کو ایسے بیان کیا، كان خُلُقه القرآن "آپ ﷺ کا خُلق قرآن ہے” (احمد)۔ مسلم نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
البِرُّ حُسْنُ الخُلُق
” نیکی اچھا اخلاق ہے"۔
اصطلاحاً، طاہر بن عاشور نے اخلاق کی تعریف ایسے اوصاف کے طور پر کی ہے جو کسی شخص کی ذات میں اچھی طرح پیوست ہوں اوراچھائی اور برائی کے لحاظ سے اعمال کو جنم دیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ خُلق حسن ہے اور اس کے علاوہ سب قبح ہے۔ شیخ تقی الدین النبھانی نے اخلاق کو فرد کا ایک جزو قرار دیا ہے۔ اخلاق ان احکام میں سے ہیں جو انسان کے خوداپنے ساتھ تعلق استوار کرتے ہیں، جیسا کہ لباس اور کھانے پینے کے احکام ۔ چونکہ شریعت بہت سے احکام دیتی ہے اور ان پر چلنے کا کہتی ہیں، اخلاق سے متعلق احکام بھی اللہ تعالیٰ کے اوامرونواہی ہی ہیں، جن میں اور دوسرے احکام میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ فقہاء نے اپنی کتابوں میں اخلاقیات کے الگ باب نہیں رکھے، کیونکہ وہ انہیں شریعت ہی کا ایک حصہ سمجھتے تھے، یعنی ایسے اوامر جن کی بجاآوری لازم ہے۔ لہٰذا معاشرے میں اخلاقیات کو عملی طور پر وجود میں لانے کے لیے عمومی طور پراسلامی جذبات و احساسات اور اسلام کے نظاموںکو وجود بخشنےکی ضرورت ہے۔
اسلامی معاشرہ ایک انسانی تشکیل ہےجو ایک مخصوص طرززندگی پر چلتا ہےجو افکار، جذبات اور نظام پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں روحانی پہلو تمام معاملات میں عقیدۂ اسلام سے جڑا ہوتا ہے۔ اسلام نے معاشرے میں اعلیٰ اقدار کی حفاظت کے لیے زندگی کے تمام معاملات میں فرد اور معاشرے کی رہنمائی کی ہے۔ مثلاً اسلام نے غربت کے خاتمے کے لیے وہ تمام احکام دیے ہیں جو دولت کو معاشرے میں گردش کرواتے ہیں۔ اس میں زکوٰۃ کی منصفانہ تقسیم، وقف، ذخیرہ اندوزی کی روک تھام، دو دھاتوں (سونا چاندی) کے ساتھ کرنسی کا منسلک ہوناوغیرہ شامل ہیں۔ یہ دراصل ان احکامات کا نفاذ ہی ہے جو ایسے معاشرے کو جنم دے گا جہاں غربت اور غریب نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اس معاملے میں اخلاق کا کردار ثانوی ہے۔ اسی طرح ظلم کا تدارک شرعی قاضیوں کی موجودگی سے ہوتا ہے جو اسلام کے مطابق فیصلہ کریں اور اسلام کی بنا پر معاملے کی وضاحت کریں۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے بھیک مانگنے والے کے اخلاق کو اچھا نہیں کہا، آپ ﷺ نے ہاتھ پھیلانے والے سے پوچھا، هل في بيتك شيء "کیا تمہارے گھر میں کچھ ہے؟” اس نے جواب دیا، "میرے پاس ایک کپڑا اور پیالہ ہے”۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ائتني بهما "انھیں میرے پاس لاؤ”۔ وہ شخص یہ چیزیں آپ ﷺ کے پاس لایا، آپ ﷺ نے یہ چیزیں لے کر کہا، من يشتري هذا؟ "کون یہ چیزیں خریدے گا؟” ایک صحابیؓ نے کہا، "میں، یا رسول اللہ ﷺ”۔ نبی ﷺ نے پوچھا، بكم؟ "کتنے میں؟”۔ اس نے جواب دیا، "ایک درہم میں "۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا، من يزيد؟ "کون اس (ایک درہم) سے زیادہ دے گا؟”۔ ایک اور شخص نے کہا، "میں انھیں دو درہم میں خریدوں گا”۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دو درہم میں بیچا اور مانگنے والے کو کہا، خذ هذين الدرهمين، واشترِ بأحدهما طعامًا لأهلك وبالثاني فأسًا "یہ دو درہم لو، ایک سے گھر والوں کے لیے کھانا خریدو اور دوسرے سے ایک کلہاڑی”۔ وہ شخص گیا اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کے مطابق ایک کلہاڑی لے کر آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اس پر دستہ لگایا اور کہا، اذهب بهذا الفأس واحتطب به، ولا تأت إلينا إلا بعد خمسة عشر يومًا "جاؤ جا کر اس سے لکڑیاں کاٹو اور بیچو، اور 15 دن تک ہمارے پاس مت آنا”۔ وہ شخص چلا گیا، لکڑیاں کاٹتا اور ان کو بیچتا۔ 15 دن بعد وہ اپنی کمائی کے طور پر 10 درہم لے کر آیا۔
جب ایک شخص نبی ﷺ کے پاس ایک دوسرے شخص کے خلاف شکایت لے کر آیا، تو نبی ﷺ نے دونوں کا مدعا سننے کے بعد مظلوم کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جب یہودیوں نے مسلمانوں کو دھوکا دیا، توآپ ﷺ نے مسلمانوں کو محض دعا کرنے کا نہیں کہا بلکہ آپ ﷺ نے افواج کو متحرک کیا کیونکہ اسلام اللہ کے آگے جھکنے کا نام ہے، نہ کہ دشمنوں کے آگے۔ جب رسول اللہ ﷺ رحلت کے قریب تھے توانھوں نے اسامہؓ کا لشکر روانہ کیا۔۔۔ یہ تمام معاملات یہ ثابت کرتے ہیں کہ پوری انسانیت میں اخلاق کے اعتبار سے بہترین شخص نے وحی کے مطابق عمل کیااور ہر معاملے کو اس معاملے سے متعلق شریعت کے احکامات کے ذریعے طے کیا۔ تو وہ لوگ جو اخلاق کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں، کہاں کھڑے ہیں؟ لوگوں کو اخلاق کی طرف بلانے سے غربت، ظلم اور قبضوں کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ محض اسلام اور اس کے احکامات کی ایک کمزور سمجھ اور ٹیڑھی منطق ہے۔ علاوہ ازیں یہ اسلام کو محدود کرنے اور اسے دوسرے مذاہب کی صف میں کھڑا کرنے کی کوشش ہے۔ اسلام کا یہ دنیوی نظریہ دراصل اس سوچ سے مماثلت رکھتا ہے جو سیکولر ازم مذہب کے متعلق اور زندگی میں مذہب کے کردار کے متعلق رکھتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو قرآن صرف ایک ہی آیت تک محدود ہوتا اور رسول اللہ ﷺ کو بھیجنے کا مقصد مختلف اقوام کو اخلاقی اقوام بنانا ہوتا۔ جبکہ یہ اسلام کے بنیادی مقصد کے خلاف ہے جولوگوں کو مخلوق کی عبادت سے نکال کر خالق کی عبادت میں لانا ہے۔
مزید وضاحت کے لیے کچھ اور مثالوں کو دیکھتے ہیں۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ مغربی دنیا کی کچھ ترقی یافتہ قومیں غربت کے خاتمے کا دعویٰ کرتی ہیں جبکہ ان کے گرے ہوئے اخلاق سے کوئی پردہ نہیں جیسے جنسی بےراہ روی، شراب نوشی، رشتوں کی پامالی اور نسل پرستی۔ ان تمام شیطانی اعمال کے باوجود ہم وہاں غربت نہیں دیکھتے ۔ دوسرے طرف ہم غربت کو مسلم ممالک میں حاوی پاتے ہیں باوجود یہ کہ بہت سے لوگوں کے اخلاق اچھے ہیں جیسا کہ سوڈان اور موریطانیہ کے لوگوں کے ۔ لہٰذا اخلاق کبھی بھی معاشرے کے قیام اور اس کےعروج و زوال کی بنیاد نہیں ہوتے لیکن جو چیز معاشرے پر اثر کرتی ہے وہ معاشرے کی عمومی روایات ہوتی ہیں۔ جب عثمانی خلافت کے دور میں ایک برطانوی سیاح جدہ (حجاز) آیا تو ایک ہفتے میں تمام مذہبی معاملات سمجھ گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت حاکم اور عوام اپنے تمام تردنیاوی معاملات میں اسلام ہی کو واحد بنیاد بناتے تھے۔ اس کے برعکس ہماری زمینوں میں موجود حکومتیں ایسے معاشرے قائم کرنے کی انتھک کوشش کر رہی ہیں جو نہ تو خالصتاً اسلامی ہوں نہ ہی سیکولر، بلکہ دونوں کا ملاپ ہوں۔ وہ اپنی پوری کوشش کے ساتھ غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا اخلاق کی طرف دعوت دینےوالوں کو بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے افکار مبہم اور رویہ آلودہ ہو چکا ہوتا ہے۔ جب وہ ان کو وعظ و نصیحت سے مخاطب کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا اثر اس نصیحت کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اسے فقط اخلاق تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اتنا اہم ہے کہ اسے اسلام کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اسے ایک ایسےمسئلے کے طور پر دیکھنا ضروری ہے جو اس امت کے مقصد کا تعین کرتا ہے وہ امت جسے اسلام کے پیغام کا علمبردار ہونا چاہئے ۔ یہ مقصد اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک معاشرے کی فکری قیادت اسلامی عقیدے کے افکار، جذبات اور نظام پر استوار نہ ہو جائے۔ اسی طرح حقیقت کو اس کے تمام تر زاویوں کے ساتھ واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے ، خاص طور پر سیاسی زاویے کو۔ میڈیا اور کئی تحریکیں جو اخلاقی اصلاح کےرستے پر چل رہی ہیں وہ واضح طور پر باطل کا سامنا نہیں کرتی۔ اس کے برعکس ان کا طریقہ باطل کے سامنے خاموش رہ کر باطل کو طاقت بخشتا ہے۔ اس رستے پر چل کر وہ لوگوں کو تو موردِالزام ٹھہراتے ہیں مگران حکومتوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو لوگوں پرکفریہ قوانین کے ذریعے ظلم اور کرپشن نافذ کرتی ہیں۔ بےشک لوگوں کو اسلام اور عقیدے کی طرف دعوت جامع ہونی چاہیے۔ اس کی دلیل میں وہ تمام احادیث موجود ہیں جو اقتدار اور استخلاف کو اللہ کے احکامات کی اطاعت سے جوڑتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما: كتاب الله وسنة نبيه "میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جو اگر تم پکڑے رکھو تو گمراہ نہیں ہو گے۔ اللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت”۔ آپ ﷺ نے فرمایا، عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضّوا عليها بالنواجذ "میری سنت اورمیرے بعد آنے والے خلفاء راشدین کی مثالوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا۔ ان کی پیروی کرنا اور ان کو پکڑے رکھنا”۔ یہ قانونی احکامات بالکل ختم ہو گئے اور کچھ کے مطابق تاریخ کے قصے بن کر رہ گئے۔ موجودہ وقت کے حساب سے اسلام کی صلاحیت پرشکوک جنم لینے لگے اور کچھ کے نزدیک یہ ایک دقیانوسی چیز تھی جسے تبدیلی کی ضرورت تھی۔ یہ اور اس جیسے دیگر افکار کو پھیلایا گیا اور انہیں جگہ دینے کے لیے موزوں حالات پیدا کیے گئے۔ اخلاقیات کے طور پر اسلام کی دعوت دینے والے لوگوں نے نہ تو اسلام کو واضح کیا نہ ہی اسے اس کا حق دیا بلکہ اسلام کی محدود سوچ پیش کی ۔ حق اور باطل کے درمیان جاری جدوجہد میں سیکولر اسلام دشمنوں نے اس موقع کو اپنے زہریلے افکار پھیلانے کے لیے استعمال کیا۔ یقیناً اس امر میں تسلسل امت کو گمراہ کرنے اور الجھن بڑھانے کی کوشش ہے، خصوصاً جب خوفناک بگاڑ اورکرپشن موجود ہے اور بڑھ رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی اصلاحی کوشش جو اس سوچ کو لے کرلوگوں کی حالت کو بدلنے کی کوشش کرے گی، وہ لوگوں پر اثرانداز نہیں ہو سکتی جب تک یہ سوچ ایک گروہ نہ اپنا لے جو اس سوچ پر قائل ہو اوراس سوچ کو لوگوں تک لے جائے تاکہ وہ اس کے حامل بنیں اور اس کے ساتھ کام کریں۔ یہ زندگی کی روایت ہے۔ امت کا اپنی فطرت میں سیاسی ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ معاشرے کے سیاسی ہونے کی وجہ سے تبدیلی کے لیے سیاسی عمل ضروری ہے۔ یہ اس لیے کہ صرف سیاسی نظریہ ہی ایک جامع عمل کا حامل ہو سکتا ہے ،ایک غیر سیاسی گروہ نہ تو ایسا نظریہ پیش کر سکتا ہے اور نہ ہی ایک جامع کوشش کر سکتا ہے۔ ایک سیاسی گروہ ہی معاشرے کو اپنے نظام وقوانین سے تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ طے ہے کہ وہ جو ایسی نظریاتی تبدیلی کی سوچ رکھیں گے، ان کو معاشرے کے حکام سے ٹکرانا پڑے گا کیونکہ ان کا مقصد اس معاشرے کو تبدیل کرنا ہے جس پر ایسے افکار وقوانین کے ذریعے حکومت کی جاتی ہے جو اس کانظریہ ہی نہیں ہے۔ لہٰذا جو بھی اس نظام کا متبادل پیش کرے گا، اسے حکومت سے ٹکرانا پڑے گا۔ اسی وجہ سے یکسر اوربنیادی تبدیلی کے لیے سیاسی عمل لوگوں میں قابلِ قبول نہیں ہوتا جبکہ وہ جانتے ہیں کہ یہی درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں پرہی حکومتوں کی طرف سے سب سے زیادہ ظلم کیا جاتا ہے۔ یہ جماعتیں قوانین اور نظام پر مشتمل ایک متبادل سیاسی ڈھانچہ پیش کرتی ہیں جو موجودہ حکومتوں کے وجود کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ یہ ان گروہوں کے برخلاف ہے جو دوسرے متعدد فریم ورک، جیسے سول سوسائٹی یا اخلاقی گروہوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتیں اخلاقی طریقے والوں کی مدد کرتی ہیں اور ان کے لیے رستے کھول دیتی ہیں۔ یہ عمل حکومتوں کو مسلمانوں کی حمایت مہیا کرتا ہے خصوصاً جب وہ ان حکمرانوں کو علماء سے ملتے اور میٹنگ کرتے دیکھتے ہیں۔ یوں یہ حکمران امت کے بیٹوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ یقیناً اسلام جامع ہے اور تبھی اپنا فائدہ دیتا ہے جب اسے معاشرے میں جامع طور پر نافذ کیا جائے۔ پھر وہ روایات جو نظام، افکار اور جذبات میں پائی جاتی ہیں، افراد کی کردار سازی کرتی ہیں اورجن کو حکمران نافذ کرتے اور معاشرے میں پھیلاتے ہیں۔
آخر میں، فکر اور طریقے میں اسلامی نظریے سے ہٹ جانا ہی کمزوری اور ذلت کی وجہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس طریقے پر حکومت و اختیارنہیں دے گا جس طریقے پرکفار حکومت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو حکومت و اختیار صرف اسلامی طریقے سے ہی ملے گا۔ اسلام ایک روحانی اور سیاسی عقیدہ ہے یعنی اسلام ایک فکری نظام ہے جو معاشرے کے تمام تر تعلقات کو منظم کرتا ہے خواہ یہ حکومت سے متعلق ہوں یا معیشت، تعلیم اور خارجہ پالیسی سے متعلق،اور ان کا واحد ماخذ اسلامی عقیدہ ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جو یقیناً اس مخصوص طرزِ زندگی کی طرف لے جائے گا جوحقیقی نشاۃ ثانیہ ہے۔