انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب کبھی تبدیلی آئی تو وہ اُن غیر معمولی لوگوں کے ہاتھوں وقوع پزیر ہوئی جنہوں نے غیر معمولی خطرات کا سامنا کیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب کبھی تبدیلی آئی تو وہ اُن غیر معمولی لوگوں کے ہاتھوں وقوع پزیر ہوئی جنہوں نے غیر معمولی خطرات کا سامنا کیا کیونکہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنی جانیں تک داؤ پر لگانے کے لیے تیار تھے۔ جہاں تک اسلامی امت کا تعلق ہے تو اس کی پوری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اسلام کاغیر معمولی اور بے مثال پھیلاؤ اُن بہت سارے مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا جنہوں نے میدانِ جنگ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردیا۔ اسلامی افواج کوجو زبردست جذبہ ملتا تھا اس کی بنیاد یہ قطعی یقین تھا کہ زندگی اور موت کا فیصلہ صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اس یقین و ایمان نے انہیں اپنے سےکئی گنا بڑی افواج اور طا قتوں کو زیر و زبرکرنے کا حوصلہ فراہم کیا۔ وہ یہ جانتے تھے کہ زمین پر کوئی شخص اس و قت تک موت کا شکار نہیں ہوتا جب تک اس کی موت کا معین و قت نہ آجائے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ زمین پرکوئی طا قت ایسی نہیں جو موت کے معین وقت کو آگے بڑھا دے۔ لہٰذ ا بجائے یہ کہ ان کی موت آرام دہ بستروں پر اپنے رشتہ داروں کے درمیان آئے ، انہوں نے اس بات کو پسند کیا کہ ان کی موت میدانِ جنگ میں دشمنوں کے درمیان لڑتے، گرتے،زخمی ہوتے ہوئے آئے۔ اور وہ ایسی موت کے اس قدر شائق تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نا قابل تسخیر تلوار، خالد بن ولیدؓ، جب بستر مرگ پر پڑے تھے تو انہوں نےانتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہا،
لقد شهدت مئة زحف أو زهاءها، وما في جسدي موضع شبر إلا وفيه ضربة بسيف أو رمية بسهم أو طعنة برمح، وها أنا ذا أموت على فراشي، حتف أنفي، كما يموت البعير فلا نامت أعين الجبناء
"میں نےشہادت کی جستجو میں اتنی جنگیں لڑی ہیں کہ میرے جسم کا کوئی حصہ ایسانہیں جو تیر یا تلوار کی وجہ سے نشان زدہ اورزخمی نہ ہوا ہو۔ اور اب میں یہاں پڑا ہوں، بوڑھے اونٹ کی طرح اپنے بستر پر مر رہا ہوں۔بزدلوں کوکبھی چین نصیب نہ ہو!"۔
آج کی مغربی ا قوام کی افواج کے برخلاف دورِ خلافت میں افواج کو اپنی ذمہ دار یوں کی ادا ئیگی کے لیے دماغی سکون کی گولیاں نہیں کھانی پڑتی تھیں۔ نہ کسی ایسے قانون کی ضرورت تھی کہ جس کے تحت لوگوں کو اس بات کا پابند کیا جاتا ہو کہ جب انہیں لڑنے کے لیے بلایا جائے تو لازمی آئیں گے ورنہ انہیں سزا دی جائے گی بلکہ مسلمان اپنی افواج میں شامل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے اور اس میں شامل ہونے پر خوشیاں مناتے تھے۔ اور نہ ہی خلافت کوایسے اسپتال بنانے کی ضرورت پیش آتی تھی کہ جہاں جنگ سے واپس آنے والوں کو اس وجہ سے داخل کیا جاتا ہو کہ موت کے شدید خوف نے انہیں دماغی مریض بنا دیا ہو۔ اُن لوگوں کا افواج میں شامل ہونے کا مقصد نہ تو ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے شاندار فوائد ہوتے تھے، نہ ہی پلاٹس یا پنشن، بلکہ وہ ایسی موت کی خواہش دل میں بسائے ہوئے آتے تھے جس کے ساتھ جنت کے سب سے بلند مرتبے اور رسول اللہ ﷺ کی رفا قت کا وعدہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ كَفَرُواْ وَقَالُواْ لإِخْوَنِهِمْ إِذَا ضَرَبُواْ فِى الاٌّرْضِ أَوْ كَانُواْ غُزًّى لَّوْ كَانُواْ عِنْدَنَا مَا مَاتُواْ وَمَا قُتِلُواْ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَلِكَ حَسْرَةً فِى قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ يُحْيىِ وَيُمِيتُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ – وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾
"مومنو! ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور ان کے (مسلمان) بھائی جب (اللہ کی راہ میں) سفر کریں (اور مر جائیں) یا جہاد کو نکلیں (اور مارے جائیں) تو ان کی نسبت کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کر دے اور زندگی اور موت تو اللہ ہی دیتا ہے اور اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ اور اگر تم اللہ کے رستے میں مارے جاؤ یا مرجاؤ تو جو (مال و متاع) لوگ جمع کرتے ہیں اس سے اللہ کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے"(آل عمران: 157-156)۔
لہٰذا مسلمانوں کے افواج کے بڑھتے ہوئے قدم روکنا ناممکن ہوتا تھا ،وہ مشر ق و مغرب کے زمینیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کے نفاذ کے لیے فتح کرتے تھے ، اور صرف شہادت یا کامیابی ان کا مطمع نظر ہوتی تھی۔
آج کے اس بحرانی دور میں بہترین موت کی خواہش بہت ضروری ہے جب ہمارے دشمن پیش قدمی کررہے ہیں اور امت کے حقو ق جابر حکمرانوں کے ہاتھوں پامال ہورہے ہیں جو ہمارے دشمنوں کے دوست بنے ہوئے ہیں۔ وہ افسران جو نبوت کے منصوبے کے لیے نُصرۃ فراہم کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ بہترین موت کی خواہش رکھیں اور اس کے لیے دعا کریں، کہ یہ وہ عمل ہے جس کی تکمیل کے بعد تاریخ کا دھارا اسلام کے حق میں تبدیل ہوجائے گا۔ صرف ایسی شاندار موت کی خواہش ہی مسلم افواج کے افسران کو اپنے لیے خطرہ مول لینے کے قابل بنائے گی جب وہ کفر کی حکمرانی کے خاتمے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کے قیام کے لیے حرکت میں آئیں گے۔ تو ایسے افسران کو حضرت سعدؓ کی موت کو یاد کرنا چاہیے جنہوں نے مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے رسول اللہ ﷺ کو نُصرۃفراہم کی تھی۔ جب سعدؓ کا انتقال ہوا اور ان کی والدہ شدت غم سے رونے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بتایا،
«ليرقأ (لينقطع) دمعك، ويذهب حزنك، فإن ابنك أول من ضحك الله له واهتز له العرش»
"آپ کے آنسو خشک ہوجائیں اور غم ہلکا ہوجائے اگر آپ یہ جان لیں کہ آپ کا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کے لیے اللہ مسکرائے اور ان کا عرش خوشی سے جھوم گیا "(الطبرانی)۔
اور افواج کے افسران کے علاوہ خلافت کے سیاسی داعیوں کو بھی اس بہترین موت کی خواہش کے ساتھ جابر و ظالم حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی۔ یقیناً جو شخص اس بات پر کامل یقین رکھتا ہے کہ موت ، جو اس کے لیے سب سے بڑا نقصان ہوسکتی ہے، صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں ہے تو وہ موت سے کم تر نقصان ،جیسے ظلم،تشدد، قید یا اغوا سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ ایسا شخص سب سے زیادہ استقامت کے ساتھ حق پر ڈ ٹا رہتا ہے اور دھمکیوں اور ہراسگی سے سب سے کم خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ وہ شخص ہوتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ اگر ظالم حکمران کا احتساب کرنے کی وجہ سے اسے قتل بھی کردیا جائے تو اس کا بدلہ شہادت جیسا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
»سيد الشهداء حمزة ورجل قام إلى إمام جائر فنصحه فقتله«
"شہداء کے سردار حمزہؓ ہیں اور وہ شخص بھی جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہوا، اسے صحیح نصیحت کی اور حکمران نے اسے قتل کردیا"(الحاکم)۔
اور خلافت کا داعی یہ بات جانتا ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے دوبارہ قیام کی جدوجہد کامطلب ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اس دنیاوی زندگی کی آسودگیوں اور آرام کو قربان کررہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،
«فوالله لا أزال أجاهد عن الذي بعثني الله به حتى يظهره الله أو تنفرد هذه السالفة»
"اللہ کی قسم، میں اس مقصد کے لیے کام کرتا رہوں گا جس کے لیے اللہ نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ یہ (دین) کامیاب ہوجائے یا میری گردن کٹ جائے "۔
تو خلافت کیدعوت کے علمبردار اور انصار (نُصرۃ فراہم کرنے والے) اس آیت پر بھرپور غور کریں کہ زندگی دینے والا اور موت دینے والا صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ مسلمانوں کو ان الفاظ پر غور کرنا چاہیے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ابراہیم ؑ کے منہ سے جابر نمرود کے سامنے کہلوائے،
﴿رَبِّي الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ﴾
"میرا پروردگار تو وہ ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے"(البقرۃ:258)۔
حق کے داعی کی زندگی وموت کا فیصلہ جابر نہیں کرتا ،اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿اللَّهُ يَتَوَفَّى الأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا﴾
"اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے"(الزمر:42)۔
جابرکاظلم و جبر زندگی کو طویل یا مختصر نہیں کرتا، کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلاً﴾
"اور کسی شخص میں طاقت نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر مر جائے (اس نے موت کا) وقت مقرر کر کے لکھ رکھا ہے" (آل عمران:145)۔
جابر حکمران کا احتساب کرنا جلد ہمیں ہماری قبر میں نہیں پہنچاتا ،کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ﴾
"پھر اس کو موت دی پھر قبر میں دفن کرایا"(عبس:21)۔
تمام تر دولت ، اختیار اور قوت کے باوجود لوگوں کی زندگی و موت کے فیصلوں کے حوالے سے جابر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا، کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يُحْيِ وَيُمِيتُ﴾
"اللہ ہی ہے جس کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت ہے۔ وہی زندگانی بخشتا ہے اور(وہی) موت دیتا ہے"(التوبۃ:116)۔
مسلمانوں کو ان آیات پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے جو اپنے ثبوت اور معنی کے اعتبار سے قطعی ہیں کہ موت زندگی کااختتام ہے اور یہ کہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے جو موت دیتے ہیں۔
اور آج خلافت کی دعوت کے علمبرداروں اور انصار کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنا ہے، جن کے پاس یہ علم ہے کہ کوئی موت کو التواء میں نہیں ڈال سکتااور نہ ہی اس سے فرار ممکن ہے۔ وہ جابر کو اکھاڑ پھیکنے کےاپنے فرض کی ادائیگی سے دور نہیں بھاگتے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلاَقِيكُمْ﴾
"کہہ دو کہ موت جس سے تم گریز کرتے ہو وہ تو تمہارے سامنے آ کر رہے گی"(الجمعہ:8)۔
وہ دین کو ایک ریاست و اختیار کی صورت میں قیام کی ذمہ داری سے نہیں بھاگتے کہ اس طرح ان کی زندگی طویل ہوجائے گی کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،
﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ﴾
"جب وہ (موت کا وقت) آ جاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرسکتے ہیں نہ جلدی"(اعراف:34)۔
اور وہ کوئی بہانہ تراش کر اللہ کے دین کے قیام کی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹتے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكُّمْ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ﴾
"تم کہیں رہو موت تو تمہیں آ کر رہے گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو"(النساء:78)۔
جو اس زندگی سےجڑے رہتے ہیں تو وہ یقیناًان لوگوں سے شکست کھاجائیں گے جو اپنی نگاہیں اُس موت پر جمائے رکھتے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو بہت محبوب ہے ،اس کا مظاہرہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیکھاگیاجب امت کی تاریخ میں پہلی بار اللہ کی کتاب کی بنیاد پر حکمرانی قائم کی گئی تھی۔ اور ایسا ایک بار پھر بہت جلد ہوگا، ان شاء اللہ، کہ جب وہ لوگ جو اس زندگی سے زیادہ اپنی موت سے محبت کرتے ہیں وہ اپنے دشمنوں پر غالب آجائیں گے اور اللہ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی بحال ہوجائے گی۔ تو آج کے خلافت کی دعوت کے علمبرداراور انصار سبق لیں! اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
"مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو، جب کہ رسول اللہ تمہیں ایسے کام کی طرف بلاتے ہیں جو تم کو زندگی (جاوداں) بخشے گا۔ اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اس کے روبرو جمع کیے جاؤ گے"(الانفال:24)۔