منعم احمد – پاکستان
بسم الله الرحمن الرحيم
سائنس میں ہونے والی ترقی اور جدت کے باعث علمِ فلکیات کے ایسے اسرارورموز انسان پر آشکار ہو چکے ہیں، جن سے واقفیت کو ماضی میں محض ایک خواب سمجھا جاتا تھا۔ ان نئے حاصل ہونے والے علوم کے باعث انسان آج اس قابل ہے کہ وہ نہ صرف حالیہ بلکہ آنے والے کئی سالوں کیلئے بھی سورج، چاند اور دیگر سیاروں اور ستاروں کی چالوں اور حالتوں کا انتہائی درست اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال امریکی خلائی ادارے NASA کی مریخ کی طرف بھیجی گئی متعدد خودکار مشینوں کی مریخ کی سطح تک کامیاب رسائی ہے جنھیں مریخ کی سطح کے ایک چھوٹے سے حصے کا نشانہ باندھ کر زمین سے روانہ کیا گیا تھا، جبکہ ان کا مریخ تک کا سفر کئی مہینوں پر محیط تھا۔ آج فلکیات کی سائنس کی بدولت انسان انتہائی بھروسے کے ساتھ یہ جان سکتا ہے کہ آئندہ آنے والا سورج گرہن یا چاند گرہن کب اور کہاں وقوع پزیر ہو گا یا یہ کہ کسی بھی قمری مہینے کا چاند کب اور کہاں پیدا ہو گا اور اس کے نظر آنے کے امکانات کتنے ہوں گے۔
سائنس کی قابلیت سے حد درجے مرعوبیت نے مسلم دنیا میں اس بحث کو جنم دیا کہ چونکہ اب سائنس یہ معلوم کر سکتی ہے کہ ہلال پیدا ہوا یا نہیں، یا اس کے نظر آنے کے امکانات موجود ہیں یا نہیں، لہذا سائنسی حساب کتاب کو ہلال کی رویت کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اب مسلمانوں کو قمری مہینے کے آغاز کیلئے رویت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سائنس ہلال کی پیدائش کی متعلق قابل بھروسہ معلومات دے سکتی ہے، لہٰذا اس بنیاد پر ماہ رمضان کے آغاز اوریوم عید کے تعین کو فیصلہ کن طور پر نمٹایا جا سکتا ہے اور اختلاف کو رفع کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
1۔ چونکہ سائنس ایک قابل اعتبار بھروسے کے ساتھ ہلال کی پیدائش معلوم کر سکتی ہے ، جو کہ اس سے پہلے صرف رویت کے ذریعے ہی معلوم ہوسکتی تھی، اس لیے آج رویت کی جگہ سائنس کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں ہلال کی پیدائش سے متعلق علم میں غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہو چکا ہے۔
2۔ چونکہ نمازوں کی ادائیگی کے اوقات کیلئے اوقاتِ نماز کے کیلنڈر وغیرہ کا استعمال اسلام میں جائز ہےجو کہ سورج کے حساب کتاب پر مبنی ہے، یعنی عبادات میں اوقات و ایام کے حساب کتاب کی اجازت ہے، اسی طرح قمری مہینوں کے آغاز کیلئے ہلال کی پیدائش اور نظر آنے کے امکان کا حساب کتاب لگانا اور اس بنیاد پر مہینے کا آغاز کرنا بھی درست ہے۔
آئیے ان نکات کو شرعی دلائل کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
بخاری ، مسلم اور نسائی بیان کرتے ہیں کہ ابو ہریرہؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
((صوموأ لرؤيته وأفطرأ لرؤيته فان غبى عليكم فاكملو عدة شعبان ثلاثين))
یعنی "تم لوگ اس (چاند کو)کے دیکھے جانے پر روزہ رکھو اور اس چاند کے دیکھے جانے پر روزے ختم کرو (عید) کرو اور اگر بادل چھاجائیں تو تیس دن پورے کرو"۔
اور بخاری اور مسلم ابو ہریرہؓ سے مزید روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((إذا رأيتموه فصومو و إذا رأيتموه فانظروا فان غم عليكم فاقدرو له))
یعنی "جب تم لوگ چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب اسے دیکھو تو افطار (عید) کرو اور اگر ابر چھا جائے تو تیس دن پورے کرو"۔
یہ دونوں احادیث اس معاملے پر بخوبی وضاحت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ان احادیث میں (صومو)کا حکم (رأيتموه) کی شرط کے ساتھ جڑا ہوا ہے، یعنی ماہِ رمضان کے آغاز/اختتام کا حکم اس وقت لاگو ہو گا جب ہلال کی رویت واقع ہوجائے۔ رویت کے علاوہ کسی دیگر عمل کے واقع ہونے کی صورت میں ماہِ رمضان کے آغاز/اختتام کا حکم لاگو نہ ہو گا، سوائے یہ کہ اس عمل کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود ہو جو اس امر پر دلالت کرے، یعنی رویت کے علاوہ کسی دوسرےعمل کےنتیجے میں ماہِ رمضان کے آغاز/اختتام کے حکم کے لاگو ہونے پر دلیل ہو۔امام مالک ، بخاری، مسلم اور نسائی بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ ابن عمرؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ماہِ رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا :
((لا تصوموا حتى ترو إ الهلال ولا تفطروإ حتى تروه فان غم عليكم فاقدرو له))
یعنی”تم لوگ روزہ نہ رکھو جب تک چا ند نہ دیکھ لو اور افطار (عید) نہ کرو جب تک اسے نہ دیکھ لو . اور اگر ابر چھا جائے تو تیس دن پورے کرو"۔
رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیثِ مبارکہ واضح طور پر ماہِ رمضان کے آغاز/اختتام کے حکم کے لاگو ہونے کی ممانعت کرتی ہے حتی کے ہلال کی رویت واقع ہو جائے۔ یہ دلائل اس امر پر واضح دلالت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو29 تاریخ کے بعد ماہِ رمضان کے آغاز/اختتام کیلئے ہلال کی رویت کو شرط قرار دیا اور رویت واقع نہ ہو سکنے کی صورت میں مہینے کے 30 دن پورے کرنے اور اس کے بعد اگلے مہینے کے آغاز کا حکم دیا۔نہ صرف یہ بلکہ رسول اللہ ﷺ نے ان احادیث میں رویت کے علاوہ کسی اور عمل کو قمری مہینوں کے آغاز کیلئے معیار بنانے سے واضح طور پر منع فرمایا۔
اسی مناسبت سے یہ فہم حاصل کرنا ضروری ہے کہ شریعت نے ہر حکم شرعی کے لاگو ہونے کیلئے ایک سبب متعین کیا ہے جس کے واقع ہونے کی صورت میں اس حکم شرعی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔یعنی سبب وہ وصف ہے جو سمعی دلیل کی بنیاد پر ہو جس کا موجود ہونا حکم شرعی کو لاگو کردے جیسے صلاۃ ِ مغرب کی ادائیگی کیلئے سورج کا غروب ہونا اس کا سبب ہےاور صلاۃِ ظہر کیلئے سورج کا زوال کر جانا اس کا سبب ہے۔ بیھقی نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا،«إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ فَصَلُّوا»”جب سورج کو زوال ہو جائے تو نماز ادا کرو”۔۔ اسی طرح اسلامی ریاستِ خلافت کی جانب سے اقدامی جہاد کیلئے دنیا میں کفر کی ریاست اور نظام کا موجود ہونا اقدامی جہاد کے حکم کا سبب ہے، اسی طرح حدیث کے الفاظ(صوموأ لرؤيته) سے یہ فہم حاصل ہوتا ہے کہ تمام قمری مہینوں بشمول ماہِ رمضان کے آغاز و اختتام کیلئے شریعت کی جانب سے قرار دیا گیا سبب ہلال کی رویت (یعنی آنکھ سے نظر آ جانا) ہی ہے۔چونکہ روزہ ایک عبادت ہے اس لیے اس کو اللہ سبحانہ وتعالی کی بھیجی گئی شریعت میں بتائے گئے طریقہ کار کے مطابق ہی ادا کرنا لازم ہے۔ جہاں تک نمازوں کے اوقات کا تعلق ہے ، جس کے ساتھ ہلال کی رویت کو جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو اللہ سبحانہ وتعالی نے دیگر عبادات کی طرح نمازوں کی ادائیگی کیلئے بھی سبب کا تعین کیا ہے جو سورج کے اوقات پر مبنی ہے۔یہاں سے نمازوں اور روزوں کی ادائیگی کیلئے شریعت کے طرف سے بتائے گئے سبب میں فرق واضح جو جاتا ہے، یعنی نمازوں کیلئے شریعت نے سورج کے اوقات کو سبب قرار دیا ہے جبکہ قمری مہینوں کے آغاز و اختتام کیلئے شریعت نے ہلال کی رویت کو سبب قرار دیا ہے۔
یہاں یہ فرق بھی ملحوظِ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے کہ شریعت نے نمازوں کے سبب کا تعین کرتے وقت مسلمانوں کو اس امر کا پابند نہیں کیا کہ سورج کے اوقات کا علم کیسے حاصل کیا جائے، لہٰذا سورج کے اوقات معلوم کرنے کیلئے سورج کے سائے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، گھڑی کا استعمال کیا جاسکتا ہے،سورج کا براہ راست مشاہدہ کیا جا سکتا ہے یا کسی اور طریقہ کار کا بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے کیونکہ شرعی پابندی سورج کے مخصوص وقت (شرعی سبب) کے واقع ہونے کی ہے نہ کہ اس ذریعے کی جو شرعی سبب( یعنی نماز کےوقت) کے واقع ہوجانے کی معلومات فراہم کردے۔اس کے برعکس قمری مہینے کے آغاز، یعنی ہلال کی رویت کیلئے متعین کردہ سبب یہ ہے کہ ہلال کو براہِ راست آنکھ سے دیکھا جائے، یعنی براہِ راست آنکھ سے ہلال کا مشاہدہ کر لینا ہی ہے جو کہ قمری مہینوں کے آغاز کیلئے مقرر سبب ہے۔ اس میں شریعت نے مسلمانوں کو اس امر کا پابند نہیں کیا کہ رویت کیسے کی جائے۔لہٰذا رویت کرنے کیلئے زمین پر کھڑا ہوا جائے، یا پہاڑ پر چڑھ کر ہلال کو دیکھا جائے یا کسی اونچی عمارت کی چھت سے یہ مشاہدہ کیا جائے، فرداً فرداً دیکھا جائے یا ایک ساتھ پورا جمِ غفیر ہلال کا مشاہدہ کرے،لیکن اگر ہلال کی رویت کی بجائے کوئی دوسرا عمل کیا جائے جیسے علمِ فلکیات کو استعمال کرتے ہوئے حساب کتاب کے ذریعے ہلال کی موجودگی معلوم کرنا تو یہ عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہلال کی رویت نہیں ہے نہ ہی لفظ رویت کا اس پر اطلاق ہوتا ہے۔ چونکہ یہاں رویت کے حقیقی معنی مراد لینا ممکن ہے لہذا لفظ رویت کے کوئی مجازی معنی لینا بھی درست نہیں۔ چونکہ ان دونوں شرعی احکامات (نماز کا شرعی سبب اور قمری مہینے کا شرعی سبب) میں واضح فرق ہے اس لیے ہلال کی پیدائش کے حساب کتاب کو سورج کے اوقات کے حساب کتاب پر قیاس کرنا درست نہیں، کیونکہ قمری مہینوں کے آغاز کا شرعی سبب ہلال کا آنکھ سے نظر آجانا ہے نہ کہ اس کی پیدائش یا موجودگی کا معلوم ہو جانا۔
امام بخاری نے کتاب الصوم میں باب باندھا ہے لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ یعنی” ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں "اور عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
((إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي مَرَّةً تِسْعَةً وَعِشْرِينَ، وَمَرَّةً ثَلاَثِينَ))
یعنی "ہم ایک بے پڑھی لکھی قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں نہ حساب کرنا ۔ مہینہ یوں ہے اور یوں ہے ۔ آپ کی مراد ایک مرتبہ انتیس ( دنوں سے ) تھی اور ایک مرتبہ تیس سے ۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسوں انگلیوں سے تین با ربتلایا )”۔
یہاں لفظ اُمی سے یہ مراد نہیں ہے کہ مسلمان ان پڑھ تھے اس معنی میں کہ وہ حساب کتاب کرنا نہ جانتے تھے. کیونکہ مسلمانوں کو تو اس وقت بھی زکوٰۃ ، عشر اور میراث وغیرہ کا حکم تھا جو بغیر حساب کتاب کیے ممکن نہ تھا۔بلکہ اس مسئلہ میں اُمی کہنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگر29کو رؤیت نہ بھی ہو تو 30کا مہینہ پورا کر لیا جائے بجائے اس کے کہ اس عمل کو حساب کتاب کی پیچیدگیوں میں الجھا کر یہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے کہ چاند کو مطلع پر موجود ہونا بھی چاہیے یا نہیں۔ پس رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ (إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ) دراصل بلاغت کا انداز ہے اس بات کو زور دینے کے لیے کہ مہینے کے آغاز کے تعین کے لیے حساب نہ لگاؤ۔ لہٰذا جس معاملہ میں حساب کتاب میں نہ پڑنے کا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ خاص رؤیت ہلال کا مسئلہ ہے۔ یوں جہاں ایک طرف قمری مہینہ کا آغاز کرنے کے لیے ہلال کی رؤیت کرنے کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے تو وہاں اس معاملہ میں حساب کتاب کرنے سے منع بھی کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ماہِ رمضان کے آغاز و اختتام سے متعلق دلائل اس معاملے میں واضح ہیں کہ ماہِ رمضان کے آغاز و اختتام کا شرعی سبب ہلال کی رویت یعنی ہلال کا آنکھ سے نظر آ جانا ہے، اس کی پیدائش اور عمر کی معلومات ہونا نہیں۔یہ معاملہ شرعی طور پر نمازکے شرعی سبب سے قدرے مختلف ہے جہاں نماز کا سبب سورج کی ایک مخصوص وقت یا حالت ہے نہ کہ سورج یا اس کے سائے کو آنکھ سے دیکھنا۔لہٰذا اگرچہ علمِ فلکیات کی بدولت آج انسان نے کائنات کے کئی راز افشا کر لیے ہیں اور فلکیات کا حساب کتاب ایک قابلِ بھروسہ نتیجہ دیتا ہے لیکن یہ کسی بھی طرح شرعی احکامات میں ردوبدل کا موجب نہیں ہو سکتا۔ روزہ ایک عبادت ہے جس کی تمام تفصیلات بشمول اس کے آغاز و اختتام کے سبب کے، ہمیں اللہ سبحانہ وتعالی کی وحی سے ہی ملتی ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی کے نزدیک مقبول عبادات وہی ہیں جو اپنی تمام تر تفصیلات سمیت اللہ کے اوامر و نواہی کے مطابق انجام پاتی ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے احکامات کے مطابق اپنی عبادات کرنے کی توفیق دے اور ہمارے لیے اپنے دین کے فہم کو تمام تر غیر اسلامی ملاوٹوں سے پاک رکھے۔آمین۔