جب پاکستان چین و امریکہ کے استعمار سے منہ موڑ کر، اسلام کے ہمہ گیر نفاذ کے ذریعے، خودانحصاری کی راہ پر گامزن ہو جائے
بسم الله الرحمن الرحيم
عثمان عادل – پاکستان
امریکہ اور چین کی مخاصمت اس وقت عالمی بساط پر سب سے نمایاں مسئلہ ہے۔ چین کہ جس کا شمار پچھلی صدی کی 80 کی دہائی تک ایسی ریاستوں میں نہیں ہوتا تھا جو کہ عالمی بساط کو ترتیب دینے میں اثر ورسوخ کی حامل ہوں ، اب دنیا کی بڑی طاقتوں میں اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ ایک ایسی طاقت جو موجودہ دور کی سپر پاور امریکہ کی پالیسیوں کوکسی حد تک متاثر کر رہی ہے۔ چین کے متعلق پیشن گوئی کی جارہی ہے کہ وہ 2028 تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا ۔ وہ افریقہ سے لے کر لاطینی امریکہ تک اور آسٹریلیا سے لے کر یورپ تک اپنا معاشی جال بچھا چکا ہے۔ حال ہی میں چین نے آسیان ممالک سمیت ایشیاء کے 15 ممالک کے ساتھ Regional Comprehensive Economic Partnershipکا تجارتی معاہدہ کیا جس کا حجم یورپی یونین سے اور امریکہ کے لاطینی امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ معاہدے سے بڑا ہے ۔ چین 5G ٹیکنالوجی کی دوڑ میں امریکہ کو چیلنج دے رہا ہے اور اپنے پانیوں میں فوجی موجودگی کو مضبوط بنا رہا ہے۔
یہ صورتِ حال عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کے رہنے والے مسلمانوں کو غور کرنے کی دعوت دیتی ہے ، جس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں اور جو اس عظیم اسلامی بیداری کا اہم میدان ہے جو مشرق میں انڈونیشیا سے لے کر افریقہ تک عالمِ اسلام میں نمایاں ہو چکی ہے ۔
جہاں تک خطے کی موجودہ سیاسی ترتیب کا تعلق ہے تو امریکہ بھارت میں اپنا اثر رسوخ بڑھا رہا ہے اور وہ چین کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے بھارت کواستعمال کرنا چاہتاہے۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت ایشیاء کے ان ممالک میں اپنا اثرورسوخ قائم کرے جنہیں چین اپنے قریب کرنا چاہتا ہے اور چین کے پانیوں میں بھارت اپنی موجودگی میں اضافہ کرے اور چین کے علاقائی عزائم کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ امریکہ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت کے ذریعے کشمیر سے پاکستان کی دستبرداری کو ممکن بنا کر بھارت کے اہم عسکری سردرد کو کسی حد تک ختم کر چکا ہے۔ بھارت کی طرف سےکشمیر کو ہڑپ کرنے کاجارحانہ جواب نہ دے کر پاکستان بھارت کو خطے میں ابھرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے ،جو فی الوقت کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت بھارت اور پاکستان کے مابین کسی بڑی جنگ کو ہونے سے روکنا امریکہ کے سٹریٹیجک مفاد میں ہے، تاکہ بھارت کی توجہ چین پر مرکوز رہےاور بھارت کی معیشت کو جنگ کے نتیجے میں کوئی جھٹکا نہ لگے۔ اس سلسلے میں چین کی پاکستان کے ساتھ سرگرمیاں اور اپنے معاشی و علاقائی فائدے کے لیے پاک بھارت جنگ کے امکان کو روکنے میں مدد فراہم کرناامریکہ کے فائدے میں ہے۔ پس ایسا نہیں کہ امریکہ خطے سے چین کو مکمل طور پر باہر کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ بہر حال یہ چاہتا ہے کہ چین خطے میں ایک سٹیک ہولڈر رہے تاہم اس کا یہ سٹیک امریکہ کی خطے کے متعلق پالیسی سے براہِ راست متصادم نہ ہو،اور چین کی یہ مداخلت اس کی طے کردہ لائنز اور حدود و قیود کے اندر رہے، جیسا کہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین افغانستان میں جاری مذاکرات کو مثبت نظر سے دیکھے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سیاسی سیٹ اَپ کو قبول کرے، کیونکہ افغانستان میں عسکریت پسندی کا ماحول بذاتِ خود افغانستان سے ملحقہ چین کے مسلم علاقوں کے داخلی امن کے لیے مسئلہ ہے۔
امریکہ کے لیے اہم ہے کہ پاکستان بدستور سیاسی سیٹ اَپ ،اسلحہ ، وَار کورسزاور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے امریکہ پر منحصر رہے اور اس کی معیشت کا دارومدار بدستورامریکہ اورآئی ایم ایف جیسے اس کے تشکیل کردہ عالمی اداروں ہی پر رہے اور پاکستان کی اشرافیہ اور ان کی اولادیں امریکہ اور یورپی تہذیب سے وابستہ رہیں ۔ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں عسکری اور معاشی لحاظ سے کمزور رکھنا امریکہ کا مفاد ہے۔ اور پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے کوئی ایسا اقدام دکھائی نہیں دیتا کہ جس سے اس امریکی منصوبے کی خلاف ورزی نظر آتی ہو۔ پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اس صورتِ حال کو تبدیل نہیں کرے گی۔ سی پیک کا پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت نہ ہونا امریکہ کے حساب کتاب کے مطابق ہے۔ ایک ایسا ملک جو سیاسی ، عسکری اور سٹریٹیجک و خارجہ پالیسی کے لحاظ سے امریکہ کے کنٹرول میں ہو اور اس میں سے اس کے حریف ملک چین کی سپلائی لائن گزر رہی ہو۔ یہ اس سپلائی لائن کو vulnerable بناتا ہے۔ یہ چین کے حق میں اسی وقت فائدہ مند ہو سکتا ہے جب چین اپنے اثرورسوخ کے لحاظ سےامریکہ کی جگہ لے لے یااس کے لیے سنجیدہ کوشش کرے، جس کے آثار اس وقت موجود نہیں ہیں۔
اس تمام تر عالمی صورتِ حال میں پاکستان کے حکمرانوں کا طرزِ عمل کیا ہے۔ کیا وہ ایسی کوئی پالیسی رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان کوافغانستان میں شکست خوردہ اور داخلی طور پر منقسم امریکہ کے تسلط سےنجات دلا کراور دوسری طرف لالچی چینی استعمارسے بچا کر خودمختاری کے راستے پر ڈال سکیں اور بیرونی طاقتوں کی کاسہ لیسی کا خاتمہ کرکے خود ایک طاقت بن کر ابھریں؟ پاکستان کی خارجہ پالیسی، اگر یہ تصور بھی کر لیا جائے کہ پاکستان کی کوئی مستقل خارجہ پالیسی موجود ہے، ہمیشہ انتہائی محدود ویژن کی حامل رہی ہے۔ جس کا اہم فوکس بھارت کے مقابلے میں اپنے لیے کسی مضبوط ملک کی مدد اورحمایت حاصل کرنا اور خطے میں استعماری طاقتوں کے مفاد کو پورا کر کے اپنے لیے کچھ نرمی اور فوائد حاصل کرنا ہے۔ چین اگرچہ خطے کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے مگر وہ امریکہ کے برخلاف ،پاکستان اوربھارت کے درمیان کسی بحرانی صورتِ حال میں بھارت پر اثرانداز ہو کر پاکستان کے لیے رعایت مہیا نہیں کر سکتا۔ چین جو خود بھی امریکہ کے قائم کردہ ورلڈ آرڈر سے مفاد کی بنیاد پر مضبوطی سے منسلک ہو چکا ہے، اور افریقہ اور دیگر ممالک کے وسائل کا استحصال کر رہا ہے پاکستان کو مغربی کمپنیوں اور مغرب کے عالمی مالیاتی اداروں کے استحصال سے آزاد نہیں کر سکتا۔ سی پیک کا منصوبہ اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے میں ناکام نظر آتاہے۔ پاکستان کے قومی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے اوراپنے علاقائی مفاد مدِ نظر رکھتے ہوئے چین نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف ایف اے ٹی ایف کا شکنجہ کسنے کی مخالفت نہیں کی۔ اس حقیقتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کے حکمران پاک – چین دوستی کے عوامی دعوؤں کے باوجود اس امریکہ کی خوشنودی میں لگے رہتے ہیں جو امریکہ نواز نریندر مودی کے ذریعے بھارت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگرچہ کشمیر کے اہم ترین مسئلے پر امریکہ نے اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالا اور پاکستان کے قومی مفاد کو یکسر نظر انداز کر دیا ۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان مشرق یا مغرب کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنی اس اسلامی ، عسکری اور جغرافیائی صلاحیت کو بروئے کار لائے جسے کوتاہ بین حکمرانوں کی وجہ سے دہائیوں سے پاکستان کے مسلمانوں کے فائدہ کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ اگرامریکہ پاکستان کی اس صلاحیت کو استعمال کرکے افغانستان میں روس کو شکست دے سکتا ہے اور پھر اسی صلاحیت کے ذریعے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان میں اپنی مرضی کی ڈیل حاصل کر سکتا ہے تو آخر کیوں یہ صلاحیت خطے کے مسلمانوں اور اسلام کے مفادکے لیے بروئے کار نہیں لائی جا سکتی۔ یقیناً مجاہدین کو ایک قابض طاقت کے ساتھ سمجھوتے پر آمادہ کرنے سے یہ بات آسان ہے کہ انہیں اسلام تلے پاکستان اور افغانستان کی ہر تفریق سے پاک وحدت اور اسلام کی علاقائی اور پھر عالمی سربلندی کے ‘گریٹ پلان ‘ پر آمادہ کیا جائے۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں امریکہ کو مدد فراہم کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان کا پھیلا ہوا اثرو رسوخ ، پاکستان میں خلافت کے قیام کے نتیجے میں افغانستان اور وسط ایشیاء کو نئی سیاسی اور جغرافیائی تشکیل دے سکتا ہے اور دنیا میں طاقت کے ایک نئے مرکز کو جنم دے سکتا ہے جو تمام عالم اسلام کو اپنے اندر سموتے ہوئے عالمی منظر نامے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو امریکی اور چینی استعمار دونوں کو یکسر مسترد کرنے کی پالیسی اختیار کرنی ہو گی اور استعماری طاقتوں کی غلامی پر مبنی اپنے ماضی سے رشتہ توڑنا ہو گا اور ریاست کو اسلامی کی آئیڈیالوجی پر استوار کر کے اسلام کے حق میں عالم اسلام میں بیداری کی اٹھی ہوئی لہر اور علاقے کی سٹریٹیجک صورتِ حال کو درست وقت پر استعمال کرنا ہوگا۔ ایک پُرمغر سیاسی قیادت جو بین الاقوامی صورتِ حال سے آگاہی رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی آئیڈیالوجی کی بے پناہ طاقت سے آگاہی رکھتی ہو یہ کام سرانجام دے سکتی ہے۔