افضل قمر – پاکستان
بسم الله الرحمن الرحيم
جب ہم دنیا پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں کئی طاقتور اتحاد ایک دوسرے کے مدمخالف نظر آتے ہیں اورسوچ پیدا ہوتی ہے کہ اگر خلافت ہوتی تو طاقت کی اس کشمکش میں کیا فرق پڑتا۔ سب سے پہلے تو اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کو اس بحث سے باہر رکھنا ہو گا کیونکہ وہ تو اس کشمکش کا حصہ ہی نہیں۔ او آئی سی نے خود کو سعودی خارجہ پالیسی کے آلہ کار کی حیثیت تک محدود کردیا ہے اور چونکہ خود سعودی عرب نے اپنے آپ کو امریکہ کے ماتحت رکھا ہوا ہے ، لہٰذا او آئی سی محض امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کی ہی ایک شکل ہے۔
اگر کوئی سیموئل پی ہنٹنگٹن کے ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے نظریے پر دوبارہ نگاہ ڈالے تواسے ایک خلا ءنظر آئےگا۔ اس کے مطابق مغرب کو غلبہ حاصل کرنا تھا لیکن اسے نظر آیا کہ مغرب کو کنفیوشش کی اور اسلامی تہذیبوں سے مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ تاہم ، حقیقت میں آج ایک غالب مغربی ریاست یعنی امریکہ اور اس کےمد مقابل ایک معروف کنفیوشین ریاست یعنی چین موجود ہے، جبکہ اس کے مقابل کوئی اسلامی ریاست موجود نہیں جو امریکہ سے ٹکر لے سکے یا کم از کم اتنا مقابلہ کر سکے جتنا چین کر رہا ہے۔ ہنٹنگٹن کے تجزیے کو سختی سے چیلنج کیا گیا اور یہ یقیناً غلطی سے پاک نہیں ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ریاستِ خلافت کی موجودگی اس بات کو بھی سچ ثابت کر دیتی کہ آج کوئی بھی ریاست اسلامی تہذیب کی نمائندگی نہیں کرتی ۔ ریاست خلافت کو اس غرض سے معرض وجود میں نہیں آنا چاہئے کہ اس نے مقابلہ کرنا ہے لیکن ایک بار اس کے وجود میں آجانے کے بعد ، اگر اس نے خود اپنی سلامتی اور اسلامی نظاموں کے نفاذ کے بنیادی معیار پر پورا اترنے کی ٹھان لی تو اس کا مقابلہ لازمی ہو گا۔
خلافت کی طرف سے سرمایہ داریت پر مبنی نظام کو مسترد کرنے سے پیدا ہونے والی ہلچل کے علاوہ، ریاستِ خلافت کا مطلوبہ مقصد دعوت اور جہاد ہے۔ یہ خصوصاً ان نام نہاد امن کی خواہاں عالمی ریاستوں کے لیے پریشان کن ہوگا جو صرف اپنے مفادات کیلئے ہی امن چاہتی ہیں کیونکہ ریاستِ خلافت دوسری ریاستوں میں عدم مداخلت کے اصول کو مسترد کردے گی۔ یہ موجودہ عالمی ریاستوں کی طرز پر منافق نہیں ہوگی جو اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کی خاطر مداخلت کرتے ہوئے عدم مداخلت کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ریاستِ خلافت باقی دنیا کے لیے سمجھنے میں آسان ہوگی کیونکہ دیگر ریاستوں کے بارے میں اس کی پالیسیاں واضح ہوں گی۔وہ مسلم ریاستیں ، جن پر ماضی میں کسی بھی دور میں اسلام نافذ رہا، انہیں واپس خلافت کا حصہ بنانا ہو گا۔ غیر مسلم ریاستیں، جیسے سامراجی ریاستیں مثلاً امریکہ ، برطانیہ یا فرانس، کو کافر حربی سمجھا جائے گا۔ اگرچہ حقیقی لڑائی کا تعین خلیفہ بطورامیرِجہاد کی جانب سے ہوگا، لیکن ان کے ساتھ امن(جنگ بندی) صرف دو چیزوں پر منحصر ہو گا: ان کے ساتھ معاہدے کا موجود ہونا اور ان کی سرحدوں کے اندر اور باہر مسلمانوں کے ساتھ ان کا سلوک۔ یہ پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ او آئی سی کی 56 مسلم ریاستوں کی بنسبت ریاستِ خلافت پریشانیوں سے نمٹنے میں کہیں زیادہ کارگر ہوگی۔ ریاستِ خلافت کے قیام کے بعد سب سے پہلے اسے ان مسلم ریاستوں سے نمٹنا ہو گا جو اس کی اطاعت نہیں کرتیں۔ وہ مسلم ریاستیں جو خلافت کو قبول نہ کریں اور جو اسلامی نظام کو نافذ کرنے سےبھی گریز کریں، وہ باغی تصور کی جائیں گی اور ان سے لڑائی جاری رکھی جائے گی یہاں تک کہ اطاعت قبول کر لیں ۔جب وہ اطاعت قبول کر لیں تو ان سے سلوک اس کے برعکس ہو گا جو حربی کفار کے ساتھ ہوتا ہے جہاں جنگ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک مسلمان اپنا نظام بھی نافذ نہ کر لیں۔
خلافت کے خاتمے کے وقت مسلمانوں کا مسئلہ استعمار تھا۔ خلافت سے باہر مسلمانوں کی تین بڑی آبادیاں تھیں، جن میں ہندوستان (جہاں مسلمان اقلیت میں آباد تھے)، انڈونیشیا اور وسطی ایشیاء شامل ہیں، یہ تینوں بالترتیب برطانوی، ڈچ اور روسی کالونیاں تھیں۔ خلافت نے بلقان میں کافی حد تک علاقہ گنوا دیا تھا لیکن اصل بندر بانٹ سائکس پائیکاٹ معاہدے کے تحت ہوئی جب برطانیہ اور فرانس نے عرب علاقوں کو آپس میں تقسیم کرنے پر اتفاق کیا،اور بالاخر پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت کے خاتمے پر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا۔ ترکی کی پہلی جنگِ عظیم میں شکست نے مسلمانوں کے لیے دو مشکلات پیدا کردیں، پہلی مشکل خلافت کا خاتمہ تھا اور پھر سائکس پائیکاٹ معاہدہ ہوا جس کے تحت باقی مشکلات کے ساتھ ساتھ فلسطین کو برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا جو ولایہ شام کا حصہ تھا، یعنی اس صوبے کا واحد حصہ جو فرانس کے حوالے نہیں کیا گیا، جس کا مقصد یہودیوں کے لیے ریاست قائم کرنا تھا۔ آخری طاقتور عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید دوئم نے صیہونیوں کو فلسطین میں کوئی بھی زمین دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس کے برعکس انگریزوں نے اس کو ممکن بنانے کے لیے کام کیا اور خلافت کے خاتمےکے بعداس منصوبے کو عملی جامہ پہنا یا۔
جب برطانیہ نے 1948 میں فلسطین چھوڑا اور جس کے نتیجے میں نكبہ کا واقعہ ہوا جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایک بہت بڑا انسانی المیہ تھا، برطانیہ نے اس سے پہلے 1947 میں ہندوستان کو آزادی دی جس میں سے پاکستان وجود میں آیا (جس میں سے 1971 میں بنگلہ دیش بنایا گیا) جو ایک مسلم ریاست تھی۔ اس کے بعد مسلم ریاستوں میں نام نہاد آزادیوں کا کام تیزی سے آگے بڑھا اور نہ صرف عرب علاقے بلکہ سہارا کے افریقی ممالک بھی ایک ایک کرکے آزاد کیے گئے۔ کثیر تعداد میں موجود ان نام نہاد آزاد اور نومولود مسلم ریاستوں کو 1969 میں "او آئی سی” کی تشکیل کے ذریعے منظم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ "او آئی سی” کی تشکیل دو بڑے واقعات کے بعد سامنے لائی گئی: 1967 میں چھ روزہ جنگ، جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ یہودیوں کے قبضے میں چلی گئی، اور پھر مسجد اقصیٰ میں آگ لگنے کا واقعہ، جس کی وجہ سے تمام مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ تمام مسلم حکومتیں، چاہے بادشاہت ہو یا آمریت، امریکہ یا روس کے تابع تھیں اور انہیں دباؤ کے نتیجے میں کچھ کر دکھانے کی ضرورت تھی ۔ تاہم ، مسلمانوں کے لیے پریشانیوں کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔ خلافت کے انہدام کے بعد فلسطین اور کشمیر کے اصل مسائل حل نہ ہوسکے ،بلکہ ان میں اضافہ ہوا اور شمالی قبرص، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے مسائل بھی ان میں شامل ہو گئے، جب کہ روہنگیا اور ایغور دونوں ہی جبر کے ایک نئے دور کا سامنا کررہے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو جبر کے ایک نئے دور کا سامنا ہے۔
موجودہ نظام کے مسلمانوں کے جذبات سے مطابقت نہ رکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ نئی تشکیل کردہ مسلم ریاستوں نے اپنے مفادات کی پیروی کرنا شروع کردی۔ ان ریاستوں کو کنٹرول کرنے والے حکمرانوں کے بہت سے مفادات باہم ٹکراتے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال سعودی عرب ہے، جس نے ایک بھارتی آئل ریفائنری میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں سعودی عرب میں ایک طبقہ بھارت کے ساتھ اچھے بلکہ بہترین تعلقات قائم رکھنے کا خواہاں ہے۔ سعودی حکومت کیلئے اس طبقے کو ایک اور طبقے کے ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے جو چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کشمیر کے لوگوں سے ناروا سلوک پر بھارت کو چیلنج کرے ۔ اس طرح، تمام مسلم حکومتوں کو اپنی رعایا کےدباؤ کی وجہ سے کسی ایک پالیسی کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں خلافت کسی بھی دوسری ریاست کی طرح کام کرے گی۔حکومت کی پالیسی اس بنیاد پر ہو گی کہ خلیفہ امت کے حقیقی احساسات کی عکاسی کرے جو گہرائی سے اسلام میں پیوست ہیں اور ریاست بھر میں ایک ہی خلیفہ کے احکامات پر عمل درآمد ہوگا۔ خلافت اس وقت کی موجودہ مسلم ریاستوں سے،جہاں مسلمانوں کیلئے مسائل جنم لیتے ہیں، کہیں زیادہ طاقتور ہوگی اور خلیفہ کوئی ہچکچاہٹ محسوس کیے بغیر مسلمانوں کی مشکلات کو فوراً حل کرے گا اور اس طرح امت کے اندر اپنا مقام پیدا کر لے گا۔
امت کے امور سے متعلق معاملات میں خلیفہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بیعت (انتخاب) کے ذریعے منتخب تو ہوتا ہے لیکن اسے ریٹائرمنٹ (یعنی محدود مدت)کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ چونکہ خلیفہ کی معیاد اس کی زندگی تک محدود ہے ،جس کے اختتام سے وہ بھی اتنا ہی لاعلم ہے جتنا کوئی اور شخص، لہٰذا اسے وہ اعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جو اسے دوبارہ منتخب کروا سکیں۔ اس طرح غیر ملکی طاقتیں اس کو دوبارہ انتخابات میں مدد کی پیش کش نہیں کریں گی کیونکہ اسے کسی انتخابات کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گا، اسے خلیفہ رہنے کے لیے کسی قسم کے دکھاوے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ اسے بیرون ملک سے تنقید کا اندیشہ ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کی حکومت پر انسانی حقوق کے بارے میں تنقید کی جائے جس کی کوئی بنیاد نہیں تو وہ اسے نظرانداز کردے گا۔ اسے کسی بھی غیر ملکی ایجنڈے پر عمل کرنے کی ترغیب نہیں دی جا سکتی، اسی وجہ سے، امت آجکل کے حکمرانوں کے مقابلے میں ریاستِ خلافت کے حکمرانوں تلے سکون محسوس کرے گی۔ خلیفہ کو درپیش ایک بڑا پوشیدہ مسئلہ بیرون ممالک میں رہائش پذیر مسلمان ہوں گے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ خلافت کی بحالی کے بعد اس کی طرف لوٹ آئیں لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ وہیں قیام کرنے کو اختیار کریں۔ خلیفہ کا ان کے ملک کے ساتھ رویہ اس بنیاد پر ہوگا کہ آیا وہاں مسلمانوں کو شریعت کی پیروی میں مشکلات تو نہیں۔ اس تعلق میں ریاستِ خلافت میں موجود ان مسلمانوں کے رشتہ دار خلیفہ پر دباؤ بھی ڈال سکتے ہیں اور اس کا امکان بھی ہے کہ باہر بیٹھے لوگ اپنی حکومت کی چالوں کی بناءپر دباؤ پیدا کریں۔ اسی وقت ان اجنبی ممالک کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا جو اس لیے ان پر پڑے گا تاکہ وہ وہاں مقیم مسلمانوں کو شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیں۔
ریاستِ خلافت کے شہریوں کو ایسا سربراہِ حکومت ملے گا جو خود بھی شریعت کا پابند ہو نہ کہ کوئی آمر جو جب چاہے اپنی مرضی کا قانون بنائے، جس سے ان شہریوں کے حالات میں قدرے بہتری نظر آئے گی۔ محکمہ ٔمظالم شہریوں کے لیے چشم کشا ثابت ہو گا جو خلافت میں آج کی رسمی بیوروکریٹک ریاستوں کے مقابلے میں کافی حد تک بہتری لائے گا۔ یہاں تک کہ مغرب کو بھی فائدہ ہو گا یا کم از کم عام آدمی کو ہی انصاف ہوتا نظر آئے گا۔ حکومتوں کو حکمران پر زیادہ اختیار نہ ہونے پر اعتراض ہوسکتا ہے لیکن عام آدمی شاید تمام معاملات پر مرکزی قیادت کا خیرمقدم کرے گا۔ مثلاً، ہم عسکریت پسند گروہوں کا معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کے طرزِ عمل کا خاتمہ دیکھیں گے کیونکہ خلیفہ جہاد کا امیر ہو گا اور اس طرح وہی وہ واحد شخص ہے جوجو جہاد کا اعلان کرسکتا ہے جبکہ موجودہ حالات میں افراد یا گروہ جہاد کا اعلان کر دیتے ہیں، اور یہ خلیفہ کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس سے اسلامی علاقوں میں عسکریت پسندی کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجائے گا۔ فی الحال ، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلامی سرزمین پرعسکریت پسندی کے لیے زیادہ تر حمایت اس لیے موجود ہے کیونکہ ابھی کوئی خلیفہ موجود نہیں جو جہاد کا اعلان کرے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خلیفہ محض اس بات کا تعین نہیں کرتا ہے کہ کِن لوگوں سے مقابلہ ہونا ضروری ہے بلکہ وہ اس کیلئے وقت کا تعین بھی کرتا ہے۔ وہ اسلامی عسکریت پسندوں سے اس بات پر اتفاق کرسکتا ہے کہ امریکیوں ، یا فرانسیسیوں یا مشرقی تیموریوں کے خلاف لڑائی کرنی ہے لیکن اگر وہ یہ طے کرتا ہے کہ یہ وقت مناسب نہیں تو وہ خود اپنا فیصلہ مسلط نہیں کرسکتے۔ مزید یہ کہ ریاست کے زیر اہتمام منظم جہاد کےذریعے نتائج برآمد ہونے کا زیادہ امکان ہے جو مسلم دنیا کے بیشتر عسکریت پسند گروہوں نے حاصل کرنا چاہا لیکن زیادہ تر اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
یہ خلافت کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو حاصل ہونے والے مختلف انواع کے فوائد ہی ہیں کہ اس کے خاتمے کے لیے یوروپی طاقتوں نے بہت محنت کی۔ نبوت کے طریقہ کار پر خلافت کی بحالی ایک فرض ہونے کے ساتھ ساتھ وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعہ مسلمان اپنے ضروری اور انتہائی اہم مقاصد کو پورا کرسکتے ہیں۔