(الواعی میگزین شمارہ401-400 سے ترجمہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت معاذ بن رفاعہ بن رافع الزرقی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں جو اصحابِ بدر میں سے تھے: «جاء جبرئیل الی النبی فقال: معا تعدون اھل بدر فیکم؟ قال: من افضل المسلمین او کلمة نحوھا۔ قال: وکذلک من شھد بدرا من الملائکة» ” حضرت جبرائیلؑ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اہل ِ بدر کو آپ اپنے یہاں کیسا سمجھتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا، ” وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں ”۔یا آپﷺ نے اس طرح کےکوئی اور الفاظ ارشادفرمائے ۔ جبرائیلؑ نے عرض کی :اسی طرح کا مقام ہے فرشتوں میں ان فرشتوں کا جنہوں نے جنگ ِ بدر میں شرکت کی۔(صحیح بخاری)
غزوہ ٔ بدر 17 رمضان 2ہجری میں واقعہ ہوا، اس کے نتائج کفار پر بجلی بن کر نازل ہوئے اور زلزلے کی طرح بر پا ہوئے ،جس کی وجہ سے حق و باطل کے درمیان فکری اور مادی جد وجہد کےرخ پر سب سے بڑا اثر پڑا ۔ اسلام کے آغاز کے15 سالوں بعدمدینہ منورہ میں مسلمانوں کی طاقت بڑھ گئی اور اسلام کی آواز بلند ہو گئی اوران کے دین کے باعث اور ان کی جانوں کی قربانی کی بدولت ان کے وزن اور رعب و دبدبے میں اضافہ ہوگیا ۔ اس سے پہلے کفار نے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو دبا رکھا تھا ۔ لیکن اب قریش کا دبدبہ ٹوٹ گیا ، قریش اور اس کے اتحادی مسلمانوں کے لشکر کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو گئے۔ یہ لشکر ابو سفیان کے قافلے کو روکنے کے لیے نکلاتھا جو شام سے آرہا تھا، نہ کہ کسی باقاعدہ حربی سے جنگ کیلئے ۔ مگر اللہ کا ارادہ ظاہر ہوا جو چاہتا تھا کہ قریش کے ظلم و فساد کو روکے ،اور مسلمانوں اور قریش کے درمیان ایک حقیقی معرکہ اورباقاعدہ فوجی تصادم وقوع پذیر ہو، باوجود اس کے کہ دونوں فریقوں میں تعداد کے اعتبار سے بہت فرق تھا۔ ہم اس لشکر کی صفات پر روشنی ڈالیں گے جس کی اللہ تعالیٰ نے مددکی اور یہاں ان اسباب کا بھی ذکر کریں گے جس کی وجہ سے مسلمان غزوہ ٔ بد ر میں مدد کے مستحق ہوئے۔ ان میں سے دو حقائق کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
اوّل: بیشک مدد اللہ کا احسان ہے اور وہ احسان کرتا ہے اپنے بندوں پر اپنی مدد کے ذریعے کہ جو اس کے مستحق ہوتے ہیں۔ اور مدد صرف اللہ ہی طرف سے ہو سکتی ہے ،مسلمانوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو، اگر اللہ کی مدد ساتھ نہ ہو تو یہ تعداد ان کے کام نہیں آسکتی۔ اللہ فرماتا ہے:
﴿وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾
”ہم نے اسے نہیں بنایا مگر ایک خوشخبری تاکہ تمھارے دل مطمئن ہو جائیں اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے بیشک اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے”(سورۃالانفال-10)
لہذا مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس حقیقت پر ایمان لے کر آئیں کہ حقیقی مدد صرف اور صرف اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتی ہے اور یہ حقیقت ان عقائد میں سے ہے جن پر ایمان لانا فرض ہے اور مسلمان جو تیاری کرتے ہیں اور منصوبہ بندی کرتے تو وہ لازمی امر ہے مگر یہ ایک مختلف تشریعی معاملہ ہے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں پر فر ض کیا ہے کہ وہ انسان ہونے کے ناطے اپنی استطاعت کے مطابق مدد کے اسباب کواختیار کریں ۔
مگر فتح کیلئے اسباب پر اعتما د اور انحصار کرنا درست نہیں ، اللہ فرماتا ہے :
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾
”اے ایمان والو! اللہ(کے دین ) کی مدد کرو ، وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمہارےقدم جما دے گا”(سورۃمحمد-7)
تو مدد صرف اور صرف اللہ ہی کی ہے اور یہ حقائق میں سے ہے، اور مسلمانوں کا نصر(مدد)کے اسباب کو اختیار کرنا حقیقت میں اللہ کی اطاعت کرناہے اور ان اسباب کو اختیار کرنا شرط ہے کہ اس کے بغیر نصر حاصل نہیں ہو سکتی ،البتہ اسباب کے ہونے سے فتح کا ہونا لازم نہیں ہے ۔
دوم : وہ مدد جو اللہ سبحانہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں نازل کی وہ صرف اہل ِ بدر کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو سنت ہے، ایسی سنت جو نہ تبدیل ہوتی ہے اور نہ متغیر ہوتی ہے ۔تو ہر اسلامی لشکر جس میں بدر کے لشکر کی صفات پائی جائیں گی ،اللہ پر حق ہے کہ ہر زمان و مکان میں اس کی مدد کرے جیسا کہ اللہ نے اہل ِ بدر پر اپنی مدد نازل کی۔ بلاشبہ اللہ نے ماضی میں کئی جگہوں پر مسلمانوں کی مدد کی ، بدر میں بھی اور بدر کے علاوہ بھی ، اور ایسے معرکوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان صفات پر غورکریں کہ جن کی وجہ سے وہ لوگ مدد کے مستحق ٹھہرے ۔
بدر کا لشکر اور اسلامی ریاست :
رسول اللہﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست کو قائم کیا اور مکہ سے آپ ﷺ اور مسلمانوں کاہجرت کرنا ایک نئے دور کا آغاز تھا، جس میں اسلام اور کفر کے مابین تصادم کی نوعیت کا تعین ہوا ۔ مدینہ ہجرت کے بعد یہ جدوجہد سیاسی اور فکری دائرےسے عسکری جدوجہد کی طرف منتقل ہو گئی ،جس کا مقصد تمام کفر کو اسلام کے تابع لانا تھا، رضاکارانہ طور پر یا بزور شمشیر لوگوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں لانے کیلئے اور باقی ادیان کے ظلم سے اسلام کے عدل کی طرف لانے کے لیے۔ پس اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنےکے فوراً بعد اس کی ابتداء ہوگئی ۔ اسلامی ریاست مسلمانوں کا وہ سیاسی ڈھانچہ ہے جس کے ذریعے داخلی طور پر اسلام کے احکامات کے مطابق معاملات کی دیکھ بھال کی جاتی ہے اور خارجی طورپر جہاد کے ذریعے اسلامی دعوت کو تمام عالم تک پہنچایا جا تا ہے۔ اسلامی دعوت کو تمام عالم تک لے جانے کا شرعی طریقہ جہاد ہے اور یہ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اور جہاد فوجی طاقت ، فوج اور اس ریاست کے بغیر کامل طور پرنہیں ہو سکتا، جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کیلئے لشکروں اور فوجیوں کو بھیجتی ہے، اس لیے کسی بھی گروہ کو فوج نہیں کہا جاسکتا اور اس میں لڑائی کے لیے درکار عسکری صفات نہیں پائی جاتیں جب تک یہ فوج کسی سیاسی فیصلے ، ریاست اور خلیفہ کے فیصلےکے ذریعے قائم نہ ہواور یہ فوج جنگ اور امن کے فیصلے کیلئے اس شخص کی پابند ہوتی ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے، یعنی مسلمانوں کا خلیفہ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: «امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ» (صحیح بخاری)”مجھے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرو ں یہاں تک وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں"۔ پس رسول اللہ ﷺ نے حاکم ہونے کے ناطے اورریاست کے سر براہ ہونے کے ناطے ابو سفیان کے قافلے کو روکنے کا فیصلہ کیااور قافلے کے تعاقب کو لڑائی میں تبدیل کرنے اور قریش کے ساتھ فوجی محاذ آرائی کے بعد جنگ میں جانے کا فیصلہ بھی ریاست ہی نے کیا ۔ ریاست ہی ہے جو فوجوں کو لڑائی کیلئے نکالتی ہے تاکہ وہ اپنا مشن سر انجام دیں ان اصولوں کے مطابق جو انہیں بتائے گئے ہوتے ہیں ۔ ابن ِ عمر سے روایت ہے کہ«بَعَثَنا رَسولُ اللَّهِ ﷺ فِي سَرِيَّةٍ، فَحاصَ النَّاسُ حيصَةً، فَقَدِمنا المدِينَةَ فَاختَبَأْنا بِها، وقُلنا: هَلَكنا، ثُمَّ أَتَينا رَسولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلنا: يا رَسولَ اللَّه، نَحنُ الفَرَّارونَ، قال:» بَل أَنتُمُ العَكَّارونَ، وَأَنا فِئَتُكُم» (سنن تر مذی، حدیث حسن )”اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سریہ میں بھیجا، تو لوگ وہاں سے فرار ہو ئے اور مدینہ میں آ چھپےاور ہم نے کہا کہ ہم تو (اس گناہ کی وجہ سے)ہلاک ہو گئے۔ توہم نے رسول اللہ ﷺ سےکہا کہ ہم تو فرار ہونے والوں میں سے ہوگئے ہیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا تم تو عکارون ہواور میں تمہارا پشت پناہ ہوں” ۔ عکار اس کو کہتے ہیں جو اپنے امام سے مدد کیلئے آئے نہ کہ اس کا ارادہ جنگ سے فرار ہونے کا ہو ۔ آج مسلمانوں میں ایسے لشکر نہیں جیسا کہ غزوہ ٔبد ر میں مسلمانوں کا لشکر تھا باوجود یہ کہ آج ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، مسلمانوں کے لشکر تو لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں لیکن وہ امام جو کہ ڈھال ہوتا ہے یعنی مسلمانوں کا خلیفہ وہ کہاں ہے ؟ وہ جو مسلمانوں کے شہروں پر قبضہ کرنے والے کافروں سے لڑنے کیلئے ان لشکروں کو حرکت میں لائے!۔ اسلامی خلافت کی عدم موجودگی میں مسلم لشکروں کو بیرکوں میں روکاگیا ہے، اس کے سپاہی اور افسربس مہینے کے آخر میں اپنی تنخواہیں وصول کرتے ہیں، بجائے یہ کہ ان کے پاؤں فلسطین ، شام اور روھنگیا کے مسلمانوں کی مددکرتے ہوئے اللہ کی راہ میں گردآلود ہوں۔ بلکہ استعماری کافروں نے اپنے کٹ پتلی حکمرانوں کے ذریعے ان لشکروں کو فتنے میں ڈال رکھا ہے، یہ افواج ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں اور کئی مرتبہ مسلمانوں کے بیٹوں کو قتل کرتی ہیں ،جیسا کہ مصر میں التحریر چوک Tahrir Squareاور رابعہ العدویہ چوک میں ہوا اور شام میں کہ جہاں بشار کی بعث پارٹی کے کرائے کے قاتلوں اورایرانی ملیشیا نے شام کے مسلمانوں پر ظلم ڈھائے ، وہ مسلمان کہ جو مجرم بعث حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ ان غدارحکمرانوں نے مسلم افواج کو دہائیوں سے بیرکوں میں بند کر رکھا ہے جبکہ وہ ان افواج کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنی بندوقوں کا رخ یہودیوں کی طرف کریں،وہ یہودی جو ہماری ارض ِ مقدس فلسطین پر قابض ہے ۔
فیصلہ کن قیادت اور محتاط منصوبہ بندی :
ابو سفیان کے ایک قافلے کے زندہ بچ جانے کے بعد اور قریش کے ابوسفیان کے قافلے کی مدد کے لیے نکلنے کے بعد یہ بات حضور اکرمﷺکے لیے لازمی ہوگئی کہ وہ کفار کا سامنا کریں ، تاہم آپ ﷺ باقاعدہ جنگ کیلئے نہیں نکلے تھے اور نہ ہی اپنے ساتھ زیادہ مجاہدین لے کر آئے تھے اور ریاست کے صدر مقام مدینہ منور ہ سے دوری کی وجہ سے مزید تعداد طلب کرنے کا امکان مشکل ہو تھا ۔ صورت حال نازک تھی ،اگرمسلمان قریش کے سامنے سے پلٹ جاتے تو قریش کہتے محمداوراس کے ساتھی قریش کا سامنا کرنے سے فرار ہوگئے ہیں اوراس میں مسلمانوں کے وقار اوران کی ابھرتی ہوئی ریاست کی بے عزتی تھی بلکہ اس میں خود مسلمانوں کے دلوں میں بھی مسلمانوں کے نظریے کی طاقت پر سوال اٹھتے اور دوسری طرف قریش خوش ہو جاتےاور پھول کر اپنے لوگوں میں واپس لوٹتے اور اپنی تلواروں سے اپنے بتوں کے سامنے کھیل تماشے کرتے اور ان کے شاعر مسلمانوں کے خلاف اپنے اشعار اور فتح کے گیت گاتے ۔ تمام عرب ، یہود اور منافقین نے کہنا تھا کہ محمد ﷺ قریش کا سامنا کرنے سے ڈر کراپنے صحابہ کے ہمراہ پلٹ گئے جہاں سے وہ آئے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے ” لوگو! میری طرف توجہ دو ”،تو ابو بکر صدیقؓ اور مقداد بن اسودؓ نے جواب دیا ،تو رسول اللہ ﷺنے دوبارہ فرمایا ،”لوگو! میری طرف توجہ دو ‘ ‘۔ گویا کہ حضور ﷺ اس بات سے انصار مراد تھے، وہ انصار جنہوں نے عقبہ کے دن اس بات پر بیعت کی تھی کہ آپ ﷺ کی ان چیزوں کے ذریعے حفاظت کریں گے جن سے وہ اپنے بچوں اور عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب انصار نے محسوس کیا کہ ان کی رائے معلوم کرنی ہے تو سعد بن معاذؓ رسول اللہ ﷺکی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ کیا آپ ہماری رائے جاننا چاہ رہے ہیں ۔تو آپ ﷺنے فرمایا کہ ”ہاں” تو حضرت سعد نے فرمایا ،بلاشبہ ہم آپ پر ایمان لے کر آئے اور عہد کیا کہ ہم آپ کی اطاعت کریں گے تو بتائیں کہ اللہ کے رسول ﷺ آپ کا کیا ارادہ ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں ،اگر آپ ہمیں سمندر میں جانے کا حکم د یں گے تو ہم آپ کے ساتھ اس میں بھی اتر جائیں گے اور ہمارا کوئی بھی آدمی پیچھے نہ رہے گا اور ہم نا پسند نہیں کرتے کہ کل اپنے دشمن سے ملیں۔ حضرت سعد ؓنے اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ آپ ﷺکا چہرہ خوشی سے روشن ہو گیا اور فرمایا ” چلو اور خوشخبری سنو کہ اللہ نے مجھے دو گروہ میں سے ایک گروہ کا وعدہ کیا ہے ” ۔ اس انداز سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کےذریعے مسلمانوں کی ہمت کو بلند کر دیا۔ رسول اللہ نے بطورِ قائد ابو بکر ؓ، مقدادؓ اور سعد بن معاذؓ کے ذریعے انصار اور مہاجرین کی رضامندی اور خوشی سے لڑنے کا فیصلہ حاصل کیا ۔ اب اس کے بعد رسول اللہ ﷺنے ضروری نکات پر توجہ مرکوز کی، دشمن کے مقام ، تعداد اور فوج کے پڑاؤ اور معرکہ کی جگہ کا تعین اور انٹیلی جنس معلومات کے ذریعے جنگی منصوبہ تیارکیا۔
ابنِ اسحاق روایت کرتے ہیں کہ محمد بن یحییٰ ابن حبان نے ہم سے روایت کیا : رسول اللہ ﷺ ایک بوڑھے عرب کے پاس پہنچے اور ان سے قریش کے متعلق دریافت کیا،اور یہ کہ محمد اور اس کے ساتھی اس وقت کہاں ہیں اور ان کے متعلق کیا خبر ہے۔ اس بوڑھے شخص نے جواب دیا: میں اس وقت تک تمہیں مطلع نہیں کروں گا جب تک تم دونوں مجھے اپنے متعلق مطلع نہیں کروگے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہمیں خبر دو ہم تمہیں اپنی خبر دیں گے۔ اس نے کہا: کیا یہ اس کے بدلے میں ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ اس بوڑھے شخص نے کہا: میں نے سنا ہے کہ محمد اور اس کے ساتھی فلاں اور فلاں دن کو روانہ ہوئے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو انہیں آج فلاں اور فلاں مقام پر ہو نا چاہئے (اور اس نے اس مقام کی طرف اشارہ کیا جہاں رسول اللہﷺ موجود تھے)۔ اور میں نے سنا ہے قریش فلاں اور فلاں دن کو روانہ ہوئے۔ اگر یہ درست ہے تو آج نہیں اِس اور اِس مقام پر ہونا چاہئے(اور اس کی مراد وہ جگہ تھی جہاں وہ واقعتاً موجود تھے)۔ جب اس نے اپنی بات مکمل کر لی تو اس نے کہا: اب تم مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے کہا: ہم پانی سے ہیں ۔ اور یہ کہہ کر روانہ ہو گئے۔۔۔ ابن اسحاق بیان کرتے ہیں: میں بنو سلمہ کے ایک آدمی سے روایت کرتا ہوں کہ خباب بن منذر الجموح نے رسول اللہﷺ سے عرض کی: کیا اس جگہ کے متعلق اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ (لڑائی کے لیےلشکر کا) پڑاؤ یہاں ڈالیں ،اس طرح کہ آپ نہ اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں، یاپھر یہ رائے اور جنگی حکمتِ عملی کی بنا پر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں بلکہ یہ رائے اور جنگی حکمت عملی کی بنا پر ہے۔ خباب بن منذر نے کہاَ اے اللہ کے رسول ! یہ رکنے کی جگہ نہیں۔ اپنے لوگوں کے ساتھ آگے بڑھیں یہاں تک کہ ہم دشمن کے نزدیک ترین پانی کے پاس پہنچ جائیں اور وہاں پڑاؤ ڈالیں اورپھر ہم اس سے پرے کنوؤں کو ناکارہ کردیں اور ایک حوض بنا لیں کہ جس سے ہم وافر پانی پی سکیں اور پھر ہم دشمن سے لڑیں، اس طور پر کہ ہم پانی پی سکیں گے جبکہ ہمارادشمن پانی کے بغیر ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم نے درست رائے دی۔ ۔۔ابنِ اسحاق نے روایت کیا کہ عبد اللہ بن ابو بکر ؓ نے بیان کیا کہ سعد بن معاذؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپ کے لیے کھجور کی شاخوں سے ایک چھپر بنا دیتے ہیں کہ جہاں آپ قیام کریں اور آپ کا اونٹ تیار موجود ہو۔ پھر ہم دشمن سے لڑیں ۔ اگر اللہ نے فتح عطا کی تو یہ وہ ہے جو ہماری چاہت ہے، اور اگر نتیجہ ہمارے حق میں برا نکلا توآپ اپنے اونٹ پر سوار ہو کر ہمارے ان لوگوں سے جا ملیں جو(مدینہ میں) پیچھے رہ گئے ہیں ۔ کیونکہ اے اللہ کے رسول! وہ آپ سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنی ہم کرتے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ آپ لڑنے جا رہے ہیں تو وہ پیچھے نہ رہتے۔ اللہ ان کے ذریعے آپ کا تحفظ کرے گا۔ وہ آپ کو امور میں مشورہ دیں گے اور آپ کے ساتھ مل کر قتال کریں گے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی تعریف کی اور ان کے حق میں دعا فرمائی(سیرۃ ابنِ ہشام جلد اول صفحہ 616-621)۔
پھر آپ ﷺ نے اپنے لشکر کے صفوں کو درست کرنا اور ترتیب دینا شروع کیا ۔ محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے صفوں کو سیدھا کیااوران صفوں کو گِناا اور ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس کے ذریعے وہ لشکر کو برابر کر رہے تھے تو جب وہ سواد بن غزی کے پاس سے گزرے جو کہ بنی عدی بن نجار کے حلیف تھے ،وہ سب سے باہر تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے پیٹ پر چھڑی لگائی اور فرمایا کہ” سیدھے ہو جاؤ، اے سواد بن غزی ”(تاریخ طبری ج۔ 2 ص 446)۔ رسول اللہ ﷺ نے لشکر کے آخری حصے پر قیس بن ابی صعصعہ اور عمر بن زید کومقرر کیا ۔ ( المتاع الا سما ع ،١ ص 84)۔غزوہ ٔ بدر کی منصوبہ بند ی کے مقابلے میں آج ہم مسلمانوں کی حقیقت کو بالکل الٹ دیکھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی پختہ قیادت ،کوئی فوجی منصوبہ بندی نہیں اور کوئی ایسا نہیں جو اس کے لیے عرق ریزی کرے ۔ مسلمانوں کے حکمران خائن ہیں جو مسلمانوں کو اور ان کے ملکوں کو استعماری کافروں کے حوالے کیے ہوئے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے خائن حافظ الا سد نے جنگ کے دوران قنیطرہ پر یہود کے قبضے کا اعلان کیا، اس سے قبل کہ یہود اس پر قبضہ کرتے ۔ کیسےاردن کے شاہ حسین نے یہودیوں سے مقابلے پر اپنی فوجوں کوفرار کر دیا اور وہ یہود کی راہ سے ایک بھی میزائل فائر کیے بغیر ہٹ گئے۔ اور کیسے مصر کے انور سادات نے مسلمانوں سے غداری کی اور انہیں جنگ روکنے کا حکم دیا اگرچہ وہ بارلیو لائن Bar Lev Line کو عبور کرنے میں کامیاب ہوچکے تھےاورنہر سویز کوبھی عبور کر چکے تھے۔اور زیادہ دور کی بات نہیں اردگان کی قیادت کو ہی دیکھ لیں جس نے شام میں مسلمانوں کی پیٹ میں چھرا گھونپا اور آپریشن فرات شیلڈ کو شروع کر کے شام کی حکومت مدد کی کہ وہ حلب پر کنٹرول حاصل کر لے ۔ حکمرانوں کی خیانتوں کی فہرست طویل سے طویل ترہو رہی ہے،لیکن بہرحال ظلم کی رات جتنی مرضی لمبی ہو مگر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کی صبح ضرور طلو ع ہوگی ،جو اسلام اور مسلمانوں کے لئے فکر مند ہو۔
بدر کے لشکر کی جہادی ثقافت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ حَرِّضِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ عَلَى ٱلۡقِتَالِۚ ﴾"اے نبی ﷺ مسلمانوں کو قتال پر ابھارئیے” (سورۃ الانفال-65)۔ تحریض کے لغوی معنی ہیں بہت زیادہ ابھارنا (فتح القدیر، جلد 2 صفحہ 370) ۔ انس بن مالکؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا :”اس جنت کی طرف بڑھو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے ۔ عمیر بن حمام الا نصاری نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ!کیاایسی جنت کہ جس کی چوڑائی آسمان اور زمین جتنی ہے ؟!آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ، تو انہوں نے کہا : واہ واہ ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: تمھیں کس چیز نے یہ کہنے پر ابھارا ۔عمیرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول!بس ایک اُمید ہے کہ کاش میں اس کے مکینوں میں سے ہوتا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا تم انہی میں سے ہو ۔ انہوں نے اپنی کھجوریں کھاتے ہوئے فرمایا: اگر میں زندہ رہوں اور اپنی کھجوروں کو ختم کرو ں تو یہ بہت لمبی زندگی ہے ۔ پس انہوں نے اپنی کھجوریں پھینک دیں اور جنگ میں کود پڑے ،یہاں تک کہ وہ شہید ہوگئے۔ یہ نصوص دلالت کرتی ہیں کہ فوج کو جہادی ثقافت دینا ایک فرض ہے اور اسے فوجی علوم کا حصہ ہونا چاہئے اور جہاد اسلام کی دعوت کو دوسری اُمتّوں تک لے جانے کا ذریعہ ہے ۔ بدر کالشکر اس ثقافت کے اثر کا عملی نمونہ تھا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں قتال کے لئے ابھارااور آپﷺ نے دشمن کے خلاف صبر اور ثابت قدم رکھنے کی تلقین کی اورصحابہ کو جہاد کے اجر کے متعلق بتایا اور یہ کہ اللہ کے راستے میں شہادت کا درجہ کیا ہے ۔ اور مسلمان اس حال میں میدانِ جنگ میں اترے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے جنت کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ اور وہ شہادت کے حصول کے لیے اس طرح صفیں بنا رہے تھے جیسے نماز کے لیے صفیں بنائی جاتی ہیں۔ مشکلات اور سختیاں ان کی نظر میں آسان ہو گئیں اور وہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر دشمن کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔ دیکھیں کس طرح عمیر بن حمامؓ نے اپنی کھجوریں پھینک دیں اور جنگ میں کود گئے اور کفار سے لڑتے ہوئے شہادت کو گلے لگا لیا۔ ۔ دیکھیں کس طرح معوِذ بن ارفع اور معاذ بن عمروبن جموح ابو جہل کی طرف لپکے اور اسے اس کے گھوڑے سے نیچے گرا دیا اگرچہ بنو مخزوم درختوں کے جھنڈ کی طرح اسے گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ اور دونوں لڑکوں میں سے ایک نے کہا : اللہ کی قسم ! ہمارے جسم اس کے جسم سے الگ نہیں ہو ں گے جب تک کہ ہمارے اور اس کے انجام کا فیصلہ نہ ہو جائے۔
اس کے بر عکس عرب لشکروں کی ثقافت ، کہ جو1967میں یہودیوں سے ہار گئے تھے،جہادی جنگی ثقافت نہیں تھی ۔ بلکہ وہ ایک قومی یا وطنی ثقافت تھی جودشمن کی قوت و طاقت کے اثر کو کم کرنے کی بجائے اسے بڑھاوا دیتی ہے۔یہ وہ وجہ تھی کہ زیادہ تر عرب فوجی ایک متزلزل ہمت اور ارادے کے ساتھ اپنے دشمن سے لڑنے کے لیے اترےاور وہ چند دن بھی یہودی فوج کے سامنے ٹِک نہ سکے، اس جنگ کے ڈرامے کے دوران کہ جو رچایا گیا تھا، کہ جس کے نتیجے میں انہوں نے شرم اور ذلت کے ساتھ فلسطین کی بابرکت سرزمین کو یہودی وجود کے حوالے کر دیا ۔
آج دہشت گردی اور اسلام کے خلاف دہشت گردی کا پروپیگنڈ ہ مسلم افواج کی جنگی ثقافت میں سب سے نمایاں ہے جس نےان افواج کو ہیجان میں مبتلا کردیا،مسلمانوں نے مسلمانوں کو قتل کیا، ان کے سادات جان سے ہاتھ دھو بیٹھے بجائے یہ کہ یہ سب مسلم افواج امریکہ، روس اور یہودی وجود کا سامنے کرنے کے لیے ایک ہی صف میں کھڑیں ہوتیں۔ یوں جہاد فی سبیل اللہ معطل ہو گیا ،فلسطین ہاتھ سے نکل گیا، افغانستان مقبوضہ ہوگیا، مشرقی ترکستان اور کریمیا پر قبضہ ہوگیا۔ ہمارے علاقے، ہماری فضا اور ہمارے سمندر استعماری کفار کی تفریح گاہ بنے ہوئے ہیں جبکہ مسلمانوں کی افواج ان کی نقل و حرکت کوبس دیکھتی ہیں اور ان کے ظلم و جارحیت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتیں بلکہ ذلت و رسوائی کا یہ عالم ہے کہ وہ انہیں جارح دشمن ممالک کی افواج کے ساتھ جنگی مشقیں کرتی ہیں ، اور یمن ، شام ، عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کے قتل کے حکم کو نافذ کرتی ہیں۔
بدر کی فوج اور اسلامی عقیدہ :
اس اسلامی برادری کی طرح جو مدینہ میں اسلامی عقیدہ اور ثقافت کی بنیاد پر تشکیل پائی تھی ،بدر کی فوج بھی اسلامی عقیدہ پر تشکیل پائی تھی یہ فوج مہاجرین اور انصار ، اوس و خزرج کے لوگوں پر مشتمل تھیں لیکن اس فوج میں سب برابر تھے ،کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں تھی سوائے تقویٰ کی بنیاد پر اور یہ سب قومیت کو پیچھے چھوڑ کرایک جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَإِن يُرِيدُوٓاْ أَن يَخۡدَعُوكَ فَإِنَّ حَسۡبَكَ ٱللَّهُۚ هُوَ ٱلَّذِيٓ أَيَّدَكَ بِنَصۡرِهِۦ وَبِٱلۡمُؤۡمِنِينَ ٦٢ وَأَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوبِهِمۡۚ لَوۡ أَنفَقۡتَ مَا فِي ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعٗا مَّآ أَلَّفۡتَ بَيۡنَ قُلُوبِهِمۡ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ أَلَّفَ بَيۡنَهُمۡۚ إِنَّهُۥ عَزِيزٌ حَكِيمٞ﴾ (سورة الانفال62:63)،”اگر وہ آپﷺ سے خیانت کا ارادہ کریں تو اللہ آپ کیلئے کافی ہے۔ وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے آپ کی تائید کی ۔ان کے دلوں میں الفت ڈال دی، اگر آپ خرچ کرتے تب بھی آپ ان کے دلوں میں الفت پیدا نہیں کر سکتے تھے۔لیکن اللہ نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کی بیشک وہ زبردست حکمت والا ہے ”۔یہاں تک مہاجرین اپنا نسب تک بھول گئے مسلمانوں کے مولا اور غلام قریش کی تباہ کاریوں کے خلاف جنگ میں آگے بڑھے ان کے تلواریں اللہ کے دشمن کو مارنے میں لگ گئیں، کفار سے قتال کرنے کیلئے وہ ایک صف میں جمع ہوگئے یہاں تک ان کے سامنے کوئی اپنا ہی کیوں نہ ہو۔ابن عساکر نے ابنِ سرین سے روایت کیا ہے عبد الرحمٰن بن ابو بکر بدرکے دن مشرکین کے ساتھ تھے، تو جب وہ اسلام لائے انہوں نے اپنے والد سے کہا آپ بدر کے دن میرے سامنے آگئے تھے پھر میں نے آپ کو چھوڑ دیا اور آپ کو نہیں مارا ۔تو ابو بکرؓ نے فرمایا اگر تم میرے سامنے آتے تو میں تمھیں نہیں چھوڑتا اور اللہ کا قول ہے: ﴿لَّا تَجِدُ قَوۡمٗا يُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِ يُوَآدُّونَ مَنۡ حَآدَّ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَوۡ كَانُوٓاْ ءَابَآءَهُمۡ أَوۡ أَبۡنَآءَهُمۡ أَوۡ إِخۡوَٰنَهُمۡ أَوۡ عَشِيرَتَهُمۡۚ﴾ ”تم نہیں پاؤ گے قوم کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ دوست بنائیں ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دشمنی مول لی اگرچہ وہ ان کے آبا ء ہی کیوں نہ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یاان کے قبیلے والے ” (سورة مجادلہ- 22)۔ امام قرطبی کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن ِ مسعودؓ نے فرمایا یہ آیت حضرت ابو عبید بن جراحؓ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے اپنے والد عبد اللہ بن جراح کواُحد یا بدر میں قتل کیا تھا ۔ ابوعزیر بن عمیر بن ہشام جو حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی تھے، بدر کے دن مشرک قیدیوں میں سے تھے۔ ابوعمیر بیان کرتے ہیں: میرا بھائی میرے پاس سے گزرا جب انصار کے ایک شخص نے مجھے قیدی بنا لیا تھا۔ اور میرے بھائی نے کہا: اس کے ہاتھ کے بندھن سخت کرو، اس کی ماں بہت مالدار ہے وہ اس کے بدلے تمہیں بہت کچھ دے گی! (سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 645)۔ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے: کچھ اہلِ علم نے مجھے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «يَا أَهْلَ الْقَلِيبِ، بِئْسَ عَشِيرَةُ النَّبِيِّ كُنْتُمْ لِنَبِيِّكُمْ، كَذَّبْتُمُونِي وَصَدَّقَنِي النَّاسُ، وَأَخْرَجْتُمُونِي وَآوَانِي النَّاسُ، وَقَاتَلْتُمُونِي وَنَصَرَنِي النَّاسُ… « "اے قلیب کے لوگو! کتنے برے لوگ ہوتم، اے نبی کے خاندان والو۔ تم نے مجھے جھٹلایا جبکہ اورلوگوں نے میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائے۔تم لوگوں نے مجھے نکال دیا جبکہ اور لوگوں نے مجھے تحفظ دیا ، تم نے مجھ سے قتال کیا جبکہ اور لوگوں نے میری مددونصرت کی۔۔۔"(البدایہ والنہایہ جلد 5 صفحہ 151)۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ اس وقت کہا جب مسلمانوں نے بدر کے دن مشرکین کوقتل کرنے کے بعد انہیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ اسلام نے اسلامی عقیدے کے تعلق و رشتہ کو قومیتوں اور نسب و نسل کے تمام رشتوں پر غالب کر دیا تھا۔ مسلمان عرب میں ایک عقیدے پر مبنی مضبوط وجود بن کر ابھرے تھے۔ اور اس رشتے کی مضبوطی نے انہیں تمام جزیرہ نما عرب پر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور پھر روم و فارس کو چیلنج کرنے میں مدد فراہم کی۔
یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ آج مسلمان اس بات سے لا علم ہیں کہ کس طرح وہ اپنے کافر دشمنوں کے ہاتھوں ہزیمت سے دوچار ہوئے، جب ان کی سرزمین کو قومیت اور وطنیت کے ذریعے پارہ پارہ کر دیا گیااور ان علاقوں پر آج بدبودار عصبیت کے باطل جھنڈے لہرارہے ہیں۔ قومی ،وطنی اور فرقہ وارانہ تعلقات نے اسلامی بندھن کی جگہ لے لی ہے۔ اس طرح مسلمان تقسیم ہوگئے ہیں، وہ اپنے ممالک کی سرحدوں کی حفاظت کی قسمیں کھاتے ہیں ،وہ سرحدیں کہ جنہیں سائیکس پائیکاٹ معاہدے کے تحت کھینچا گیا تھا۔ ان سرحدوں پرچوکیاں قائم کر دی گئیں ہیں تاکہ مسلمانوں کے آنے اور جانے کی نگرانی کی جاسکے۔ فوجی سپاہیوں اور گارڈز کے کندھوں کو قومی تمغوں سے سجایا جانے لگا۔۔۔ اب کچھ باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ یوم آزادی پر ایک فوجی پریڈ ہو، قومی ترانے پڑھے جائیں، جنگی جہا زوں کی کرتب بازیاں ہوں ،حالانکہ کفار ہر جگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور مسلمانوں کے گھروں کو مسمارکر رہے ہیں ۔
اہلِ بدر نے اللہ پر یقین کیا اور اللہ نے ان کا یقین پورا کیا :
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ« إِنَّ اللَّهَ – عَزَّ وَجَلَّ – اطَّلَعَ عَلى أَهلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعمَلوا مَا شِئتُم، فقَد غَفَرتُ لَكُم »( مسند احمد)”اللہ تعالیٰ نے اہل ِ بدر پر نگاہ ڈالی، جو چاہے کر و میں نے تمھاری بخشش کر دی ہے ”۔ بیشک اہل بدر نے اللہ پر یقین کیا اور اللہ نے ان کا یقین پورا کیا۔ وہ اللہ پر یقین کرتے ہوئے اپنے رسولﷺ کے حکم سے قتال پر گئے ۔ اللہ پر یقین کرنے کےسبب اور اپنے رسولﷺ کی اطاعت کرنے کے سبب اللہ نے اپنے لشکر کے ذریعےان کی نصرت کی ۔ اللہ فرماتا ہے ﴿إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأَقْدَامَ o إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلاَئِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ﴾(سورة انفال آیت 11-12)”(یاد کرو ) جب وہ (اللہ )اپنی طرف سے تمھیں امن و سکون دینے کے لئے تم پر اونگھ طار ی کر رہا تھا ، اور آسمان سے تم پر بارش بر سا رہا تھا تاکہ تمھیں اس کے ذریعے سے پاک کر دے اور تم سے شیطانی و سو سوں کو دور کردے اور تاکہ تمھارے دلوں کو مضبوط کر دے اور تاکہ اس کی وجہ سے (تمھیں ) ثابت قدم رکھے ۔ ( اے نبی ) جب آپ کا رب فرشتوں کی طرف وحی کررہا تھا کہ بے شک میں تمھارے ساتھ ہوں، چنانچہ تم انہیں ثابت (قدم ) رکھو جو ایمان لائے ہیں، میں جلد ہی ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا جنھوں نے کفر کیا ، چنانچہ تم (ان کی ) گر دنوں پر وار کر و اور ان کے ہر (ہر) پور پر ضرب لگاؤ”۔ اللہ تعالیٰ اپنی مدد کا ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے﴿ إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلاً وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الأَمْرِ وَلَكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾ (سورة آیت انفال43)”( اے نبی یاد کریں ) جب اللہ نے آپ کے خواب میں آپ کو ان (کفار)کی تعداد کم کر کےدکھائی اور اگر وہ آپ کو ان کی تعداد زیادہ دکھا تا تو تم لوگ ضرورت ہم ہار دیتے اور اس معاملے میں آپس میں اختلاف کرتے لیکن اللہ نے (تمھیں) بچالیا”۔ مجاہد کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے خواب میں جب کفار کودیکھا تو ان کی تعداد کم تھی پھر آپﷺ نے اس خواب کے بارے میں صحابہؓ کو بتایااور اس طرح اللہ نے ان کو مزید ہمت اور حوالے سے نوازا (تفسیر قرطبی ) ۔ اللہ پاک نے اپنی قدرت سے مشرکین کی تعداد کو کم کر کے دکھایا تاکہ مشرکین کو جنگ کی جگہ پر جمع کرے اور مسلمانوںکو ان کےخلاف اقدام کی ہمت دے کر اپنے وعدہ کو پورا کردے ۔ عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مشرکین کی تعداد ہماری نظروں میں اتنی کم تھی کہ میں نے اپنے برابر والے شخص سے کہا ” مجھے تو ستر کی تعداد معلوم ہو رہی ہے اور تمھیں ؟”تو اس نے کہا ”ایک سو” اور جب ہم نے ایک شخص کو قیدی بنایااور اس سے پوچھا کہ تم لوگ کتنے تھے۔ تو اس نے کہا کہ ہم تعداد میں ایک ہزار تھے۔ سدی نے بیان کیا ہے کہ ”مشرکین کے کچھ لوگوں نے کہاکہ اب جب کہ قافلہ جا چکا ہے (کہ جس کے پیچھے مسلمان نکلے تھے)تو واپس لوٹ چلتے ہیں تو ابو جہل نے کہا اب محمد اور اس کے صحابہ نے ارادہ کر لیا ہے توجب تک ہم ان کو ختم نہیں کر لیتے ہم گھر نہیں جائیں گے ۔ محمد اور اس کےساتھی تو ذبخ کردہ اونٹ ہیں کہ جنہیں ترنوالہ بنایا جائے(تفسیر بغوی جلد دوم صفحہ 298)۔ ابنِ اثیر نے لکھا ہے ” عاتکہ بنت عبد المطلب نے مکہ آنے سے تین دن قبل ایک خواب دیکھا تھا۔ جس نے اسے خوفزدہ کر دیا،اس نے یہ خواب اپنے بھائی عباس کو بتایا ، وہ کہتا ہے کہ ایک اونٹ سوار آیا اور اس نے ابطح میں کھڑے ہو کر چیخ کر یہ اعلان کیا اے آل غدر ، تین دن میں اپنے قتل ہونے کی جگہ کی طرف نکلو۔ لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ پھر وہ اپنا اونٹ لے کر مسجد حرام کی طرف گیا اور وہاں پراس نے کعبہ کی چھت پر کھڑ ے ہو کر پھر وہی اعلان کیا پھر وہ جبل ابی قبیس پر چڑھ گیا اور وہاں سے وہی آواز لگائی اور اوپر سے اس نے ایک چٹان پھینکی جب وہ چٹان نیچے پہنچی تو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور مکہ کا کوئی گھر ایسا نہ رہا جس میں اس کا کوئی ٹکڑا نا گرا ہو ۔ اور جب قریش جحفہ کے مقام پر پہنچے تو جہیم بن صلت بن مخزمہ بن مطلب بن عبد مناف نے بھی ایک خواب دیکھا ۔اس نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ ایک گھوڑے پر سوا ر شخص آرہا ہے اور اس کے پاس ایک اونٹ بھی ہے ، پھر اس شخص نے کہا ، عتبہ ، شیبہ، ابو جہل اور اس کے علاوہ بہت سارے لوگ قتل ہوگئے ہیں ، تو ابو جہل نے طنزاً کہا ”یہ بھی بنو مُطلب میں سے ایک نبی ہے ، عنقریب پتہ چل جائے گا کہ کون کون لڑائی میں مارا جائے گا ۔ (الکامل فی التاریخ ) ۔ دو خواب کفار قریش پر بہت اثر انداز ہوئے، چنانچہ وہ ہچکچاہٹ اور تر دو کے ساتھ میدان میں اترے جبکہ مسلمان جوش و خروش کے ساتھ مقابلے کیلئے سامنے آئے۔ مسلمانوں اور کفار میں بہت فرق تھا، مسلما نوں کو یقین تھا کہ انہیں دو میں سےایک سعادت حاصل ہو گی، یعنی فتح یا شہادت جبکہ کفار اپنے دل میں چھپی نفرت یا دل میں بھر ے ہوئے بغض یا ایک مٹھی بھر دینار کے لئےمیدان میں اترے ۔ اور پھران کی بربادی ان کے سامنے تھی۔
یہ غزوہ ٔ بدر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے یوم ِ فرقان کا نام دیا اور جو کہ رمضان میں پیش آیا ۔ اس کے بعد بھی کئی رمضان مسلمانوں کے لیے فتح کا پیغام لے کر آئے۔ لیکن افسو س کہ جب سے خلافت ختم ہوئی کتنے ہی رمضان گزر گئے ،مسلمانوں نے نہ ہی عزت کا مزہ چکھا اور نہ ہی فتح کی حلاوت محسوس کی ۔ اور ایسا ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جب ان پر ایسے ظالم حکمران مسلط ہیں کہ جو مردِ میدان نہیں۔ یہ حکمران امریکہ ، یورپ ،روس اور یہود سے دوستی کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ گویاانہیں اس بارے میں معلوم ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ۔الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ﴾ ”منافقین کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے وہ جنہوں نے کافروں کو دوست بنایا مسلمانوں کی بجائے ۔وہ ان سے عزت چاہتے ہیں حالانکہ ساری عزت اللہ ہی کیلئے ہے ” (سورة نساء-139 :138)۔ لیکن یہ حکمران اس امت کی مستقل قسمت نہیں۔ان کے محل اتنے مضبوط نہیں کہ وہ سیلاب کی مانند امڈتی ہوئی اُمت کے سامنے کھڑے رہ سکیں کہ جو ان حکمرانوں کو اپنی گردن سے اتار پھینکنےاور اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کے لیے پرجوش ہے ،ان حکمرانوں کی سازشیں بے نقاب ہوچکی ہیں، اوران کے پھلائے ہوئے شرسے پردے ہٹ چکے ہیں۔ اب صرف خلیفہ ہی مسلمانوں کا نجات دہندہ اور ڈھال بنے گا جس کی وجہ سے مسلمان اسلام کے جھنڈے تلے ایک ہونگے اور اللہ کے راستے میں یہود سے لڑیں گے ،ہلکے ہوں یا بوجھل ، اورامریکہ اور اس کے حواریوں کو شکست ہوگی ، اورہر اس غدارکوجس نے مسلمانوں کی تباہی کا بیڑا اٹھایا ،انشاء اللہ۔
واخر و دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔