…جیسے بدر میں لڑنے والوں نے حاصل کی!
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مصعب عمیر – پاکستان
اس وقت جب مسلم امت نشاۃِ ثانیہ کے سفر کی طرف گامزن ہو چکی ہے،تو نشاۃِ ثانیہ کے سفر میں ایک ایسی ریاست تک پہنچنے سے قبل،جو اللہ سبحانہ وتعالی کے نازل کردہ احکامات کے ذریعے حکومت کرے، اس کی سوچ اپنے ان دشمنوں پر فتح حاصل کرنے پر مرکوز ہو گئی ہے جنھوں نے اسے ایک لمبے عرصے سے نقصان میں مبتلا کیا ہوا ہے۔یہ سوچ امت میں عمومی طور پر موجود ہے لیکن اس کی افواج میں موجود ان بہادر بیٹوں میں مضبوط ترین ہے جو بغیر کسی روک ٹوک کے دشمن کی پے درپے جارحیت پر غم و غصے کا شکار ہیں۔ اس سوچ کی بنیاد ہی یہ ہے کہ فتح و کامرانی صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہے۔اگرچہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ فتح صرف دعا کے نتیجے میں ملتی ہے، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فتح سے ان ہی کو نوازتے ہیں جو اس کیلئے دعا کرتے ہیں، اس کو حاصل کرنے کیلئے مہیا مادی وسائل سے تیاری کرتے ہیں اور اس کے راستے میں آنے والی مشکلات اور قربانیوں کا سامنا کرتے ہیں۔یہ سب اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے قربت اور اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے بھیجے گئے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔لہٰذا اللہ سبحانہ وتعالی سے قربت حاصل کرنے کے کئی مواقع کے ہوتے ہوئے، جیسے شیاطین کا جکڑے جانا، رمضان کا مہینہ وہ بہترین مہینہ ہے جس میں مسلم افواج کو میدانِ جنگ میں فتح و کامرانی حاصل کرنی چاہیے۔
فتوحات کسی قوم کی پہچان ہوتی ہیں اور امتِ محمدی کو بھی اس سے استثنا نہیں۔یہ امت اپنی سب سے پہلی فتح ،معرکہ بدرسے جانی جاتی ہےجو 17 رمضان 2 ہجری کو پیش آیا۔ یہ معرکہ آج ہر اس فوجی افسر کیلئے مشعلِ راہ ہے جو کشمیر کو آزاد کروانے یا مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کروانے میں کامیابی کا یا پھر اس کوشش میں آنے والی بہترین موت یعنی شہادت کا خواہشمند ہے۔آئیے ہم اس مدد، دعا، قربانی اور وسائل کی تیاری کا جائزہ لیتے ہیں جو بدر کیلئے کی گئی۔ بے شک یہ فیصلہ کن معرکہ بعد میں حاصل ہونے والی تمام کامیابیوں کا تاج تھا ، چاہے رمضان میں ہوں یا کسی دوسرے مہینے میں ہوں۔یہ اس دورِ خلافت کیلئے ایک معیار تھا جس دورکا مشاہدہ آسمان کر چکا ہے اور یہ اس دورِ خلافت کیلئے بھی ایک معیار ہو گا جو نبوت کے نقشِ قدم پر واپس آئے گا۔
کسی بھی مسلم فوج کی دشمن پر کامیابی صرف اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اختیار میں ہے، چاہے وہ اس کیلئے فرشتے نازل کرے یا نہ کرے۔ ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر میں غزوہ بدر میں اللہ سبحانہ وتعالی کی جانب سے فرشتوں کے نزول کے متعلق بیان کیا: قوله تعالى : وما جعله الله إلا بشرى [ ولتطمئن به قلوبكم وما النصر إلا من عند الله ] الآية ، أي : وما جعل الله بعث الملائكة وإعلامه إياكم بهم إلا بشرى ، ( ولتطمئن به قلوبكم ) ؛ وإلا فهو تعالى قادر على نصركم على أعدائكم بدون ذلك ، ولهذا قال : ( وما النصر إلا من عند الله) ،”اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کا یہ فرمان کہ،﴿وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلاَّ بُشْرَى﴾"اور یہ تو الله نے فقط خوشخبری دی تھی "(الانفال:10)،سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے فرشتوں کا بھیجا جانا محض خوشخبری کے طور پر تھا تاکہ ﴿وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ﴾"اور تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہو جائیں”(الانفال:10)،بے شک اللہ تواس پر بھی قادر ہے کہ (اے مسلمانو) تمھیں فرشتوں کے بغیر ہی دشمنوں پر فتح یاب کردے،اس لیے یہ فرمایا:﴿وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللَّهِ﴾"اور مدد(فتح) تو صرف الله ہی کی طرف سے ہے "(الانفال:10)”۔ اس آیت کے متعلق امام طبری نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ، وما تنصرون على عدوكم، أيها المؤمنون، إلا أن ينصركم الله عليهم, لا بشدة بأسكم وقواكم, بل بنصر الله لكم, لأن ذلك بيده وإليه "اے مومنو! تم اپنے دشمنوں پر فتح حاصل نہیں کر سکتے جب تک اللہ ہی تمھیں تمھارے دشمنوں پر فتح عطا نہ کرے۔ تم اپنی طاقت اور ہیبت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے فتح عطا کرنے سے ہی کامیابی حاصل کرو گے، بے شک فتح و کامیابی صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے”۔
بے شک، فتح صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے، چاہے مجاہدین کتنے ہی قابل ہوں اور آسمان سے کتنے ہی فرشتے اتریں۔ بخاری نے ایک حدیث روایت کی ہے جور فاح بن رافی الزراقی سے مروی ہے، جنھوں نےبدر میں بھی شرکت کی،کہ جبرائیل رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا، ” جن لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ بدر میں شرکت کی، ان کا (لوگوں میں )کیامقام ہے”۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،»مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِين « "وہ بہترین مسلمانوں میں سے ہیں”۔ جبریل علیہ سلام نے کہا، "وہ فرشتے جنہوں نے بدر میں شرکت کی تھی ،فرشتوں کے درمیان ان کا بھی یہی مقام ہے”۔ جہاں تک ان انسانوں کی خوش قسمتی کی بات ہے جنھوں نے بدر میں شرکت کی، یعنی بدری مسلمان، تو دونوں صحیحین میں روایت ہے کہ جب عمرؓ نے مشورہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ حاطب بن ابی بلتعہ کو ان کے سنگین جرم کی وجہ سے قتل کر دیا جائےتو رسول اللہ ﷺ نے عمرؓ سے فرمایا،»إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُم«"اِن(حاطب) نے بدر میں شرکت کی، اور تمھیں کیا پتا کہ شاید اللہ نے اہلِ بدر کو دیکھ کر کہا ہو: جو مرضی کرو کیونکہ میں نے تمھیں بخش دیا”۔ اگرچہ معرکہ بدر میں شرکت کرنے والوں کا مقام ایک عظیم مقام ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کثیر تعداد والے دشمن پر فتح کی خوشخبری صرف انہی کیلئے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی صدیوں پر محیط خلافت میں یہ سچ ثابت ہوتا رہا ہے اور آنے والے دور میں بھی یہ،اے مسلم افواج کے افسران!، آپ کے ہاتھوں اللہ کے اذن سے سچ ہو گا۔
بے شک فتح کے لیے جب سنجیدہ دعا کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس دعا کا جواب دیتے ہیں۔ بدر کے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ نے نہایت پُراثر اور پرزور دعا کی۔ بخاری نے ابنِ عباسؓ سے روایت کیا ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ﷺ نے دعا مانگتے ہوئے کہا،»اللَّهُمَّ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَد«"اے اللہ!میں تجھے پکارتا ہوں جو عہد آپ نے کیا تھا اور جو وعدہ آپ نے فرمایا تھا۔اے اللہ! اگر یہ تیرا فیصلہ ہے (کہ ہمیں شکست ہو) تواس کے بعد دنیا پر تیری پرستش باقی نہیں رہے گی”۔ یہ دعا اتنی پُردرد اور پرزور تھی کہ ابوبکرؓ نے نبی ﷺ کا ہاتھ تھاما اور کہا، حَسْبُكَ "یہ آپ ﷺ کیلئے کافی ہے”۔تو آج وہ کون سے فوجی کمانڈر ہیں جو ایسی ہی جاندار اور پرزور دعا کریں ،اس وقت کہ جب وہ سرینگر اور الاقصیٰ کی آزادی کیلئے افواج کو حرکت میں لائیں؟ رسول اللہ ﷺ نے معرکہ بدر سے پچھلی پوری رات عبادت اور دعا میں گزار دی، تو آج وہ کون سے جرنیل ہیں جو مشرق و مغرب سے ہمارے دشمنوں کو بھگانے اور شکست سے دوچار کرنے کے لیے روانہ ہونے سے قبل یہی عمل سرانجام دیں گے؟
بے شک اللہ سبحانہ وتعالی فتح انھیں ہی عطاکرتے ہیں جو اللہ کی راہ میں مشکلات اور امتحانوں میں کامیاب ہوتے ہیں، وہ پسینہ بہاتے ہیں، زخم برداشت کرتے ہیں، خون نچھاور کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں ان کی ہڈیاں ٹوٹتی ہیں،ہاتھ پاؤں کٹ جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ میدانِ جنگ میں اپنی آخری سانسیں لیتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود وہ دنیا میں بھی فتح حاصل کر تے ہیں اور آخرت میں جنت کو بھی اپنا مقدر بنا لیتے ہیں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں،﴿وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لاَنتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ * سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ * وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ * يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾"اور اگر الله چاہتا تو ان سے خود ہی بدلہ لے لیتا لیکن وہ تمہارا ایک دوسرے کے ساتھ امتحان کرنا چاہتا ہے اور جو الله کی راہ میں مارے گئے ہیں الله ان کے اعمال برباد نہیں کرے گا۔ جلدی انہیں راہ دکھائے گا اور ان کاحال درست کر دے گا۔ اور انہیں بہشت میں داخل کرے گا جس کی حقیقت انہیں بتا دی ہے۔ اے ایمان والو! اگر تم الله کی مدد کرو گے تووہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمائے رکھے گا”(محمد:7-4)۔اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا،﴿أَمۡ حَسِبۡتُمۡ أَن تَدۡخُلُواْ ٱلۡجَنَّةَ وَلَمَّا يَأۡتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوۡاْ مِن قَبۡلِكُمۖ مَّسَّتۡهُمُ ٱلۡبَأۡسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُ وَزُلۡزِلُواْ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصۡرُ ٱللَّهِۗ أَلَآ إِنَّ نَصۡرَ ٱللَّهِ قَرِيبٞ﴾"کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ (حالات) پیش نہیں آئے جو ان لوگو ں کو پیش آئے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں انہیں سختی اور تکلیف پہنچی اور ہلا دیئے گئے یہاں تک کہ رسول اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے بول اٹھے کہ الله کی مدد کب ہوگی سنو بے شک الله کی مدد قریب ہے”(البقرۃ:214)۔تو وہ کون سے افسران ہیں جواللہ سبحانہ وتعالی کی رضا کی خواہش کی بنیاد پر حملہ آور دشمن کے خلاف جنگ کے محاذ میں اپنے جوانوں کی قیادت کریں گے، بجائے یہ کہ وہ ان کو موت، تباہی، غربت اور بھوک کے خوف میں مبتلا کر کے پسپائی اور تحمل اختیار کرنے پر ابھاریں؟
بے شک فتح ان کا مقدر بنتی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت کرتے ہیں اور یہ اطاعت ان تمام مادی وسائل کو بروئے کار لانے تک محیط ہے جن کی تیاری کا اللہ سبحانہ وتعالی نے حکم دیا ہے۔لہٰذا فوج اور حساس ادارے دونوں کے کمانڈر ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ نے بذاتِ خود فوجی ذمہ داریوں کو اعلیٰ ترین معیار کے مطابق ادا کیا۔
حساس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے بدر کے مقام کے بالکل قریب رسول اللہ ﷺ اور ان کے غار کے ساتھی ابو بکرؓ نے ایک جاسوسی مشن سرانجام دیا، جس کے نتیجے میں وہ قریش کے ٹھکانے کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا سامنا ایک بوڑھے بدو سے ہوا جس سے باتوں باتوں میں انھوں نے مشرکوں کی فوج کے ٹھکانے کی معلومات اگلوا لیں۔ مزید جاسوسی کیلئے آپ ﷺ نے تین سرداروں کو روانہ کیا، علی بن ابی طالبؓ، زبیر بن عوامؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ، تاکہ وہ دشمن کے بارے میں معلومات اکٹھی کر سکیں۔انھوں نے دو لڑکوں کو دیکھا جو مکہ کی فوج کیلئے پانی بھر کر لے جا رہے تھے۔ تفتیش کرنے پر ان لڑکوں نے اقرار کیا کہ وہ قریش کیلئے پانی بھرنے والے ہیں لیکن یہ جواب کچھ مسلمانوں کو نہ بھایا اور انھوں نے ان لڑکوں سے اصل معلومات اگلوانے کیلئے ان کی خوب دھلائی کی، جس کے نتیجے میں انھوں نے مال و دولت سے لدے کاروان کی طرف اشارہ دیا، چاہے وہ درست نہ بھی ہو۔ گویا ان دونوں لڑکوں نے جھوٹ بولا اور انھیں چھوڑ دیا گیا۔ جاسوسی کے ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ ان لوگوں پر غصے ہوئے اور ان کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا،”سچ بولنے پر تم نے انھیں مارا اور جھوٹ بولنے پر تم نے انھیں چھوڑ دیا!” ۔ پھر آپ ﷺ ان دونوں لڑکوں سے مخاطب ہوئے اور ان سے کچھ ہی گفتگو کے بعد انھیں دشمن کے بارے میں کثیر معلومات مل گئیں: سپاہیوں کی تعداد،ان کی عین مطابق جگہ اور ان کے کچھ بڑوں کے نام۔تو پھر ہمارے جاسوس افسران میں سے کون ہیں جو فیصلہ کن جنگ سے قبل ہندو ریاست اور یہودی وجود کی افواج کی صلاحیتوں اور کمزوریوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں گے؟
فوجی کاروائیوں کے سربراہ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ سمجھدارشوریٰ سے مشورہ کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ بدر کے قریب ترین چشمے پر رکے تو حباب بن منذرؓ نے پوچھا، أرايت هذا الموقع، أهو وحيٌ من الله فلا نقدم فيه شيئاً، أم هو مُجرّد رأيٍ "کیا یہ اللہ کی طرف سے وحی ہے یا یہ آپ ﷺ کی اپنی رائے(یعنی جنگی حکمت عملی) کا معاملہ ہے؟” ۔رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا، بل هو مُجرّد رأي "یہ صرف رائے (جنگی حکمت عملی )کا معاملہ ہے”۔ حباب نے کہا، إِنّ هذا ليس بمنزلٍ، فانهض بالناس حتى نأتي أدنى ماءٍ من القوم، فننزله، ثمّ ندفن جميع الآبار، ونبقي واحداً؛ لنشرب منه ولا يشرب منه المشركون "یہ جگہ مناسب نہیں،ہمیں چلنا چاہیے اور پانی کے نزدیک ترین کنؤیں پر پڑاؤ کرنا چاہیے، ہم وہاں پانی کا ایک ذخیرہ بنا لیں گے اور باقی تمام کنؤیں تباہ کر دیں گے تاکہ مشرکین پانی سے محروم ہو جائیں”۔رسول اللہ ﷺ نے اس منصوبے کی منظوری دی اور اسے نافذ کیا۔پھر سعد بن معاذؓ نے مشورہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ کیلئے ایک خیمہ تیار ہونا چاہیے جو مسلم فوج کیلئے ہیڈ کواٹر کا کام کرے اور فوج کے لیڈر کو ضروری حفاظت بھی مہیا کرے۔سعدؓ نے اپنی تجویز کے جواز میں کہا کہ اگر وہ فتح یاب ہو گئے تو سب کی تسلی ہو گی لیکن اگر شکست ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور وہ واپس مدینہ جا سکیں گے جہاں بہت سے لوگ ہیں جو آپ ﷺ سے محبت کرتے ہیں، اور اگر انہیں معلوم ہوتا کہ آپ ﷺ اس مشکل حالت میں ہیں تووہ یہاں آ پہنچتے،تاکہ آپ ﷺ اپنا کام جاری رکھ سکیں، ان سے مشورہ کر سکیں اور وہ اللہ کی راہ میں آپ ﷺ کے ساتھ بار بار کوشش کرتے رہیں۔رسول اللہ ﷺ نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے اسے نافذ کیااورسعد بن معاذؓ ہی کی قیادت میں حفاظتی سپاہیوں کے ایک دستے کو تعینات کیا گیا تاکہ رسول اللہ ﷺ کے ہیڈکوارٹر میں ان کی حفاظت کی جا سکے۔تو اے فوج کے سربراہان! آپ میں سے کون ہے جو فوجی حکمتِ عملی میں موجود سمجھداروں کا مشورہ لے کر دشمن کو زیر کرنے کیلئے اس پر طاقتور حملہ کر ے؟
بے شک فتح کا حصول اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا کی خاطر جان کی قربانیاں دینے سے ہی ممکن ہے۔جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے فوجی افسران کو حالات کی سنجیدگی سے آگاہ کیا تو ابو بکر ؓ سب سے پہلے بولنے والوں میں سے تھے جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کی کمانڈ کی غیر متزلزل اطاعت کا یقین دلایا۔ان کے بعد عمرؓ اٹھے اور ابوبکرؓ کی تائید کی۔ اس کے بعد جو ہوا، اس کے بارے میں ابن مسعودؓ نے کہا،”میں نے اس بات کا مشاہدہ کیا جو مقداد بن اسود نے کہا تھا، اور مجھے یہ ہر چیز سے بڑھ کر عزیز ہے کہ یہ کہنے والا میں ہوتا۔مقداد نبی ﷺ کے پاس آئے جب آپ ﷺ مشرکوں کے خلاف اللہ سے دعا کر رہے تھے، اور کہا، لا نقول كما قال قوم موسى لموسى : ( اذهب أنت وربك فقاتلا ) [ المائدة : 24 ] ولكن نقاتل عن يمينك وعن شمالك ، وبين يديك وخلفك ‘ہم ویسے نہیں کہیں گے جیسے موسیٰ کے لوگوں نے کہا:تم اور تمھارا رب دونوں جاؤ اور لڑو۔بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، آپ کے بائیں بھی لڑیں گے، آپ کے آگے اور پیچھے بھی لڑیں گے’۔میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ کا چہرہ مقداد کی بات سن کر خوشی سے تمتما رہا تھا”۔لہٰذا وہ کون سے افسران ہیں جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں،ہمارے دشمنوں کے خلاف اپنی افواج کی میدانِ جنگ میں قیادت کرنے کیلئے تیار ہیں، بجائے یہ کہ موجودہ حکمرانوں کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ اس دشمن کے ڈر کے ذریعے ان افواج کے عزم کو کمزور کر دیں؟
یہ تو بدر میں مہاجرین کی خواہش تھی، جہاں تک انصار کا تعلق ہے تو عقبہ کی دوسری بیعت جہاں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نصرت حاصل کی گئی، وہ ان کو ان کے علاقوں سے باہر جنگ پر پابند نہیں کرتی تھی۔ انصار کی رائے سننے کے خواہشمند رسول اللہ ﷺ نے کہا، أشيروا عليّ أيها الناس "میرے لوگو! مجھے مشورہ دو”۔ اس پر سعد بن معاذؓ جو انصار کے کمانڈر تھے، وہ اٹھے اور کہا، والله لكأنّك تريدنا يا رسول الله "اللہ کی قسم، مجھے لگتا ہے کہ آپ ﷺ چاہتے ہیں کہ ہم (انصار) بولیں”۔ رسول اللہ ﷺ نے فوراً کہا، أجل، "بالکل”۔سعدؓ نے کہا،”اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کے لائےہوئے کی تصدیق کی اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ جو آپ ﷺ لائے ہیں وہ حق ہے۔ ہم اس پر آپ ﷺ سے عہد کرتے ہیں کہ ہم آپ کو سنیں گے اور اطاعت کریں گے جو بھی آپ ﷺ حکم دیں گے۔ اس اللہ کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا کہ اگر آپ ہمیں سمندر میں کودنے کا بھی کہیں گے تو ہم وہ بھی کریں گے اور کوئی شخص بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہم دشمن کا سامنا کرنے سے نہیں ڈرتے۔ ہم جنگ میں تجربہ کار ہیں اور لڑائی میں قابلِ بھروسہ ہیں۔ شاید اللہ آپ ﷺ کو ہمارے ہاتھوں بہادری کے وہ اعمال دکھا دے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ اللہ کا نام لیکر میدانِ جنگ میں ہماری قیادت کریں”۔
تو اے مردانِ نصرۃ! آپ میں سے کون ہے جو سعد بن معاذؓ کے عظیم راستے پر چلے گا؟آپ میں سے کون ہے جو اسلام کو ریاست کے طور پر قائم کر کےاِن غداروں اور بے شرم بزدلوں کی حکومتوں کو ختم کرے گا؟ آپ میں سے کون ہے جو دشمن کے ساتھ دور دراز کے علاقوں میں سخت ترین جنگ میں کودے گا، چاہے وہ دشمن تعداد اور تیاری میں برتر ہی کیوں نہ ہو؟یہ آپ میں سے وہی ہو گا جو سعد بن معاذؓ جیسا جنازہ چاہتا ہے جس کیلئے اللہ سبحانہ وتعالی نے آسمان سے فرشتے نازل کیے، یہ آپ میں سے وہی ہو گا جو چاہے گا کہ اس کی روح پہنچنے کی خوشی سے اللہ سبحانہ وتعالی کا عرش ہل جائے جیسے وہ عرش سعد بن معاذؓ کے لیے ہل گیا۔یہ آپ میں سے وہی ہو گا، اور کوئی نہیں!
بے شک فتح اللہ سبحانہ وتعالی ہی کے ہاتھ میں ہے اور جو اس کی خواہش رکھتے ہیں وہ دعا کرتے ہیں، اس کی بھرپور تیاری کرتے ہیں اور اس کو حاصل کرنے کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔یہی بدر سے حاصل ہونے والا سبق ہے اور یہ وہ جذبہ ہے جس نے ان تمام فتوحات کو جان بخشی جو نبوت کے بہترین دور اور بعد میں آنے والے ادوار میں بھی ،رمضان اور رمضان کے علاوہ حاصل ہوئیں۔
یہی وہ جذبہ تھا جو صلاح الدین میں رچا بسا تھا،وہ اس معرکہ حطین کا جرنیل تھا جو رمضان ہی کے مہینے میں 584 ہجری(1187ء) میں ہوا۔اس نے بذاتِ خود کرک کے عیسائی بادشاہ، ارناتھ کو قتل کیا جس نے حج پر جانے والے بے قصور مسافروں کے گروہ پر حملہ کیا تھا۔حملہ آوروں نے بے رحمی سے لوٹ مار کی، مردوں پر تشدد کیا اور عورتوں کی عزتیں پامال کیں۔ یہ ارناتھ ہی تھا جس نے غرور میں آ کر کہا،”جاؤمحمد کو بتاؤ اور اس سے کہو آ کر تمھیں بچا لے”۔ اسے جہنم واصل کرنے سے پہلے صلاح الدین نے ارناتھ کو بتایا کہ وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے اور بے قصور مسلمانوں کو قتل کرنے کے جرم میں قتل کر رہا ہے۔ تو اے جرنیلو! آپ میں سے کون ہے جو آج خود آگے بڑھ کر دشمن کے ان کمانڈروں کا قلع قمع کرے گا جو دنیا کے ہر کونے میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، ہمارے بچوں کو قتل کرتے ہیں اور ہماری عورتوں کے ساتھ زیادتیاں کرتے ہیں؟
تاتاریوں کے خلاف رمضان 658 ہجری (1260ء) میں ہونے والا عین جالوت کا معرکہ مسلمانوں کی ایک اور بڑی کامیابی تھی۔تاتاریوں نے مصر کے امیر،محمود سیف الدین قطز کو ایک دھمکی آمیز خط لکھا جس میں یہ درج تھا،”ہم نے علاقے تباہ کر دیے، بچے یتیم کر دیے، لوگوں کو تشدد کر کے ذبح کر دیا، ان کے عزت داروں کو ذلیل کیا اور بڑوں کو قیدی بنا لیا۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم سے بھاگ جاؤ گے؟ کچھ ہی عرصے میں تمھیں معلوم ہو جائے گا کہ تمھاری طرف کیا آرہا ہے۔۔۔”۔لیکن جو قطز کی طرف آیا قطز نے اس کو الٹ کر رکھ دیا۔ قطز مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے جنگ میں پہنچا جو شروع میں تاتاریوں کے حق میں تھی۔ یہ دیکھ کر قطز ایک چٹان پر چڑھا، اپنا خود(لوہے کی ٹوپی) اتار پھینکا اور چیخ کر بولا،”وا اسلاما ہ،وااسلاماہ”،تاکہ فوج اللہ سبحانہ وتعالی کے دشمنوں سے لڑنے میں ڈٹی رہے۔قطز کے چہرے پر اسلام کے جذبات نے اور دشمن پر اپنی تلوار سے زوردار حملہ کرنے سے متاثر ہو کر مسلم فوج نے جنگ کا پانسہ اپنے حق میں پلٹ دیا،یہاں تک کہ تاتاری فوج بکھر گئی اور میدان سے فرار ہو گئی۔ تو اے جرنیلو! آپ میں سے کون ہے جو آج اپنا خود پھینک کردشمن کی صفوں میں کود پڑے گا تاکہ خلافت کے قیام کے بعد آنے والی جنگوں کا پانسہ پلٹ دے؟
لہٰذا، اے مسلم افواج کے افسران!اس رمضان کا استقبال ایسے کرو جو اللہ سبحانہ وتعالی کے سامنے آپ کی عظیم ذمہ داری کے شایانِ شان ہے،اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں لڑتے ہوئے ،تاکہ آپ فتح حاصل کریں،دشمن کو قتل کریں اور جامِ شہادت نوش کریں۔ یہ جان لیں کہ ہماری فتح کا واحد ذریعہ اللہ سبحانہ وتعالی کی اطاعت میں ہے۔ یہ خلافت ہی ہو گی جو اللہ سبحانہ وتعالی کے تمام احکامات کو نافذ کرے گی تاکہ ان دشمنوں کے خلاف فتح حاصل کر سکے جو تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔آپ تاریخ کی سب سے بھرپور فوجی میراث کے وارثین ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی بشارتوں کے مطابق آپ کے سامنے الاقصیٰ کی فتح ہے، برِ صغیر ہند اورپھر یورپ کا دل جولیس سیزر کا شہر یعنی روم کی فتح، جبکہ پچھلے دور کے مسلمان ہرکولیس کے شہر قسطنطنیہ کو فتح کر چکے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلُهُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ . إِلاَّ الْغَرْقَدَ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرِ الْيَهُودِ"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے نہ لڑ لیں،اور مسلمان انھیں قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی اپنے آپ کو کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپائے گا تو وہ پتھر یا درخت بولے گا:اے مسلمان، اے اللہ کے بندے، میرے پیچھے ایک یہودی ہے،آؤ اور اسے قتل کرو؛سوائے غرقد کے درخت کے کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے”(مسلم)۔
ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے، وَعَدَنا رسولُ اللّـهِ (ص) غزوةَ الهند، فإنْ أدركتُها أُنْفِقْ نفسي ومالي، وإنْ قُتِلْتُ كنتُ أفضلَ الشهداء، وإنْ رجعتُ فأنا أبو هريرة الـمُحَرَّرُ "رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ہند کی فتح کا وعدہ کیا۔ اگر میں نے اسے پایا تو میں اپنا جان و مال اس میں خرچ کر دوں گا۔ اگر مارا گیا تو بہترین شہید ہوں گا اور اگر زندہ واپس آیا تو (گناہوں سے)آزاد ابو ہریرۃ ہوں گا”(احمد، نسائی، حاکم)
امام احمد نے اپنی مسند میں عبداللہ بن عمر بن العاصؓ سے روایت کیا، بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكْتُبُ ، إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا : قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا ) ، يَعْنِي : قُسْطَنْطِينِيَّةَ "جب ہم رسول اللہ ﷺ کے گرد موجود لکھ رہے تھے تو پوچھا گیا:دو شہروں میں سے کون سا پہلے فتح ہو گا، قسطنطنیہ یا روم؟ آپ ﷺ نے جواب دیا:ہرکولیس کا شہر پہلے فتح ہو گا!”۔
یہ تمام بشارتیں آپ کا انتظار کر رہی ہیں، آگے بڑھیں اور خلافت کے دوبارہ قیام کیلئے نصرت فراہم کریں تاکہ پوری دنیا تک اسلام کے پیغام کا سلسلہ دوبارہ جاری ہو سکے۔