امریکہ نے 2001ءمیں جس صلیبی جنگ کا آغاز کیا تھا، اس وقت سے لیکر آج تک مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے حکمرانوں کی پسپائی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔
بسم الله الرحمن الرحيم
کشمیر کیلئے بدر کے جذبے کو اجاگر کرنا
امریکہ نے 2001ءمیں جس صلیبی جنگ کا آغاز کیا تھا، اس وقت سے لیکر آج تک مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے حکمرانوں کی پسپائی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے۔جنرل مشرف نے مقبوضہ کشمیر میں لڑنے والے مجاہدین گروہوں کی پکڑ دھکڑ کا آغاز کیا، جنرل کیانی نے بھی ایسا ہی کیا اور اسے ڈبل گیم کہا، جنرل راحیل نے بھی ایسا ہی کیا اور کہا کہ اندر کا دشمن باہر کے دشمن سے زیادہ خطرناک ہے۔جنرل باجوہ بھی یہی کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ معاشی تحفظ علاقائی تنازعات سے مقدم ہے۔ گویا تمام مفروضوں اور جوازوں سے قطع نظر پالیسی مسلسل ایک ہی ہے ۔
پاکستان کے تمام فوجی سربراہان نے مقبوضہ کشمیر پر پسپائی اختیار کیے رکھی جس کی وجہ تحفظ کے متعلق مغرب کے تصور کی اندھی تقلید ہے جو یہ کہتا ہے کہ ریاست کا تحفظ ریاست کی مستقل سرحدوں پر فوج کو باندھ دینے سے ہوتا ہے اورامن صرف طاقت کے توازن سے حاصل ہوتا ہے۔مقبوضہ فلسطین بھی اسی طرح تکلیف میں مبتلا ہے جہاں عرب حکمران اس کے قابضوں سے تعلقات بنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لیجانے کی کوشش میں ہیں۔
مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کے حکمرانوں کی پسپائی اسلام کی افواج کے سب سے پہلے سپہ سالار ، نبی آخر الزمان محمد ﷺ کے حتمی مؤقف کے سراسر خلاف ہے۔ آپ ﷺ کی سب سے پہلی واضح فتح، جنگِ بدر جو رمضان کے مبارک مہینے میں 17 تاریخ کو 2ہجری میں حاصل ہوئی،اس نے آج ہمارے لیے تحفظ اور امن کے معیار کو طے کر دیا۔
رسول اللہ ﷺ نے تحفظ کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر یقینی بنایا جب آپ ﷺ نے اس طاقت کو دعوت و جہاد کے ذریعے اس وقت کی موجود سرحدوں سے آگے بڑھایا۔رسول اللہ ﷺ نے امن کو داخلی طور پر مسلمانوں اور غیر مسلم شہریوں پر اور بیرونی طور پر اسلامی ریاست اور غیر اسلامی ریاستوں کے درمیان اسلامی قوانین کی بالادستی کے ذریعے یقینی بنایا۔ طاقت کے توازن کا کوئی تصور موجود نہ تھا،صرف ایک مستقل طور پر پھیلتا دارالاسلام تھا اور مستقل طور پر گھٹتا دارالکفر ۔
صدیوں تک خلافت اپنی سرحدیں پھیلاتی رہی اور مختلف نسلوں پر مشتمل وہ علاقے کھولتی رہی جن میں بسنے والے آج امتِ محمد ﷺکا حصہ ہیں۔وہ علاقے جن پر کفر نے پیش رفت کر کے قبضہ کیا، انھیں کبھی بھی تحمل کی بنا پر چھوڑ نہیں دیا گیا، انھیں بالآخر آزاد کروایا گیا، چاہے اس میں دہائیاں ہی کیوں نہ گزر گئیں ہوں۔ کفار کو مستقل پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر کے نئے علاقے اسلام کے لیے کھولے گئے یہاں تک کہ اسلام یورپ کے اندرتک پہنچ گیا۔
اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے بدر کے جذبے سے سرشار ہو کر بدستور اپنے سے بڑی اور زیادہ اسلحے سے لیس افواج کو شکست دی ، تاریخ گواہ ہے کہ رمضان کا مقدس مہینہ مسلمانوں کیلئے فتح کی خوشخبریاں لے کر آتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل پیرا مسلمانوں نے دنیا کے سامنے ثابت کیا کہ فتح صرف اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے اور یہ ان مومنین کے لیے ہے جو شہادت سے اتنی شدت سے محبت رکھتے ہیں جتنی کفار دنیا کی زندگی سے بھی نہیں رکھتے۔
ایک ایسی ریاست کے بغیر جو اللہ سبحانہ وتعالی کے نازل کردہ احکامات سے حکومت کرے،مسلمان ہمیشہ اپنے علاقوں سے دستبرداری ہی کا سامنا کرتے رہیں گے ،چاہے وہ مقبوضہ کشمیر ہو یا فلسطین۔جہاں تک نئے علاقے اسلام کیلئے کھولنے کا تعلق ہے تو اللہ کےاحکامات کو نافذ کرنے والی خلافت کے بغیریہ ایک دیوانے کا خواب ہی لگے گا۔اب یہ صرف ایک فرض ہی نہیں بلکہ وقت کی ضرورت بھی ہے کہ نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت کو قائم کیا جائے۔ خلافت کے سائے کے بغیر 100 رمضان ہو چلے، لہٰذا اے مسلمانو! اسے قزم کرو۔اے مسلمانو! اسے قائم کرو تاکہ ہماری افواج میں سے قابل اور خواہش مند اپنی شہادت یا فتح کی چاہت میں اللہ سبحانہ وتعالی کی نصرت کو حاصل کر سکیں۔مسجد الاقصیٰ تمھیں پکار رہی ہے،سرینگر تمھیں پکار رہا ہے،اے مسلمانو! انہیں آزاد کرواؤ۔
﴿وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللَّهِ﴾
"نصرت تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے”(الانفال:10)