اسلام ایک ارفع دین اور مکمل نظام حیات ہے جو معاشرے کو ایک ایسا ضابطہ فراہم کرتا ہے
بسم الله الرحمن الرحيم
سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی (دینار اور درہم)
منیب الرحمٰن
تمام تعریفیں اللہ سبحانہ و تعالی کے لئے ہیں، جس نے انسان کو تخلیق کیا اور قلم کے ذریعے اسے علم سکھایا اور اس کو وہ علم دیا جس سے وہ آگاہ نہ تھا اور درود و سلام ہو سید الانبیاء خاتم النبین ﷺ پر جن کی شفاعت کے ہم سب طلب گار ہیں اور جو ہمارے لئے یوم حشر شفاعت کریں گے ۔ اور سلامتی ہو صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین، صالحین، صدیقین، شہداء، فقہاء مجتہدین اور محدثین پر کہ جنہوں نے اس دین کو بااحسن و خوبی سمجھا اور اسےدوسروں کو سکھایا اور اپنی فہم و فراست، دن رات کی انتھک کوششوں اور محنتوں اور قربانیوں کے ذریعے اس دین کو نسل در نسل منتقل کیا۔
اسلام ایک ارفع دین اور مکمل نظام حیات ہے جو معاشرے کو ایک ایسا ضابطہ فراہم کرتا ہے جس کی روشنی میں ایک فرد یا ایک قوم فکری بلندی کو طے کرتے ہوئے مادی ترقی بھی حاصل کرسکتی ہے ۔ اسلام جمود کا ہرگز قائل نہیں بلکہ ہر قسم کے پیش آمدہ حالات اورمعاملات پر غوروفکر کرکے شرعی نصوص اور قواعد کی روشنی میں احکامات اخذ کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، انسانی زندگی سے متعلق مسائل کا اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہمیں معاشی مسئلہ مرکزی اہمیت کا حامل نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام کے احکامات کو اپنی زندگیوں میں خصوصا معاشی معاملات میں داخل کئے بغیر عالمگیر اقتصادی استحکام کا حصول ناممکن ہے اور اس کے حل کے لئے قرآن و سنت کی رہنمائی میں ایک ایسا عملی نمونہ عوام و خواص کے روبرو پیش کیا جائے جو نہ صرف قابلِ عمل ہو بلکہ ایسا مضبوط اور مستحکم ہو جو تمام ذہنی الجھنوں اور اشکالات کو دور کر دے ۔
حالیہ دور کی ایک بہت بڑی مشکل کاغذی کرنسی کے وجود کو ناگزیر سمجھنا ہے، حالانکہ ہمیشہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ کاغذی کرنسی عالمی معاشی مسائل کو حل کر رہی ہے یا ان میں مزید اضافہ کررہی ہے اور دولت کو ایک مخصوص طبقے کے پاس جمع کر کے غریب کو مزید غریب تر بنا رہی ہے ؟ جب صورتحال ایسی ہی ہے تو اس کا حل کیا ہے ؟ اس کے لئے ہمیںشرع کی طرف رجوع کرنا ہوگا کہ وہ ہمیں معاشرے کو چلانے کے لئے کس قسم کی کرنسی کے استعمال کا پابند قرار دیتی ہے ۔ اس تناظر میں اگر سیرت و تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عہد نبوی ﷺ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے آخری دور تک کاغذی کرنسی کا تصور بالکل نہیں تھا ، بلکہ سونے اور چاندی کے سکے یعنی دینار اور درہم ہی بطور کرنسی استعمال ہوتے رہے اور اس دور کی خوشحالی کی وجہ بھی یہی تھی کہ سونا اور چاندی کے از خود قیمتی ہونے کی وجہ سے اس وقت کی معیشت اور کرنسی کسی بھی بیرونی سہارے کی محتاج نہیں تھی، اس لئے اس وقت کی معیشت نے اپنے بل بوتے پر ترقی کی اور عوام کو معاشی آسودگی فراہم کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو اس فرسودہ نظام کے مقابلے میں اسلام کے بہترین معاشی نظام کی صورت میں امید کی ایک کرن دکھائی جائے کہ کس طرح سونے اور چاندی کی مقدار سے کہیں زائد کاغذی کرنسی کے موجود ہونے کی وجہ سے پائے جانے والے افراطِ زر اور دیگر اقتصادی مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یقینا ًایسا صرف خلافت کے دوبارہ قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے کہ جب کاغذی کرنسی کو بالکل ہی ختم کرکے اس کی جگہ دینار و درہم کو اپنی اصلی ہئیت یعنی سونا اور چاندی کو بطور کرنسی دوبارہ رائج کیا جائے گا تاکہ موجودہ معاشرے کو درپیش معاشی واقتصادی مسائل کا ایک مستحکم اور پائیدار حل عملی طور پر نافذ ہوسکے۔
کاغذی کرنسی :
کاغذی کرنسی اپنے مقبول عام ہونے اور سرکاری ساکھ کی موجودگی کے باوجود از خود حقیقی کرنسی نہیں ۔ کاغذی کرنسی کے اس بین الاقوامی کردار کے باوجود یہ محض ایک مقبول زرمبادلہ کی حیثیت رکھتی ہے جسے ریاستوں اور حکومتوں کی سرپرستی نے مقبول بنا رکھا ہے۔ کاغذی کرنسی کی یہ عالمی صورتحال مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ حالات کے باعث کئی قسم کے خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرنسی کی پشت پر مؤثر ضمانتیں یعنی معدنی کرنسی (سونا/چاندی) نہ ہونے کے باعث اقوام اور ممالک کی اقتصادی صورتحال بہت دِگرگوں ہوچکی ہے، مختلف ممالک کے درمیان کرنسیوں کی شرح تبادلہ بھی ایک مستقل مسئلہ ہے جس نے معاشی اعتبار سے کمزور ممالک کی اقتصادی اور سیاسی صورتحال کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔ مشہور برطانوی ماہر معاشیات John Keynes نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیتی ہے، یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہوجاتے ہیں۔
افراط زر کی وجوہات:
کاغذی کرنسی پہلے تو حکومت کے پاس موجود سونے اور چاندی کی مالیت کے برابر مقدار میں چھاپی جاتی تھی، لیکن 1971 میں Bretton woods معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ایسی کوئی روک ٹوک باقی نہیں رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ کرنسی کنٹرول والے ادارے اور حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کرنسی چھاپنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، لیکن اگر کرنسی زیادہ چھاپی جائے تو افراط زر کی وجہ سے اس کی قدر خود بہ خود کم ہوجاتی ہے، یعنی اس کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح لوگوں کا اور باقی دنیا کا اعتبار اس کرنسی پر کم ہونے لگتا ہے، جو کرنسی چھاپنے والے ادارے یا حکومت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ لوگ اب دوسری کرنسی کی طرف رجوع کرنے لگتے ہیں، اس لئے حکومتیں ایک حد سے زیادہ کرنسی نہیں چھاپ پاتیں لیکن تھوڑی تھوڑی مقدار میں بھی مسلسل کاغذی کرنسی چھپتے رہنے سے اس کرنسی کی قوت خرید کم ہوتی جاتی ہے، اس کے برعکس دھاتی کرنسی کی قدر، وقت کے ساتھ مستحکم رہتی ہے۔ کاغذی کرنسی کا دھوکہ یہ ہے کہ کسی کو اپنی بڑھتی ہوئی غربت کا احساس ہی نہیں ہوتا ، اگر کسی ملازم کی تنخواہ 5 فیصد کم کردی جائے تو اسے شدید اعتراض ہوتا ہے لیکن جب افراط زر کی وجہ سے اس کی تنخواہ کی قوت خرید 10 فیصد کم ہوجاتی ہے تو وہ اتنا اعتراض نہیں کرتا۔ جتنے سالوں میں کسی کی تنخواہ دگنی ہوتی ہے اتنی ہی مدت میں مہنگائی تین گنا ہوچکی ہوتی ہے۔
1947میں پاکستان میں ایک امریکی ڈالر تقریبا1 روپے کا تھا جبکہ سونا 57 روپے تولہ تھا۔ قیمتوں کا بڑھنا کاغذی کرنسی کا لازمی جزو ہے، اوسطاً کاغذی کرنسی میں افراط زر 9.17 فیصد رہاہے ، جبکہ اگر کسی ملک میں افراط زر کسی سال 4-5 فیصد ہو تو اس کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے ، جبکہ Gold Standard میں حد درجہ افراط زر 1.75 فیصد رہا ہے ورنہ اکثر اوقات تو قیمتیں مستحکم رہی ہیں بلکہ منفی 0.5 فیصد Deflation رہی ہے۔
اگر کرنسی سونا اور چاندی ہو تو افراط زر تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے، سونا اور چاندی پر مبنی کرنسی میں افراط زر صرف اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب اس کی اتنی بڑی مقدار معاشرے میں آجائے کہ ملک کی ضرورت سے زیادہ ہو۔ مثال کے طور پر جب 1849 میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں بڑی تعداد میں سونا رکھنے والی کان دریافت ہوئی تب بھی اگلے 12 سالوں میں امریکہ میں افراط زر کی شرح اوسطاً 1.75 فیصد ہی رہی۔ اس کے برعکس کاغذی کرنسی چھاپ کر حکومتیں اپنی آمدنی تو بڑھالیتی ہیں، لیکن اپنے عوام کو غریب بنادیتی ہیں، اس طرح وہ اپنے عوام سے خفیہ طور پر Inflation Tax وصول کرتی ہیں۔
Bretton Woods Agreement :
دوسری جنگ عظیم تک دنیا بھر کی عوام میں کاغذی کرنسی کا رواج مستحکم ہوچکا تھا ، لیکن مشکل یہ تھی کہ مرکزی بنک آپس میں کس طرح لین دین Business Transactions کریں، کوئی بھی مرکزی بنک کسی دوسرے مرکزی بنک کی چھاپی ہوئی کاغذی کرنسی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور سونے کا مطالبہ کرتا تھا ، اسی مشکل کو حل کرنے کے لئے دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944 میں Bretton Woods, New Hampshire امریکہ کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد کی گئی ، اس کانفرنس کے نتیجے میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ IMF اور World Bank وجود میں آئے ، اس کانفرنس میں 44 اتحادی ممالک کے 730 مندوبین نے شرکت کی تھی۔ جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی کاغذی کرنسی پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے تو وہ بڑے پوشیدہ طریقے سے اس دوسرے ملک کی معیشت ، صنعت ، تجارت اور دولت پر حاوی ہوجاتا ہے ، Bretton Woods System بنانے کا اصل مقصد بھی اسی طرح سے دنیا بھر پر امریکہ کی حکمرانی قائم کرنا تھا ۔
اس کانفرنس کے انعقاد کے وقت دنیا بھر کے مرکزی بنکوں کے پاس موجود کل سونے کا دو تہائی حصہ امریکہ کے پاس تھا ، اس کانفرنس کے دوران Gold convertible exchange طے کیا گیا جس سے مراد یہ تھاکہ امریکی ڈالر ووں سے جتنا چاہیں سونا خریدا جا سکتا ہے، اس لئے اس exchange سے ڈالر ہی مراد لیا جائے۔ اسی معاہدے کے مطابق 35 امریکی ڈالر ایک اونس سونے کے برابر طے پائے تھے اور امریکہ 35 ڈالر کے عوض اتنا سونا دینے کا پابند تھا،دنیا کی دیگر کرنسیوں کی قیمت امریکی ڈالر کےحساب سے طے ہونی تھی، یوں اس معاہدے میں بڑی چالاکی سے سونے اور چاندی کے بجائے ڈالر کو کرنسی کا معیار مقرر کیا گیا۔
ڈالر کی حاکمیت کا آغاز :
اس معاہدے کے بعد دوسرے ممالک اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر سے ایک مقررہ نسبت پر رکھنے پر مجبور ہوگئے چاہے اس کے لئے انہیں ڈالر خریدنے پڑیں یا بیچنے پڑیں، اس اسکیم کی خاص بات یہ تھی کہ اب دنیا بھر میں کاغذی ڈالر گردش کرنے لگا، پس جو کچھ فوجی طاقت سے حاصل کیا جاتا تھا اب وہ سب کچھ شرح تبادلہ سے حاصل ہونے لگا ۔
اس معاہدے نے غلامی کی ایک نئی قسم کی بنیاد رکھی جو پہلے سونے کی کرنسی کے دور میں ممکن نہ تھی ، اس نئی قسم کی غلامی میں براہِ راست انسان غلام نہیں ہوتے بلکہ ان کی کرنسی غلام ہوتی ہے اور جب کرنسی غلام ہوتی ہے تو پوری معیشت غلام ہوتی ہے ، قابل تخلیق کرنسی اپنے تخلیق کنندہ کی غلام ہوتی ہے لیکن سونے اور چاندی کی کرنسی کبھی غلام نہیں بن سکتی ، Bretton Woods کے معاہدے نے پوری دنیا کو امریکی حکومت کا معاشی غلام بنادیا۔
مغربی ممالک نے جو اپنی نو آبادیاں کھونے والے تھے، Bretton Woods کانفرنس میں ایسے ادارتی انتظامات کئے کہ نئے ابھرنے والے ممالک پر ان کی حاکمیت اور استحصال جاری رہے، تیسری دنیا کے ممالک نہ اس کانفرس کی مشاورت میں حصہ دار تھے نہ ہی نتائج سے کوئی فائدہ حاصل کر سکے، اس کے بجائے انہیں بہت کچھ کھو کر یہ حوصلہ شکن حقیقت پتہ چلی کہ یہ نظام تو ان کے ہی خلاف بنایا گیا تھا اور یہ بات یقینی بنادی گئی تھی کہ وہ ہمیشہ استعماری ممالک کے زیر اثر رہیں گے۔
1971 تک امریکہ کے پاس ڈالروں کے عوض دینے کے لیے موجود سونے کی مقدار دنیا کی دو تہائی سے کم ہوکر صرف 22 فیصد رہ گئی تھی جبکہ یورپی ممالک اور جاپان نے تیزی سے سونے کے ذخائر میں اضافہ کرنا شروع کردیا تھا ، سونے کی قیمت بھی 35 ڈالر فی اونس سے بڑھ کر کئی گنا ہو چکی تھی ، کیونکہ امریکہ نے کوریا اور ویتنام جنگ کے دوران بے دریغ نوٹ چھاپے تھے ، اس کے علاوہ ڈالر کی Global liquidity پیدا کرنے کے لئے اور اسے عالمی کرنسی بنانے کے لئے Marshal Plan کے نام پر یورپ کی ترقی اور Communism کے خطرے سے دنیا کو بچانے کے لئے بھی بے دریغ ڈالر چھاپے گئے۔
1971 میں امریکہ اپنے Bretton Woods کے وعدے سے یک طرفہ مکر گیا جسے The Nixon Shock کہتے ہیں، امریکی صدر Richard Nixon نے اعلان کیا کہ اب امریکہ ڈالر کے بدلے سونا نہیں دے گا،اس وقت تک امریکہ کاغذی ڈالر چھاپ چھاپ کر اس کے بدلے عربوں سے اتنا تیل خرید چکا تھا کہ عرب اگر ڈالر کے بدلے سونے کا مطالبہ کردیتے تو امریکہ اپنا پورا سونا دے بھی دیتا تو بھی کام نہ بنتا ، 1971 کے اس امریکی اعلان سے عربوں کے اربوں ڈالر محض کاغذ کے ٹکڑوں میں تبدیل ہوگئے ، دنیا بھر میں ہونے والے اس نقصان کا سارا فائدہ امریکہ کو ہوا۔
Bretton Woods کا معاہدہ ٹوٹنے کے بعد ہر ملک کو اپنی مرضی کے مطابق کاغذی کرنسی چھاپنے کا اختیار مل گیا ، امیر ممالک نے فورا بہت بڑی مقدار میں کاغذی کرنسی چھاپی اور مختلف ترقیاتی منصوبوں کے بہانے غریب ممالک کو قرض دے دیے جسے اب وہ کئی نسلوں تک نہیں اتار سکتے، لیکن اس تمام عرصے میں امریکہ کا کاغذی ڈالر بین الاقوامی کرنسی بن چکا تھا ، امریکہ 1944 میں Bretton Woods کے معاہدے میں جو کچھ حاصل کرنے سے رہ گیا تھا، اس کی کسر اب پوری ہوچکی تھی۔
آقا کرنسی اور غلام کرنسی :
جب ہندوستان پر برطانیہ کا راج تھا تو اگرچہ ہندوستان میں مقامی کرنسی روپیہ ہی تھی ، لیکن یہ Pound Sterling کی غلام تھی، برطانوی حکومت اپنی مرضی سے شرح تبادلہ مقرر کرتی تھی اور ہندوستانی تاجر اسے قبول کرنے پر مجبور تھے، اسی طرح فرانس کے زیر تسلط نوآبادیاں Colonies میں فرنچ فرانک آقا کرنسی کی حیثیت رکھتا تھا۔ Bretton Woods کا معاہدہ درحقیقت اس وقت کے ہندوستانی کرنسی نظام کی عین نقل تھا ، فرق صرف اتنا تھا کہ پاؤنڈ کی جگہ ڈالر نے لے لی تھی اور اب صرف ہندوستان کی بجائے پوری دنیا کا استحصال ہونا تھا ، Bretton Woods معاہدے کے بعد ڈالرآقا کرنسی بن گئی اور ساری دنیا کی کرنسیاں اس کی غلام بن کر رہ گئیں اور بین الاقوامی تجارت میں آقا کرنسی کو ہمیشہ واضح برتری حاصل ہوتی ہے ، آقا کرنسی کو ہی Reserve Currency کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور اسے جاری کرنے والا ملک تجارتی خسارے کے باوجود بھی درآمدات Import جاری رکھ سکتا ہے۔
سونے اور چاندی پر مبنی کرنسی کی طرف واپسی :
کاغذی نوٹوں کے رواج کے بعد سے پوری دنیا شدید معاشی عدم استحکام کا شکار ہوئی ہے، ظاہری طور پر بڑی سے بڑی مستحکم معاشی قوتیں بھی کبھی افراطِ زر کی وجہ سے تو کبھی سودی قرضوں کے بوجھ تلے دب کر اپنا معاشی نظام تباہ کر بیٹھتی ہیں، جس کی واضح مثال 2007-8 میں پوری دنیا میں بنکوں کے دیوالیہ ہونے کا طوفان تھا جس نے یورپ اور امریکہ جیسی بھاری بھر کم معیشتوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پورے نظام کو بدل کر اس کی جگہ اصلی کرنسی یعنی دینار و درہم کو رائج کیا جائےتاکہ اس معاشی عدم استحکام کے خدشے سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے۔
موجودہ کاغذی کرنسی کے مقابلے میں سونا اور چاندی پر مبنی دینار و درہم کے رواج سے نہ صرف پوری دنیا کو اس کے معاشی مسائل سے چھٹکارا مل سکتا ہے بلکہ عالم اسلام اس کے ذریعے عالمی اقتصادیات سے سرمایہ دارانہ نظام اور استعماری ممالک کی اجارہ داری کو ختم کرسکتا ہےجس کی وجہ سے آئے روز استعماری ممالک مسلمان ممالک اور دیگر تیسری دنیا کے ممالک کو قرضے اور امداد کے نام پر اپنے جال میں پھانستے ہیں اور اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے ہیں تاکہ خطے میں اپنے مفادات کو حاصل کرسکیں لیکن سونا اور چاندی پر مبنی کرنسی کے رواج کی صورت میں عالم اسلام نہ صرف معاشی آزادی حاصل کرسکتاہے بلکہ دیگر تیسری دنیا کے ممالک کی بلا سود مدد کرکے اسےاپنا ہمنوا بنا سکتاہے تاکہ وہاں اسلام کی دعوت کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے اور استعماری ممالک کے خلاف ایک مؤثر بلاک تشکیل دیا جاسکے۔
دینار اور درہم کے رواج میں حائل رکاوٹیں اور ان کا حل :
مغرب نے آزادی ملکیت کی تصور کی آڑ میں لوگوں میں یہ احساس بٹھا دیا ہے کہ وہ پہلی قوموں کے مقابلے میں زیادہ آزاد اور خودمختار ہیں مگردرحقیقت ان کی آزادی پہلی قوموں سے بھی زیادہ حد تک سلب کر لی گئی ہیں اور سب کو روبوٹ کی طرح ایک عالمی سرمایہ دارانہ سیاسی اور اقتصادی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے ، مغرب کا آزادی کا تصور صرف اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک حکمران طبقے کا مالی مفاد بیچ میں نہ آئے اس کے برعکس اسلام میں زندگی کا مقصد اللہ تعالی کی غلامی اور بندگی میں ہے اور اعمال کو شرعی احکامات میں مقید کیا گیا ہے، ان تمام حقائق کے تناظر میں جو ہم نے بیان کئے اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ جب کہ مسلمان معاشروں میں موجود نظام کا بگاڑ اور فساد مزید واضح ہو تا جارہا ہے جس کی وجہ امت مسلمہ میں بڑھتا ہوا شعور اور بیداری ہے لیکن اس کے باوجود بد قسمتی سے آج بھی ہمارے معاشرے میں ایک چھوٹا سا مخصوص طبقہ موجود ہے جو اگرچہ مزید سکڑتا چلا جارہا ہے لیکن بہرحال وہ حکمران اور اشرافیہ طبقے سے بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق رکھتا ہے جو مغربی نظام کی چمک دمک سے مغلوب اور مرعوب ہے اور مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے ہر پہلو میں کوئی نہ کوئی اعتراض ، نکتہ چینی اور تنقید برائے تنقید کا موقع ڈھونڈتا رہتا ہے ۔ کاغذ پر مبنی کرنسی کے مقابلے میں سونا اور چاندی پر مبنی کرنسی پر بھی یہ طبقہ اعتراضات اٹھاتا ہے ، ذیل میں ان کے اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا اور ان کی تردید پیش کی جائے گی۔
1: کرنسی بنانے کے لئے دنیا میں سونا بہت کم ہے :
موجودہ نظام کے حامیوں کا مقبول ترین اعتراض یہ ہے کہ دنیا میں سونا اتنا کم ہے کہ اسے کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے جواب کے لئے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سونا کتنا ہے، World Gold Council کے مطابق دنیا میں ہر سال2500 ٹن نیا سونا کانوں سے نکالا جاتا ہے ، ایک اندازے کے مطابق دنیا کی تاریخ میں 1950 تک کل جتنا سونا نکالا گیا ، اتنی ہی مقدار میں سونا 1950 سے لے کر آج تک نکالا جا چکا ہے ، یعنی زمانہ قدیم سے 1950 تک جتنا سونا موجود تھا ، آج اس کا دگنا ہے ، اس وقت دنیا میں کل سونے کی مقدار 170 ہزار ٹن سے زائدہے ۔
دینار اور درہم کے مخالفین اس مقدار کو بہت کم دکھانے کے لئے ایسی مثالیں دیتے ہیں جس سے یہ واقعی بہت کم لگتی ہے مثلا اگر اسی سارے سونے کو اکھٹا کیا جائے تو یہ پیرس میں موجودEiffel Tower سے بھی کم ہوگا ، مگر جب اسی مقدار کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھا جائے تو یہ بات الگ نظر آتی ہے، کہ یہاں سونے کو کرنسی بنانا مقصود ہے اور کرنسی کا بنیادی کام تجارتی لین دین کو نمٹانا ہوتا ہے ، پس ہمیں صرف اتنا سونا درکار ہے جتنا کہ تجارتی معاملات کو سلجھانے کے لئے اور Liquidity برقرار رکھنے کے لئے کافی ہو۔
البتہ جو دنیا کا 5 فیصد امیر ترین طبقہ ہے جن کے معاملات بڑی بڑی رقوم پر مشتمل ہوتے ہیں ، اس کو شاید یہ سونا براہ راست پورا نہ کرسکے مگر یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج کل رقوم کے جو بڑے بڑے معاملات ہوتے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں خود ڈالر اور کاغذی نوٹ بھی موجود نہیں ۔ M0, M1 اور M2 وغیرہ سرمائے کی مختلف قسمیں ہیں ، یہ کسی نہ کسی شکل کا متبادل سرمایہ Money substitutes and derivatives ہوتے ہیں۔ اس میں Stock Exchange کے ذریعے پیسے کو کاغذوں اور کمپیوٹر میں جتنا چاہے بڑھالیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں Digital and derivative currency اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان سب کے کرنسی نوٹ چھاپے جائیں اور ایک دوسرے کے اوپر رکھے جائیں تو یہ چاند تک پہنچ جائیں ۔ اس فرضی اور تصوراتی مال کی علمبرداری کے لئے خود کرنسی نوٹ موجود نہیں تو پھر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ سونا اتنا ہونا چاہئے ، اول تو اسلامی نظام میں یہ سب فرضی مال معرض وجود میں ہی نہیں آسکتا اور جتنا حقیقی مال موجود ہے اس کے لئے سونا کم ہونے کے باوجود کرنسی کی مقدار کو پورا کیا جاسکتا ہے ، یعنی چاندی کے ذریعے۔
کوئی یہاں پر یہ اعتراض بھی اٹھا سکتا ہے کہ یہ جو 170 ہزار ٹن سونا ہے اس میں بہت بڑی مقدار زیورات کی صورت میں موجود ہے ، پس ناقابل استعمال ہے اور ہمیں صرف اس سونے کو دیکھنا چاہئے جو حکومتی تحویل میں ہے۔
اگر اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو دنیا کے صرف Top 20 ممالک میں سونے کے ذخائر تقریبا 30,500 ٹن ہیں یعنی 30 ارب 50 کروڑ گرام سونا حکومتی خزانوں میں اینٹوں کی شکل میں موجود ہے، جس کے اگر دینار بنائے جائیں تو یہ 7 ارب سے زائد دینار تیار ہوسکتے ہیں ۔ مزید برآں اسلام سونے اور چاندی کی کرنسی اپنانے کا حکم دیتا ہے۔ تحقیقی مطالعوں کے مطابق دنیا میں سونے اور چاندی کا تناسب 9:1 ہے یعنی دنیا میں سونے سے نو گنا زیاہ چاندی موجود ہے۔ اور زمین کے اندر سونے اور چاندی کا تناسب 19:1 ہے یعنی کانوں کے اندر سونے کے مقابلے میں 19 گنا زیادہ چاندی موجود ہے۔2011 تک دنیا بھر میں چاندی کے ذخائر 530,000 ٹن تھے یعنی 5 کھرب 30 ارب گرام چاندی موجود ہے اور اگر اس تمام چاندی کے درہم بنائے جائیں جو کہ 2.975 گرام کے وزن کا ہوتا ہے تو تقریبا 2کھرب چاندی کے سکے اور درہم بنائے جاسکتے ہیں ۔ دنیا میں سونے اور چاندی کی کل مقدار دنیا کی کرنسی کی مقدار کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
2: دنیا میں تو سونا کافی ہے لیکن پاکستان میں سونا بہت کم ہے:
پاکستان میں حکومتی ذخائر میں تقریبا 65 ٹن سونا موجود ہے جبکہ عام لوگوں کے پاس کتنا سونا موجود ہے اس کے کوئی اعداد و شمار نہیں ، اگر ہم صرف حکومتی سونے کو ہی اٹھالیں جو کہ 65,000,000 گرام ، 6 کروڑ 50 لاکھ گرام سونا ہے تو اس سے ڈیڑھ کروڑ سے زائد دینار تیار کئے جاسکتے ہیں جس کو اگر پاکستان کی 22 کروڑ عوام میں تقسیم کیا جائے تو ہر فرد کے حصے میں محض 0.07 دینار یعنی 2300 روپے آئیں گے، ویسے تو پاکستان کی آدھی سے زیادہ عوام جو یا تو غریب ہے یا lower middle class طبقے سے تعلق رکھتی ہے کے لئے یہ رقم بھی کافی ہے کیونکہ ان کی روزانہ کی آمدنی اور خرچہ 500، ہزار سے لے کر دو ہزار تک کا ہوتا ہے لیکن بہرحال حقیقی معنوں میں یہ سونا بہت کم ہے۔
لیکن بہرحال یہ 65 ٹن جو کہ 50 کھرب مالیت کا سونا پاکستان میں آنے والی خلافت کو Breathing space اور Grace period دے گا، جس میں یہ خلافت اگر فوری طور پر وسطی ایشیائی مسلم ریاستوں کو ضم کرلیتی ہے تو صرف ازبکستان اور قازقستان کے پاس ملا کر تقریبا 750 ٹن سونا موجود ہے جبکہ ان دونوں ملکوں کی کل آبادی تقریبا ساڑھے 5 کروڑ ہے۔ اسی طرح پاکستان سے قائم ہونے والی خلافت اگر چندمہینوں میں خلیجی ریاستوں کو اپنے اندر ضم کر لیتی ہے تو صرف سعودی عرب کے پاس 323 ٹن سونا موجود ہے جبکہ اس کی کل آبادی ساڑھے 3 کروڑ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خلیجی ریاستوں میں جو کالا سونا یعنی Crude Oil موجود ہے جس کی دنیا کو ضرورت ہے اور ہم سونے کے بدلے اس کی تجارت کر کے اس کمی کو باآسانی پورا کرسکتے ہیں۔
اسی طرح اگر ہم چاندی کی بات کریں تو پاکستان میں چاندی کی پیداوار 3 ٹن سالانہ ہے ، جبکہ چاندی کے ذخائر اور پیداوار کے لحاظ سے سب سے زیادہ مالامال خطہ لاطینی امریکہ ہے ۔ اسلامی علاقوں میں چاندی کے سب سے بڑے ذخائر ترکی میں ہیں جہاں گوموسکو ئی کے مقام پہ دنیا کی ساتویں بڑی چاندی کی کان ہے، اسی طرح الجزائر اور آذربائیجان میں بھی چاندی کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ انشاءاللہ بہت جلد قائم ہونے والی خلافت جو تمام اسلامی علاقوں کو جلد سے جلد سے اپنے اندر سمونے کی کوشش کرے گی اور یہ اس لحاظ سے ہرگز مشکل نہیں کیونکہ پوری امت مسلمہ ایک اسلامی عقیدے کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں ، جن کے افکار اور احساسات و جذبات ایک ہیں اور وہ اپنے اوپر مسلط ان غاضب اور خائن حکمرانوں سے نالاں ہیں اور اسلام کی بنیاد پر تبدیلی کے لئے بالکل تیار ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جس دن بھی کسی بھی اسلامی علاقے سے نبوت کے نقش قدم پر دوبارہ خلافت کا اعلان ہوگا اور خلیفہ راشد کی قیادت میں مسلم افواج کفار سے جہاد کرنا شروع کریں گی اس طرح کہ جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے اور مسلمانوں کو کفار کے تسلط سے آزاد ی دلوائیں گی تو یہ باقی علاقوں کے مسلمانوں میں خلافت کا حصہ بننے کی رائے عامہ کو ہموار کرے گا اور یقیناً خلافت ان علاقوں میں موجود اہل قوت میں موجود مخلس افرادسے رابطہ کرے گی تاکہ عملی اقدام اٹھا کرخائن حکمرانوں کو ہٹا کر ان علاقوں کو بھی جلد از جلد خلافت کا حصہ بنایا جائے ۔
پس جب انشاءاللہ تمام اسلامی علاقے خلافت میں شامل ہوجائیں گے تو سونا اور چاندی تو کیا بلکہ مسلمان زراعت ، صنعت ، تجارت غرض کہ ہر معاملے میں خود کفیل ہوں گے اور یہ کفار ہوں گے جو کہ مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے کیونکہ انہیں ہماری ضرورت ہوگی نہ کہ ہمیں ان کی ضرورت ۔ اور یہ سب کچھ صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ممکن ہے کیونکہ وہی ہے جس کو چاہتا ہے عروج بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے زوال پزیر کرتا ہے ۔
3: سونے اور چاندی کی قیمت Economy کی علمبرداری نہیں کرسکتی:
سونے اور چاندی کے کم ہونے کی دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگر اتنا سونا اور چاندی موجود بھی ہو کہ ہر آدمی کو دے دیا جائے تب بھی Digital and Derivative Currency کے علاوہ دنیا کی Economy ٹھوس حیثیت میں بھی اتنی بڑی ہے کہ سونا اور چاندی اس کی علمبرداری نہیں کرسکتا ، یہاں اعتراض سونے اور چاندی کی مادی مقدار پر نہیں بلکہ قوتِ خرید پر ہے۔ مثال کے طور پرفرض کریں کہ ایک معیشت میں دس افراد ہیں جو ہر روز ایک روپے کی ایک روٹی خریدتے ہیں تو انہیں ہر روز ایک روپے کے دس نوٹ درکار ہوں گے تاکہ یہ خرید و فروخت جاری رہ سکے، اب اگر معیشت میں کرنسی کی مقدار دس روپے ہی رہے اور ایک ایک روٹی خریدنے والے افراد کی تعداد بڑھ کر ایک ہزار ہوجائے تو اب یہ دس روپے اس خرید و فروخت کو نہیں چلا سکیں گے، یوں کرنسی کی قلت معیشت میں پریشانی کا باعث بنے گی اور روز مرہ کی زندگی مفلوج ہوجائے گی کیونکہ سرمایہ دارانہ معاشیات کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کرنسی کی فراہمی معاشرے میں تجارتی سرگرمی کے حساب سے ہونی چاہئے ۔
مگر اس نکتہ نظر میں ہی اس کی تردید چھپی ہے اور وہ یہ کہ جب سونا اور چاندی کرنسی کے طور پر رائج ہوگا تو پھر اس کی کوئی قیمت نہیں ہوگی جیسے آج کل اشیاء صرف کے طور پر دھاتوں کی قیمت ہوتی ہے، فرض کیا جائے کہ ایک روٹی کی قیمت ایک روپیہ ہے ، مگر ایک روپے کی اپنی کیا قیمت ہے ؟ جی ہاں ، دراصل کرنسی کے پیمانے سے دوسری چیزوں کی قیمت لگائی جاتی ہے کیونکہ وہ خود ہی قیمت کے تعین کا ایک پیمانہ ہوتی ہے۔ کرنسی کی اپنی قیمت کی جگہ اس کی قوت خرید کا ایک تصور ہوتا ہے یا پھر دوسری کرنسیوں، کی نسبت اس کی شرح مبادلہ اور شرح مبادلہ بھی اس لئے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ یہ بتاتی ہے کہ تبدیل کی جانے والی کرنسی سے آپ اس نئی کرنسی سے کسی معاشرے سے کیا کچھ خرید سکتے ہیں یعنی یہاں بھی اصل چیز قوت ِخرید ہی ہے ۔
معاشرے میں اشیاء کی قیمت ان کی طلب و رسد یعنی Supply and Demand کے تحت ہوتی ہے ، کرنسی کا کام صرف پیمائش کا ہے ، روٹی بنانے والا اپنی روٹی کی قیمت اس لحاظ سے مقرر کرتا ہے کہ وہ اس معاشرے سے ان روٹیوں کے بدلے کیا لینا چاہ رہا ہے ، اس روٹی کا روپے کے نوٹ سے یا ایک کے ہندسے سے بذات خود کوئی رشتہ نہیں۔ ضروری نہیں کہ روٹی ہمیشہ ایک روپے ہی کی ہو، وہ ایک پیسے کی بھی ہوسکتی ہے اور ایک ہزار روپے کی بھی جو صرف اس بات پر منحصر ہے کہ معاشرے میں اس وقت ایک پیسے یا ایک ہزار روپے کی قوت خرید اتنی ہی ہے جتنا کہ روٹی والا معاشرے کو روٹی فراہم کرنے کی اجرت چاہتا ہے۔
اوپر مثال میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر معاشرے میں دس روپے ہوں اور دس لوگ ہوں تو کام چل سکتا ہے اور اگر ہزار لوگ بھی آجائیں تو کوئی مشکل نہیں کیونکہ اشیاء کی قیمت کم کر کے یہ خرید و فروخت کی جاسکتی ہے، اصل مشکل یہ ہے کہ دس روپے ایک ایک روپے کی شکل میں ہیں اور اس معاشرے میں ایک روپیہ پھر بہت بڑی قیمت کا نوٹ بن جائے گا جو روز مرہ خرید و فروخت کے لئے قابل استعمال نہیں رہے گا لیکن اگر اسی ایک روپے کو ایک ایک پیسے کے چھوٹے چھوٹے نوٹوں میں تبدیل کر لیا جائے تو ایسے ہزار نوٹ بن سکتے ہیں اور پھر وہی دس روپے ان ہزار لوگوں پر مشتمل معیشت میں بھی فعال کرنسی کا کام دے سکیں گے۔
دنیا میں موجود سونا اور چاندی یا پاکستان میں موجود سونے اور چاندی کی مقدار کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ دنیا کی یا پاکستان کی معیشت کتنی بڑی ہے ، سونے اور چاندی کی قیمت ہر حجم کی معیشت کی علمبرداری کرسکتی ہے ، رہی بات سونے اور چاندی کو اتنے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کی کہ روز مرہ زندگی چل سکے، اس کے بہت سے طریقے ہیں ، مثلا چھوٹی خرید و فروخت کے لئے نصف اور چوتھائی دینار، چاندی کے درہم اور تانبے کے فلوس جس میں معمولی مقدار کا سونا یا چاندی جیسے0 1 ملی گرام سونا یا چاندی اور 990 ملی گرام تانبا شامل ہو ، کے سکے بنائے جا سکتے ہیں۔
سو یہ بات طے ہے کہ موجودہ سونے اور چاندی کے ذخائر سے معیشت کی علمبرداری کی جاسکتی ہے یعنی پاکستان میں قائم ہونے والی خلافت اگر کسی وجہ سے کچھ مہینوں کے اندر وسطی ایشیائی اور خلیجی ریاستوں کو ضم نہ کرسکی تو بھی پاکستان میں موجود سونے اور چاندی کے ذخائر سے پاکستان کی معیشت باآسانی چلائی جاسکتی ہے، فرق صرف اتنا ہوگا کہ 10 گنا Deflation ہوجائےگی یعنی 10 روپے کا نوٹ 1 روپے کا ہوجائے گا اور 5000 روپے کا نوٹ 500 روپے کا ہوجائے گا ، یعنی آج اگر ایک روٹی 10 روپے کی ہے تو Gold and silver Standard میں اس کی قیمت 1 روپے ہوجائے گی اور اسی طرح اجرتوں کا تعین بھی ہوجائے گا یعنی آج اگر ایک شخص کی اجرت 1 لاکھ روپے ہے تو Gold and silver Standard میں اس کی اجرت 10 ہزار روپے ہوجائے گی۔
4: دینار اور درہم کو اپنے لئے سونے اور چاندی کی قدر بڑھانی پڑے گی:
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ دس روپے دس روٹیوں کی علمبرداری بھی کرسکتے ہیں اور ہزار روٹیوں کی بھی ، مگر دوسری صورت میں ان دس روپوں کی قدر یا قوت خرید بہت بڑھ جائے گی ، اگر سونے اور چاندی کو بطور کرنسی بنادیا گیا تو پھر سونے اور چاندی کی قدر اپنی موجودہ قدر سے بہت بڑھ جائے گی پس اگلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے جن کے پاس اس وقت سونا اور چاندی موجود ہے ان کو زبردست فائدہ پہنچے گا ۔
اس اعتراض کا آسان جواب یہ ہے کہ ایسا ہو نہیں جائے گا بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے، یعنی سونے اور چاندی کی اصل قدر ہمیشہ سے اپنی ظاہری قدر سے بہت زیادہ ہے ، کرنسی بنانے کے لئے اس کی قدر بڑھانی نہیں پڑے گی بلکہ اس کی ظاہری قدر کو اس کی اصل قدر سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا ، یعنی اگر ہم اس کی وضاحت کریں تو Manhattan, New York میں موجود Federal Reserve کا تصور کیجئے کہ جس کے نیچے سونے کے ڈھیررکھے ہیں جس کے متعلق دنیا کے تیسرے امیر ترین فرد Warren Buffet نے کہا تھا کہ
Gold gets dug out of the ground in Africa or someplace, then we melt it down, dig another hole, bury it again and pay people to stand around guarding it, It has no utility. Anyone watching from Mars would be scratching their head.
سونا افریقہ یا کسی اور جگہ سے نکلتا ہے ، پھر ہم اسے پگھلاتے ہیں ، دوسرا گھڑا کھودتے ہیں ، اسے دوبارہ د دبا دیتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لئے چوکیدار رکھتے ہیں ، یہ کوئی فائدہ مند بات نہیں ، کوئی ہمیں مریخ سے دیکھ رہا ہو تو وہ اپنا سر کھجائے گا کہ یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان ازل سے سونے اور چاندی کے سحر میں مبتلا ہے اور آج بھی وہ لوگ جو بظاہر سونے اور چاندی کی کرنسی کے خلاف ہیں ان کو سونا اتنا عزیز ہے کہ اس کے ڈھیرلگا کر اس کے اوپر بیٹھے ہیں، بظاہر سونے کے Monetary role کے ختم ہوجانے کے باوجود اگرچہ صرف لکھنے کی حد تک ہی سہی مگر آج بھی سونا ہر قسم کی کرنسی کی بنیاد ہے۔
GDP کے لحاظ سے امیر ترین ممالک میں سے پانچ ایسے ہیں جن کے مرکزی بنکوں کے Forex Reserve میں سونے کی شرح 70 فیصد سے بھی زیادہ ہے ، خود امریکہ دنیا کے سب سے بڑے سونے کے ذخیرے کا مالک ہے اور IMF جس کے ممبر بننے کے معاہدے میں سونے کو اپنی کرنسی بنانے کی ممانعت ہے، اسی IMFنے خود سونے کے ذخیرے اکٹھے کر رکھے ہیں، پس استعمار کی طرف سے سونے کو دی جانے والی اہمیت ان کی ذخیرہ اندوزی سے عیاں ہے۔
سونے کی قیمت کرنسی کی قیمت جانچنے کا بہترین آلہ ہے، اگر سونے کی قیمت چڑھتی جائے اور افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی قوت خرید گرتی جائے تو پھر عوام کرنسی کی بجائے سونے کو اپنانا شروع کردیتے ہیں۔ اول تو سونے کی تاریخی مالیاتی کردار کو کوئی حکومت پروپیگنڈااور منفی تشہیر سے ختم نہیں کر سکتی اور دوسرا سونا ایک عوامی شئے ہے سو عوام جب چاہیں اسے مارکیٹ سے خرید سکتے ہیں، یہ دونوں باتیں حکومتوں پر بہت گراں گزرتی ہیں کیونکہ جب بھی عوام کا بھروسہ کاغذی کرنسی اور بانڈز مارکیٹ سے اٹھنے لگتا ہے تو وہ سونا خریدنے لگتے ہیں ۔ عوام کے اس طرح حکومتی کرنسی ترک کرنے سے اس کرنسی میں مزید کمزوری واضح ہوتی ہے، یوں حکومت کے لئے نقصان ہوسکتا ہے جس میں کرنسی پر بھروسہ بالکل ناپید ہوسکتا ہے یا بانڈز مارکیٹ تباہ ہوسکتی ہیں اور پورا کاغذی کرنسی کا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ اس لئے حکومتوں کی کوشش رہتی ہے کہ عوام کو سونا خریدنے سے روکا جائے ، پرانے زمانے میں جب حکومتیں زیادہ جبری طاقت رکھتی تھیں اور عوام میں آج کی Information age جیسا شعور نہیں تھا تو حکومتیں یہ کام جبری طور پر بھی کرلیتی تھیں ۔ البتہ آج کل یہ شاید کچھ مشکل ہو لہذا اب انہوں نے اس کا دوسرا طریقہ یہ نکالا ہے کہ عوام سےسونا لینے کے بجائے عوام میں خود ہی اس کے بے وقعت ہونے کا احساس پیدا کردیا جائے اور اسی لئے حکومتیں سونے کی قیمت گرانے یا کم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں ، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر کاغذی کرنسی سونے کا مقابلہ نہ کرسکے گی اور ان کا پورا نظام دھرے کا دھرا رہ جائے گا ، پس سونے کی قیمتیں گرانا مرکزی بنکوں اور استعماری حکومتوں کی ایک مستقل غیر سرکاری پالیسی رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سونا کی بطور شئے آج بھی قیمت کہیں زیادہ ہے لیکن مصنوعی طریقوں سے اس کی قیمت کو کم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ کاغذی کرنسی کے نظام کو سہارا مل سکے تو جب یہی سونا بطور کرنسی اپنی اصل فطری قیمت پر لوٹے گا تو پوری دنیا کی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے اور اس کی علمبرداری بھی کرسکتا ہے۔
5: Gold and silver Standard سے Deflation ہوجائے گی جو معیشت کے لئے مضر ہے :
یہ طے ہے کہ اشیاء کا قیمتوں کے ساتھ کوئی اندرونی تعلق نہیں بلکہ محض رسمی تعلق ہوتا ہے جسے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور مزید یہ کہ سونا اور چاندی اپنی اصلی فطری قدر پر لوٹ کر اشیاء کے ساتھ اس نئی قیمت کا تعلق قائم کرسکتا ہے ، اب اس کی روشنی میں ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے کہ اول تو سونے اور چاندی کو کرنسی بنانے سے یکدم بہت Deflation ہوجائے گی یعنی اشیاء کی قیمتیں سونے اور چاندی کی نسبت گرجائیں گی اور دوم یہ کہ Deflation مستقل بنیادوں پر معیشت کا حصہ بن جائے گی جو کہ ایک بہت بری چیز ہے۔
اس کے جواب میں سب سے پہلے تو اس بات میں فرق کیجئے کہ منزل اور اس تک پہنچنے کا راستہ دو مختلف چیزیں ہیں ، مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے لئے مکہ کے تلخ مرحلے سے گزرنا پڑا، مگر اس مقصد کو اس لئے ترک نہیں کردیاگیا کہ اس کا حصول مشکل تھا بلکہ مقصد کی طرف سفر جاری رہا کیونکہ مقصد بذات خود حکم شرعی کے اعتبار سے فرض تھا ۔
سونے اور چاندی کی کرنسی کے فوائد مجموعی طور پر اس وقت حاصل ہونگے جب معاشرے میں یہ کرنسی رائج ہوگی ، اس سے پہلے کاغذی کرنسی کو حذف کرنے میں جو مشکلات آئیں گی ، وہ مقصد کی اہمیت کو ختم نہیں کرسکتیں، ان میں سے ایک مشکل یہ ہے کہ کاغذی کرنسی اپنے قدم جماچکی ہے اور اس میں بے جا اور مصنوعی پھیلاؤ کی وجہ سے معاشرہ افراط زر اور مہنگائی میں جکڑگیا ہے۔ جب عوام سونے اور چاندی کو اختیار کرے گی تو سونے اور چاندی کی قیمت اپنی اصل کی طرف واپس جانے کی وجہ سے مہنگائی کم ہوگی اور قیمتیں گریں گی ، یہ تو کوئی اتنی بری چیز نہیں کیونکہ اس سے عوام کو فائدہ پہنچے گا ۔
اقتصادی لحاظ سے ایک اور سوال زیادہ اہم ہے کہ سونے اور چاندی کو کرنسی کی بنیاد رکھنے سے معاشرہ مستقل بنیادوں پر ایک ہلکی سی Deflation کا شکار رہے گا کیونکہ کرنسی کی مقدار اتنی ہی رہے گی یا بہت آہستہ بڑھے گی جبکہ اشیاء اور خدمات تیزی سے بڑھتی چلی جائیں گی۔
دراصل یہ بات ہی باطل اور فاسد ہے اور سرمایہ دارانہ سوچ کا مظہر ہے کہ مسلسل ایسی ہلکی سی Deflation بھی معیشت کے لئے مضر ہے۔
Deflation کی پہلی صورت ہے پیسے کا کسی علاقے سے کوچ کرجانا مگر اس کی وجہ ہمیشہ بیرونی ہوتی ہے مثلا کوئی قدرتی آفت یا پھر جنگی یا خانہ جنگی کے حالات جو کہ لوگوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیتی ہے، یہ عمل فوری ہوتا ہے اور معاشرہ اپنے آپ کو ایک دم Capital اور کرنسی سے محروم پاتا ہے ۔ اہم بات یہ کہ ایسا کبھی بھی کرنسی کی نوعیت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ غیر اقتصادی عوامل مثلا سیاسی یا قدرتی حالات کی وجہ سے ہوتا ہے، ایسا نہ ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا اور اگر ایسا ہو تو دینار و درہم اور کاغذی کرنسی دونوں کے نظام میں ہوسکتا ہے ، لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر ایسے حالات پیش آئیں تو کاغذی کرنسی ان سے مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ لچک رکھتی ہے مگر ایسا نہیں ہے۔
بسا اوقات فوری طور پر دولت کی کمی واقع ہونے کی صورت میں معاشرہ از خود اس کا کوئی حل نکال لیتا ہے کیونکہ تجارت ایک فطری ضرورت ہے اور پانی کی طرح اپنا راستہ خو دبنالیتی ہے اور سونا اور چاندی یا کاغذی کرنسی خصوصی طور پر اس کو سہل یا مشکل بنانے میں کردار ادا نہیں کرتی جیسا کہ ہمیں تاریخ میں نظر آتا ہے کہ اگر کسی علاقے میں سونا اور چاندی دونوں ناپید ہوجائیں تو لوگ Barter کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں، سو اس نوعیت کی Deflation بظاہر مضر ہونے کے باوجود سونے اور چاندی کو اپنانے سے پیدا نہیں ہوگی لہذا یہ نکتہ دینارو درہم کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
Deflation کی دوسری صورت وہ ہے جو دینار و درہم کو اپنانے سے واقعی پیدا ہوسکتی ہے اور فائدہ مند بھی ہوگی مثلاً اگر میرے پاس ایک درہم ہے اور میں اس سے ایک درجن انڈے خرید سکتا ہوں تو جب انڈوں کی قیمت گرے گی اور میں ایک درہم سے دو درجن انڈے خرید سکوں گا تو یہ صورت فائدہ مند ہوگی۔ انڈوں کی قیمت کم ہونے کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ، ایک وہ منفی وجہ جس کا اوپر ذکر کیا گیا یعنی معاشرے سے Capital کم ہوجائے اور گاہک بھی کم ہوجائیں جس کی وجہ سے بیچنے والے کو اپنی آمدن جاری رکھنے کے لئے انڈوں کی قیمت کم کرنی پڑے گی، یہ منفی صورت ہے اور اور اس کی وجہ ہمیشہ خارجی اثرات ہوتے ہیں۔
قیمتیں کم ہونے کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ معاشرے میں سائنسی ترقی اور بہتر نظم و نسق Good Governance and Administration کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ پولٹری فارم کھلیں اور ذرائع پیداوار میں اضافے سے ایسا ہوجائے کیونکہ ایسا ہونے سے مصنوعات اور خدمات کی فراہمی میں اضافہ ہوتا ہے اور اشیاء کی قیمت کم ہوجاتی ہے یعنی معاشرے میں زیادہ سے زیادہ لوگ ان چیزوں کو خریدنے کی استطاعت حاصل کرلیتے ہیں یعنی ہر شخص کی قوت خرید بڑھ جائے اور وہ اچھی سے اچھی اشیاء حاصل کرسکے ، اس کی ایک مثال ہمیں کمپیوٹر یا موبائیل فون کی مارکیٹ میں ملتی ہے ، شروع میں کمپیوٹر بہت مہنگے تھے مگر سائنسی ترقی کی وجہ سے اب ہر کوئی کمپیوٹر خرید سکتا ہے ، اسی طرح کوئی نیا موبائیل فون بھی جب جدید خصوصیات کے ساتھ متعارف کروایا جاتا ہے تو مہنگا ہوتا ہے مگر بعد میں دیگر کمپنیاں بھی مقابلے میں ویسے یا اس سے بہتر Product بناکر قیمتیں گرادیتی ہیں، سائنسی ترقی اور مارکیٹ میں مقابلہ اشیاء کو قابل رسائی بنادیتا ہے اور ان کے معیار میں بھی اضافہ کردیتا ہے ، ایسی Deflation یا قیمتوں میں کمی ہر لحاظ سے ایک مثبت عمل ہے۔
تو پھر سرمایہ دارانہ معاشی ماہرین کیوں اس کے اتنے خلاف ہیں ؟َ اس کی وجہ ان کا یہ گمان ہے کہ Deflation سے معیشت تباہ ہوجاتی ہے اور کاروبار دیوالیہ ہوجاتے ہیں مگر اہم بات یہ ہے کہ اس کا اطلاق صرف ان کے سودی نظام میں ہوتا ہے ، Deflation کا یہ خوف دینار اور درہم پر اعتراض کرنے والوں کا اہم نکتہ ہے اور اس نکتے کو سمجھنے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
فرض کریں کہ میں نے بنک سے لاکھ روپے قرض لے کر فرنیچر کے کاروبار میں لگایا ، بنک نے شرط رکھی کہ میں بنک کو 3000 روپے ماہانہ لوٹاؤں گا جس میں سے 2000 روپے قرض کی اصل رقم ہوگی اور 1000 روپے سود ہوگا ۔ اگر میری آمدن بھی 3000 روپے ہی ہے اور میں ہر روز ایک کرسی 100 روپے کی بیچ دیتا ہوں تو میرا کاروبار آسانی سے چلتا رہے گا کیونکہ بنک کو اصل رقم اور منافع (سود) مل رہا ہے۔ اب اگر معاشرے میں Deflation کا دباؤ پڑے اور میں یہ دیکھوں کہ لوگ کرسی نہیں خرید رہے تو مجھے قیمت کم کرکے 50 روپے کی کرنی پڑے گی ، یوں کہنے کو تو مجھے نقصان ہوا یعنی میری آمدنی صرف 1500 روپے رہ گئی مگر کیونکہ یہ Deflation پورے معاشرے میں لاگو ہوتی ہے ، سو باقی چیزیں بھی سستی ہوگئیں اور میں اب بھی اتنی ہی اچھی زندگی گزارسکتا ہوں ، میرا کاروبار کاغذوں میں تو کم ہوگیا مگر حقیقت میں شاید میں اور زیادہ خوشحال ہوجاؤں کیونکہ میں اس کم آمدن سے بھی زیادہ خرید سکوں گا ، مگر بنک کے قرض اور سود لوٹانے کے لحاظ سے یہ صورت مضر ہے کیونکہ اگر میری آمدن 1500 روپے ہوگئی تو میں اپنے بنک کو سود تو کیا قرض کی اصل رقم ادا کرنے سے بھی قاصر ہوجاؤں گا اور بنک میرا کاروبار دیوالیہ کردے گا ، یہی وجہ ہے کہ سودی نظام خصوصی طور پر Deflation کو اتنا مضر گردانتا ہے کیونکہ اس کا تمام نکتہ نظر اپنے قرض اور اس کے سود کی واپسی پر ہوتا ہے۔
بنک کے قرض کے علاوہ اس کو کاروباری سطح پر بھی دیکھ لیں ، اگر میں لکڑی 60 روپے کی خریدتا ہوں اور کرسی بنا کر کسی کو 100 روپے کی بیچتا ہوں تو میرا کاروبار چل سکتا ہے مگر جب کرسی کی قیمت گر کر 50 روپے ہوجائے گی تو پھر مجھے نقصان ہی نقصان ہے اور مجھے کاروبار بند کرنا پڑے گا لیکن جب کرسی 50 روپے کی ہوئی تو لکڑی بھی تو 30 روپے کی ہوجائے گی یعنی نقصان صرف ایک بار ہوگا اور کاروبار میں ایسے یکبارگی نفع و نقصان کی کیفیت Deflation اور Inflation دونوں صورتوں میں یکساں طور پر پیدا ہوسکتی ہے ، اگر معاملہ ہمیشہ ایسا ہی رہا یعنی کرسی بنانے کے عمل کے دوران کرسیوں کی قیمت ہمیشہ گرتی چلی گئی تو پھر یہ صورت خارجی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ سائنسی ترقی سے پیدا ہونے والی Deflation اتنی شدید اور فوری نہیں ہوتی اور اگر کسی ایک شعبے میں ایسا ہو بھی گیا تو معاشیات کے اصول اس کا ازالہ کرلیں گے مثلا اگر کوئی کرسیاں بنانے والا دیوالیہ ہوجائے گا تو کرسیاں بنانے والوں کے فقدان کے باوجود کرسیوں کی مانگ میں تسلسل کی وجہ سے ان کی قیمتیں دوبارہ چڑھ جائیں گی یہاں تک کہ یہ کاروبار دوبارہ فائدہ مند ہوجائے گا ۔
Deflation کی اس دوسری صورت میں معاشرہ سائنسی ترقی ، بہتر نظم و نسق اور آبادی میں اضافہ کی وجہ سے زیادہ مصنوعات اور خدمات تخلیق کرلیتا ہے مگر کرنسی کی مقدار قدرتی یا معدنی وسائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اتنی ہی رہتی ہے یا ان مصنوعات اور خدمات کی مطا بقت میں نہیں بڑھتی ، اس وجہ سے معاشرہ رفتہ رفتہ Deflation کی طرف بڑھتا ہے اور کرنسی کی قوت خرید زیادہ ہوتی جاتی ہے ، یہ ایک سست رفتار عمل ہے جو سوائے سودی بنکاری کے بذات خود معاشرے کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ قوت خرید میں اضافے کی وجہ سے عام آدمی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ طویل المعیاد نکتہ نظر سے کرنسی میں اضافہ کرنے کی بھی کوئی صورت ہونی چاہئے تاکہ قیمتوں میں کچھ توازن کی کیفیت بھی برقرار رہے اور معیشت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ کرنسی میں اضافے کی گنجائش بھی نکلے ۔ بعض حالات میں کرنسی میں اضافہ مفید بھی ہوسکتا ہے مثلا جب آبادی یا معیشت تیزی سے بڑھیں لیکن اس کا واحد حل جس کی شرع ہمیں اجازت دیتی ہے کہ زمین سے مزید سونا اور چاندی نکلتا رہے اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں Rekodiqکے مقام پر دنیا کے پانچویں بڑے سونے کے ذخائر موجود ہیں جبکہ باقی اسلامی علاقوں میں بھی عمومی طور پر وسیع سونے اور چاندی کے ذخائر موجود ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جیسا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا میں وسائل انسانی ضروریات کے لیے کافی ہیں یعنی اللہ تعالی نے موجودہ 7 ارب انسان یا چاہے بڑھ کر 70 ارب انسان بھی ہوجائیں تو ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پوری دنیا میں خزانے مدفون کر رکھےہیں جن کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا حکم ہے کہ اس کی زمین پر پھیل جائیں اور اس کا فضل تلاش کریں اور بے شک وہی بہترین رزق دینے والا ہے۔
6: دینار و درہم ہنگامی حالات میں حکومت کے ہاتھ باندھ دے گا :
کاغذی کرنسی چونکہ آسانی سے تخلیق کی جاسکتی ہے اس لئے حکومتوں کو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہنگامی حالات میں جتنی چاہیں کرنسی چھاپ کر مشکل وقت میں گزار ا کر لیتی ہیں ، دینار و درہم کے نظام پر یہ اعتراض بھی ہے کہ اگر ملک حالت جنگ میں آجائے یا کوئی قدرتی آفت آجائے اور حکومت کو زیادہ رقم کی ضرورت ہو تو دینار و درہم کے نظام میں اس کے ہاتھ بندھ جائیں گے جبکہ کاغذی کرنسی کے نظام میں وہ فورا نوٹ چھاپ کر حالات کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
آئیں دونوں صورتحال کو باری باری دیکھتے ہیں۔
جنگ عظیمِ اول میں چار کروڑ افراد قتل ہوئے جبکہ جنگ عظیم دوئم میں 6 کروڑ افراد قتل ہوئے ، معیشت کا نقصان اور باقی آبادی پر اس کے اثرات اس کے علاوہ ،اس زمانے میں اس تعداد کا اندازہ یوں لگائیں کہ دنیا کے ڈھائی فیصد لوگ اس جنگ کی وجہ سے قتل ہوگئے ۔ ان عظیم جنگوں کو جاری رکھنے کے لئے ریاستوں کو کثیر رقم کی ضرورت تھی جس کے لئے انہوں نے بے دریغ نوٹ چھاپے ، معاشیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر نوٹ چھاپنے کی یہ قوت موجود نہ ہوتی تو ریاستیں بہت پہلے جنگ بندی کرکے اس جنونی معرکے سے دست بردار ہوجاتیں ، اس کی ایک مثال موجودہ دور میں امریکہ کی اسرائیل کو امداد یا افغانستان و عراق کی جنگیں ہیں ، اگر ان جنگوں کو جاری رکھنے کے اخراجات براہ راست امریکی شہریوں کو ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا ہوتا جس سے ان کے معیار زندگی میں واضح فرق پڑتا تو ان جنگوں کا ختم ہونا تو دور کی بات ، امریکہ کبھی افغانستان و عراق میں داخل ہی نہیں ہوتا مگر چونکہ استعمار اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے عوام کو بے خبر رکھ کر نوٹ چھاپ چھاپ کر اپنا کام چلا لیتے ہیں اور عوام اس بالواسطہ ٹیکس کے ذریعے اپنی حکومتوں کی حمایت اس طرح کرتے ہیں کہ انہیں اس کے محرکات کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ اس کے برعکس جب نبی کریم ﷺ کو غزوا ت کے لئے سامان حرب کی ضرورت پڑی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو حکم دیا تو کوئی عاشقِ رسول اپنے گھر کا آدھا سامان لے آیا تو کوئی اپنے گھر والوں کے لئے اللہ اور رسول ﷺ کا نام چھوڑ کر سب کچھ لے آیا تو خلیفہ آج شرعی محاصل، ریاستی فیکٹریوں کے منافع اور عوامی ملکیت کے حمیٰ کے ذریعے جنگ کے لیے درکار وسائل کا انتظام کر سکتا ہے۔
دوسری صورتحال وہ ہے کہ جس میں اگر قدرتی آفات وقوع پزیر ہوجائے تو حکومت کو فوری ردعمل پیش کرنا ہوتا ہے اور ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے فوری رقم کی ضرورت ہوتی ہے ، ایسے حالات میں بھی سونے اور چاندی کا نظام کوئی دشواری پیدا نہیں کرتا بلکہ محض معاملات کو زیادہ شفافیت اور دیانت سے سلجھانے کا طریقہ دیتا ہے۔ فرض کریں کہ سیلاب یا زلزلہ آگیا اور حکومت کو فورا ایک لاکھ خیمے خریدنے ہیں ، اگر خزانے میں رقم ہے تو چاہے وہ کاغذی کرنسی ہو یا دینار و درہم ، کوئی فرق نہیں پڑتا ، اس صورت میں دونوں کرنسیاں یکساں کارآمد ہیں لیکن دینار و درہم کے مقابلے میں کاغذی کرنسی کا فائدہ صرف اس وقت زیادہ محسوس ہوتا ہے جب خزانے میں رقم نہیں ، اب دینار و درہم تو تخلیق نہیں کئے جاسکتے مگر نوٹ چھپ سکتے ہیں ، اس ظاہری فائدے کو دیکھتے ہوئے لوگ اس کے پس منظر میں ہونے والے عمل کو بھول جاتے ہیں کیونکہ نوٹ دو طرح سے چھپ سکتے ہیں ، ایک خود ہی مشین چلا کر چھاپ لیں دوسرا مارکیٹ میں بانڈز کی نوعیت کی کوئی دستاویز جاری کرکے ، دونوں کے آخر میں آپ خیمے خرید سکیں گے۔
پہلی صورت میں اگر حکومت نے نوٹ خود ہی چھاپ لئے تو یہ ایک چوری ہے جو عوام سے اجتماعی سطح پر کی جارہی ہے جبکہ دوسری صورت جو بانڈز والی ہے اس میں حکومت مارکیٹ سے سود پر قرض لے رہی ہوتی ہے جسے لوٹانا بھی پڑتا ہے ، کاغذی کرنسی اور دینار و درہم کے نظام میں فرق صرف اتنا ہوگا کہ کاغذی کرنسی کا قرض مارکیٹ سے سود پر لیا جاتا ہےجبکہ دینار و درہم کا قرض بغیر سود کے لیا جائے گا۔ یہ قرض دینے والے عام عوام بھی ہوسکتے ہیں اور مخیر حضرات بھی ، یہاں تک کہ خیموں کے تاجروں سے بھی قرض پر خیمے خریدے جاسکتے ہیں۔
آخر میں بات صرف اس پورے عمل میں درکار وقت کی رہ گئی ، یہ سچ ہے کہ نوٹ چھاپنے کا عمل بہت سہل اور تیز رفتار ہے لیکن اگر Political willموجود ہو تو دینار و درہم میں قرض حاصل کرنا یا بڑے تاجروں سے غیر مؤجل ادائیگی پر اشیاء حاصل کرنا بھی سہل اور فوری ہوسکتا ہے ، دوسری طرف خلافت اپنے بیت المال میں بھی کچھ مال ہنگامی حالات کے لئے رکھ سکتی ہے اور ایسے حالات میں اپنے دیگر اخراجات سے ہاتھ بھی روک سکتی ہے ۔
ہنگامی حالات ہوں یا جنگی حالات ، ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اس حکومتی کردار سے بڑھ کر سب سے زیادہ اہم عنصر اسلامی معاشرے میں موجود انفاق فی سبیل اللہ کا وہ حکم ہے جو اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو دوسروں کی مدد کرتے ہوئے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ابھارتی ہے ، اس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ کسی بھی ہنگامی یا جنگی صورتحال میں سرمائے کی کمی کا شکار نہیں ہوتا خواہ بیت المال خالی ہی کیوں نہ ہو۔
اختتامیہ :
دورِ حاضر میں کاغذی کرنسی صرف ایک زرمبادلہ ہے جو زراعتبار کے طور پر کارآمد دکھائی دیتی ہے، اس میں شک نہیں کہ بعض ممالک نے ایسے ذخائر یعنی سونا اور چاندی بطور ضمانت اپنے پاس جمع کر رکھے ہیں جبکہ بعض حالات میں کسی ریاست کے سرکاری املاک کو بھی بطور ضمانت تصور کیا جاتا ہے لیکن بہرحال کاغذی کرنسی محض ایک زراعتبار ہے جو اپنے اندر تبادلے کی صلاحیت کے باعث ریاستوں کے درمیان استعمال ہورہی ہےاور یہی استعمال اسے مقبول بنائے ہوئے ہے لیکن شارع نے جہاں ہمیں سونا اور چاندی پر مبنی کرنسی کے نفاذ کا پابند بنایاہے وہیں بطور تسلی اور اطمینان کے لئے ہم تاریخ پر نظر ڈال سکتے ہیں، مثال کے طور پر حضرت عروہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں بھیڑ خریدنے کے لئے ایک دینار دیا ، حضرت عروہ ؓ نے آپ ﷺ کے لئے اتنے پیسوں میں سے دو بھیڑیں خریدیں، پھر انہوں نے ایک بھیڑ ایک دینار میں بیچ دی اور ایک بھیڑ نبی پاک ﷺ کے پاس لے آئے ، اس پر نبی پاک ﷺ نے تجارت میں برکت کی دعا دی ، چنانچہ حضرت عروہ ؓ ہر سودے میں ہمیشہ نفع ہی کمایا کرتے تھے خواہ وہ سودا مٹی کا ہی کیوں نہ ہو (بخاری)۔
اب صورتحال یہ ہے کہ آج بھی ایک دینار کی مقدار کے برابر سونے سے ایک بھیڑ خریدی جاسکتی ہے اور اگر کوئی تھوڑی زیادہ کوشش کرے تو اس سے دو بھیڑیں بھی خریدی جاسکتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دینار و درہم کی قیمت میں مسلسل استحکام پایا جاتا ہے جبکہ کاغذی کرنسی کبھی اور کسی بھی صورت میں اپنی قیمت برقرار نہیں رکھ سکتی اور روز بروز انحطاط کا شکار ہوتی ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ 1947 سےلے کر آج تک کے افراط زر کے اشاریہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ روپے کی قدر انتہائی تیزی سے کم ہوئی ۔ یہ قدری تعین ہمیں ایک اہم نکتہ نظر پہ لاتا ہے مگر اکثر طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، اگر سونے اور چاندی کو قدر کے پیمانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تو مکہ اور مدینہ کی 14 سو سالوں پیشتر کی قیمتیں آج کی قیمتوں سے زیادہ مختلف نہ ہوتیں۔
اسی طرح اگر دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تین صدی قبل ہندوستان دنیا کا سب سے امیر ملک تھا، اس کے بعد چین کا نمبر آتا تھا ، ان ممالک میں محنت کرنے کے بھرپور مواقع موجود تھے اور خطیر مقدار میں پیداوار ہوتی تھی ، ان ممالک کا تجارتی سامان دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچتا تھا لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب کرنسی سونا اور چاندی پر مبنی ہوتی تھی اور مرکزی بنکوں کا عالمی گروہ موجود نہیں تھا ، کاغذی کرنسی کے نظام نے محنت کرنے والوں کو افراط زر اور شرح تبادلہ کی شعبدہ بازی کی وجہ سے نہایت غریب کردیا جبکہ کاغذی کرنسی چھاپنے والے اور اس کے سہارے شرح تبادلہ کنٹرول کرنے والے ممالک نہایت ہی امیر ہوگئے ہیں۔
آج پوری دنیا میں کوئی ایسا مستحکم نظام نہیں جو تمام معاشی مسائل کے حل کے لئے جامع اور پائیدار حیثیت کا حامل ہو۔ اشتراکی نظام کی ناکامی کے بعد سرمایہ دارانہ نظام بھی انسان کے معاشی مسائل کے حل میں ناکام نظر آتا ہے۔ جبکہ اسکے برعکس اسلام کے معاشی نظام کا غیرجانبدرانہ تجزیہ بتاتا ہے کہ اس نظام نے اپنی عالمگیریت کے سبب نہ صرف اس وقت پیش آنے والے مسائل کا حل نکالا بلکہ شرعی نصوص میں وہ قابلیت اور وسعت موجود ہے کہ چودہ صدیوں بعد کے مسائل کے حل بھی اس میں موجود ہیں۔ لہذا آج اور قیامت تک آنے والے تمام اقتصادی مسائل کا حل بھی اسلام کے معاشی نظام میں پوشیدہ ہے۔دنیا نے یکے بعد دیگرے مختلف معاشی نظاموں کے تجربے کئے، لیکن کوئی نظام بھی انسانوں کے معاشی مسائل کو مکمل طور پر حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا،انسانوں کے بنائے نظاموں میں طاقتوروں نے کمزوروں کا استحصال کیا، جو دولت مند تھے وہ رفتہ رفتہ دولت کے تمام وسائل پر قابض ہوتے گئے اور جو غریب تھے وہ رفتہ رفتہ مزید غربت کے شکنجوں میں کستے گئے ۔ سرمایہ دار ساہوکاروں نے اپنے سودی اور استحصالی کاروبار کو بقا دینے کے لئے بنکوں کی مہذب استحصالی شکل تیارکی اور سودی کاروبار کے اڈے بنکوں کی شکل میں تمام ممالک میں پھیل گئے ۔ جبکہ اسلام کا معاشی نظام فطرت سے ہم آہنگ اور تمام اقتصادی مشکلات کا واحد حل ہے، اس لئے کہ یہ نظام نہ تجربات کا مرہون منت ہے اور نہ معاشی ماہرین کی ذہنی کاوش کا نتیجہ ، بلکہ یہ معاشی نظام خالق کائنات کی طرف سے ہے جسے پیغمبر اسلام ﷺ نے پیش کیا۔ اس لئے یہ نظام ہی وہ واحد نظام معیشت ہے جو اگر تمام عالم میں نافذ ہوجائے تو دنیا کی تمام معاشی ضروریات کو اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دیگر معاشرتی مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی معیشت کی خودمختاری اور اسلامی معاشرے کی معاشی خوشحالی کے لئے اسلام کی طے کردہ سونے اور چاندی کی کرنسی کو فی زمانہ رائج کرنے کی عملی صورتوں کے بارے میں غور و فکر کیا جائے۔ ان شاء اللہ یہ خلافت کا معیشتی نظام ہی ہو گا جو سونے اور چاندی کی کرنسی کو رائج کر کے افراطِ زر کے مسئلے کا جڑ سے خاتمہ کرے گا۔
References:
http://www.pbs.org/wgbh/commandingheights/shared/minitext/ess_inflation.html
Is the Gold Standard still the Gold Standard among monetary systems? By Lawrence H. White
https://en.wikipedia.org/wiki/Nixon_shock
https://en.wikipedia.org/wiki/CFA_franc
https://en.wikipedia.org/wiki/Bretton_Woods_system
https://onlygold.com/faqs/facts-and-statistics/
https://www.bbc.com/news/magazine-21969100
https://en.wikipedia.org/wiki/Money_supply
https://www.goodreads.com/quotes/546212-gold-gets-dug-out-of-the-ground-in-africa-or