الوعی میگزین شمارہ نمبر: 406
(عربی سے اردو ترجمہ)
بسم الله الرحمن الرحيم
رسول اللہ ﷺ کا عمل مستقل ہوا کرتا تھا
الوعی میگزین شمارہ نمبر: 406
(عربی سے اردو ترجمہ)
بخاری و مسلم نے علقمہسے حدیث روایت کی ہے ،وہ کہتے ہیں: ” میں نے عائشہؓ سے کہا: کیا رسول اللہ ﷺ (اپنے کسی عمل کے لیے) کوئی دن مقرر کیا کرتے تھے؟ فرمایا: نہیں، آ پ ﷺ کا عمل مستقل ہوتا تھا، اور تم میں سے کس کی اتنی طاقت ہے جتنا رسول اللہ ﷺ کی طاقت و ہمت تھی؟”۔
اور بخاری ومسلم نے مسروق سے حدیث روایت کی ہے ، وہ فرماتے ہیں:” میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: نبی ﷺ کو کونسا عمل پسند تھا؟ فرمایا: "جس کی پابندی کی جائے”۔
بخاری و مسلم نے روایت کی ہے: نبی ﷺ سے پوچھا گیا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک کونسا عمل زیادہ پسندیدہ ہے؟فرمایا: جس پر سب سے زیادہ ہمیشگی رکھی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو”۔
مسلم نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے: ” رسول اللہ ﷺ جب کوئی عمل کرتے تو اس پر قائم رہتے ، اور جب رات کو سوجاتے یا بیمار پڑ جاتے ( جس کی وجہ سے رات کی نماز اور نوافل رہ جاتے ) تو دن کو (نفلی نماز کی)بارہ رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔”
امام نووی فرماتے ہیں: ان کا یہ کہنا کہ آپ ﷺ کا عمل "دِیْمَۃ "ہوتا تھا، اس کا مطلب ہے کہ اس پر قائم رہتے اور چھوڑتے نہیں تھے،اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل لغت کہتے ہیں کہ دیمۃ ایسی بارش کو کہتے ہیں جو کئی دن تک برستی ہے ، پھر ہر اس چیز کو جو دائمی اور مسلسل ہو، دیمۃ کہا جانے لگا۔”
اسی باب سے وہ احادیث ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ فلاں فلاں نیک اعمال پر استقامت ، حفاظت اور ثابت قدمی سے قائم رہتے تھے۔ ہم ان میں سے چندکا ذکر کرتے ہیں:
امام ابو داؤد اور امام ترمذی نبی ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت اُمِّ حبیبہؓ سے روایت کرتے ہیں،کہ آپؓ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:” جو شخص ظہر سے پہلے اور بعد میں چاررکعتوں کی نگرانی( پابندی ) کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر آگ( دوزخ) حرام کردیتا ہے۔”
امام ترمذی نے عبد اللہ بن عَمَرو ؓ سے روایت کی ہے،اور اسے صحیح کہا ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جوکوئی مسلمان ان کی پابندی کرے گا ،وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا،خبردار! یہ دونوں کام ہیں تو آسان، مگر ان کو کرنے والے کم ہیں: ہر نماز کے بعد دس مرتبہ اللہ کی تسبیح کرے،دس مرتبہ اللہ کی حمد بیان کرے،دس مرتبہ اللہ کی بڑائی بیان کرے، فرمایا یہ زبانی تو 150 کلمات بنتے ہیں مگر میزان میں 1500 ہوں گے۔ اور جب تم اپنے بستر پر لیٹ جاؤ تو سو مرتبہ سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ پڑھو ،(یعنی ہر ایک 33 مرتبہ) یہ زبان سے تو 100 ہیں مگر میزان میں 1000 ہیں، تو (بتاؤ) تم میں سے کون شخص رات دن میں 2500 گناہ کرتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا، اس کی پابندی کوئی کیونکر نہیں کرے گا؟ فرمایا: تم لوگوں میں سے ایک کے پا س شیطان آکر اسے کہتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے: فلاں بات یاد کرو، فلا ں یاد کرو، یہاں تک کہ وہ ان کلمات کو پڑھے بغیر چلا جاتا ہے تو اس لیے وہ نہیں کرپاتا۔بستر پر جاتے ہوئے اس کے پاس آکر مسلسل اس کو سلانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ(ان کلمات کو پڑھے بغیر) سو جاتا ہے۔” ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، اسے ابو داؤد نے بھی روایت کیا ہے ،ان کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں:
((خَصْلَتَانِ أَوْ خَلَّتَانِ لَا يُحَافِظُ عَلَيْهِمَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ، هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ ...))” دو خصلتیں ایسی ہیں کہ جوکوئی مسلمان ان کی پابندی کرے گا ،وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا،خبردار! یہ دونوں کام ہیں تو آسان، مگر ان کو کرنے والے کم ہیں ۔۔۔”۔تحفۃ الاحوذی کے مصنف علامہ مبارکپوری فرماتے ہیں: ((هُمَا يَسِيرٌ وَمَنْ يَعْمَلُ بِهِمَا قَلِيلٌ)) کا مطلب ہے : ” ہمیشگی سے اس کو کرنے والے کم ہیں۔”
امام مسلم نے ابو موسیٰ الاشعری ؓ سے نقل کیا ہے: اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حدیث نقل کی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قرآن کی حفاظت کیا کرو، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے ، اونٹ جتنی جلدی اپنی رسی سے نکل جاتا ہے قرآن اس سے بھی زیادہ جلدی اور تیزی سے (ذہن سے )نکل جاتا ہے۔” حدیث کے الفاظ ابن براد کے ہیں۔
نبی کریم ﷺ اول تو تمام لوگوں سے زیادہ ہر وقت ہی سخی تھے، بالخصوص رمضان میں آپ ﷺکی سخاوت سب سے زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ اس مہینہ میں جس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لاکر آپ ﷺ سےملاقات کرتے تو آپ ﷺ کو قرآن کریم سنایا کرتے تھے، جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کے بعد آپ ﷺکی سخاوت اور خیر و بھلائی تیزبارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ ہوتی تھی، میرے ماں باپ اور میری جان آپ ﷺ پر نثار ہو۔ اور جبرئیل علیہ السلام ہر سال آپ ﷺ سے ملتے ، یہ ملاقات رمضان میں ہوتی تھی اور ہر سال آپ ﷺ کو قرآن سناتے ،اور جس سال آپ ﷺ کی روح قبض کی گئی جبرئیل علیہ السلام نے اُنہیں دو دفعہ قرآن سنایا۔
بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے فرض کردہ احکامات کی نگرانی ، حفاظت اور اہتمام دین کے واجبات یعنی ضروری کاموں میں سے ہے۔ اور یہی صراط مستقیم پر ثابت قدمی کہلاتا ہے۔ چنانچہ فرض اعمال میں تو کوئی سستی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ ان پر لازماً اور اپنی پسند یا اختیار سے ہٹ کر عمل کرے۔ جہاں تک نمازوں کی سنتوں پر بالخصوص اوردیگر افضل اعمال پر بالعموم استقامت کی بات ہے تو یہ بھی شرعی مستحبات میں سے ہےاور ان میں اجازت ہے۔ کیونکہ یہ اعمال ایسے ہیں کہ ان کے کرنے پر مؤمن کو اجر ملتا ہے ،چھوڑنے پر کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ احادیث میں ایک مسلمان کے لیے ترغیب کے الفاظ آئے ہیں تاکہ وہ اپنا وقت ان مندوبات میں لگا کر جتنا کرسکتا ہے ، ان پر قائم رہے۔ اور خواہ کم ہی کیوں نہ ہو مگر اس کو شروع کرے۔ کیونکہ تھوڑا تھوڑا مل کر پہاڑ بن جاتا ہے۔اور ان پر استقامت آدمی کی عادت بن جاتی ہے، پھر وہ اسے کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتا ، بلکہ جب کبھی اس سے غفلت سرزد ہو اور وہ عبادت رہ جائے تواسے کمی محسوس ہو تی ہے۔ کیونکہ انسانی نفس کو جب ایک عبادت کی عادت پڑ جاتی ہے، تو وہ اسے پسند کرتاہے اور اس عبادت کی ادائیگی میں اللہ کی رضا جوئی کے لیے خوب کوشش کرتا ہے۔
یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ مسلمان کا مندوبات اور نوافل یا نمازوں کی سنتوں پر زیادہ مشغولیت فرائض کی طرح ہمیشہ نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ایسا جائز نہیں، سب سے زیادہ پسندیدہ وہ اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مسلمان پر فرض کیے ہیں اس کے بعد نوافل، آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا” جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا میری طرف سے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے،اورمیرا کوئی بندہ میرے پسندیدہ کسی عمل سے میری قربت اتنی نہیں حاصل کرسکتا جتنا وہ فرض اعمال کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے برابر میرے قریب ہوتا رہتا ہے، تاآنکہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے، اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کے پاؤں جس سے وہ چلتا ہے۔ وہ مجھ سے مانگے تو میں اس کو ضرور دیتا ہوں۔وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور پناہ دیتا ہوں اور میں کسی بھی چیز سے جو میں کرنے والا ہوتا ہوں ، اتنا نہیں جھجکتا جتنا ایک مومن کی جان لیتے ہوئے جھجکتا ہوں، وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اس کی پریشانی کو ناپسند کرتا ہوں۔” اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
اسی میں سے نماز پڑھ کر قیام اللیل کی پابندی کرنا ہے ،خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ اسی سے ہر مہینے کے ایام البیض کے روزے رکھنا ہے،یعنی تیرہ ، چودہ پندرہ تاریخ کے روزے ،یا ہرپیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا۔ اسی سے مخصوص اذکار کی پابندی کرنا ہے، اور قرآن پڑھ کر، حفظ کرکے، باہمی درس دے کراور رات کو نماز میں اس کی تلاوت کرکے اس کی خبر گیری کرنا ،اس طرح چاشت کی نماز پر استقامت، فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک قرآن کی تلاوت، پھر اس کے بعد اشراق کی نماز پڑھنا، اسی طرح مغرب کی نماز کے بعد مخصوص رکعتیں نوافل کی پڑھنا۔
جب ایک مسلمان ان نوافل کا اہتمام کرتا ہے، تو اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان نوافل کے ساتھ اس کا رویہ اور معاملہ فرض جیسا نہ ہو کہ ان کو لازم سمجھے اور چھوڑنے پر اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور خواہ کسی فرض کو چھوڑنا پڑے اس کی پابندی کرے،ایسا نہ کرے،کیونکہ یہ سنت اعمال ہیں اور ان کو ان کی شرعی حقیقت کے دائرے میں ہی رکھنا چاہیے، اور وہ یہ کہ ان کا مرتبہ فرض کے بعد ہے، جب یہ فرض کے مقابلے میں آ جائیں تو فرض کو مقدم کیا جائے گا، ایسے وقت میں یہ نہ سمجھا جائے کہ ان کی پابندی کا پاس نہیں رکھا گیا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو کوئی ضروری کام،سفر یا بیماری وغیرہ جیسے حالات درپیش ہو جاتے ہیں، تو اس صورت میں ایک مسلمان ان نوافل کو چھوڑنے پر مجبور ہوتا ہے، جان بوجھ کر اس کو نہیں چھوڑتا۔
بعض سنت اعمال کے بارے میں یہ بھی آیا ہے کہ رسول ﷺ نے اس کو کبھی کیا اور کبھی چھوڑا ہے، مسلمان اس کا لحاظ کرے گا،اس کو اسی طرح کرنا اس کی پابندی کرنے سے بہتر ہے، جیسے چاشت کی نماز ، یا جیسے ظہر و عصر کی آخری دو رکعتوں میں کبھی کبھار فاتحہ سے زیادہ قراءت کرنا، وغیرہ۔
بہترین طریقہ جس سے ایک مسلمان کے لیے عبادات کو مسلسل پابندی کے ساتھ ادا کرنا آسان ہوجاتا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ عبادتوں کو رفتہ فتہ شروع کرے، مثلاً شروع میں ایک عبادت ہلکے انداز میں شروع کرے یہاں تک کہ اس کو مکمل ادا کردے۔ پھر ایک اور عبادت بڑھادے،اسی طرح آگے بڑھتا جائے یہاں تک کہ اس کے اکثر اوقات اللہ کی یاد سے معمور ہوجائیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مسلمان مرد وں اور عورتوں کا ذکرفرمایا ہے وہ بھی ان میں داخل ہو۔
ایک مسلمان اس طرح ہی اپنے آپ کو اللہ کی اطاعت میں مصروف کیے رکھتا ہے،یعنی جن کاموں کا اللہ تعالیٰ نے امر کیا ہے،یعنی فرض اعمال جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، ان کی ادائیگی میں ہر گز سستی یا تاخیر نہ کرے، اس کے بعد اپنے باقی وقت کو سنت اعمال اور نوافل میں لگائے ۔ اس قسم کی مصروفیت سے فرضوں کی ادائیگی اچھے طریقے سے ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ اطاعت کی طرف ایمان سے معمور ہوکر متوجہ ہوگا،اور اس کاقلب مطمئن اور اپنے رب کے سامنے جھکا ہوا سرنگوں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَتَطۡمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكۡرِ ٱللَّهِۗ أَلَا بِذِكۡرِ ٱللَّهِ تَطۡمَئِنُّ ٱلۡقُلُوبُ (٢٨)
” یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور جن کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔” [الرعد: 28]
اور فرمایا:
ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتۡ قُلُوبُهُمۡ وَٱلصَّٰبِرِينَ عَلَىٰ مَآ أَصَابَهُمۡ وَٱلۡمُقِيمِي ٱلصَّلَوٰةِ وَمِمَّا رَزَقۡنَٰهُمۡ يُنفِقُونَ(٣٥)
"جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُن کے دلوں پر رعب طاری ہوجاتا ہے اور جو اپنے اوپر پڑنے والی مصیبت پر صبر کرنے والے ہیں اور نماز کو قائم کرنے والے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے ، اس میں سے( اللہ کے راستے میں ) خرچ کرتے ہیں۔”(الحج: 35)۔
الوعی میگزین شمارہ نمبر: 406