خلافت کے انہدام کے سو سال پورے ہونے پر … اے مسلمانو! اسکے قیام کی طرف لپکو
بسم الله الرحمن الرحيم
خلافت کا قیام ایک فرض ہے جس کے لیے ہم الله کے سامنے جواب دہ ہیں
خلافت کے انہدام کے سو سال پورے ہونے پر … اے مسلمانو! اسکے قیام کی طرف لپکو
اے مسلمانو! یہرجب1442ہجری ہے،خلافت کوتباہہوئے ایک صدی بیت گئیہے،وہ ریاستِ خلافتکہ جو ہمارے اجتماعی معاملات میں اسلام کے ذریعے حکمرانی کرتی تھی۔ خلافت کے خاتمے کےساتھہیاس کرۂ ارض سےاسلامکی حکمرانی بھی ختم ہوگئی۔ اگرچہ اسسے قبل ہی ہمارے کچھخطے استعماری کفار کےقبضےمیں جا چکے تھےاور برصغیر بھی ان میں شامل تھا۔
رجب 1342ھسے اب تک، ہمارا ایک بھی خطہ ایسا نہیں کہ جہاںقرآن و سنّت سے ماخوذ قوانین کے ذریعے حکمرانی کی جا رہی ہو۔ چند انفرادی عبادات کے قوانین کے علاوہ ، ہمارے اجتماعی معاملات میں انسانی خواہشات کے بنیاد پر بنے قوانین کی حکمرانی ہے، خواہ یہ جمہوری نظام ہو یا آمریت یا پھر بادشاہت۔ اگرچہ اسلام ایک مکمّل ضابطہ حیات ہے لیکن اسلام کو مسلم دنیا میں فقط ایک سرکاری مذہب کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے، جیسا کہ مغربی دنیا میں عیسائیت کو کیا گیا تھا۔ اب اسلام کا عمل دخل صرف ہمارے انفرادی معاملات میں ہے جیسا کہ نماز اور انفرادی زکوٰۃ ، لیکن اسے ہمارے نظامِ حکومت، معاشیات اور داخلی امورسےبےدخلکر دیا گیا ہے۔
اے مسلمانو! ہمیں خلافت سے محروم ہوئے ایک صدی ہجری گزر چکی ہے،اگرچہ مسلمانوں کے حکمران کے لئے لمحہ بھر بھی اسلام کے علاوہ حکمرانی حرام ہے۔ الله سبحانہ و تعالیٰ نے صرف اپنےنازل کردہ احکامات کے مطابق حکمرانی کا حکم دیا ہے، الله سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ
” سو آپ کے رب کی قسم!یہ کبھی مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے تمام اختلافات میں آپ کومنصف نہ مان لیں "(سوره نسا 4:65)
اور اسی طرح فرمایا:
وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّه
"جو (حکم) اللہ نے نازل فرمایا ہے اسی کے مطابقآپ ﷺان میں فیصلہ کریں"(سوره مائدہ 5:49)۔
خلافت کو ختم ہوئے ایک صدی ہجری بیت چکی ہے، حالانکہ اسلام توہمیں اپنے تعلقات کی نگرانی کے لیے خود سے قوانین گھڑلینے سے منع کرتا ہے۔ اسلام ہمیں صرف جلیل القدر قرآن اور سنّتِ مصطفیٰ سے ماخوذ قوانین تک محدود کرتا ہے، رسول الله کا ارشادِ مبارکہ ہے،
إِنَّ اللَّهَ تعالى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلاَ تُضَيِّعُوهَا، وَحَدَّ حُدُوداً فَلاَ تَعْتَدُوهَا، وَحرَّم أَشْيَاءَ فَلاَ تَنْتَهِكُوهَا،
"اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے ان کے پاس نہ پھٹکو کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ” (دارقطنی ،النووی).
اسی طرح رسول الله نے فرمایا :
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَـيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ
"جس نے ہمارے معاملے (دین) میں کوئی ایسی چیزداخل کی جو اس میں سے نہیں،تو وہ مردود ہے"(مسلم)
چنانچہ ، اے مسلمانو! نہ ہی حاکم اور نہ ہی محکوم ایک لمحے کے لئے بھی الله سبحانہ تعالیٰ کے احکامات سے رُوگردانی کر سکتا ہے، تو ایک صدی ہجری کا گزر جانا کتنا سنگین ہے۔ اے مسلمانو! ایک صدی ہجری بیت گئی ہمیں اس نا فرمانی کے ماحول میں جیتے ہوئے۔
ہمیں خلافت سے محروم ہوئے ایک صدی ہجری گزر چکی ہے، جبکہ ایک خلیفہ کا تقرر اسی لمحے فرض ہو جاتا ہےکہ جب پچھلا خلیفہ وفات پا جائے یا اسے ہٹا دیا جائے۔ ابو ہریرہ ؓسے روایت ہےکہرسول الله نے فرمایا:
كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوا بِبَيْعَةِ الأَوَّلِ فَالأَوَّلِ، أَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ
"بنی اسرائیل کی سیاست (امور کی دیکھ بھال )انبیاء کیا کرتےتھے، جب کوئی نبی وفات پاتاتو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ کثرت سے خلفاء ہوں گے۔ صحابہؓ نے عرض کی ،ہمارے لئے کیا حکم ہے۔آپ ﷺنے فرمایا، پہلے کے بعدپہلے والے کو بیعت دو، انہیں ان کا حق ادا کرو(یعنی ان کی اطاعت کرو)۔ اورالله ان سےانکی رعیّت کے متعلق سوال کرےگا"(بخاری،مسلم)۔
ہم اس تمام عرصے خلافت کے بغیر زندگی گزار رہےہیں، جبکہ ہم پر فرض کیا گیا ہے کہ خلیفہ کی عدم موجودگی میں جلد سے جلد خلیفہ کی بیعت کے عمل کوشروع کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرامؓ حضور کی تدفین سے پہلےہی سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کے انتخاب کے لئے اکٹھے ہو گئے تھے۔
اے مسلمانو!
ہمیں خلافت سے محروم ہوئے ایک صدی ہجری گزر چکی ہے،جبکہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم تین دن اور تین راتوں سے زیادہ خلیفہ کی بیعت کے بغیر رہیں۔ حضرت ابو بکرؓ کی بیعتِ انعقاد رسول اللہ ﷺکی وفات کے روز ہی ہوگئیتھی،اور اس سے اگلے دن لوگوں نے مسجد میں اکٹھے ہو کرابوبکرؓ کو بیعتِ اطاعت دی۔ جب یہ بات عیاں ہو ئی کہ حضرت عمرؓ اپنے اوپر ہونے والے خنجر کے وار سے جانبر نہیں ہو سکیں گے توانہوںنے حکم دیا کہاگر خلیفہ کا انتخاب تین دنوں میں نہ ہوپائے توچھ نامزد کردہ اشخاص کے اکثریتی فیصلے سے ان میں سے جو بھی اختلاف کرے، اس کو قتل کر دیا جائے۔ یہ حکم تمام صحابہ کرام ؓ نے سنا اور کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ، جبکہ ایک اکابر صحابی کا قتل تو درکنار ایک مسلمان کے قتل کا معاملہ بھینہایتسنجیدہ ہے، اسی لئے اس معاملے کو اجماع صحابہؓ کے طور پر لیاجاتا ہے۔ اجماع صحابہ تب ہی وقوع پذیر ہوتا ہے جب کسی معاملے کو صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے براہِ راست سیکھا لیکن ہمیں ایک حدیث کی صورت میں روایت کرنے کی بجائے ، اپنے غیر اختلافی عمل کے ذریعےبیان کیا۔ یعنی صحابہ کے اجماع کی وہی حیثیت ہے جورسول اللہ ﷺ سے حدیث روایت کرنے کی ہے ۔ چنانچہ ہمارے لئے خلیفہ کی بیعت کے بغیر تین دن اور تین راتوں سے زیادہ وقت گزارنا حرام ہے۔
اے مسلمانو!
ہمیں خلافت سے محروم ہوئے ایک صدی ہجری گزر چکی ہے،جبکہ صحابہ کرامؓ نے اپنے دن اور رات ایک کر دیے تاکہ خلافت کے تقرر کے لیے تین دن اور تین راتوں کی حد کو پامال ہونے سے بچایا جائے. بخاری نے مسوربن مخرمہ سے روایت کیا،
انہوں نے فرمایا :طَرَقَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بَعْدَ هَجْعٍ مِنْ اللَّيْلِ، فَضَرَبَ الْبَابَ حَتَّى اسْـتَـيْقَظْتُ، فَقَالَ أَرَاكَ نَائِمًا، فَوَاللَّهِ مَا اكْتَحَلْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ بِكَبِيرِ نَوْمٍ"عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے رات کا کچھ حصّہ گزرنے کے بعدمیرےدروازے پر تبتک دستک دی جب تک کہ میں بیدار نہ ہو گیا، انہوں نے مجھ سے کہا، میںکیادیکھتا ہوں اے مِسور، تم سو رہے ہو! واللہ میںپچھلیتین راتوں سے مقدور بھر سو یا بھی نہیں” اورابنِ کثیر نے اپنی کتاب البدیہ و النہایہ میں بیان کیاہے، فلما كانت الليلة التي يسفر صباحها عن اليوم الرابع من موت عمر، جاء – عبد الرحمن بن عوف – إلى منزل ابن أخته المسور بن مخرمة فقال: أنائم يا مسور؟ والله لَم أغتمض بكثير نوم منذ ثلاث "وہ رات کہ جس کا طلوعِ آفتاب حضرت عمرؓ کی وفات کا چوتھا روز تھا،عبدالرحمنٰ بن عوفؓ اپنے بھتیجے مِسور بن مخرمہ کے گھر آئےاور ان سے کہا، اے مِسور تمسورہے ہو؟ اللہ کی قسم ! میں پچھلی تینراتوںسے کم ہی سو پایا ہوں"۔ غرضیکہ چوتھی صبح سے قبل جب لوگ فجر کینمازکے لیے اکٹھے ہوئے توحضرت عثمانؓ کی بیعت مکمّل ہو چکی تھی۔ توکیا آج ہم اپنے دن رات خلافت کے قیام کی جدوجہد میں گزار رہے ہیں جباستمامعرصے سے خلافت عدم موجود ہے؟ کیا ایسا ہے؟
رسول اللہ ﷺ سے اجماع صحابہ کے ذریعے ہمیں روایت پہنچی ہے،اےمسلمانو! ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم ایک خلیفہ کی بیعت کے بغیر تین دن اور تین راتوں سے زائد عرصہ گزاریں۔ تاہم خلیفہ کے منصب کو ختم ہوئے ایک صدی ہجری بیت چکی ہے کہ جس میں کتنے ہی تیندناور تینراتیں آئیں اور گزرگئیں۔ اے مسلمانو !کیا ہم نے خلافت کے قیام کی جدوجہد میں تاخیر نہیں کر دی؟!
تین دن اور تین راتوں سے زائد عرصہ ایک خلیفہ کی بیعت کے بغیر گزارنے کے لئے صرف ایک عذر پیش کیا جا سکتا ہےکہ ایک ناقابلِ تسخیر حالات کے سامنے ہممجبورہو کر بیعت کا فرض ادا نہ کر سکے۔ اے مسلمانو ! صرف اسی حالت میں گناہ کا بار ہمارے کاندھوں سے ہٹ سکتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس فرض کی تکمیل کے لئے صَرف کردیںاور اس فرض کے قیام میں تاخیر صرف ان عوامل کی وجہ سے ہو جوہمارے اختیار میں نہیں۔ ابنِ حبان اور ابنِ ماجہ نے ابنِ عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ وَالنِّسْيَانَ وَمَا اسْـتُكْرِهُوا عَلَيْهِ "بےشکالله نے میری امّت کی خطاؤں اور بھول جانے کو معاف کیا ہے اور ان اعمال کو کہ جسے کرنے پر انہیں مجبور کیا گیا ہو". یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگرہم کسی شدید معاملے کی وجہ سے مصروف اور مغلوب نہیں تو ہم ایک خلیفہ کی تقرری میں تین دن اور تین راتوں سے زیادہ تاخیر نہیں کر سکتے۔
ہمیں کس امر نے مجبور کیا ہے اور روکا ہے کہ ہم ایک خلیفہ کو اسلام کی حکمرانی پر بیعت دینے کے لیے کام نہ کریں؟ ہمیں کس امر نے مجبور کیا کہ ہم اس ظلمت بھرے کفریہ نظام کوہٹانے کے لئےاپنے دن اور رات ایک نہ کر دیں ؟ ہمیں کس امر نے مجبور کیا کہ ہم کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں اور مسلم اُمّت کو اس کےاصلمقامکو بحال کرنے کی کوشش نہ کریں یعنی ایک عظیم امّت جس پر حکمرانی اسلام کے نور اور ہدایت سے کی جائے؟
پچھلی ایک صدی سے ہمارے خطوں پر کفر، ظلم اور گمراہی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اے مسلمانو! بلا شبہ خلافت کےانہدامسے ہمارے اوپر منکرات کا ایک سمندر چڑھ دوڑا ہے،نہ صرف اسلام کے بغیر حکمرانی ایک منکر ہےبلکہ اس نے منکرات کےپہاڑکو جنم دیاہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نظامِ حکومت ، اقتصادیات اور خارجی پالیسی الله کے نازل کردہ قوانین کے ذریعے منظم نہیں ہو رہے۔ الله سبحانہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے قہر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خلافت علیٰ منہاجِ نبوت کو قائم کریں۔ رسول اللهﷺ نے ہمیں خبردار کیا ،إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى يَرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ"یقینا الله عز و جل چند لوگوں کے اعمال کی وجہ سے سب لوگوں کو مصیبت میں مبتلا نہیں کرتے ، یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان منکر کو دیکھیں اور استطاعت کے باوجود اس کا انکار نہ کریں، تو جب وہ ایسا کرتے ہیں تو اللہ ان چند مخصوص لوگوں کے ساتھ سب لوگوں کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے"(مسند احمد)۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے
وَاتَّقُوا فِتْنَةً لاَ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
"اور اس فتنہ سے ڈرتے رہو جو تم میں خاص ظالموں ہی کو لاحق نہیں ہوگا اور جان لو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے"(الانفال: 25)
پچھلے سو سالوں میں ہم خلافت کے دوبارا قیام کے معاملے میں بےعملیکے بہت سے نتائج بھگت چکے ہیں۔ دنیاوی تکالیف اور ذلت ورسوائی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ایک تکلیف ختم نہیں ہوتی اور دوسری شروع ہوجاتیہے، ایک رسوائی اپنے سے بڑی رسوائی کی جانب لے جاتی ہے۔ہماری بے عملی کا نتیجہ یہ نکلا ہےکہ اگر ہم اپنے دنیاوی معاملات میں مصروف رہے اور اسلام کی حکمرانی کو نظر انداز کرتے رہے تو نہ ہم دنیامیں فتح اور نجات حاصل کر سکیں گے اور نہ ہی آخرت کی کامیابی اور نجات ہمارے حصے میں آئے گی۔ اے مسلمانو! جوبھی الله اور اس کے رسول اللهﷺسے محبّت کرتا ہے تو ایسے شخص کے لئے بے عملی کوئیراہِ انتخاب نہیں ہے۔ہمیں رب کی عطا کردہ صحت اور وقت کی نعمت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور الله کی رضا کے حصول کے لیے انہیں خرچ کرنا چاہئے،تاکہ الله سبحانہ تعالیٰ اس کے بدلے ہمیں کبھی نہ ختم ہونے والی جنّت میں داخل کرے،رسول اللهﷺنے فرمایا،
نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ
"دو نعمتیںجو بہت سے لوگ ضائع کرتے ہیں، اچھیصحت اور فارغ وقت"(بخاری)۔
جو کوئی رسول الله ﷺ کو اپنی جان سے زیادہ محبوب رکھتا ہےاسے چاہئے کہ وہ اس پختہ عزم کو یاد کرے جو رسول اللهﷺ کے اعمال میں جھلکتا تھا جو آپ ﷺ نے الله کے احکامات کو نافذ کرنے کے لیے سرانجام دیے۔ جب آپ ﷺ کے چچا نے آپ ﷺکو باز رہنے کاکہا تو آپ نے جواب دیا ،
يَا عَمّ ، وَاَللّهِ لَوْ وَضَعُوا الشّمْسَ فِي يَمِينِي، وَالْقَمَرَ فِي يَسَارِي عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الْأَمْرَ حَتّى يُظْهِرَهُ اللّهُ أَوْ أَهْلِكَ فِيهِ مَا تَرَكْتُهُ
"اے چچا! الله کی قسم اگر یہ میرےدائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دیں، تببھیمیں اس کام کو ترک نہیں کروں گا،یہاں تک کہ الله اس دین کو غالبکردے یا مجھے اس راہ میں فنا کر دے"۔
آئیے اپنے نفوس کو بدل ڈالیں تاکہہمارے حالات بھی بدل سکیں۔ آئیے دینِ اسلامکے لیے اپنے عزم کو پختہ کریں، بھرپورجدّوجہد کریں کہ رسول اللہ کی بشارت کے مطابق اسلام کا سورج پوری دنیا کو منور کر دے، رسول الله ﷺ نےفرمایا،
لَا يَلْبَثُ الْجَوْرُ بَعْدِي إِلَّا قَلِيلًا حَتَّى يَطْلُعَ فَكُلَّمَا طَلَعَ مِنْ الْجَوْرِ شَيْءٌ ذَهَبَ مِنْ الْعَدْلِ مِثْلُهُ حَتَّى يُولَدَ فِي الْجَوْرِ مَنْ لَا يَعْرِفُ غَيْرَهُ ثُمَّ يَأْتِي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِالْعَدْلِ فَكُلَّمَا جَاءَ مِنْ الْعَدْلِ شَيْءٌ ذَهَبَ مِنْ الْجَوْرِ مِثْلُهُ حَتَّى يُولَدَ فِي الْعَدْلِ مَنْ لَا يَعْرِفُ
"ظلم میرے بعد زیادہ دیر چپ نہرہے گا،وہ سر اٹھائے گا ، جتنا ظلم بڑھتا جائے گا اسی قدر عدل گھٹتا جائے گا،یہاں تک کہ ایک شخص پیدا ہو گا اور اس نے ظلم کے سوا کچھ نہ دیکھا ہوگا۔ پھر الله تبارک و تعالیٰ عدل کو واپس لائے گا،توجتنا عدل بڑھتا جائے گا اسی قدر ظلم گھٹتا جائے گا،یہاں تک کہ ایک شخص پیدا ہو گا اور اس نے عدل کے سوا کچھنہدیکھا ہو گا"(احمد)۔
امام احمد نے روایت کیا ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا،
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ
"اور پھر ظلم کا دَور ہو گا اوروہ باقی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا اور پھر اسے اٹھالے گا جب وہ چاہے گا۔ اس کے بعد پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت (خلافت علیٰ منہاج النبوۃ )ہوگیاور پھر رسول الله ﷺخاموش ہو گئے"۔