سوال و جواب: ملک شام کے شمال میں ترکی کےآپریشن اولیو برانچکے پس پشت کیا عوامل ہیں؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال :یہ دیکھا گیا تھا کہ فرات کے "آپریشن یوفریٹس شیلڈ”(Operation Euphrates Shield)کےبعد اور ترکی کے صدراردگان کی جانب سےحلب سے دست بردار ی اور بشار کی حکومت کو حلب پر قبضہ کرنے دینے کے بعد ملک شام میں بڑی حد تک اردگان کی سرگرمیاں دھیمی پڑگئیں تھیں البتہ اس نے ہفتہ20 جنوری2018 کوافرین شہر کی جانب بڑے جنگی سازوسامان کے ساتھ اور فضائی گولہ باری کرتے ہوئے دوبارہ "اولیو برانچ” نامی آپریشن شروع کردیا ۔21جنوری2018بروزاتوارترکی کے چیف آف اسٹاف کی جانب سے بیان جاری کیا گیا : منصوبے کےمطابق آپریشن افرین ہفتےکو شروع ہوا، اور زمینی فوجی کارروائی اتوار کی صبح کو شروع ہوئی ( ترک پریس 21/01/2018) ۔ اور یہ آپریشن ابھی جاری ہے ، چنانچہ آپریشن "اولیو برانچ ” کے پس پشت کیا عوامل کارفرما ہیں، اللہ آپ کو بہترین جزاء عطا فرمائے۔
جواب:اس سے قبل کہ ہم اس واقعہ کا تجزیہ کریں ہمیں اس اہم معاملے کی جانب توجہ کرنی ہوگی جو ترکی کی موجودہ پالیسی کوطے کرنے کی بنیادبنی ہےاور یہ امر اردگان کے افعال و بیانات پرروشنی ڈالے گا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اردگان کی پالیسی واضح طور پرامریکہ نواز ہےاور وہ اقتدار میں رہنے کے لیےامریکہ کی حمایت کرتا ہےکیونکہ یہ امریکہ ہی تھا جو اس کو اقتدار میں لے کرآیا تھا۔اس کا ثبوت ترک حکومت کے حمایتی اخبارالصباح نیوزپیپرنے18 اپریل 2017 کو بیان کیا تھا : "امریکی صدر نے گذشتہ شب کوترک صدر اردگان کو اپریل 16 کے ریفرنڈم اوردستوری و صدارتی نظام کی اصلاحات کے نتائج پرمبارکباد دینے کے لیےفون کیا تھا”۔
اردگان نے امریکی صدر کو بتایا کہ”اُس نے اس کی خاطرزبردست مہم چلائی تھی اور ذاتی طور پر اس کی نگرانی کی تھی "، اور امریکی صدر نے اردگان سے کہا کہ”میں اپنی دوستی کو بڑی اہمیت دیتا ہوں اور ایسی کئی اہم چیزیں ہیں جو ہم ایک ساتھ مل کر کریں گے”۔ اس طرح اردگان کی ملکِ شام میں پالیسی امریکی منصوبے میں تعاون و اشتراک کرنا ہے تاکہ بشار کے اقتدار کو مستحکم کرے اور جنگجوؤں پر دباؤ ڈال کر اُن کواہم علاقوں سے دست بردار کروانا ہے جو بشار کی حکومت کے قدم جمانے کے لئے اہم ہیں۔ اس کی مثال حلب سے دست بردارہونے کا اُس کا دیاحکم ہےاوریوں بشار حکومت کو مستحکم کرنا ہے، اس نے تنازعات گھڑے اور جنگجوؤں کو ان کے اپنے علاقوں سے ہٹاکر "آپریشن یوفریٹس شیلڈ” کے نام پر دوسرے علاقوں میں لڑنے کے لئے الجھایا تا کہ وہ اپنےعلاقوں میں لڑنے کی جگہ دوسری جگہ چلیں جائیں اور حلب میں بشارحکومت کے فوجی باآسانی داخل ہوجائیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب بشار حکومت حلب پر حملہ آور تھی ترکی نے جانتے بوجھتے امریکی مرضی سے "آپریشن یوفریٹس شیلڈ” شروع کیا اور 2016 میں جرابلوس میں داخل ہوا جب سابقہ امریکی نائب صدر جَو با ئڈن نے انقرہ کا دورہ کیا اور 24 اگست2016 کو ترک فوجی کارروائی اور مداخلت کے لئے کھلی امریکی حمایت کا اعلان کیا اورآپریشن یوفریٹس شیلڈ کے نام پر کُرد لوگوں کی حفاظت کے لئے تعینات کُردش حفاظتی دستوں کو ترک فوجی پوزیشن سے ہٹ جانے کو کہا۔ ہم نے 25 ستمبر2016 کو سوال کے جواب میں تذکرہ کیا تھا کہ "امریکی منصوبہ جو حلب کے متعلق تھا اس کے مؤثر ہونے کے لیے ضروری تھا کہ ترک فوجیں دوبارہ محاصرہ کریں اور یہاں حلب کے محاصرے کوبرقراررکھنے کی خاطرامریکہ نے دو محاذوں پر کام کیا : اوّل، ترک افواج کو ملک شام کے شمال میں اتارا جائے، جس کی شروعات جرابلوس کے علاقے سے ہو، اسی دوران ترکی نے آپریشن یوفریٹس شیلڈکا اعلان کردیااور شمالی حلب سے ترک حمایت یافتہ باغیوں کو داعش سے لڑنے کی خاطر بلایا تاکہ حلب میں ہونے والے اصل معرکے کو کمزور کیا جاسکے! اوراس دوران آپس کی لڑائی کےلیے جتنے تنازعات کھڑے کیے جاسکتے ہوں کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اپوزیشن کو حلب کے معرکہ سے دور لے جایا جاسکے”۔ اس طرح اردگان نے اپنے وفادار گروہوں کو حلب کے معرکہ سےدست بردار کرکے الباب کے علاقوں میں لڑنے کے لئے لے گیا تاکہ بشار حکومت کو حلب میں کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے سوائے ان چند مؤمنوں سے جو اس دوران ثابت قدم رہے، جبکہ اس دوران اکثر گروہ اردگان کی آواز پر یوفریٹس شیلڈ میں شامل ہوئے اور اب اردگان دوبارہ اسی غداری کو دوہرا رہا ہے۔
2-یہ کارروائیاں اب بھی جاری ہیں اور ترکی کی حالیہ کارروائی بشار حکومت کو اِدلب کے اہم علاقوں پر قبضہ کروانے کے لئےتعاون کا حصہ ہے۔ ترکی کے حکم سے اس کےوفادار جنگجو گروہوں کو افرین کے علاقے میں لڑنے پر مجبور کیا جارہا ہےتاکہ وہ ادلب کےعلاقوں کو بشار حکومت سے بچانے کی کوشش نہ کرسکیں ، جہاں مجرم بشار حکومت امریکہ کے اشتراک سے آگے بڑھ رہی ہے، لیکن دھوکہ دینے کے لیے یہ تاثر دیا جارہا ہے جیسے اس آپریشن کے حوالے سے امریکہ و ترکی کے درمیان تناؤ کی کیفیت ہے ۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ ترکی کی جانب سے ملک شام میں گھس رہا ہےاور اپنے ایجنٹ گروہوں کو تیار کررہا ہےجس میں کُردش عوام کے حفاظتی دستے بھی شامل ہیں جو امریکہ سے جڑے” سیرین ڈیموکرٹیک فورسز”میں اکثریت میں ہیں جس سے متعلق اردگان نے انسرلکIncirlik کا فوجی ہوائی اڈہ کھول دیا تھا۔ اس طرح اردگان آپریشن یوفریٹس شیلڈ کی سازش اور غداری کو دوبارہ دوہرانا چاہتا ہےتاکہ بشار حکومت کے لئے ادلیب میں داخلے کی راہ ہموار ہوجائے۔ آپریشن اولیو برانچ کا مقصد ادلیب میں بشار حکومت کے داخلے کی راہ ہموار کرنا ہے ۔
بشار حکومت جب ادلیب کی طرف اوراس کے گرد ابوضھورائر پورٹ کی جانب پیش قدمی کررہی ہے توایسے وقت میں اردگان نے لڑائی کو افرین میں دھکیل دیا ہے!!
اپوزیشن کے 25 ہزار جنگجو آپریشن میں شامل ہورہے ہیں جیسا کہ شامی جیش Sham Legion کے کمانڈریاسر عبدالرحیم نے اس کی تصدیق کی ہے کہ فری سیرین آرمی کے 25 ہزارمسلح جنگجو افرین میں ترک فوجی کارروائی میں شریک ہورہے ہیں (رشیاء ٹوڈے23/01/2018)، جس کا امریکہ کو علم ہے اور یہ اس کی منظوری سے ہورہا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ (Mevlüt Çavuşoğlu) نے بیان دیا کہ اس نے ملک شام کا بحران اور بارڈر سیکوریٹی یونٹس (کُرد حفاظتی دستوں ) کے موضوع پر امریکی سیکریٹری دفاع جیمس میٹس کے ساتھ پیر کی شام(15 جنوری2018 ) کو کینیڈا میں گفتگو کی تھی۔ اُس نے کہا کہ اس نے امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹِلرسن سے بھی منگل کی شام (16 جنوری2018) کوکینیڈا کے شہروینکوور میں کوریائی خطے کے استحکام و تحفظ کی خاطر وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقع پرملاقات کی ، Çavuşoğlu نے کہا کہ جیمس میٹس نے ہمیں بتایا کہ "ہم سے درخواست کی گئی کہ ہم ایسی کسی چھپنے والی خبر کا یقین نہ کریں جو ملک شام کے شمال میں نئی فوج کی تشکیل کے متعلق ہو”، مزید اس نے کہا کہ”وہ بذاتِ خود اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اور ہم سے رابطے میں رہے گا "(Anadolu news agency 17/1/2018)۔
3-اس بات کی گذشتہ دو دنوں میں آنے والے امریکی بیانات سے تصدیق ہوجاتی ہے۔ آپریشن "اولیو برانچ” اور افرین کا مسئلہ اور ترکی کی افواج اور آزاد شامی فوج (فری سیرین آرمی) کی نقل و حرکت مکمل امریکی و روسی منظوری (جو ملک شام میں امریکہ کے اشتراک سے داخل ہوا ہے)کے ساتھ ہورہی ہے۔اور وہ بیانات یہ ہیں:
-ترک افواج کی افرین مہم کل بروز جمعہ کو شروع ہوئی ، جس کے پہلے مرحلے میں جمعرات و جمعہ کی رات سے افرین پر بھاری گولہ باری جاری ہے،اس دوران روسی ملٹری پولیس کا افرین اور اس کے گردونواح کے علاقوں سے انخلاء شروع ہوا۔ الجزیرۃ چینل کے مطابق ترک وزیر دفاعNurettin Canikliسمجھتے ہیں کہ "یہ زمینی حملے کی شروعات ہے” ، ۔۔۔ العربی الجدید نے ایک ترک ذرائع سے یہ معلومات حاصل کیں کہ :”ایک دوسری پیشکش بھی کی گئی کہ نظم ونسق کے متعلق روس او ر ترکی کی مفاہمت ہو جائے تو اس کے عوض میں شہر کا کنٹرول ہاتھوں میں لے لیا جائے۔ ترک حکومت اپوزیشن گروہوں کو سوچی کانفرنس میں شامل ہونے کے لئے دباؤ ڈال کرآپریشن” یوفریٹس شیلڈ” کی طرح کی صورت حال کو دوبارہ قائم کرنا چاہتی ہے، جبکہ روسیوں کا اصرار ہےکہ شہر کا کنڑول ہاتھ میں لے کر بشارحکومت کو سونپا جائےاوراس میں کوئی بھی اپو زیشن فورس موجود نہ ہو اور یہ کہ بشار حکومت کو ادلیب صوبے کے علاقوں میں مزید پیش رفت کی اجازت دی جائے”۔
اس دوران ترکی کے وزیردفاع Nurettin Canikliنے کل ایک ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں تصدیق کی کہ "ہم جانتے ہیں کہ روس بشار حکومت کی زبردست حمایت و تعاون کرتا ہے”۔۔۔ جہاں تک اس آپریشن سے ترکی کی امیدوں کا سوال ہے تو ترکی کے ذرائع نے العربی الجدید کو بتلایا کہ "آپریشن زیادہ سے زیادہ اگلے پانچ سے چھ ماہ تک چلے گا ۔۔۔”، اسی ذرائع نے بتایا کہ "واشنگٹن سے سفارتی رابطے ٹوٹے نہیں ہیں” (Al-Araby Al-Jadeed, 20/01/2018)
روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ”20 جنوری کو ترکی نے اپنی مسلح افواج کو شمال مغربی شام میں افرین کے مقام پر پیش قدمی کروائی۔۔۔ماسکو اس خبر پر فکر مند ہے”۔ روسی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ” روس اس صورت حال پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے”۔ ” روس ملکِ شام کے بحران کا حل ڈھونڈنے سے متعلق اپنے موقف پر سنجیدہ ہے جو اس ملک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے احترام کی بنیاد پر ہو” (Rudaw, 20/01/2018)۔
امریکہ چاہتا ہے کہ ترک افواج کا آپریشن محدود میعاد اورعلاقوں تک ہی رہےاوراس نے ترکی سے برداشت کا مظاہر ہ کرنے اور بقیہ آپریشن کویقینی طور پرمحدودمدت اور محدوددائرے تک رکھنے کی درخواست کی اوریہ کہ شہری جانوں کا کم سے کم نقصان کیا جائے۔”دفتر خارجہ کی ترجمان ہیتھر نوارٹ (Heather Nauert ) نے کہا کہ ‘ہم نے ترکی کو برداشت کا مظاہرہ کرنے کی درخواست کی اور وہ یہ بات یقینی بنائے کہ اس کے فوجی آپریشن کاہدف اور طوالت محدودہو اور کم سے کم شہری جانوں کا نقصان ہو ‘”۔ امریکی سیکریٹری دفاع جیمس میٹس نے اتوار کے روزبتایا کہ ترکی نے امریکہ کو اس سرگرمی سے قبل اطلاع دی تھی اور توجہ دلائی کہ امریکہ ترکی کے ساتھ اس صورتِ حال کی پیش رفت پر مل کر کام کررہا ہے۔ہیتھر نوارٹ نے کہا کہ "روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف اوراس کےامریکی ہم منصب ریکس ٹِلرسن نے ملک شام کے شمالی علاقے کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے اقدامات پر گفتگو کی ہے”۔ ترکی کے وزیرخارجہ نے امریکی ہم منصب کے ساتھ فوجی آپریشن پر گفتگو کی ہے، البتہ یہ نہیں بتایا کہ دونوں فریقین کےد رمیان کیا بات چیت ہوئی ہے (BBC Arabic, 22/01/2018)۔
امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ اس کا ملک ترکی کے ساتھ مل کر ملک شام کے شمال میں محفوظ علاقہ قائم کرنے کی امید کرتاہے تاکہ ترکی کو درکار تحفظ میسرہو سکے۔ امریکی مرکزی کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نےتصدیق کی کہ ترکی نے اس کے ملک کو افرین میں اس کے فوجی آپریشن کے متعلق آگاہ کیا تھا اورتوجہ دلائی کہ یہ شہر امریکی فوجی آپریشن کے دائرہ کے تحت نہیں آتا ہے۔
دفاع کے دفتر نے اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ وہ خطے کے متعلق ترکی کےخدشات کو سمجھتا ہے "تنازعہ کو بڑھاوا نہ دینے” کے متعلق بات کی ہے۔ (Russia Today, 23/01/2018)
-امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے کہا کہ ترکی نے انہیں ملک شام کےشہرافرین میں اپنے فوجی آپریشن کے متعلق آگاہ کیا ہے اورساتھ ہی یہ کہا کہ یہ شہر امریکی فوج کی کارروائیوں کے دائرہ میں نہیں آتا ہے۔جنرل جوزف ووٹِل – امریکی سینٹرل کمانڈ کےکمانڈرنے اتوارکے روز ایک پریس بیان میں بتایا اور کہا کہ اس کا ملک ترکی فوجی کارروائی کے علاقہ سےمتعلق فکر مند نہیں ہے (Quds Press, 21/01/2018) ۔
– امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹِلرسن نے کہا کہ اس کا ملک ترکی کے ساتھ مل کرملک شام کے شمال مغربی علاقہ میں محفوظ زون بنانے کی امید کرتا ہےتاکہ ترکی کی حفاظتی ضروریات کو پورا کیا جاسکے اور یہ بیان ترک افواج اور فری سیرین آرمی کی جانب سے آپریشن اولیوبرانچ شروع کیے جانے کے تیسرے دن آیا۔ ملک شام کے شہر افرین کے متعلق امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ "ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ہم آپ کو درکار حفاظتی ضروریات کے لئےمحفوظ زون بنانے کے لیے آپ کےساتھ مل کرکام کرسکتے ہیں۔۔ چنانچہ ہم ترکوں کے ساتھ اور کچھ زمینی افواج کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں کہ کس طرح صورت حال کو قابو میں لاسکیں اورترکی کی جائز حفاظتی ضروریات کو پورا کرسکیں” (Turk Press, 23/01/2018)۔
– 30 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل فوج کےقیام کے اپنے ملک کے فیصلے کے اعلان پرامریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ ان کا کام "سرحد کی حفاظت کرنا ہے” ، جس پر انقرہ بھڑک اٹھا، اور ریکس ٹلرسن کو تبصرہ کے لئےمجبور کیا کہ وہ اپنے سرکاری امریکی جہازمیں موجوداخباری نمائندوں کے سامنے اس بات پر تبصرہ دے کہ "اس کے ملک کا ارادہ ملک شام کی سرحد پر بارڈر سیکوریٹی فورس قائم کرنے کا نہیں ہے”۔ مزید اناطولیہ نیوز ایجنسی کے مطابق امریکہ ترک نیوز ایجنسیوں کواس امریکی فیصلےکےمتعلق وضاحت دےرہا ہے جو ملک شام میں سرحدی سیکیوریٹی فورس کے قیام کی خبروں کے متعلق ہے۔ اس کے متعلق ہیتھر نوارٹ نے بتایا کہ "آپ داعش سے لڑنا چاہتے ہو اور ہم (امریکہ)اسی لیے ملک شام میں ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کی سیکریٹری اوردفتر خارجہ کے دیگر لوگوں نے ترک افسران کو یاددہانی کروائی ہے ” (Orient Net, 19/01/2018)۔
– پچھلے منگل کے روز، امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان ارک باہون نے ترک افسران سے گفتگو کے حوالے سے بتایا کہ اس کے ملک نےملک شام میں امریکہ کے ذریعہ سرحد ی سیکیوریٹی فورس کے قیام کے متعلق ترکی کی تشویش کو تسلیم کیا ہے۔باہون نے اشارہ دیا کہ اس کا ملک ترکی کے ساتھ لگاتار بات چیت اور قریبی رابطہ میں ہے جو نیٹو کاحصہ بھی ہے۔ باہون نے اپنے جواب میں "جس کو بارڈر سیکیوریٹی فورس سمجھا گیا” کاجملہ استعمال کیا۔آج امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن نے سامنےآکر اعلان کیا کہ امریکہ کا ملک شام میں سرحدی سیکیوریٹی فورس بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہےاور اس تعلق سے خبروں پرتبصرہ کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ پریس کو دئیے بیان میں مزید اس نے کہا کہ:”اس مسئلہ کو غلط طور سے سمجھا اور پیش کیا گیا اور چند افراد نے غلط طور پر اس کوبیان کیا اور ہم کوئی بارڈر سیکیوریٹی فورس قائم نہیں کررہے ہیں” (Yenisafak Arabic, 17/01/2018)۔
ان بیانات سےیہ واضح ہےکہ آپریشن”اولیو برانچ” وہ شاخ ہے جسے ترکی نےروس اور امریکہ سے تعاون واشتراک کے ساتھ مل کر اٹھایا ہے۔۔اور 30 ہزار فوجیوں کی فورس کے قیام کے متعلق شروع میں آئے امریکہ کے بیانات افرین ملٹری کارروائی کو جواز فراہم کروانے کے لئے تھے اور امریکہ نے مقاصد حاصل ہوجانے کےبیانات کوتبدیل کر کےایک طرح کا اِس سےکھلا انکار کردیا !
4۔ چنانچہ ترک کارروائی امریکی منصوبوں کی خدمت کی خاطر ہےتاکہ ملک شام میں سیکولر نظام کو نافذ کیا جائے۔ جمہوری سیاستدان اردگان کی جانب سے آنے والے بڑے بڑے بیانات کی حقیقت اس بڑےبول سے زیادہ نہیں ہےجس کے ذریعے وہ بھولے بھالے لوگوں کو اپنے پرجوش الفاظ وبیانات سے دھوکہ دیتا ہےجن پر عمل درآمد کبھی نہیں کیا جاتا ہےجیسا کہ پچھلی دفعہ اس نے کہا تھا کہ "ہم دوسرا حاما (حاماسانحہ) پھر سے ہونے نہیں دیں گے” جبکہ بشار حکومت نے ہر شہر اور قصبے میں وہ تباہی پھیلائی جو وہ حاما میں کرنہ سکی۔۔۔اس کے علاوہ اردگان نے دکھاوے کی حرکات کیں جن سے کوئی سنجیدہ عمل ونتیجہ حاصل ہونے والا نہیں تھا، وہ پُرفریب بیانات کے ذریعہ بھولے بھالے لوگوں کو دھوکے میں ڈالتا ہےجیسا کہ اس نے القدس کویہودی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے کےمتعلق آئے ٹرمپ کے بیان کے موقع پراپنا بیان دیا تھا۔ اردگان نے دھمکی دی تھی کہ وہ یہودی ریاست سے اپنے سارے تعلقات ختم کردےگااگر یروشلم کو اس ریاست کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا، لیکن اس نے امریکہ سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے جس نےاصلاً یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ لیا تھا اور وہ یہودی ریاست کے ساتھ پورا تعاون کرتا ہے اور اس کے وجود کی بقاء کے لئے تمام ضروریات اس کو مہیا کرواتا ہےتاکہ اس کا وجود قائم رہے۔ اس کے علاوہ اس نے فلسطین کے امریکی حل یعنی دوریاستی حل کی تائید وحمایت کی ہےجس کے تحت 80 فی صد فلسطین یہودیوں کو جائے گا اوراس نے اس بات کی حمایت کی کہ مشرقی یروشلم فلسطینی ریاست کے پاس رہے اورمسلمان یہودیوں کے حق میں مغربی یروشلم سے دست بردار ہو جائیں ۔ اور یہ کچھ اُس کے علاوہ ہے جو اس نے ملک شام میں کیا اور اب بھی کروائے جارہا ہے اور اس کی وہ دغابازیاں بھی جس کے سبب روسی اور امریکی دشمن اور بشار حکومت کا وجودآج ملک شام میں مستحکم ہو چلاہے خواہ یہ غداری حلب کو بشار حکومت کو سونپنے کے متعلق ہو یا پھر ترکی میں امریکی بیس (اڈے) کا افتتاح و آغاز ہو جس کے ذریعہ وہ ملک شام میں مداخلت و حملہ جاری رکھے ہوئے ہے یا پھر ترکی کی فضائی حدود کوملک شام پر روسی بمباری کے لئے کھولنا ہو یا پھر آستانہ میں میٹنگ کرواناہو جس میں اس نے مسلح گروہوں کے سربراہوں پر دباؤ ڈالا تاکہ ان کے ذریعہ پہلے سےطے شدہ فیصلے کو وہ تسلیم کریں اور لڑائی کے معرکوں کو ٹھنڈا کریں اور تنازعہ کو کم کریں اور علاقوں سے دست بردار ہوتے جائیں اور بشار حکومت کو وہ علاقے سونپ دیں اور پھرخود ادلیب اور دیگرکئی علاقوں سے دست بردار ہوااور پھر اب غداری کا یہ تازہ باب ہے جس کا نام” اولیوبرانچ” یعنی زیتون کی شاخ ہےتاکہ بشار حکومت کو ادلیب کے اندر داخل ہونے اوروہاں قابض ہونے میں اس کی مدد کرے۔
آخر میں ہم تمام جنگجو گروہوں سے یہ کہتے ہیں کہ اردگان کے افعال سے دھوکہ نہ کھائیں اورادلیب کو بشارحکومت کے ہاتھوں میں نہ دیں ۔اور جو کچھ ان کے ساتھ حلب میں ہوا تھا اس کو بالکل بھی نہ بھولیں بلکہ اس حدیث کو یاد رکھیں جو بخاری نے ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نےرسول اللہﷺ سے روایت کی ہےکہ آپﷺ نے فرمایا:«لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ»"مومن ایک سوراخ ( بل) سے دوبار ڈسا نہیں جاتا ہے” تو پھر اس کا کیا ہو اگر وہ بارباروہاں سے ڈسا جائے۔
(إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ)
"بے شک اس میں یاددہانی ہے اس کے لئےجوقلب رکھتا ہےاور جوباخبر اور باشعور ہے”( ق: 37)
7جمادی الاولی 1439 ہجری
24 جنوری2018ء
ختم شد