سوال و جواب:جینیاتی (DNA) ٹیسٹ کی بنیاد پر بچے کا نسب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بجانب: نجم الدین خچارم
سوال:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته،
اے ہمارے معزز شیخ! کیا کوئی شخص جینیاتی (DNA) ٹیسٹ کی بنیاد پر اپنے بچے کی ولدیت سے انکار کر سکتا ہے؟
بارك الله فيك
جواب:
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته،
اولاً: اگر کسی معاملہ کے ثابت کرنے میں اختلاف ہو تو یہ جائز ہے کہ اس کو ثابت کرنے کے لئے سارے مثبت وسائل بروئےکار لائےجائیں جو اس ثبوت کا درست ہونا ممکن بنائیں ۔۔۔ ان طریقہ کار میں DNA ٹیسٹ، تحقیقات کے سائنسی ذرائع اور ثبوت حاصل کرنے کے وہ تمام ذرائع شامل ہیں جو کسی معاملہ میں صحیح رائے تک پہنچائیں، لیکن اگر کسی معاملے میں شرعی نصوص مخصوص رہنمائی کریں تب اس شرعی نص کی مکمل پابندی لازم ہو گی۔
انسان بشمول تمام جاندارمیں DNA کی ساخت منفرد ہوتی ہے، یہ بل کھاتی ہوئی سیڑھیوں کی مانند دو فیتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے اطراف میں کاربو ہائیڈریٹ اور فاسفیٹ پایا جاتا ہے، اور اس سیڑھی کے بیچ قدموں کی بناوٹ نائٹروجن بیس Nitrogenous basesپر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر فیتہ شوگر ، فاسفیٹ اور نائیٹروجن بیس کی یونٹوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ہر ایک یونٹ کو نیوکلیوسائڈ Nucleosideکہا جاتا ہے۔
یہ نیوکلیوسائڈزانتہائی دقیق انداز میں ترتیب وارموجودہوتے ہیں، نیوکلیوسائیڈز سے بنے ان فیتوں کومختلف اجزاء میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کو جینز (genes) کہتے ہیں۔ ہر جین کی منفرد خصوصیت ہوتی ہے جو ایک خاص نوعیت کے پروٹین بنانے کی ہدایات جاری کرتی ہے، یہی پروٹین ہیں جن سے پھر جسم کی بافتیں tissues بنتے ہیں۔
یہ جینز یا "جینیاتی فنگر پرنٹس” ان وراثتی خصوصیات پر مشتمل ہوتی ہیں جو باپ سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں، اوران کی مثال کسی بھی قدر کی مانند ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہےاور دو انسانوں کی جینز کا موازنہ کر کے ان کے نسب کا تعین کیا جا سکتا ہے،اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ والد اور اس کے بیٹے کے ڈی این اے کے موازنے کا ٹیسٹ ٹھیک ٹھیک کیا گیا اور اس کے نتائج درست ہیں ۔ اس عمل میں ہم اُن جینیاتی فنگر پرنٹ سے ہی جینیاتی حقائق کو اخذ کرتے ہیں جسے خالق نے انسان کے اندر رکھا ہے، جس کے ذریعے بیٹے اورباپ کا نسبی تعلق معلوم ہوجاتا ہے۔ البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ٹیسٹ کے نتائج میں غلطی کا امکان ہے ، تجزیہ کے دوران، انسانی یا لیبارٹری میں تکنیکی غلطی، یا نمونہ میں کسی بھی آلودگی کی آمیزش، اس کے ساتھ نتائج کا معائنہ کرنے والے محقق کے کھرےہونے پر’شک’ کہ کہیں وہ دوسرے عوامل کے زیرِ اثر تو نہیں آ گیا ہے، یہ سب نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔لہذا ضروری نہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج سو فیصد یقینی ہوں کیونکہ اوپر بیان کردہ عوامل کی وجہ سے نتیجے میں غلطی کا امکان ہے۔اگر اوپر کی غلطیوں سے نمٹا جا سکتا ہو تواس ٹیسٹ کو کسی بھی مسئلہ کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہےجس کے بارے میں کوئی شرعی نص وارد نہ ہوئی ہے، لیکن اگر شرعی نص موجود ہو تو اس پر من و عن عمل کرنا ہوگا۔
مثال کے طور پر، نامعلوم لاش کی شناخت کے لیے … یا ماں کے ہاں بچے کی پیدائش کی توثیق کے لئے، یا جب ہسپتالوں میں اختلافات کا سامنا ہو سکتا ہے … اس امور کی تصدیق کے لئے کسی بھی درست ذریعہ سے تحقیق کی جا سکتی ہے اور کسی بھی مناسب طریقہ جس سے شناخت اور توثیق ممکن ہو … جیسے ڈی این اے ٹیسٹ۔ یہ ٹیسٹ اس کے علاوہ ہے کہ اس علاقے کی سنجیدہ تفتیش عمل میں لائی جائے جہاں لاش پائی گئی ، ہسپتال میں زچگی کے عملے سے تفتیش اور کسی بھی ذریعہ کے ساتھ مناسب توثیق ، تاکہ حاصل شدہ معاملہ کی یقین دہانی حاصل ہو سکے… یہ سب جائز ہے کیونکہ ان کو ثابت کرنے کے لئے کوئی مخصوص شرعی نص وارد نہیں ہوئی ،اور وہ عام قوانین کے تحت آتے ہیں۔ تاہم، اگر معاملہ کے بارے میں شرعی نص موجود ہو تو اس پر من و عن عمل کرنا ہوگا۔
دوئم: اب ہم آپ کے سوال کی طرف آتے ہیں کہ باپ کی طرف سے بچے کی ولدیت کے انکار کی صورت میں (نسب)… اس مسئلے کے بارے میں شرعی نص موجود ہے، لہذا صرف اسی پر عمل ہونا چاہئے، جیسا کہ مندرجہ ذیل سے واضح ہے:
- ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج اس مسئلے کے ثبوت کے طور پر بروئے کار نہیں لائے جا سکتے ، کیونکہ کسی شوہر سے بچے کی نسبت یا اس سے انکار کے بارے میں اسلام میں دلائل موجود ہیں۔
- ان دلائل کی بنا پر ہی نسب کا اعتبار یا انکار کیا جائے گا، اور ڈی این اے کی تحقیق کے معرضِ وجود آنےکے بعد جاری کردہ فتوی ان دلائل پر اثر انداز نہیں کرتے۔ اس موضوع پر خصوصاً مصر میں اور وقف کمیٹی کویت کی طرف سے فتاویٰ جاری کیے گئے ہیں۔ ان فتاویٰ میں سے کچھ نسب کے اقرار اور انکار کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں اور کچھ صرف نسب سے انکار کی صورت میں اس ٹیسٹ کو بروئے کار لانے اجازت دیتے ہیں اور لیکن نسب کے ثبوت کے لئے اسے حجت نہیں سمجھتے۔ ان میں سے بعض نے ازدواجی تعلقات کی بنا پرنسب ثابت کرنے کے لئے اس ٹیسٹ سے استفادہ حاصل کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن زنا کے معاملات میں وہ اس کی اجازت نہیں دیتے، اور کچھ جو مغربی ثقافت سے زیادہ مرعوب ہیں انہوں نے زنا کے معاملات میں بھی نسب ثابت کرنے کے لیے اس ٹیسٹ کی اجازت دی ہے !!
- اس معاملے پر صحیح حکم وہ ہے جو شریعت نے خاص طور پر نسب کے موضوع کے بارے میں بیان کیا ہے، اور ہم نے "معاشرتی نظام” میں اس کی وضاحت کی ہے، "حسب نسب” کے موضوع میں ذکر کیا گیا ہے:
ایک شوہر کی بیوی جب نکاح کی تاریخ سے چھ مہینے بعد بچے کو جنم دے تو امکان ہوا کہ یہ بچہ اسی شوہر کا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا قول ہے کہ (الولد للفراش) "بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی”۔ یہ حدیث عائشہ سے بخاری اور مسلم میں منقول ہے۔ حاصل ِ کلام یہ ہے کہ جب تک صورت ِ حال یہ ہو کہ عورت ایک شخص کی زوجیت میں ہو اور نکاح کے چھ ماہ بعد ولادت ہوئی ہو تو وہ بچہ ہر حال میں شوہر ہی کا ہوگا۔
تاہم جب اس کی بیوی نکاح کے چھ ماہ یا اُس سے زیادہ مدت میں بچے کو جنم دےاور شوہر کو یہ یقین ہو کہ بچہ اُس کا نہیں ہے، تو شوہر کیلئے اجازت ہے کہ وہ بعض شرائط کی تکمیل کے ساتھ اس بچے کو قبول کرنے سے انکار کردے۔ اگر شوہر اِن شرائط کو پورا نہیں کرتا تو اُس کا بچہ قبول کرنے سے انکار کرنا قابل ِ ِ قبول نہیں ہوگا۔وہ بچہ اسی کا تسلیم کیا جائے گا خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے۔ یہ شرائط حسب ِ ذیل ہیں:
1۔یہ کہ بچہ زندہ پیدا ہوا ہو۔ ایک شوہر ایسے بچے کے نسب سے انکار نہیں کر سکتا جو زندہ پیدا نہ ہوا ہو کیونکہ مردہ پیدائش والے بچے کا نسب قبول نہ کرنے کیلئے کوئی شرعی حکم وارد نہیں ہوا۔
2۔یہ کہ شوہر نے براہ ِ راست صریح طور پر، یا اشارةً اُس کو اپنا بچہ قبول نہ کرلیا ہو۔ اگر شوہر صاف طور پر یا ڈھکے چھپے لفظوں میں بچے کو اپنا مان چکا ہو تو پھر اس کے بعداب اُس کے انکار کا اعتبار نہیں ہوگا۔
3۔شوہر کا یہ انکار مخصوص وقت اور مخصوص حالات میں کیا جائے۔ مخصوص وقت یا تو وقت ِ ولادت ہے یا پھر بچے کی ضرورت کا سامان خریدنے کے وقت ۔اگر وہ ولادت کے وقت موجود نہ ہو تو پھر جب اسے ولادت کا علم ہو، اُس وقت۔ اِن اوقات اور احوال کے علاوہ اگر شوہر بچےکی ولدیت سے انکار کرے تو وہ قابل ِ اعتبار نہیں ہو گا۔ جب عورت بچے کو جنم دے اُس وقت شوہر خاموش رہے اور باوجود ایسا کرسکنے کے، وہ انکار نہ کرے تو بچے کی ولدیت ثابت ہوگئی ۔اب شوہر اس کے نسب سے انکار نہیں کرسکتا۔ شوہر کا بچے کی ولدیت سے انکار کا یہ اختیار ،اس جگہ اور وقت پر جہاں اسے ولادت کی اطلاع ہوئی اور اُس کے انکار کے امکان پرمنحصر ہوتا ہے۔ جب اسے علم ہوا اور اُس کیلئے انکار کرنا ممکن بھی تھا، پھر بھی اُس نے ایسا نہیں کیا تو ولدیت ثابت ہوگئی کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (الولد للفراش)” بچہ اسی کا ہے جس کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی”۔ اگر شوہر یہ دعویٰ کرے کہ اسے ولادت کی خبر نہیں ہوئی کیونکہ وہ کسی ایسے مقام پر تھا جہاں اطلاع نہیں پہنچ پاتی جیسے وہ کسی اور بستی یا ملک میں ہو تو فیصلے کیلئے اُس کے دعوے پر اسے حلف دیناہوگا کیونکہ اصل چیز ولادت سے باخبرہونا ہے۔ لیکن شوہر کے بے خبرہونے کا دعویٰ اُس وقت غیر معتبر ہوگا جب وہ کسی ایسی جگہ ہو جہاں خبر اُس سے چھپی نہ رہے، مثلاً وہ عورت کے ساتھ گھر میں ہی ہو۔ اگر شوہر یہ دعویٰ کرے کہ مجھے ولادت کی اطلاع تو تھی لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں بچے کے اپنا ہونے سے انکار کرسکتا ہوں، یایہ کہ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ انکار فوراً ہی کیا جانا ہوتا ہے،تو اگر یہ اس نوعیت کا حکم ہے کہ جس سے عام افراد لا علم ہوتے ہیں ، تو شوہر کا دعویٰ قبول کرلیا جائے گا کیونکہ یہ حکم عام لوگوں کے علم میں نہیں ہے، جیسے اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو اسلام میں حال ہی میں داخل ہوئے ہوں۔ کسی شخص کیلئے کسی بھی ایسے حکم سے اس طرح بے خبر ہونا کہ اُس طرح کے اور لوگ بھی اس حکم سے غافل ہوں، جیسے ایک نو مسلم ، قابل ِ معافی ہے۔ لیکن اگر اُس شخص جیسے افراد اس حکم سے بے خبر نہیں ہیں تو اُس شخص کی بے خبری کا اعتبار نہیں ہوگا۔
4 ۔اپنے بچے کو قبول کرنے سے انکار کرنے کے بعد لازمی ہے کہ لعان کی کارروائی کی جائے، یا وہ لعان ہی کے تحت بچےسے انکار کرے۔ بچےکی ولدیت سے اُس کا انکار مکمل لعان کے بغیر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اِن چار شرائط کی تکمیل کے بعد اب بچے کے نسب و ولدیت سے انکار ثابت ہوگیا اور بچہ اُس کی ماں کو دے دیا جائے گا۔ بخاری میں ابنِ عمر سے مروی ہے: (أن رجلاً لاعن امرأته في زمن رسول الله وانتفى من ولدها ففرق رسول الله بينهما، وألحق الولد بالمرأة) "ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے عہد میں اپنی زوجہ پر لعان کیا یعنی الزام لگایا اور بچےکواپنا تسلیم کرنے سے انکار کردیا، رسول اللہﷺ نے اُن کے درمیان علیحدگی فرما دی اور بچہ عورت کو دے دیا”۔
لفظ لعان در اصل لعن کا صیغہ ہے کیونکہ اس حلف میں شوہر اور بیوی پانچویں بار کی قسم میں اپنے آپ کو اگر وہ جھوٹے ہوں تولعنت کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: (وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ)” اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بےشک وہ سچا ہے۔ اور پانچویں بار یہ (کہے) کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت۔ اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار بار اللہ کی قسم کھائے کہ بےشک یہ جھوٹا ہے۔ اور پانچویں دفعہ یوں (کہے) کہ اگر یہ سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب (نازل )ہو”۔ ( سورہ ٔ النور، آیات : 9-6)
اس انکار کی شرائط اگر پوری نہ ہوتی ہوں تو یہ انکار قبول نہیں کیا جائے گا اور بچے کی ولدیت و نسب شوہر ہی کا رہے گا نیزاُس پر والد ہونے کے تمام احکام کا اجراء ہوتا رہے گا۔یہ ہیں نسب سے متعلق شرعی احکامات اور صرف انہی دلائل پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔” اختتام
لہذا بچے کی نسبت سے ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے انکار نہیں کیا جاسکتا ، اور صرف شرعی طور پر مندرجہ بالا شرائط کے مطابق ہی عمل کیا جاسکتا ہے۔
سوئم: یہ قابل ذکر ہے کہ اسلام نے نسب کو بہت اہمیت دی ہے، اور اس معاملے پر وسیع نصوص میں سے کچھ یہ ہیں:
بخاری نے سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے یہ کہتے سنا: »مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ« ” جو شخص خودکو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کابتاتا ہو،یہ جانتے ہوئے کہ یہ اس کاباپ نہیں ہے، توجنت اس کے لئے حرام ہے۔”ابنِ ماجہ نے عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:»مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ لَمْ يَرَحْ رِيحَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ«” جو بھی اپنے باپ کے سوا کسی اور کے ساتھ اپنا نسب بیان کرتا ہے وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا جب اس کی خوشبو پانچ سو سال کے فاصلے سے آئے گی۔” نسائی نے اپنی سنن الکبریٰ میں ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے یہ کہتے سنا ہے:»حِينَ نَزَلَتْ آيَةُ الْمُلَاعَنَةِ: أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَدْخَلَتْ عَلَى قَوْمٍ مَنْ لَيْسَ مِنْهُمْ، فَلَيْسَتْ مِنَ اللهِ فِي شَيْءٍ، وَلَنْ يُدْخِلَهَا اللهُ جَنَّتَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَهُ، وَهُوَ يَنْظُرُ إِلَيْهِ احْتَجَبَ اللهُ مِنْهُ، وَفَضَحَهُ عَلَى رُءُوسِ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ«”جب لعان کی آیت نازل ہوئی تھی: کوئی عورت جو اپنے بچے کو ایک نسبت دے جو اس بچے کی نہیں ہے، اس عورت کے لیے اللہ کی طرف سے کچھ (رحمت و عنایت) نہیں ہے، اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ اور جو شخص اپنے بچے کے نسب سے انکار کرے ، جبکہ وہ جانتا ہے کہ یہ اسی کا بیٹا ہے، تو اللہ اسے اپنی رحمت سے دور کرے گا، اور اللہ اس کو لوگوں کے سامنے ذلت دے گا”۔
آپکا بھائی
عطاء بن خليل ابو الرشتہ
7 ربیع الثانی1439
25/12/2017
ختم شد