اسلام میں عوامی ملکیت کی فطرت اور ریاستی ذمہ داریاں
تحریر: ڈاکٹر عایدفضل الشعراوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عوامی ملکیت:
عوامی ملکیت وہ مال و اشیاء ہیں جنہیں شریعت نے معاشرے کی مشترکہ ملکیت قرار دیا ہے، معاشرے کو ان کے استعمال کی اجازت دی ہے اور افرادور ریاست کوان کا مالک بننے سے منع کیا ہے، یہ عوام کی ملکیت ہے جو ان کے لیے مخصوص ہے، ہر زندہ شخص اور بعد میں آنے والے لوگ قیامت تک اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اگر یہ عوامی وسائل مہیا نہ ہوں تو لوگ ان کی تلاش میں پھیل جاتے ہیں، جیسے پانی اور توانائی۔ اس میں وہ معدنیات بھی شامل ہیں جو بے حد و حساب ہیں ،اور وہ جن کی نوعیت لوگوں کو ان کا مالک بننے سے روکتی ہیں، خواہ یہ معدنیات باآسانی نظر آتی ہوں اور انہیں حاصل کرنے پر زیادہ محنت خرچ نہ کرنی پڑے جیسے نمک،یا وہ معدنیات جو باآسانی نظر نہیں آتیں جیسے سونا، چاندی، لوہا، کانسی، چاہے وہ ٹھوس حالت میں ہوں یا تیل کی طرح مائع حالت میں ہوں۔
عوامی ملکیت کی فطرت:
اسلام نے ملکیت کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے:
- انفرادی ملکیت
- عوامی ملکیت
- ریاستی ملکیت
اخراجات اورمحاصل کے لحاظ سےعوامی ملکیت کا تعلق مالیاتی پالیسی سے ہے جس کا تصرف ریاست لوگوں کے فائدے کے لیےکرتی ہے۔ عوامی ملکیت کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں۔
اوّل: یہ معاشرتی یاعوامی سہولیات میں سے ہے
عوامی ملکیت ان سہولیات میں سے ہے جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ دستیاب نہ ہوں یامشترکہ نہ ہوں تو لوگ ان کے حصول کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«المسلمون شركاء في ثلاث: في الماء، والكلأ، والنار»"مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں۔ پانی، چراگاہیں اور آگ”۔ (سنن ابو داؤد)۔
رسول اللہ ﷺ نے ان تین چیزوں کا ذکر مثال کے طور پر کیا ہے نہ کہ عوامی ملکیت صرف ان تین چیزوں تک ہی محدود ہے۔ یہ تین چیزیں اس حکم کے زمرے میں آتی ہیں جوعوامی استعمال کی ہیں اور دیگر بہت سی اشیاء پانی، چراگاہ اور آگ کے حکم کے تحت آتی ہیں جیسے تیل، گیس، معدنیات، نمک، سلفر، دریا، سمندر، جھیلیں، جنگلات کے درخت، جنگلات کی لکڑی،کوئلہ، سمندر کی مچھلی، جنگلی پرندے، جانوروں کی چراگاہیں اور شمسی توانائی وغیرہ۔ (الخولی البھی: اسلام کے تحت دولت، صفحہ 93-92۔ رفیق یونس:اسلامی معیشت کی بنیادیں،صفحہ 118-117۔ محمد رواس: اسلامی معیشت کا مطالعہ،صفحہ 104)
دوئم: بعض اشیاء اللہ کی طرف سے قدرتی ہیں اور بعض انسان کی تیار کردہ ہیں
اللہ کی طرف سے قدرتی طور پر پائی جانے والی عوامی ملکیت کی اشیاء وہ چیزیں ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ انسان کی بنائی ہوئی عوامی ملکیت کی اشیاء وہ اثاثےہیں جو انسان نے قدرتی اشیاء سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے بنائے ہیں جیسے پانی کا پمپ، سمندری پانی کو نمکیات سے پاک کرنے کی مشینیں، معدنیات کشید کرنے والے پمپ، بجلی پیدا کرنے والے جنریٹر، تاریں، تیل کے کنوؤں سے تیل نکالنے کی مشینیں، تیل صاف کرنے کی فیکٹریاں، کوئلے کی کانیں، کان سے معدنیات نکالنے والی مشینیں، سڑکیں،پل، ڈیم، ایٹمی توانائی،شمسی توانائی کے پلانٹ، مصنوعی جھیلیں اور نہریں،پارک،اسکول،مساجد،اسپتال،ریلوے،بندرگاہیں،ہوائی اڈے وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو انسانوں کی ضروریات ہیں اور عوامی ملکیت ہونے کے ناطے لوگ ان کی ملکیت کے زیادہ حقدار ہیں۔
سوئم: مقدار کی کثرت
پانی، چراگاہیں اور آگ ایسی چیزیں ہے جو نایاب نہیں ہیں اوروافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام لوگوں کی زندگی کی ضروریات ہیں اورسب کے فائدہ اٹھانے کی چیز ہیں۔ لہٰذا ریاست کو ان کے استعمال کی تنظیم کرنی چاہیے تاکہ ان وسائل کے استعمال میں کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو اور طاقتور ان وسائل کی ملکیت میں کمزور سے بالاتر نہ ہو۔
چہارم: لامحدود ذخائر کی انفرادی ملکیت جائز نہیں
معاشرے کی ضروریات جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہیں:«المسلمون شركاء في ثلاث: في الماء، والكلأ، والنار»"مسلمان تین چیزوں میں شراکت دار ہیں۔ پانی، چراگاہیں اور آگ”۔ افراد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ انفرادی طور پران کے مالک بنیں۔ اس کی دلیل ترمذی کی روایت ہے کہ«عن أبيض بن حمال، أنه وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستقطعه الملح، فقطعه له، فلما أن ولَّى، قال رجل من المجلس: أتدري ما قطعت له؟ إنما قطعت له الماء العِدَّ، أي: جبل ملح، أي الثروة الكبيرة التي لا تنقطع. قال: فانتزعَه منه»"ابیض نے رسول اللہ ﷺ سے اجازت چاہی کہ وہ ایک نمک کی کان لے لے۔ رسول اللہ ﷺ نے اجازت دے دی۔ مگر فوراً ایک صحابی نے ذکر کیا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے اس شخص کو کیا دے دیا ہے؟ جو آپ نے اس کو دیا ہے وہ بہتے پانی (کی طرح )ہے،یعنی نمک کا پہاڑ یعنی بہت بڑی دولت جو نہ ختم ہونے والی ہے ۔ پھر راوی بیان کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے نمک کی کان کی ملکیت واپس لے لی”۔
نمک کو بہتے پانی سے تشبیع اس کے لامحدود ہونے کی بنا پردی گئی ۔ جب نبی ﷺ کو معلوم ہوا کہ یہ لامحدود یعنی انتہائی وافر مقدار میں پائی جانے والی معدنیات کا معاملہ ہے، یعنی یہ نمک کا پہاڑ ہے، تو انھوں نے اسے واپس لے لیا اور اس کی انفرادی ملکیت کو منع کر دیا، کیونکہ یہ معاشرے کی ملکیت ہے۔ اس کا اطلاق تمام معدنیات پر ہوتا ہے، اور یہ صرف نمک کے لیے نہیں ہے۔جہاں تک لامحدودمعدنیات کی بات ہے تو اس دورمیں انسانوں کی دریافت کردہ ایسی معدنیات کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ، جیسے تیل، گیس، سونا، چاندی، تانبا، نمک، لوہا، ٹن، کوئلہ، سیسہ،یورینیم،المونیم وغیرہ ۔ تو یہ وہ سٹریٹیجک معدنیات ہیں جن کو استعمال کرنے کا حق معاشرے کے تمام انسانوں کا ہے کیونکہ یہ اس دولت میں سے ہیں جو انسانیت کے لیے اللہ نے تخلیق کی ہے، وہ خزانے جو اللہ نے انسانوں کے لیے زمین کے اندر رکھے ہیں۔ یہ خام مال ریاست کو دیگر حساس وسائل پر اپنی اتھارٹی کو بروئے کار لانے کی صلاحیت مہیا کرتا ہے جیسے،مالیاتی امور، تعمیراتی صنعت، فوجی صنعت، خلائی تحقیق اور دولت کا حصول۔اس لیے اسلام نے ان وسائل کا احاطہ ایسے قوانین سے کیا ہے جو ان سے فائدہ اٹھانے کے حق کا تعین کریں۔ اسلام معاشرے کے تمام افراد کواس قابل بناتا ہے کہ وہ ان کو ہر اس طریقے سے استعمال میں لائیں، جو ریاست معاشرے کے لیے طے کرے گی۔ یہ معاملہ فقہ کی کتابوں میں درج ہے۔
پنجم: کچھ وسائل ایسے ہیں جن کی تھوڑی مقدار کی انفرادی ملکیت بھی جائز نہیں
کچھ معدنیات جو محدود تعداد میں موجود ہوں، ان کی انفرادی ملکیت جائز ہے اور ان کو رکاز تصور کیا جاتا ہے (یعنی زمین میں دفن خزانہ جس کا مالک معلوم نہ ہو) اور اس پر خمس (پانچواں حصہ) دینا واجب ہے۔ نبی ﷺ سے لُقطہ کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا:«ما كان في طريق مأتيٍّ، أو في قرية عامرة، فعرِّفها سنة، فإن جاء صاحبها، وإلا فلك، وما لم يكن في طريق مأتيٍّ، ولا في قرية عامرة، ففيه وفي الركاز الخُمس»"وہ چیز جو مصروف سڑک یا آباد گاؤں میں ملے، اس کا ایک سال تک اعلان کرو۔ اگر مالک نہ ملے تو لے لو۔ وہ چیز جو مصروف سڑک یا آباد گاؤں کے علاوہ ملے اس پر خمس ہے کیونکہ وہ رکاز ہے”۔ (نسائی)
اسی طرح ایک شخص چشمے کا مالک بن سکتا ہے اگر معاشرے کو اس کی ضرورت نہیں۔ لیکن اس کو سڑک، پیدل چلنے کے راستے، سمندر کے کنارے یا کسی ایسی جگہ کی ملکیت کی اجازت نہیں جو معاشرے کے استعمال میں ہو۔ وہ شخص ان کا استعمال کر سکتا ہے مگر مالک نہیں بن سکتامثلاً سڑک پر یامسجد میں بیٹھنا، سمندر یا دریا میں مچھلی کا شکار کرنا یا باغ میں بیٹھنا۔۔۔ جوں ہی وہ اس جگہ سے جائے گا، اس کا اس جگہ سے فائدہ اٹھانا ختم ہو جائے گا اور اب وہ اس جگہ پر موجود نہیں ہو گا، اس کی جگہ شاید کوئی دوسرا شخص آ کر فائدہ اٹھائے گا اور ریاست اس کو منظم کرے گی۔
عوامی ملکیت سے متعلق ریاست کی ذمہ داری:
ریاستِ خلافت براہِ راست لوگوں کے معاملات کی ذمہ دار ہے اور لوگوں کے معاملات میں انفرادی اور اجتماعی املاک کی حفاظت شامل ہے اور املاک کی حفاظت میں عوامی ملکیت پر قبضہ سے حفاظت بھی ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر احکام بھی موجود ہیں جو عوامی ملکیت کے استعمال سے متعلق ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے عوام کی دسترس میں ہونے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ریاستِ خلافت کی عوامی ملکیت سے متعلق ذمہ داری کی تفصیل کچھ یوں ہے:
اوّل: عوامی املاک کو قبضے اور ضائع ہونے سے بچانا
ریاست کسی کوعوامی املاک غصب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ ریاست کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ اس کی حفاظت کرے اور کسی لالچی یا مفسد کو کسی املاک،عوامی سہولت،مشین، سڑک، دریا کے بند یا ایسی عوامی استعمال کی کسی املاک کوتباہ کرنے نہ دے۔ حاکم کو اجازت نہیں کہ عوامی ملکیت کے کسی بھی حصے کا مالک بن جائےیا اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دے۔ مجلس امت، محکمۂ مظالم اور امت کو چاہئے کہ اس کا احتساب کرے۔
الماوردی نے بیان کیا «والذي يختص بنظر المظالم يشتمل على عشرة أقسام: فالقسم الأول: النظر في تعدِّي الولاة على الرعية… والقسم الخامس: رد الغُصوب (أخذ مال متقوَّم محترَم بلا إذن مالكه دون خفية)، وهي ضربان: أحدهما: غصوب سلطانية، قد تغلب عليها ولاة الجور، كالأملاك المقبوضة عن أربابها، إما لرغبة فيها، وإما لتعدٍّ على أهلها. فهذا إن علم به والي المظالم عند تصفح الأمور أمر برده قبل التظلُّم إليه، وإن لم يعلم به فهو موقوف على تظلُّم أربابه» "اوروہ جو مظالم کے بارے میں ہے، 10 حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ والیوں کے عوام پر ظلم سے متعلق ہے۔۔۔اور پانچواں حصہ غاصب (زبردستی مال پر قبضہ کرنے والے) سے متعلق ہے جس کی دو قسمیں ہیں جن میں سے ایک حکمران کا غصب ہے، جب وہ مال ہڑپ کرلے کیونکہ وہ اسے پسند تھا یاوہ اصل مالک کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا۔ اگر مظالم کے والی کو اس کا علم ہو، تو اس پر واپسی دلانا واجب ہے اس سے قبل کہ وہ بھی مظالم کی زدمیں آ جائے، اور اگر اس کو علم نہ ہو، تو اس پر واپسی دلانا واجب نہیں”۔ (احکام السلطانیہ 103-101)۔
دوم: سہولیات کے استعمال کی تنظیم کے لیے مداخلت کرنا
ریاست کی طرف سے یہ مداخلت اس نوعیت کی ہے کہ جیسے سڑکوں یا چوراہوں پر پارکنگ کی جگہ مختص کرنا، پیدل چلنے کے راستے کو مختص کرنا، بازاروں میں بیٹھنے کی جگہ مختص کرنا، سمندر میں مچھلی کے شکار یا تیراکی کی جگہ مختص کرنا یا کان سے نمک نکالنا ۔ ان معاملات میں ریاستی دخل ضروری ہے تاکہ ہر شہری اپنی ضروریات کے لحاظ سے اپنا حصہ لے سکے، کسی کمزور کا حق نہ مارا جائے اور ان سہولیات کے استعمال میں لڑائی جھگڑے نہ ہوں۔
سوم: عوامی ملکیت کے استعمال میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والوں کے درمیان تصفیہ کرنا
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ملکیتِ عامہ سمیت دنیاوی چیزوں سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھانا چاہتاہے ۔ چونکہ عوامی ملکیت مشترک ہے اور اس کے لیے کوئی فی کس حصہ مختص نہیں کیا گیا تو اس سے معاشرے میں تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ پس ریاست دخل اندازی کرتی ہے تاکہ حقوق کی حفاظت ہوسکے اور تنازعات کو حل کیا جائے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری اور اس کا حق ہے۔ عوامی ملکیت پر بیٹھ جانے والے کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں: « وإن قعد وأطال منع من ذلك لأنه يصير كالممتلك… وإن استبق إليه اثنان احتمل أن يقرع بينهما، واحتمل أن يقدم الإمام من يرى منهما. وإن كان الجالس يضيق على المارة؛ لم يحلَّ له الجلوس فيه، ولا يحل للإمام تمكينه بعِوَض، ولا غيره» "اور اگر بیٹھنے سے وہ چیز دوسروں کے لیے منع ہو جائے تو یہ ملکیت بنانے کی طرح ہے۔۔۔اور اگراس پر دو لوگ ہوں تو قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے یا امام دونوں میں سے اس کو دے دے جس کے بارے میں سمجھے کہ یہ زیادہ حقدار ہے۔ اگر بیٹھنے سے گزرگاہ تنگ ہوجائے تو اس پر بیٹھنا جائز نہیں اورامام کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کو اس کا معاوضہ یا کچھ اوردے”۔ (ابن قدامہ نے المغنی میں ذکر کیا-63/6)۔
چہارم: عوامی ملکیت میں سے حمیٰ کرنا
خلیفہ اور ریاست کے پاس حق ہے کہ وہ عوامی ملکیت کے کچھ حصے کو رعایا کی ایک خاص ضرورت کے لیے مخصوص کر لے، جیسا کہ آجکل ہوتا ہے۔ ابنِ عباس نے صعب بن جثامہ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: «لا حمى إلا لله ولرسوله» "حمیٰ صرف اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے”۔ ( فتح الباری، شرح صحیح بخاری)۔ ابو عبید قاسم بن سلام نے کہا:في الحديث الذي يحدثه الصعب بن جَثَّامة عن النبي صلى الله عليه وسلم يذهب إلى أن للإمام أن يحمي ما كان لله، مثل حِمى النبي صلى الله عليه وسلم ، ومثل ما حمى عمر، يقول هذا كله داخل في الحِمى "ابنِ جثامہ نے جو حدیث نبی ﷺ سے روایت کی، یہ امام کے لیے ہےکہ وہ جو اللہ کا ہے اسے حمیٰ کر سکتا ہے ، جیسے نبی ﷺ نے حمیٰ کیا اورجیسے عمر ؓنے حمیٰ کیا، یہ سب حمیٰ میں شامل ہے”۔ (اموال 299، الاحکام السلطانیہ 234-233)۔
ابو عبید قاسم بن سلام نے کہا کہ حمیٰ دو طریقوں سے اللہ اور اور اس کے رسول کے لیے ہے۔ اول یہ کہ زمین اللہ کی راہ میں گھوڑوں کے لیے ہے اور نبی ﷺ نے بھی ایسے ہی کیا۔ دوم یہ کہ زکوٰۃ کے لیے زمین کی حفاظت ضروری ہے اور عمرؓ نے بھی ایسے ہی کیا۔ اور یہ اس چیز کی طرف اشارہ ہے جو بخاری اور ابو داؤد نے نبی ﷺ کے "النقیع” کے حمیٰ کرنے کے متعلق روایت کیا۔ (الماوردی :احکام السلطانیہ،ص233)۔
حمیٰ سے مراد ہے: خالی زمین کوعوامی مفاد کے لیے مختص کرنا،جو عوامی ضروریات کے لیے زمین کے استعمال کے علاوہ ہے۔ لیکن اس سے حمیٰ کردہ زمین انفرادی ملکیت یا ریاستی ملکیت نہیں بن جاتی، عوامی ملکیت ہی رہتی ہے۔ عوامی ملکیت میں عوامی مباحات اور وہ سب کچھ شامل ہے جسے عوامی مفاد کے لیے روکا گیا ہو۔ (ڈاکٹر رفیق یونس: اسلامی معیشت کے اصول،ص 45-44)۔
نبی ﷺاورخلفاء راشدین کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی جہاد کے گھوڑوں اور زکوٰۃ کے اونٹوں کے چرانے کے لیے زمین کو حمیٰ کیا جاتا تھا۔ آج زمین کو اسی طرح کے مقاصد کے لیے حمیٰ کیا جا سکتاہے جیسے جہاد کے لیے فوجی تنصیبات ، بیرکیں، تربیتی کیمپ،نشانہ بازی وغیرہ کے لیے۔
پنجم: زمین کے مالکانہ حقوق کی تنظیم (بنجر زمین کی آبادکاری)
اسلام بنجر زمین کی آبادکاری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس حوالے سے نبی ﷺ نے فرمایا:«من أحيا أرضًا ميتة فهي له»"جس کسی نےبنجر زمین آباد کی، وہ اس کی ہو گئی”۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری 23/5)۔ ایک اور روایت میں فرمایا«من أعمر أرضًا ليست لأحد، فهو أحق بها»"جس نے ایسی زمین کاشت کی جو کسی کی ملکیت نہیں، وہ اس پر زیادہ حق رکھتا ہے”۔ (البیہقی: سنن الکبریٰ6/ 146)۔
حمیٰ کے بارے میں شافعی رائے ہے: كل ما لم يكن عامرًا (معمورًا)، ولا حريمًا لعامر (ما أضيف إليها وكان من مرافقها؛ وسمي به لأنه يحرم منع صاحبه منه]، فهو موات وإن كان متصلًا بعامر. وقال أبو حنيفة: الموات ما بعُد من العامر،ولم يبلغه الماء. وقال أبو يوسف: الموات كل أرض إذا وقف على العامر منادٍ بأعلى صوته، لم يسمع أقرب الناس إليها في العامر۔ ” جوزمین غیرآباد ہےاور کسی استعمال میں نہیں، یہ سب بنجر زمین ہے چاہے قابلِ کاشت زمین سے متصل ہی کیوں نہ ہو۔ ابو حنیفہ نے کہا: بنجر زمین وہ ہے جو آباد زمین سے دور ہے اور وہاں پانی نہیں پہنچتا۔ ابو یوسف نے کہا: بنجر زمین وہ ہے کہ اگر ایک شخص اس پر کھڑے ہو کر چیخے، تو نزدیک ترین آبادی میں لوگوں کو سنائی نہ دے”۔ (الماوردی:الاحکام السلطانیہ 223)۔ الماوردی کے نزدیک ہمسائے اوردور کے رہنے والے،زمین کی آبادکاری میں برابر ہیں۔ امام مالک کے نزدیک ہمسایوں کا حق زمین کی آبادکاری کے لیے دور والوں سے زیادہ ہے۔ (الاحکام السلطانیہ 233)۔
زمین کی آبادکاری کو اب زمین کی بحالی کہا جاتا ہےاور ریاستیں اس میں کافی کوشش کررہی ہیں۔ وہ آبادکاری کی حوصلہ افزائی کے لیے قانون بناتی ہیں تاکہ قوانین کے ذریعے لوگوں کو ٹیکس اور ڈیوٹی میں چھوٹ دی جائے ، اسی طرح انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سستی بجلی کی فراہمی کے ذریعے بھی وہ مدد فراہم کرتی ہیں۔
خلیفہ اس بنجر زمین سے حمیٰ کر سکتا ہے۔ ابویوسف نےامیرالمومنین ہاورن الرشید سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: وسألتَ يا أمير المؤمنين عن الأرضين التي افتتحت عنوة، أو صولح عليها أهلها… وليست بملك لأحد، ولا في يد أحد، فهي موات، فمن أحياها، أو أحيا منها شيئًا، فهي له. ولك أن تقطع ذلك من أحببت ورأيت، وتؤاجره، وتعمل فيه بما ترى أنه صلاح. وكل من أحيا أرضًا مواتًا فهي له. وقد كان أبو حنيفة رحمه الله يقول: من أحيا أرضًا مواتًا فهي له إذا أجازه الإمام. ومن أحيا أرضًا مواتًا بغير إذن الإمام فليست له، وللإمام أن يخرجها من يده، ويصنع فيها ما رأى من الإجارة والإقطاع وغير ذلك۔ "اے امیر المومنین آپ نے ان زمینوں کے بارے میں پوچھا جن کو طاقت سےیامعاہدے سے کھولا گیا اور وہ کسی کی ملکیت نہیں، کسی کے قبضے میں نہیں۔ اگر کوئی یہ بنجر زمین یا اس کا حصہ آباد کرے، تو وہ اس کا ہے اورآپ کو اجازت ہے کہ اسے دوسروں پر منع کر دیں یا کرائے پر دے دیں۔ ابو حنیفہ نے کہا ہےکہ جو کوئی بنجر زمین آباد کرےوہ اس کی ہوئی، اگر امام اجازت دے دے۔ اگر وہ اجازت نہ دے تو وہ اس کی نہیں اور امام چاہے تو اس سے لے لے” (الخراج 64-63)۔
امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے مطابق بنجر زمین کی ملکیت کے لیے امام کی اجازت مطلوب ہے کیونکہ لوگوں کے امور کی ذمہ داری امام پر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابو حنیفہ کی رائے زیادہ موزوں اورقابلِ قبول ہے کیونکہ لوگ جذبات، خودغرضی اور ارادوں سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ بنجر زمین میں کمی اور تعمیرات میں اضافے کی وجہ سے تنازعات کا امکان مزید بڑھ جائے گا۔ اسی وجہ سے اس امر سے بچنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ریاست اس میں دخل دے اور زمین کی آباد کاری کو منظم کرے تاکہ انتشار نہ پھیلے۔
وہ جو بنجر زمین کو کاشت کرے، پھر اسے تین سال تک نظرانداز کر دے، ریاست اس سے زمین لے کر کسی اور کو دے سکتی ہے۔ اس کی دلیل نبی ﷺ کے یہ الفاظ ہیں:«من أحيا أرضًا ميتة فهي له، وليس لمحتجر حق بعد ثلاث سنين»"جس نے بنجر زمین کاشت کی، وہ اس کی ہوئی، اور مردہ زمین کو پتھر رکھ کر اپنی ملکیت بنانے والے کا تین سال بعد اس پر کوئی حق نہیں”۔ (الزیلعی، الرایہ مانومنٹ، 290/4)۔ امام شافعی کی مسند میں روایت ہےکہ عمر بن خطابؓ نے کہا: ليس لأحد إلا ما أحاطت عليه جدرانه، إن إحياء الموات ما يكون زرعًا، أو حفرًا، أو يحاط بالجدران، وهو مثل إبطاله التحجير، يعني ما يعمر به مثل ما يحجر۔ "کسی کا اس سے زیادہ حق نہیں کہ جتنی زمین کے گرداس نے چار دیواری کر لی۔ بنجر زمین کی آبادکاری یہ ہے کہ اس پر کاشت کی جائے یا کنواں کھودا جائےیا دیواروں کے ذریعے اس کا احاطہ کر لیا جائے۔ (مسند الشافی، 382)۔ یہاں سے ریاستی عمل دخل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ ریاست کے پاس علم ہو کہ کون کاشت کر رہا ہے اور کون نہیں، اور پھر اس کے مطابق موزوں اقدام کیا جائے۔
عبداللہ ابن ابوبکر سے روایت ہے جاء بلال بن الحارث المزني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستقطعه أرضًا، فقطعها له طويلة عريضة، فلما وُلِّي عمر قال له: "يا بلال، إنك استقطعت رسول الله أرضًا طويلة عريضة قطعها لك، وإن رسول الله لم يكن ليمنع شيئًا يُسأله، وإنك لا تطيق ما في يدك. فقال: أجل. قال فانظر ما قويتَ عليه منها فأمسكه، وما لم تطق فادفعه إلينا نقسمه بين المسلمين. فقال: لا أفعل والله شيئًا أقطعنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال عمر: واللهِ لتفعلنَّ. فأخذ منه ما عجز عن عمارته فقسمه بين المسلمين۔ "بلال بن حارث مزنی نبی ﷺ کے پاس آئے اور آپ ﷺسے کچھ زمین لے لی۔ وہ کافی وسیع تھی۔ عمرؓ کے دور میں انھوں نے بلال سے کہا، اے بلال! بے شک نبی ﷺ نے تمھیں ایک وسیع و عریض زمین دی ہے، اور جو کوئی نبی ﷺ سے سوال کرتا، وہ اس کو منع نہیں کرتے۔
لیکن جو تمہارے پاس ہے، اس کی تم میں طاقت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا، ہاں۔ عمر نے کہا، جو تم سنبھال سکتے ہو، رکھ لواور باقی ہمیں دے دو تاکہ ہم مسلمانوں میں بانٹ دیں۔ انھوں نے کہا، اللہ کی قسم میں وہ آپ کو نہیں دوں گا جو مجھے خود رسول اللہ ﷺ نے دیا۔ عمر ؓنے کہا، اللہ کی قسم تمہیں یہ کرنا پڑے گا۔ پھر عمرؓ نے وہ زمین ان سے لے کر مسلمانوں میں تقسیم کر دی”۔ (بیہقی، سنن الکبریٰ 246/6)۔ عمرؓکی دخل اندازی بحیثیت خلیفہ تھی اسلیے کہ وہ اس کو بحیثت نگہبان اپنا حق سمجھتے تھے، نہ کہ دوسروں کی ملکیت پر قبضہ کرنا۔
جہاں تک نئی زمین لینے کی بات ہے، اگر یہ عوام کے مفاد میں ہو تو ریاست یہ کر سکتی ہے اور پھر مالکان کو قیمت ادا کر دے، اگروہ انفرادی ملکیت میں سے ہے۔
یہ ریاست ِ خلافت کی ذمہ داری ہےکہ خودزمین حاصل کرے اور اسےآباد کرنے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ پائپوں سے آبپاشی، بجلی کی فراہمی، اسپتال اور نقل وحمل مہیا کرکے ریاست کچھ لوگوں کو زمین آباد کرنے اور استعمال کرنے کے لیے دے سکتی ہے۔ اس سے بنجر علاقوں میں کام میں تیزی آئے گی اوربنجر پن میں کمی آئے گی جو آج کے معیشت دانوں کا لمحہ فکریہ ہے۔
ششم: وقف کا نظام
وقف کے لغوی معنی روکنے کے ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ عدالت نے روکنے سے منع کر دیااور جیسے کہا جاتا ہے کہ مجھے روک دیا گیا اور مجھے روکے رکھا گیا۔ عمر نے نبی ﷺ سے کہا: "یا رسول اللہ ﷺ! مجھےخیبر میں ایک زمین ملی ہے جیسی میں نے آج تک نہیں لی۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا،«إن شئتَ حبستَ أصلَها وتصدقتَ بها، غير أن لا يُباع أصلُها، ولا يُبتاع، ولا يُوهَب، ولا يُورَّث»”اگر تم چاہو تو اصل زمین کو روک سکتے ہو اور اس کے ذریعے صدقہ کر سکتے ہو، لیکن اصل زمین نہ تو بیچی جا سکتی ہے، نہ ہبہ کی جا سکتی ہے، نہ وراثت میں دی جا سکتی ہے”۔ تو عمرنے اسےغریبوںاور رشتہ داروں کے لیے، غلام آزاد کرنے کے لیے اورمہمانوں کے لیے صدقہ(وقف) کر دیا”۔ (البیہقی،سنن الکبریٰ263/6، سنن نسائی،کتاب الاَحباس ،ص612)۔
وقف کا تکنیکی معنی ہے: یہ ملکیت کی اصل کو(فروخت و منتقلی سے) روکناہے البتہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جس شخص کو کسی کام کے لیے روکے رکھا جائے اسے وقف کہا جاتا ہے۔ جس مال کی حدبندی کر دی جائے اسے وقف کہا جاتا ہے۔ وقف شدہ مال کی مختلف قسمیں ہیں۔ وقفِ اھلی، وقفِ خیری، وقفِ سبیل۔
المغنی میں ابن قدامہ بیان کرتے ہیں وأكثر أهل العلم من السلف ومن بعدهم على القول بصحة الوقف. قال جابر: لم يكن أحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذو مقدرة إلا وقف۔ "پچھلے زمانے کے اور بعد کے زیادہ تر علماء کی رائے کے مطابق وقف جائز ہے۔ جابرؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ کے صحابہ میں سےکوئی ایک صحابی بھی ایسے نہ تھےکہ جو صاحبِ استطاعت ہوں اور انہوں نے وقف نہ کیا ہو”۔ (ابنِ قدامہ، المغنی 185/6)۔
اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمانوں کے لیے وقف کرتا ہے تو وہ خود بھی استعمال کر سکتا ہے کیونکہ وہ بھی ایک مسلمان ہے، جیسے مسجد جہاں وہ نماز پڑھ سکتا ہے، کنواں جس سے وہ پانی پی سکتا ہے، یہ عوامی ملکیت ہیں۔ لیکن اگر وہ وقف کچھ مخصوص لوگوں کے لیے ہی کرتا ہے، جیسے اپنی اولادکے لیے، تو وقف ان ہی کے درمیان محدود رہے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وقف پر کون ذمہ دار ہو گا، تویہ وہی ہو گا جس نے اصلاً وقف کیا، یا اگر کسی کو اس نے نامزد کیا، اگر وقف عام (مطلق) نہیں ہے مثلاً یہ صرف بچوں، رشتہ داروں یا اولاد کے لیےہےتو جو شخص بھی وقف کا ذمہ دار ہے، وہی اصل مالک کی وفات کے بعد وقف کی ملکیت کا فیصلہ کرے گا۔ ابنِ قدامہ نے کہا«إلى الموقوف عليه، أو إلى الله تعالى، فإن قلنا للموقوف عليه، فالنظر فيه إليه لأنه ملَّكه عينه ونفعه. وإن قلنا هو لله، فالحاكم ينوب فيه، ويصرفه إلى مصارفه؛ لأنه مال الله؛ فكان النظر فيه إلى حاكم المسلمين، كالوقف على المساكين. وأما الوقف على المساكين، والمساجد، ونحوها، أو على من لا يمكن حصرهم واستيعابهم، فالنظر فيه إلى الحاكم؛ لأنه ليس له مالك متعين ينظر فيه، وله أن يستنيب فيه»”جس کے لیے وقف کیا گیا، یا اللہ کے لیے، اگر ان کی بات کی جائے جن کے لیے وقف کیا گیا تواس کی ملکیت اور فائدہ کو پرکھا جائے گا۔اگر ہم یہ کہیں کہ یہ اللہ کے لیےوقف ہے، تو حاکم اس وقف کا ذمہ دار ہوگا اور وہ اس کو اخراجات میں خرچ کرے گا کیونکہ یہ اللہ کا مال ہے اورمسلمانوں کے حاکم کے سپرد ہے،گویا یہ غریبوں کے لیے وقف ہے۔ البتہ اگر وقف کرنے والا اللہ کے لیے نہیں بلکہ مثلاًغریبوں کے لیے وقف کرے، جیسے مسجد وغیرہ، کہ جس کی مخصوص ملکیت نہیں ہو سکتی، تو حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی دیکھ بھال کرے کیونکہ اس کا کوئی خاص مالک نہیں جو اس کا خیال رکھے”۔ (ابنِ قدامہ6/ 243)۔
اس سے لگتا ہے کہ ابن قدامہ کا ماننا ہے کہ حکمران (خلیفہ) غریبوں کے وقف کا ذمہ دار ہے، مسجدیں اور وہ جس کا کوئی خاص مالک نہیں ہو سکتا کہ جو اس کی دیکھ بھال کرے۔ ریاست ہی عوامی حقوق اور عوامی دولت کی ذمہ دار ہے۔ عوامی ملکیت بھی اسی زمرہ میں آتی ہے۔ عمر ؓبن خطاب نے کہا: من أراد أن يسأل عن المال فليأتني، فإن الله تبارك وتعالى جعلني له خازنًا وقاسمً۔ "جس کسی کو مال کے بارے میں سوال کرنا ہے، مجھ سے کرے۔ اللہ نے مجھے مال کا خزانچی اور تقسیم کرنے والا بنایاہے”۔ (ابنِ جوزی، تاریخ عمر بن خطاب، 87)۔
ریاستِ خلافت معاشرے کی نمائندہ ہوتی ہے۔ وہی خزانچی، خرچ کرنے والی اور نگہبان ہوتی ہے۔ یہ مختلف اموال کی محافظ اور ملکیتوں کو مختلف انواع میں تقسیم کرنے والی ہوتی ہے۔ ریاست اس کی اجازت نہیں دیتی کہ معاشرے کی ملکیت فرد کی ہو جائے، یا فرد کی ملکیت ریاست کی ہو جائے، جب تک کہ شرائط پوری نہ ہوں اور اس کی قیمت ادا نہ کی جائے، جیسے کسی سڑک کی تعمیریا معاشرے کے لیے کسی تنصیب کی تعمیرکے لیے۔ دوسرے الفاظ میں انفرادی ملکیت، عوامی ملکیت اور ریاستی ملکیت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ریاست کی ہے، ماسوائے وہ حالات کہ جن کی اجازت شرع نے دی ہے، یعنی انتقالِ ملکیت میں مالک کو قیمت ادا کرنے کے بعد۔
ریاست کچھ ایسے بڑے منصوبے شروع کرتی ہے جو انفرادی استطاعت سے باہر ہوتے ہیں اور ضروری بھی ہوتے ہیں۔ یہ فطری امر ہے کہ افراد ان منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے کہ جن میں کثیر سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ریاستِ خلافت کی ذمہ داری ہے کہ ان منصوبوں کو شروع کرے، چلائے اور ان کی دیکھ بھال کرے کیونکہ لوگوں کی دیکھ بھال اور ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ ریاستِ خلافت ترقی کے لیے خود قدم اٹھاتی ہے ، معیشتی سرگرمی صحیح خطوط پر استوار کرتی ہے، عوامی تنصیبات کو عوام دوست اور صاف بنا کر ان کی فراہمی کو آسان بناتی ہے، جیسے پانی کی صفائی، سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنانا، فضائی آلودگی کو قابو کرنا وغیرہ۔
زیادہ تر منصوبے جو انفرادی اختیار سے باہرہوتے ہیں وہ بھاری صنعت، ریلوے، سڑکوں کی تعمیر، ہوائی اڈوں کی تعمیر، پل، لمبی سرنگیں وغیرہ ہیں۔ ریاستِ خلافت کا کام یہاں یہ کمی پورا کرنا اور ان کی تعمیر و دستیابی کی ذمہ داری اٹھانا ہے۔
ختم شد