فوجی توازن کی سوچ سے کیسے نجات حاصل کی جائے
تحریر: عبد المجید بھٹی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج کی دنیا میں طاقت کی سیاست عالمی تعلقات پر حاوی ہے ، اس طاقت کی سیاست نے ریاستوں کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے میں فوجی توازن کے تصور کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے دی ہے۔ جنگ اور امن دونوں کو فوجی توازن کا نتیجہ سمجھا جاتا ہےکہ ریاستوں کافوجی طاقت کے لحاظ سے برابری کی سطح پر ہوناامن کو جنم دیتا ہے جبکہ عدم توازن جنگ کو جنم دیتا ہے۔ لہٰذا حلیف ہوں یا حریف ، روایتی اورغیرروایتی فوجی صلاحیتوں کا اندازہ رکھنےپر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ سفارتکاری سے حاصل ہونے والے سیاسی نتائج کا بھی ریاستوں کے درمیان موجود فوجی طاقت کے توازن کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے اور اسی طرح ریاست اپنے اندر ونی تنازعات کو حل کرتے وقت غیر ریاستی کرداروں non-state actors))کی فوجی صلاحیتوں کو پیشِ نظررکھتی ہے۔ یہ ذہنیت بڑی حد تک عالمی معاملات پرغور وفکرکے پسِ پردہ کارفرما نظر آتی ہے۔ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار کرانے کی امریکی کوششیں اور شام میں اسد حکومت اور مخالفین کے درمیان مذاکرات کی بحالی کی روسی کوششیں اسی سوچ کی عکاسی کرتی ہیں۔
چنانچہ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ریاستوں کے درمیان فوجی توازن کو پیدا کرنے اور امن کے تحفظ کے نام پرمختلف خطوں میں طاقت کی تقسیم کو طے کرنے میں بڑی طاقتوں کو بہت زیادہ عمل دخل حاصل ہے۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے ہتھیاروں سے متعلق معاہدوں، فوجی معاہدوں، فوجی کارروائیوں کی دھمکی (ایک ملک کے رویے کو تبدیل کرنے کے لئے سزا کی دھمکی) اور حکم پرعمل درآمدپر مجبور کرنے(سزا کے بعد ملک کےمنفی رویے میں تبدیلی)کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ 1945 کے بعد سے بڑی طاقتوں یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور کس حد تک چین نے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ترقی پزیر ریاستوں پر فوجی توازن کے نفاذ کو اسلوب کے طور پر اختیارکیا ہے۔
ترقی پذیرممالک میں بڑی طاقتوں کی براہ راست مداخلت کا مطلب یہ ہے کہ ان ممالک کےفوجی اداروں کو مخالف ممالک کی فوجی برتری کا جواب دینے کے لیے بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عرب ریاستوں نے دیکھا کہ وہ اس وقت تک یہودی ریاست کی فوجی قوت کا سامنا نہیں کر سکتیں جب تک کہ امریکہ ان کو مدد فراہم نہ کرے۔ اسی طرح پاکستانی فوج یہ سمجھتی ہے کہ وہ بھارت کے زبردست روایتی (غیر ایٹمی)اسلحے کے خلاف کھلم کھلا روایتی جنگ نہیں جیت سکتی جب تک کہ امریکہ یا چین فوجی اور مالی تعاون کے ذریعے پاکستان کے پلڑے کو بھارت کے برابر نہ کر دیں۔
اسلامی دنیا میں موجود فوجی اداروں کے لیے یہ انتہائی دشوار ہے کہ وہ فوجی توازن کے تصور کی حدود سے باہر سوچ سکیں۔ اور اس سوچ پر چلنے سے وہ بڑی طاقتوں کے اثرونفوذ کے پھیلاؤ کے لیے ایک تر نوالہ بن جاتے ہیں۔ عرب -اسرائیل جنگوں میں عربوں کی شکست اور ہندوستان سے جنگ میں مشرقی پاکستان (بنگلا دیش) کی علیحدگی کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ اور برصغیر میں امریکی اثر میں اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ اسلامی ممالک کے لیے آپس کی لڑائی کے دوران بھی اس سوچ سے جان چھڑانا مشکل ہے،جیسا کہ 1980 کی دہائی میں ایران -عراق جنگ کے دوران۔ مغربی کی چھتر چھایا تلے ایران اور عراق نے بڑی طاقتوں سے ہتھیار لیے اور آخری سانس تک ایک دوسرے سے جنگ کی۔ جب امریکہ اور برطانیہ نے یہ ادراک کرلیا کہ ہم میدانِ جنگ پر ایک دوسرے سے بازی نہیں لے جا سکتے، تو ان کے زیر اثرممالک کے درمیان فوجی طاقت کا توازن بحال ہوا، تب ہی ایران اور عراق کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔
بدقسمتی سے اس طرح کی جنگوں نے مسلم افواج کے اذہان میں فوجی توازن کی سوچ کو مستقل طور پر مضبوط کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی ایک خطرناک دوڑ شروع ہو چکی ہے جو مغربی غلبے کو تقویت فراہم کرتی ہے، جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں ایرانی دخل اندازی کو روکنے کے لیے اربوں ڈالرکے مغربی ہتھیار خریدتے ہیں اور اپنے فوجی اثاثوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب تک اسلامی ممالک کی افواج فوجی توازن کی سوچ سے جان نہیں چھڑاتیں، ان کے لوگ غیر ضروری جنگوں کی مصیبت سے دوچار ہوتے رہیں گے اور عوام اپنی افواج کو بڑی طاقتوں کی سیاست کے مہروںکی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔
اگر اسلامی دنیا بڑی طاقت کی بالادستی سے آزاد ہونا چاہتی ہے تو اس کے فوجی اداروں کو تصورات و ثقافت کی مکمل تطہیر کا منصوبہ شروع کرنا پڑے گا تاکہ مسلم فوجی افسران ماضی کی اسلامی ریاست کی فوجی ثقافت سے جُڑ جائیں۔ اس مضمون کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ فوجی توازن کی سوچ سے چھٹکارا کیونکر ممکن ہے اور مسلم دنیا بڑی طاقتوں کی بالادستی کو کس طرح الٹ سکتی ہے۔
فوجی توازن کی شروعات
فوجی توازن کی سوچ کا ماخذدراصل طاقت کے توازن کی تھیوری ہے ، جو بذاتِ خود 1648ءمیں طے کردہ ویسٹ فیلیا Westphaliaمعاہدے کے قومی ریاستی ماڈل سے نکلی ہے۔ حقیقت پسندیRealism، جو مغرب کی سیاسی سوچ کا ایک مشہور مکتبہ فکر ہے، نے طاقت کے توازن کی سوچ کو فروغ دیا اور اس کے ماننے والے جدید حقیقت پسند Neorealistsکہلاتے ہیں۔ اس سوچ کے مطابق جب بھی ریاستوں کے درمیان طاقت کا توازن بگڑتا ہے تو عدم تحفظ کوکم کرنے کے لیےان کے درمیان جنگ ہوتی ہے ۔ تنازعے میں ملوث ہونے والی بڑی طاقتوں کی تعداد اس جنگی تنازعے کے پھیلاؤاور حجم کا تعین کرتی ہے۔ اس تھیوری کا پس منظر یورپی ریاستوں کے جنگی تنازعات ہیں مگران حقیقت پسندوں نے اس تھیوری کو یورپ سے بڑھا کر ماضی کی بڑی طاقتوں پر بھی لاگو کر دیا۔ان کا یہ ماننا ہے کہ دنیا ایک مستقل افراتفری کے عالم میں ہے اور قومی ریاستیں اپنی حفاظت کی خود ذمہ دار ہیں۔ فطری طور پر کچھ ریاستیں دوسروں سے طاقت ور ہوتی ہیںجو دوسری ریاستوں کے تحفظ کو کمزور بناتا ہے۔ ایسی ریاستیں "اندرونی توازن” یا "بیرونی توازن” کے ذریعے عدم تحفظ کو ختم کر سکتی ہیں۔
اندرونی توازن کا تقاضا ہے کہ ریاست اپنے تمام وسائل کواستعمال میں لاتے ہوئے مضبوط معیشت قائم
کرےاور حربی ریاستوں کے مقابلے کی فوج تیار کرے۔ شروع میں امریکہ اور روس نے اندرونی توازن کے ذریعے اپنی (روایتی اور ایٹمی)فوجی طاقت کومضبوط کیا تاکہ ایک دوسرے کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ ان ریاستوں کے لیے مشکل ہے جو قدرتی وسائل نہیں رکھتیں یا مضبوط فوج بنانا نہیں جانتیں۔ ایسی ریاستیں پھر بیرونی توازن اور طاقتور ریاستوں سے الحاق پر انحصار کرتیں ہیں۔ جاپان، آسٹریلیااور جنوبی کوریا جیسے ممالک امریکہ سے سیکیورٹی الحاق کر کے وہ فوجی توازن حاصل کرتے ہیں جو چین سے بچاؤ کے لیے درکار ہے۔
طاقت کے توازن کے اس نظام میں امن تب ہی ہو سکتا ہے جب اندرونی اور بیرونی توازن کے ذریعے ممالک کے درمیان طاقت کی برابر تقسیم ہو۔ دوسرے الفاظ میں جب جنگ کی قیمت اس سے حاصل ہونے والے ممکنہ فوائد سے بھاری ہوتو امن کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ طاقت کے توازن کے حقیقی رکھوالے وہ بڑی طاقتیں ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں توازن قائم رکھنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتی ہیں۔ روس وسطیٰ ایشیا میں جبکہ امریکہ براعظم امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں بیرونی توازن قائم کیے ہوئے ہے۔
طاقت کے توازن کا نظام اس وقت بگڑتا ہے جب ایک یا متعدد ریاستیں دوسری ریاستوں کے مقابلے میں اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش کریں۔ دوسری ریاستیں اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اس ریاست یا ریاستوں پر حملہ کریں گی۔ چونکہ بڑی ریاستوں کے درمیان کشمکش کبھی ختم نہیں ہوتی، لہٰذا اس صورتِ حال میں ایک بڑے درجے کے تنازعے کا امکان ہوتا ہے۔ نپولین کی قیادت میں فرانس کو شکست دینے کے لیے یورپ کی بڑی طاقتوں کے درمیان 1799 سے 1815 کے درمیان متعدد اتحاد بنے۔ اسی طرح جب پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش کی تومتعدد طاقتوں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا۔
طاقت کے توازن کے نظریہ پر حقیقت پسندوں کے دو بڑے مکتبہ فکر ہیں۔ دفاعی حقیقت پسندوں کا یہ ماننا ہے کہ ایک ریاست کے پاس اپنی حفاظت اور دشمن کو ڈرانے کے لیے درکار طاقت ہونی چاہیے۔ یہ مکتبہ فکر ایک طاقت کی دنیا پر حاوی ہونے کے برخلاف، دو ہم پلہ طاقتوں کی موجودگی کی طرف داری کرتا ہے تاکہ دنیا کا امن قائم رہ سکے۔ اس کے ماننے والے اکثر امریکہ اور روس کی سرد جنگ کی مثال دیتے ہیں۔ دوسرے طرف جارحانہ حقیقت پسندوں کا یہ ماننا ہے کہ ایک ریاست اس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک وہ پوری دنیا پر حکومت نہ کرتی ہو تاکہ کوئی دوسری ریاست اس سے مقابلہ نہ کر سکے۔ یہ لوگ یک طرفہ دنیا unipolar worldکے حمایتی ہیں اور اسے امن اور تحفظ کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔ امریکہ فی الحال اسی راستے پر چل رہاہے۔
ایک اور نظریہ جو بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ اور امن کے امکانات پر بات کرتا ہے، طاقت کی منتقلی کا نظریہ ہے۔ طاقت کے توازن کے نظریہ کے برعکس، اس نظریے کے تحت بڑی طاقتوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن خاص طور پرعالمی نمبرایک طاقت اور نمبر دو طاقت کے درمیان طاقت کا عدم توازن، استحکام کا باعث بنتا ہے جبکہ طاقت کی برابری تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔ تنازعات کا امکان اس وقت بڑھ جاتا ہے جب نمبر دو ریاست کی طاقت عالمی نمبر ایک ریاست کی طاقت کے قریب جا پہنچتی ہے۔ اس نظریے کے حامیوں کا یہ ماننا ہے کہ جیسے جیسے چین کی طاقت امریکہ کے قریب پہنچ رہی ہے امریکہ اور چین کے درمیان جنگ ناگزیر ہے۔
یہ دونوں نظریے ریاستوں کی فوجی طاقت کی معلومات حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں تاکہ طاقت کے توازن میں ایسی تبدیلیوں کو محسوس کیا جا سکے جس سے طاقت کے توازن کا نظام متاثر ہو یا نمبر دو ریاست کی طاقت میں اضافہ ہوسکتا ہو کہ وہ عالمی طاقت کی جگہ لے لے۔ لہٰذا فوجی اخراجات، فوجی سازوسامان اور ہتھیار، فوجی معاہدات اور مشقیں، عالمی طاقتوں سے ہتھیاروں کی خریدار ی اور فوجی ایجادات کو جاننے کے لیے بہت تگ و دو کی جاتی ہے۔
اسلامی ریاست نے کیسے فوجی توازن کے نظریے کو رد کیا
رسول اللہ ﷺ کے وقت دو بڑی طاقتوں اور ان کی ماتحت ریاستوں نے عرب کو گھیر رکھا تھا۔ رومی (مشرقی رومی سلطنت جو بازنطینی سلطنت کے نام سے جانی جاتی تھی) سپر پاور کا کردار ادا کر رہے تھے اور سلطنتِ فارس اس کے مقابل تھی۔ دونوں نے خلیج اور بلاد شام میں عرب قبائل کوساتھ ملایا ہوا تھا۔ حبشہ بازنطین کے جبکہ یمن فارس کے زیراثر تھا۔
جزیرہ نما عرب سے دو اہم تجارتی راستے گزرتے تھے۔ ایک مشرقی راستہ جو خلیج فارس کے ساتھ ہوتا ہوا عراق، پھر شام اور فلسطین میں ختم ہوتا تھا۔ دوسرا مغربی راستہ جو بحیرہ احمر کے ساحل کے ساتھ چلتا تھا۔ روم اور فارس اکثر ان راستوں پر قبضے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے تھے۔ علاوہ ازیں، یہ راستے مکہ کے لوگوں کو مضبوط بناتے تھے، خصوصاً قریش جو ان پر چلنے والے قافلوں اور کعبہ کے بتوں کی زیارت پر آنے والوں سے خطیر منافع کماتے تھے۔ تجارتی راستوں کے علاوہ روم اور فارس نے جزیرہ نما عرب پر قبضہ جمانے میں کبھی کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ ان طاقتوں کے لیے عرب ایک ناخوشگوار علاقہ تھاجواس قابل نہیں تھا کہ اسے فتح کیا جائے۔
عرب میں اسلام کے ظہور نے نہ صرف ایک نئی تہذیب کو جنم دیا بلکہ اس نے حیران کن فوجی فتوحات حاصل کیں۔ اسلامی ریاست بدر میں قریش کے خلاف اپنے پہلے فوجی معرکہ میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ کامیابی حیران کن اس لیے بھی تھی کہ مسلمانوں کے پاس سازوسامان کم تھا،قریش کی تعداد تین گنا زیادہ تھی، قریش کے 175 گھوڑوں کے مقابلے میں ان کے پاس صرف 2 گھوڑے تھے۔ عرب میں قریش کی اس بالادستی نے نہ تو نبی ﷺ کو مفلوج کیا نہ ہی انھوں نے قریش کی برابری حاصل کرنے کے لیے کسی دوسرے قبیلے کے ساتھ اتحاد کیا۔
ایک اور کامیابی غزوہ خندق میں تھی جو 627 عیسوی میں لڑی گئی۔ اس میں قریش اور اس کے حلیفوں نے متعدد عرب اور یہودی قبائل سے مل کر10000 لوگوں کی مدد سے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ اسلامی ریاست اپنے واحد حلیف بنی قیس سے مل کر بھی صرف 3000 جنگجو لا پائی۔ اس فوجی طاقت کے فرق کے باوجود بھی اسلامی ریاست نے کسی اندرونی و بیرونی طاقت کےساتھ کوئی فوجی اتحاد بنائے بغیر کامیابی سے دشمن کو شکست سے ہمکنار کیا۔
اندرونی محاذ پر، قریش کے خلاف مسلمانوں کوحتمی کامیابی ایک اورفوجی مقابلے سے نہیں ہوئی بلکہ یہ سفارتی فتح تھی جو حدیبیہ کے معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہوئی ،جو اسلامی ریاست اور قریش کے درمیان 628 عیسوی میں طے پایا۔ اگرچہ غزوہ خندق نے قریش کو کافی نقصان پہنچایا مگر عرب میں قریش کا اثر ختم نہیں ہوا تھا۔ مدینہ کے شمال میں خیبر کے یہودی قبائل اور جنوب میں قریش آپس میں حلیف تھے جو اسلامی ریاست کے پکے دشمن تھے۔ اسلامی ریاست کو دونوں طرف سے کچلنے کی کوشش کے وسیع امکانات موجود تھے، جس کا سدباب ضروری تھا۔ یہ کرنے کے لیے نبی ﷺ نے قریش کی اس طاقت کو توڑا کہ وہ خیبر کے یہودیوں کی مدد کو نہ آ سکیں اور (حدیبیہ) کے معاہدے نے اس مقصد تک پہنچنے کے لیے بہترین ذریعہ فراہم کیا۔
جہاں تک بیرونی طاقتوں کا تعلق ہے، تو نبی ﷺ نے630 عیسوی میں 30000 لوگوں کے ساتھ تبوک میں رومیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مارچ کیا۔ دونوں ریاستوں کے درمیان طاقت کا عدم توازن بہت زیادہ تھا۔ رومی سلطنت کے مقابلے میں ابھرتی اسلامی ریاست ہر محاذ پر ابھی چھوٹی تھی۔ بازنطینی ریاست کی پھیلی ہوئی سرحدوں اور اس کے ماتحت قوموں کے سامنے اسلامی ریاست کا حجم کچھ بھی نہ تھا۔ یہ نئی اسلامی ریاست صرف جزیرہ نما عرب پرہی اپنا حکم چلا سکتی تھی، جبکہ رومی سلطنت کی طاقتور فوج دنیا کے مختلف علاقوں میں نہ صرف جنگیں لڑتی تھی بلکہ اپنا حکم بھی چلاتی تھی۔ رومی سلطنت کے پاس دولت کی کمی نہ تھی اور وہ جنگ لڑنے کے لیے متعدد اقوام سے ٹیکس جمع کر سکتی تھی اس کے مقابلے میں اسلامی سلطنت کی جنگوں کا خرچہ اٹھانے کی صلاحیت معمولی تھی۔
ان تمام مثالوں میں اسلامی ریاست نے رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں طاقت کے توازن کی منطق کو رد کیا اوربرابری نہ ہونے کے باوجوددشمن کو چیلنج کیا اور کامیابی حاصل کی۔ طاقت کے توازن کی پرواہ نہ کرنے کی روایت خلفائے راشدین کے دور میں بھی قائم رہی۔ ابو بکرؓ اور پھر عمر بن خطاب کی قیادت میں اسلامی ریاست نے بیک وقت روم اور فارس کی سلطنت کے ساتھ جنگ کی،اوربیرونی توازن کی منطق کو بودا ثابت کیا، یہ منطق تو اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ اگر اسلامی ریاست روم یا فارس میں سے کسی ایک سے لڑنا چاہتی ہے تو اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے۔ اسلامی ریاست نے فوجی توازن کے تصورکا بالکل لحاظ نہیں کیا۔ 636 عیسوی میں جنگ یرموک میں46000 مسلمانوں نے200000 رومیوں کا سامنا کیا اور کامیاب ہوئے۔
اسی طرح اسلامی ریاست نے طاقت کی منتقلی کے نظریے کو بھی غلط ثابت کیا جب اس نے روم اور فارس کے ہم پلہ ہوئے بغیر ہی ان سے جنگ کی۔
ان نظریات کی اندھی تقلید فوجی افسران کو عالمی صورت حال اور باریک سیاسی تفصیلات کوسمجھنے سے بھی روکتی ہے، اگر یہ رکاوٹ نہ ہو تو مخصوص سیاسی اورفوجی حکمت عملی بااثر ہو سکتی ہے اور ہار کو جیت میں بدلا جاسکتا ہے۔ مثلاً نبی ﷺ اس بات سے باخبر تھے کہ رومی اسلامی ریاست کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سدِباب کے لیے مدینہ میں اتحادی ڈھونڈ رہے ہیں۔ لہٰذا رومیوں کو مدینہ میں اڈا قائم کرنے سے روکنے کے لیے ضروری تھاکہ بنو خیبر سے نبٹناجائے۔ اس لیے حدیبیہ کےمعاہدے کے پندرہ دنوں بعد ہی خیبر مسلمانوں کے محاصرے میں تھا۔ اسی طرح نبی ﷺ اور صحابہؓ روم اور فارس کے درمیان 26 سال(628-602ء) سے جاری طویل جنگ پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ لہٰذا ان دونوں کے بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود مسلمان یہ جانتے تھے کہ ان کی افواج جنگ سے تھک چکی ہیں، ان کے حوصلے پست ہیں اور عالمی صورتحال تبدیلی کے لیے تیار ہے۔عباسی، اموی اور عثمانی دور میں بھی مسلم افواج نے اس اسلامی جنگی ثقافت کو نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ عثمانی خلافت ختم ہو گئی اور یورپی استعماری طاقتوں نے اس کے علاقوں پر قومی ریاستیں قائم کر دیں۔ آج مسلم افواج کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ فوجی توازن کے اس تصور سے جان چھڑائیں اور اسلام کےدشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نبی ﷺ کی سنت سے وابستگی اختیارکریں۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ارشادفرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ﴾
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا” (47:7)
ختم شد