خلیفۂ راشد حضرت عمربن خطاب ؓکے باغ کے کچھ پھل
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب ابو بکر ؓ انتقال کر گئے، توعمر بن خطاب نے خلافت سے متعلق ایک تقریر کی جس میں انہوں نے فرمایا:”اے لوگو!میں رسول اللہﷺ کا خادم تھا، میں اُن کی تلوار تھا، میں ان کا کندھا تھا اور وہ جب کبھی سختی چاہتے تو اپنی اس تلوار کو بے نیام کرتے،جب آپﷺ کا وصال ہوا تووہ مجھ سے خوش تھے اور میں بھی آپﷺ سے خوش تھا اور اس پر میں اللہ کی ہی حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اور یہ میرے لیے انتہائی خوشی و سعادت کی بات ہے۔ اس کے بعد معاملات ابو بکرؓ کے ذمہ آگئے۔ میں اُن کی سونتی ہوئی تلوار تھا، میں ان کا کندھا تھا اور وہ اپنی اس تلوار کو نکالتے جب وہ چاہتے تھے۔جب اُن کا انتقال ہوا تو اس وقت وہ مجھ سے خوش تھے اور میں بھی اُن سےخوش تھااور اس پر میں اللہ کی ہی حمد و ثنا کرتا ہوں۔ پھر معاملات پلٹ کر میرے ذمہ آگئے ۔ اےلوگو!جان لو کہ اب میری سختی نرمی میں بدل گئی ہے ۔ تاہم،میں اب بھی ظالم اور قانون شکن لوگوں کے لئے درشت اور سخت ہوں ۔ جبکہ میں نیک اور راستباز لوگوں کے لئے اپنے گال کو فرش پر رکھ دوں گا ۔اے لوگو! مجھ سے پانچ چیزیں ضرور حاصل کرو۔آپ کا مجھ پر حق ہے کہ میں آپ کے مال سے کچھ نہ لوں گا ماسوائے جس کا لینا برحق ہو، اور آپ کا مجھ پرحق ہے کہ میں اسے ویسے ہی خرچ کروں کہ جو بر حق ہو، اور آپ کا مجھ پر حق ہے کہ میں آپ کے عطیات اور وظائف میں اضافہ کروں، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ اور آپ کا مجھ پر حق ہے کہ میں آپ کو تباہی کے حوالے نہ کروں اور جب میں جہاد کے لیے آپ کو بھیجوں گا، تو میں آپ کے بچوں کے والد کی طرح ہوں گا جب تک آپ واپس نہیں آجاتے۔
خلیفہ عمر بن خطابؓ نے ایک والی(گورنر) کو مقرر کیا اور اس کو آزمانے کے لئے اُس سے کہا: ماذا تفعل إذا جاءك الناس بسارق أو بناهب "لوگ اگر کسی چور یا لٹیرے کو لے کر آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کیا کریں گے؟” اس نے کہا: أقطع يده "میں اُس کا ہاتھ کاٹ دوں گا”۔آپؓ نے کہا: إذًا إن جاءني من رعيتك من هو جائع أو عاطل فسأقطع يدك. يا هذا إن الله قد استخلفنا على خلقه لنسد جوعتهم، ونستر عورتهم، ونوفر لهم حرفتهم، فإن وفينا لهم ذلك تقاضيناهم شكرها. إن هذه الأيدي خلقت لتعمل، فإذا لم تجد في الطاعة عملًا التمستْ في المعصية أعمالًا، فأشغلْها بالطاعة، قبل أن تشغلك بالمعصية"اگر کوئی جو آپ کی سرپرستی میں ہو میرے پاس آیا اور فریاد کی کہ میں بھوکا یا بے روزگار ہوں تو میں آپ کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔اے شخص،یقیناً اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی مخلوق پر مقرر کیا ہے تاکہ ہم اُن کی بھوک کو ختم کریں،اُن کو پہننے کے لئے کپڑے دیں اور ان کی آمدنی کے لئے ذریعہ فراہم کریں اور اگر ہم ان کو یہ سب فراہم کرتے ہیں تو یہ لوگ ہمارےشکرگزار ہوں گے۔ہمارے یہ ہاتھ کام کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں،اور اگر آپ الله کی اطاعت کے تحت کام نہیں کریں گے،تو آپ الله کی نافرمانی کے اعمال میں مبتلا ہوں گے۔لہٰذاالله کی اطاعت میں اپنے آپ کومصروف رکھیں،اس سے پہلے کہ گناہ آپ کومشغول کرلیں”۔ خلیفہ راشدعمرؓ اپنی ذمہ داریوں کے بار سے آگاہ تھے،پس آپ نے فرمایا: لست خيرًا من أحدكم، ولكنني أثقلكم حملًا، والله لو تعثرت بغلة في العراق لحاسبني الله عنها، لمَ لم تصلح لها الطريق يا عمر "میں تم میں سے سب سے بہتر نہیں ہوں لیکن مجھ پر آپ سب سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ ہے۔اللہ کی قسم! اگر عراق میں کسی سڑک پر کوئی خچرٹهوکر کهاتا ہے تواللہ مجھ سے اس کا حساب لےگا کہ اے عمر تم نے سڑک کی مرمت کیوں نہیں کی”۔
ایک مرتبہ جب سیدنا عمر اور سیدنا عبد الرحمن بن عوفؓ مدینہ کے بازاروں میں گشت کررہے تھے،تو انہوں نے مدینہ کے مضافات میں سفر کرنے والے ایک کارواں کو دیکھا۔ عمر نے عبدالرحمن سے کہا:آؤ اس کارواں کی حفاظت کریں۔ابھی وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ عمر کو ایک بچے کی رونے کی آواز سنائی دی ، تو وہ اُس بچے کی ماں کے پاس گئے اور ماں سے کہا اسے اپنا دودھ دو۔ ماں نے اسے اپنا دودھ پلایا۔بچے نے پھر رونا شروع کیا، آپ ؓنے کہا:اسے اپنا دودھ دو،ماں نے اسے اپنا دودھ پلایا۔ پھر بچے نے تیسری بار رونا شروع کیا تو وہ حیران ہوئے کہ وہ ماں جو کررہی تھی وہ دودھ پلانا نہیں تھا۔ آپؓ نے کہا: يا أمة السوء أرضعيه اے بری ماں،اسے دودھ پلاؤ۔ اس پر ماں نے کہا:اس سے آپ کو کیا تشویش ہے کہ میں اسے ماں کے دودھ سے ہٹا رہی ہوں؟ عمر نے پوچھا: کیوں؟ ماں نے جواب دیا : کیونکہ عمر صرف اُن بچوں کو وظیفہ دیتا ہے جو (اتنے بڑے ہو چکے ہوں) کہ ماں کے دودھ سے چھڑائے جاچکے ہوں۔ عمر نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور خود سے کہا:تم پر افسوس ہے عمر کہ تم مسلمانوں کے کتنے بچوں کو ہلاک کر چکے ہو۔ جب آپؓ فجر کی نماز میں اپنے ساتھیوں کی امامت کررہے تھے تو آپؓ کے ساتھی آپ کے رونے کی وجہ سے آپؓ کی تلاوت نہیں سمجھ پارہے تھے۔وہ دعا کررہے تھے اور کہہ رہے تھے: ربي، هل قبلت توبتي فأهنئَ نفسي، أم رددتها فأعزيها؟ اے میرے پروردگار! کیا آپ نے میری معافی قبول کرلی ہے تاکہ میں اپنے آپ کو مبارکباد دوں یا آپ نے اسے مسترد کر دیا ہے تاکہ میں اپنے لئے تعزیت کروں؟ پھرآپؓ نے نئی ہدایات جاری کیں کہ ہر بچےکوپیدا ہوتے ہی وظیفہ فراہم کیا جائےگا۔
عمرؓ نے بعض گورنروں کو خط لکھا،جس میں کہا: أما بعد، فقد نمي إلي أنه قد صار لك هيئة حسنة في مطعمك ومشربك، وملبسك، ومركبك، ومسكنك، ليست لعامة المسلمين، احذر يا عبد الله، أن تكون كدابَّة مرت بوادٍ خصبٍ، فجعلت همها في السِمَن، وفي السِمَن حتفها ” یہ میرے علم میں آیا ہے کہ آپ کے جسم اعلیٰ کھانےپینے،کپڑےاور اچھی رہائش کے ذریعہ بہترین ہو گئےہیں مگر مسلم رعایا کو یہ میسر نہیں ہے۔خبردار! اے اللہ کے غلامو!احتیاط برتو،کہیں تمہارا حال اُس چوپائے کی طرح نہ ہوجائےجو ایک زرخیز وادی سےگزرتے ہوئے اتنا کھا لیتا ہے کہ اس کا موٹاپا ہی اسے ہلاک کر دیتا ہے”۔ سیدناعمرؓ نے بعض گورنروں کو ہدایت کی اور ان سے کہا: لا تغلق بابك دون الناس، فيأكل قويُّهم ضعيفَهم "لوگوں پر اپنے دروازے بند نہ کروکہ ان میں سے طاقتور کمزور کو کھا جائے”۔سیدنا عمر نے فرمایا: أريد أميرًا، إن كان أميرًا بدا وكأنه واحد من الناس من شدة تواضعه، وإن لم يكن أميرًا بدا وكأنه أمير من شدة هيبته، ومن شدة غيرته على مصالح المسلمين "میں ایسا حاکم چاہتا ہوں،کہ جب وہ حاکم ہوتو وہ اپنی عاجزی کی انتہا کی وجہ سے عام لوگوں میں سے ہی ایک لگے۔ اور اگر وہ حاکم نہیں ہے،تو وہ اپنے انتہائی رعب اور مسلمانوں کے مفادات کے لئے اپنی انتہائی غیرت مندی کے باعث حاکم لگے۔
جس سال قحط پڑا اُس سال عمر نے ایک طویل عرصے تک گوشت کھانے سے انکار کر دیا۔ان کا پیٹ گڑگڑکرنے لگا۔ توانہوں نے اپنے پیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: أيها البطن قرقر أو لا تقرقر، فوالله لن تذوق اللحم حتى يشبع منه صبية المسلمين "اے پیٹ! تو گڑگڑکرے یا نہ کرے،اللہ کی قسم تو گوشت کا مزہ نہیں چکھے گا جب تک کہ مسلمان بچوں کے پیٹ نہیں بھر جاتے”۔
عمر کی خدمت میں کچھ عمدہ خوراک پیش کی گئی جس میں اونٹنی کے عمدہ حصے کا گوشت بھی تھا، تو آپ رونے لگے اور ارشاد فرمایا: بئس الخليفة أنا إذا أكلت أطيبها، وأكل الناس كراديسها "میں کتنا برا خلیفہ ہوؤں گا اگر میں اس اونٹنی کا بہترین گوشت خود کھالوں،جبکہ لوگ اس اونٹنی کی ہڈیاں کھائیں”۔آذربائیجان کے عامل کا پیغام رساں عمر کے لئے ایک خط لے کر مدینہ آیا، وہ آدھی رات کومدینہ پہنچا تھااور اتنی رات گئے عمر کے دروازے پر دستخط دینا نہیں چاہتا تھا،لہٰذا وہ مسجد چلا گیا۔اسے مسجد میں بہت اندھیرے میں ایک آدمی نظر آیاجو اپنے رب سے مخاطب تھا اور کہہ رہا تھا: ربي، هل قبلت توبتي فأهنئَ نفسي، أم رددتها فأعزيها؟ اے میرے پروردگار کیا آپ نے میری توبہ قبول کرلی ہے تاکہ میں اپنے آپ کو مبارکباد دوں یا آپ نے اسے مسترد کر دیا ہے تاکہ میں اپنے لئے تعزیت کروں۔ پیغام رساں نے اس آدمی سے پوچھا:تم کون ہو، الله تم پر رحم کرے؟ اس آدمی نے کہا:میں عمر ہوں۔ پیغام رساں نے کہا: اے امیر المومنین،کیا آپ رات کو سوتے نہیں ہیں؟ آپؓ نے کہا، إني إن نمت ليلي كله أضعت نفسي أمام ربي، وإن نمت نهاري أضعت رعيتي "ا گر میں پوری رات سوؤں گا تو اپنے نفس کو اپنے رب کے سامنے کمزور کر دوں گا اور اگر میں دن میں سوؤں گا تو لوگوں پر میری سرپرستی کمزور ہو جائے گی۔ پھران دونوں نے فجر کا انتظار کیا یہاں تک کہ فجر کا وقت ہو گیا اور عمرؓ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اس کے بعد عمرؓ نے پیغام لانے والے کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دی،لیکن پہلے اُسے انتخاب کرنے کو کہا کہ وہ غریب مسلمانوں کے ساتھ کھانا پسند کرے گا یا ان کے گھر پر،تو اس نے عمرؓ کے ساتھ کھانے کا انتخاب کیا۔جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو کہا: اے مومنوں کی ماں!ہمارے گھر کھانے میں کیا ے؟ جواب ملا: اللہ کی قسم ،ہمارے پاس روٹی اور نمک کے سوا کچھ نہیں ہے۔عمر نے کہا:ہمیں دے دو۔ جبکہ اسی دوران غریب مسلمان گوشت کھا رہے تھے۔عمر ؓ نے کھایا اورپیا،اور اس کے بعد اللہ کا شکر ادا کیا : الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا "سب تعریفیں اللہ کے لیے ہی ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا”۔ پھر عمر ؓنے پیغام لانے والےپوچھا:یہ تمہارے پاس کیا ہے؟ اُس نے کہا:میں آذربائیجان میں آپ
کے عامل کی طرف سے ایک تحفہ لایا ہوں۔ اُس نے تحفہ کھول دیا ،اس میں کچھ عمدہ خوراک اور اعلیٰ مٹھائی تھی۔پہلا سوال جو عمر نے اُس سے پوچھا،وہ یہ تھا:کیا وہاں آپ تمام لوگ ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں؟ اُس نے کہا:نہیں،یہ خاص کھانا ہےجو وہاں کے امیر لوگ کھاتے ہیں۔ پس،عمر نے جو نوالہ کھا یا تھا اُسے قے کرکے نکال دیا۔پھر عمرؓنے فرمایا: حرام على بطن عمر أن يأكل طعامًا لا يأكله فقراء المسلمين "عمر کے پیٹ کے لئے وہ کھانا حرام ہے کہ جس کھانے کی استطاعت غریب مسلمانوں کے پاس نہ ہو۔ پھر انہوں نے گورنر کے لئے نہایت سخت پیغام بھیجا جس میں عمر ؓ نے اُس سے سوال کیا: كيف يعنيك ما يعنيهم، إن لم تأكل مما يأكلون؟"تم اُن کی تکلیف کیسے محسوس کرو گے،اگر تم وہ نہیں کھاتے جو یہ لوگ کھاتے ہیں”۔
ختم شد