اپنی ذات کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ امت کے امورکی فکرکی جائے
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب رجب1342 ہجری میں خلافت کا انہدام ہوا تو اس کے بعد سے کچھ لوگ یہ دعوی کرتے آرہے ہیں کہ ہمیں امت کی مصیبتوں پر آنکھیں بند ، مظلوموں کی چیخ و پکار پرکان بند اور موجودہ حکمرانوں کے کھلی بے راہ روی اور اللہ کی حدود کی پامالی پر خاموش رہنا چاہیے۔ان کا یہ کہنا ہے کہ تقویٰ کا تقاضا ہے کہ سیاست سے اجتناب کیا جائے اور اپنی ذات کی اصلاح پر توجہ دی جائے اور حفظِ قرآن ،تہجد کی پابندی،عمرہ کی ادائیگی، صد قہ و خیرات اور اس جیسے دیگرانفرادی اعمال کی رغبت اختیار کی جائے۔ لیکن اس قسم کا مو قف اور طرزِ عمل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں نجات کے حصول کا طریقہ کار نہیں ہے۔ ہرگزنہیں، یہ کسی بھی طرح سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے اور خود کو آخرت میں جہنم کے عذاب کا حقدار بنانے کا باعث ہے۔ اپنی ذات کی اصلاح کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آپ ایسی زندگی گزارنے لگیں کہ جیسے کسی جزیرے میں رہ رہے ہیں اور خود کو امت کی صورتِ حال اورمعاملات سے لاتعلق کرلیں۔
اپنی ذات کی اصلاح پر توجہ دیتے وقت ہمیں رسول اللہ ﷺ کے غار کےساتھی، اس دنیا میں آپ ﷺ کے وزیر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نصیحت پر غور کرنا چاہیے جن کے متعلق امام علیؓ نے فرمایا تھا،«خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ وَخَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ عُمَرُ» "رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوںمیں سب سے بہتر ابو بکر اور ابو بکرکے بعد لوگوں میں سب سے بہتر عمر ہیں”(ابنِ ماجہ)۔ ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا: "اے لوگو! تم اس آیت کی تلاوت کرتے ہو﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ﴾ "اے ایمان والو! اپنی فکر کرو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا اگر تم خودراہِ راست پر ہو”(المائدہ:105)، لیکن میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ کہتے سنا ہے کہ جب لوگ کسی ظالم کوظلم کرتا دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو سزا دے”(ابو داؤد،ترمذی، نسائی)۔ لہٰذا ابو بکر صدیقؓ نے آیت کی غلط تشریح کو مسترد کیا جسے تنہائی اختیار کرنے اور ظالموں کے مظالم کو نظر انداز کرنے کے لیے دلیل بنایا جاتا تھا۔ ایک متقی شخص خیرو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور حکمران کے احتساب کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ یہی شخص سیدھی راہ پر ہے، اور جو اس کی بات پر کان نہیں دھرتےتو وہ اسے کسی صورت نقصان نہیں پہنچاسکتے اورنہ سننے والے ہی غلطی پر رہتے ہیں۔ لہٰذا یہ تقوی کی نشانی نہیں نہ ہی یہ اپنی ذات کی اصلاح ہے کہ خلافت کی عدم موجودگی اور مسلم دنیا کےحکمرانوں کی طرف سےمسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کو نظر انداز کر دیا جائے اور مظلوم مسلمانوں کی پکار کا جواب دینے سے غفلت برتی جائے۔ صدقات میں اضافہ یا بار بار عمرے حکمران کے محاسبے اور خلافت کے دوبارہ قیام کی ذمہ داری کامتبادل نہیں ہوسکتے۔
اپنی ذات کی اصلاح کی کوشش کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود کو اسلام کے نظاموں پر گفتگو کرنے اور امت کےاُمور سے لاتعلق کرلیا جائے اور اس کا جواز یہ دیا جائے کہ ہم فتنے سے بچ رہے ہیں ۔ آئیں ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خطاب کاجائزہ لیں جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،﴿وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً﴾ "اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سےگنہگار ہیں”(الانفال:25)۔ یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ فتنے کا شکار صرف گناہ گار اور شیطانی کام کرنے والے ہی نہ ہوں گے بلکہ اس کا شکار باقی لوگ بھی ہوں گے اگروہ گناہ کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جیسا کہ امام احمد نے بیان کیا کہ مطرف نے کہا "ہم نےزبیر ؓ سے پوچھا :اے ابو عبداللہ کیا مقصد آپ کو یہاں (جنگ جمل کے لیے)لے آیا ہے؟ آپ نے خلیفہ (عثمانؓ ) کو تنہا چھوڑ دیا تھا جنہیں قتل کردیا گیا اور اب آپ ان کے خون کا بدلا لینے کامطالبہ لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہﷺاور ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کے وقت یہ تلاوت کیا کرتے تھے ﴿وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً﴾’اور اس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں’، ہمیں اس بات کا گمان نہیں تھا کہ یہ آیت ہمارے ہی متعلق ہے جب تک کہ یہ فتنہ ہم تک پہنچ نہیں گیا”۔ اورابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ آیت خصوصی طور پر رسول اللہﷺ کے صحابہ کے متعلق ہے پھر فرمایا کہ اللہ نے ایمان والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے درمیان بدی کو پھلنے پھولنے سے روکیں تا کہ اللہ انہیں فتنے میں مبتلا نہ کردیں۔ امام احمد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زوجہ اُمّ سلمہؓ نے فرمایاکہ”میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:«إِذَا ظَهَرَتْ الْمَعَاصِي فِي أُمَّتِي، عَمَّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ»اگر گناہ میری امت میں پھیل گئے تو اللہ انہیں سزا کے گھیرے میں لے لے گا۔ میں نے کہا:اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ان کے درمیان اس وقت نیک لوگ موجود ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:ہاں۔ میں نے پوچھا:ان کا کیا ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:«يُصِيبُهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، ثُمَّ يَصِيرُونَ إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ»وہ بھی لوگوں کے ساتھ مصائب کا شکار ہوں گے لیکن انہیں اللہ سے معافی اور اس کی رضا مل جائے گی "۔ امام احمد نے بیان کیا کہ جریرؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:«مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي، هُمْ أَعَزُّ وَأَكْثَرُ مِمَّنْ يَعْمَلُ بِهِ، ثُمَّ لا يُغَيِّرُونَهُ إِلا أَصَابَهُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ»"کوئی بھی ایسے لوگ کہ جن کے درمیان گناہ کیے جائیں جبکہ وہ گناہ کرنے والے لوگوں سے زیادہ طاقتور اور تعداد میں بھی زیادہ ہوں لیکن اس کے باوجود وہ انہیں روکنے کی کوشش نہ کریں، تو اللہ ان تمام لوگوں کو عذاب میں گھیر لے گا "۔ تو کوئی یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ وہ حکمران کے گناہوں پر خاموشی اختیار کر کے فتنے سے بچ رہا ہے؟
وہ کیسے اس گفتگو کو کمتر سمجھ سکتا ہے اور اس پر ناپسندیدگی کا اظہارکر سکتا ہے جو امت کے مسائل اور حکمرانوں کی غداریوں اور ان مسائل کے حل کے متعلق ہو جبکہ اس کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ اس میں شریک ہو اور اس سے فائدہ حاصل کرے؟ وہ لوگ سیدھی راہ پرہیں جو حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں چاہے اس کی وجہ سے انہیں آج کے حکمرانوں کے ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑے۔
ہم کیسے اپنے اعمال کو صرف امت کے لیے دعاؤں تک محدود کرسکتے ہیں اور بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے خود کو روک سکتے ہیں جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خبردار کیا ہے کہ ایسی خالی خولی دعائیں قبول نہ ہوں گی؟ امام احمد نے حذیفہ بن یمانؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ،لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، أَوْ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عِقَابًا مِنْهُ، ثُمَّ تَدْعُونَهُ فَلا يَسْتَجِيبُ لَكُمْ» "اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کروگے ورنہ خطرہ ہے کہ اللہ تم پر اپنی طرف سے عذاب نازل کردے پھر تم اسے پکارو لیکن وہ تمہاری دعا قبول نہ کرے”۔ امام احمد نے ابو الرقادسے روایت کی کہ انہوں نے کہا:” میں نے حذیفہؓ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے وقت میں کوئی شخص ایک لفظ کہتا اور اس لفظ کی بنا پر منافق بن جاتا۔جبکہ اس قسم کے الفاظ اب میں تم میں سے کسی کے منہ سے ایک ہی محفل میں چار بار سنتا ہوں ۔ بے شک تم نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو اور اچھے اعمال کرنے کے لیے ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرو ورنہ اللہ تمہیں عذاب سے گھیر لیں گے یا تمہارے شریر لوگوں کو تمہارے پر رہنما بنا دیں گے۔ پھر تمہارے درمیان موجود متقی لوگ دعائیں کریں گے لیکن ان کی دعائیں قبول نہ کی جائیں گی”۔ تو ایک ایسے وقت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے جب ہمارے میں سے بدترین لوگ ہم پر حکمرانی کررہے ہیں اور کوئی خلافت نہیں ہے کہ جہاں اسلام کو مکمل طور پر نافذکیا جارہا ہو؟
کیاہم حکمرانوں کے گناہوں کو نظر انداز کردیں کہ ایسا کرنے سے ہم مشکلوں اور مصیبتوں سے بچیں رہیں گے، تو ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ امام احمد نے روایت کی ہے کہ نعمان بن بشیرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خطاب فرمایا جس میں انہوں نے اپنی دو انگلیوں کو اپنے کانوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا«مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا؛ كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا، وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِن الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ، فَقَالُوا: لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِيبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا, فَإِنْ يَتْرُكُوهُمْ وَمَا أَرَادُوا هَلَكُوا جَمِيعًا، وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِيعًا»” اللہ کی حدود پر قائم رہنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا، جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کی اوپری منزل میں جگہ ملی اور بعض کو نچلی منزل میں۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں(دریا سے)پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں تاکہ اوپر والوں کوہم سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو ایسا (کشتی میں سوراخ )کرنے دیں گے تو اوپر اور نیچے والے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ روک لیں گے تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی”۔ تو کیا ہمیں لازماًان لوگوں کے خلاف آواز بلند نہیں کرنی چاہیے جنہوں نے پوری مسلم دنیا کو ذلت و رسوائی کے سمندر میں ڈبو دیا ہے جبکہ یہ امت ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے؟
یقیناً اپنی ذات کی اصلاح ایسے ہو گی کہ امت کے اجتماعی امور میں خود کو مکمل طور پر مصروف کیا جائے اور اس دوران پورے اخلاص کے ساتھ ڈھیروں انفرادی عبادات کے ذریعے اللہ کا قرب تلاش کیا جائے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک عمل کیا جائے اور دوسرا چھوڑ دیا جائے یا یہ کہ جب ایک عمل پوری طرح اداہو جائے گا تو تب ہی دوسرا عمل کیا جائے گا بلکہ ان دونوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تو خلافت کی دعوت کے علمبرداروں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ صدقات دیں اور اس کے ساتھ ساتھ خلافت کے قیام کے لیے پورے اخلاص کے ساتھ جدوجہد کریں یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان اللہ کے نظامِ عدل کا نفاذ ہوجائے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾”اور جو دے سکتے ہیں دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے رہتے ہیں (کہ نہ جانے اللہ نے ان کا یہ عمل قبول کیا ہوگا یا نہیں)کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے”(المؤمنون:60)۔ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، «كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ: تَعْدِلُ بَيْنَ اثْنَيْنِ صَدَقَةٌ»” ہر آدمی کے ایک ایک جوڑ پر صدقہ واجب ہے، اورہر روز کہ جس میں سورج طلوع ہوتا ہےاس شخص کو اجر ملتا ہے جودو آدمیوں میں بھی انصاف کر تا ہے”(بخاری) ۔
خلافت کی دعوت کے علمبرداروں کو چاہیے کہ وہ گناہوں کی مغفرت کے لیے تہجد کی نماز میں باقاعدگی کریں اور ساتھ ہی حکمرانوں کے گناہوں پر خاموشی اختیار کرنے کے گناہ سے بچیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:﴿تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا﴾ "اُن کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہیں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُمید سے پکارتے ہیں”(السجدۃ:16)۔ اور فرمایا، ﴿كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ * وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾”وہ رات کے تھوڑے سے حصے میں سوتے تھےاور اوقات ِسحر میں بخشش مانگا کرتے تھے”(الذاریات:18-17)۔ اوررسول اللہ ﷺ نے فرمایا،«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّى يَرَوْا الْمُنْكَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ وَهُمْ قَادِرُونَ عَلَى أَنْ يُنْكِرُوهُ فَلَا يُنْكِرُوهُ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَذَّبَ اللَّهُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ» "اللہ عوام الناس کو چند خاص لوگوں کے (برے اعمال کے)باعث سزا نہیں دیتا ماسوائے کہ وہ اپنے درمیان برائی ہوتی دیکھیں اور وہ اسے روکنے کے قابل ہوں لیکن اسے نہ روکیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو اللہ خاص لوگوں اور عوام الناس دونوں کو سزا دے گا "(احمد)۔
یہ ٹھیک ہے کہ آرمی افسران قرآن کے حافظ بنیں کیونکہ قرآن کا حفظ کرنا قیامت کے دن دس رشتہ داروں کی شفاعت کا باعث ہو گا لیکن اسکے ساتھ ساتھ وہ کشمیر، افغانستان، برمااور فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے شہادت کے حصول کی تمنا بھی کریں جوروزِ قیامت ستر رشتہ داروں کی سفارش کا باعث ہو گی۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا،«مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ» ” جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کیا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس کے اہلِ خانہ میں سے دس ایسے افراد کے حق میں اس کی شفاعت قبول فرمائےگا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی”(ابنِ ماجہ)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،«لِلشَّهِيدِ عِنْدَ اللَّهِ سِتُّ خِصَالٍ يَغْفِرُ لَهُ فِي أَوَّلِ دُفْعَةٍ مِنْ دَمِهِ وَيُرَى مَقْعَدَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَيُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَيَأْمَنُ مِنْ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ وَيُحَلَّى حُلَّةَ الْإِيمَانِ وَيُزَوَّجُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ وَيُشَفَّعُ فِي سَبْعِينَ إِنْسَانًا مِنْ أَقَارِبِهِ» ” اللہ کے ہاں شہید کے لیے چھ بھلائیاں ہیں ۱)خون کی پہلی ہی پھوار پر اس کی مغفرت ہو جاتی ہے، اور جنت میں اس کو اپنا ٹھکانا نظر آ جاتا ہے ۲)وہ عذاب ِقبر سے محفوظ رہتا ہے ۳) وہ حشر کی بڑی گھبراہٹ سے مامون و بےخوف رہے گا ۴) اسےایمان کا جوڑا پہنایا جائے گا ۵)حُورعین سے اس کا نکاح کر دیا جائے گا ۶)اس کے عزیز و اقرباء میں سے ستر آدمیوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی جائے گی”(ابن ماجہ)۔ اوریہ ہونا چاہئے کہ آرمی افسران بار بار اللہ کے گھر عمرے کے لیے جائیں اور حجِ مبرور کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: «الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ تُكَفِّرُ مَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ»” ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے اور حجِ مقبول کا بدلہ جنت ہی ہے”(ترمذی)۔ اوراس کے ساتھ ساتھ انہیں چاہئے کہ وہ جنت کی نعمتوں کے حصول کے لیے ان حکمرانوں کو ہٹائیں جنہوں نے انہیں باندھ رکھا ہے تا کہ وہ خلیفہ راشد کی قیادت میں جہاد کے لیے نکل سکیں کہ جو اعلیٰ ترین عمل ہے۔ کیونکہ ابو ذر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے۔تو رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:«إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»"اللہ پر ایمان لانا اور اللہ عز و جل کے راستے میں جہاد کرنا”(نسائی)۔
ختم شد