تفسیر سورۃ البقرۃآیت177
مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا ءبن خلیل ابورَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر” سے اقتباس :
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُتَّقُونَ ﴾
[البقرة: 177]
"نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب (کو قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز ِآخرت پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں(کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو(اللہ سے) ڈرنے والے ہیں”(البقرة:177)۔
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مندرجہ ذیل باتوں کی وضاحت کی ہے:گزشتہ آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ نے اہلِ کتاب کے اختلافات کوبیان کیا کہ یہ لوگ الکتاب کے کچھ حصوں کو تو مانتے(ایمان لاتے) ہیں مگر کچھ کا انکار(کفر) کرتے ہیں۔ نیز یہ اس لحاظ سے بھی اختلاف کا شکار ہیں کہ اللہ کی نازل کردہ بعض کتابوں پر ایمان جبکہ بعض کا انکار کرتے ہیں اور ہر ایک خواہش کی پیروی میں اپنی من پسند بات پر ہی زور دیتا ہے۔ اب مذکورہ بالا آیات میں ان کے ایک اور اختلاف کا ذکر فرماتے ہیں ۔
ان اہل کتاب کے بہت سارے اختلافات میں سے ایک اختلاف یہ تھا کہ ہر ایک اپنے اپنے قبلے کی افضلیت جتلاتا تھا۔ نصاریٰ(عیسائی) کہتے تھے ہمارا قبلہ بہتر ہے ،یہود کہتے تھے ہمارا قبلہ بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا کہ’بِر’نیکی (جس میں تمام اقسام کے امور خیر اور طاعات شامل ہیں) کسی سمت یعنی قبلہ پر منحصر نہیں کہ کسی خاص سمت کی طرف منہ کرکے عبادت سے ہی نیکی حاصل ہو، بلکہ نیکی تو ایمان ہے، اعمال صالحہ ہیں، اور خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور پیروی ہے۔
پس نیکی یہ ہے کہ تم اللہ ، روز قیامت ، فرشتوں ،کتابوں اور نبیوں پر ایمان لے آؤ، ایمان بھی راسخ اور غیر متزلزل ہو ، شک و شبہ سے پاک اور خالص ہو۔نیکی یہ ہےکہ ضرورت مندوں کو صدقہ دو اور رشتہ داری کے تعلقات کو جوڑو۔ نیکی یہ ہے کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور ہر قسم کے بھلائی کے کاموں میں اللہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا کرو۔ نیکی یہ ہے کہ ہر حال میں صبر اور سچائی پر جمے رہو؛غربت اور سختی (الباساء) ،بیماری اور مصائب (الضراء) ،جہاد اور دشمنوں کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کے وقت میں (حین الباس)۔
یہی نیکی ہے اور ان ہی صفات کے حاملین کو صدق اور تقویٰ والے کہاگیا ہے،﴿أُوْلَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُتَّقُونَ﴾ "یہی وہ لوگ ہیں جو سچے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ والے ہیں”۔ان باتوں سے واضح ہوا کہ :
1: دوچیزیں اسلام ہیں؛
ا۔ ایمان ؛اس میں ہر وہ امر داخل ہے جس پر تصدیق جازم( قطعی یقین) کا مطالبہ کیا گیا ہے، یعنی اسلامی عقیدہ۔اسلامی عقیدہ یہ ہے : ایمان باللہ، فرشتوں ، اللہ کی نازل کردہ کتابوں ، اس کے بھیجے ہوئے رسولوں ،یوم الآخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان ، جیسا کہ عمربن خطاب ؓ والی حدیث میں آیا ہے جس میں جبرائیلؑ سے رسول اللہ ﷺ کے سوال و جواب کاذکر ہے ، اور جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا۔
ب۔ احکام شرعیہ ۔ ان کا تعلق اعمال کی ادائیگی اور عملی و قولی تصرفات کو شرعی احکام کے مطابق بجالانے کے ساتھ ہے۔
لہٰذا ایک مسلمان کی زندگی میں صرف انہی دو چیزوں سے درستگی آتی ہے؛ایمان اور عمل صالح۔ جیسا کہ کئی آیات کریمہ میں آیا ہے:﴿الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾”وہ جو ایمان لائے اور اعمالِ صالح انجام دیے” یعنی اسلامی عقیدہ پر ایمان اور شرعی احکام کی پابندی کی۔
2- اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،﴿وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ﴾ "اور مال دیتے ہیں اس سے محبت کرنے کے باوجود”، ‘عَلَى حُبِّهِ ‘ یعنی مال کے ساتھ محبت ہونے اور مرغوب ہونے کے باوجوداس کو خرچ کرتا ہے اور مالی صدقہ دیتا ہے اور اس قسم کا صدقہ اعلیٰ ترین صدقہ ہے۔ حدیث میں ہے:«أفضل الصدقة أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَأْمُلُ الْغِنَى وَتَخْشَى الْفَقْرَ»”بہترین صدقہ وہ ہے جو صحت اور تندرستی کی حالت میں دیا جائے،مال کی کچھ تنگی بھی ہو، مالداربننے کی خواہش اور فقر کا ڈر بھی دامن گیر ہو”(بخاری 1330، مسلم1713)۔
اللہ سبحانہ نے ﴿ذَوِي الْقُرْبَى﴾’رشتہ دار’ کو مقدم کیا کیونکہ ان پر صدقہ کرنے میں ایک مزید فضیلت ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے، «الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وعلى ذوي الرحم اثنتان»”کسی فقیر اور مسکین پر صدقہ ایک صدقہ ہے ، اپنے کسی رشتہ دار کو صدقہ دینادوگنا صدقہ ہے”(نسائی2523،ابن ماجہ 1834، مسند احمد4/17،218)۔
اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ضرورت مند لوگوں کی کچھ اصناف کا ذکر فرمایا:٭﴿وَالْيَتَامَى﴾یعنی’یتیم’، یہ وہ ہے جس کا والد بچپن میں اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پاجائے ۔
٭﴿وَالْمَسَاكِينَ﴾یعنی ‘ضرورت مند’، یہ وہ ہےجن کے پاس کوئی بھی مال نہ ہو یا اتنا مال بھی نہ ہو جو ان کی بنیادی ضروریات کھانا ،لباس اور مکان کے لیے کافی ہو۔
٭ ﴿وَابْنَ السَّبِيلِ﴾یعنی ‘مسافر’ ، یہ وہ ہےجو اپنے وطن سے دور ہو جس کے پاس سفر کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مال نہ ہو، اس کو مجازاً﴿ابْنَ السَّبِيلِ﴾کہتے ہیں ۔
ابن السبیل کے معنی ہیں راستے کا بیٹا۔ سفر میں مسافر کا تعلق زیادہ تر راستے کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔
٭ ﴿وَالسَّائِلِينَ﴾یعنی ‘وہ جومانگتے ہیں’،ایسے افراد جواپنی ضروریات کے لیے لوگوں سے بھیک مانگتے ہیں۔٭﴿وَفِي الرِّقَابِ﴾یعنی ‘گلے چھڑنے کے لیے’ یعنی غلاموں کو آزاد کرانے میں ، یہاں کلمہ (فِي) ‘کے لیے’ استعمال کیا گیا ہے، جو ظرفیت (Adverb of place)کا معنی دیتا ہے ، جس سے جگہ یا وقت مراد ہوتا ہے،اس سے اس بات پر دلالت مقصود ہے کہ غلاموں کو جو مال دیا جاتا ہے ، وہ ادھر ادھر خرچ کرنے کے بجائے سارا کا سارا گردن کے لیے یعنی اپنے آپ کو آزاد کرانے کے لیے صرف کیا جائے ،گویا ان کو دیے جانے والے مال کی جگہ یا دائرہ ان کی گردنیں اور ان کی آزادی ہے، بخلاف دیگر اصناف کے جن کا ذکر پہلے ہوا کہ ان کو دیا جانے والا مال وہ مختلف ضرورتوں میں خرچ کرتے ہیں۔
3- اللہ تعالیٰ نے صدقہ کا ذکر زکوٰۃ سے پہلے کیا جبکہ زکوٰۃ ایک فرض عمل ہے جس کا نمبر ادائیگی میں پہلے آتا ہے، مگر صدقہ کی فضیلت بتلانے کے لیے اس کو مقدم کرکے ذکر کیا تا کہ مسلمان صدقہ دینا نہ بھولیں اور فرض زکوٰۃ کو کافی نہ سمجھ بیٹھیں۔ بعض مسلمان ایسے ہوتے ہیں کہ آخرت کی سزا کے تصور کی وجہ سے ان کو فرض زکوٰۃ کی زیادہ فکر ہوتی ہے، وہ نفل صدقات کا اہتمام نہیں کرتے،جو واجب نہیں ہوتے مگران کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتاہے۔ چنانچہ اسی بات کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے صدقات کا ذکر پہلے کیا گیا تاکہ اہل ایمان فرض زکوٰۃ پر بس نہ کریں بلکہ نفلی خرچ بھی اس کے ساتھ شامل کریں،اس میں بڑا اجر ہے،بالخصوص وہ مسلمان جو مال کے ساتھ محبت اور غربت کے خوف کے باوجود اس میں سے صدقہ دیں، جس کا مطلب ہے کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود اس نے نفل صدقہ دیا،اس انداز سے کہ وہ صدقہ دینے سے خود فقراء میں سے ہوجاتا ہے، یعنی اس کے ساتھ اتنا مال نہیں کہ اس میں سے خرچ کرنے کے بعد وہ مالدار رہے، مگر اس کے باوجود وہ نفلی صدقہ دیتا ہے، ایسا شخص نیکی اور تقویٰ کے بلند درجات پاتا ہے۔
مگر صدقہ کو مقدم کرنے سے یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ نفلی صدقہ کی فضیلت زکوٰۃ سے بڑھ کر ہے بلکہ یہ آیت زکوٰۃ اورصدقہ ادا کرنے میں نص ہے( کہ صدقہ اور زکوٰۃ دونوںادا کیے جائیں)مگر اللہ سبحانہ نے صدقہ کی ترغیب دینے کے لیے اس کو مقدم کیا۔ نیز اس سے ایک مسلمان کی نفسیہ کی طرف اشارہ مقصود ہے جو اپنے پسندیدہ مال سے واجب مقدار سے زائدہ بھی خرچ کرتا ہے جبکہ خرچ کرنے میں اس کو فقر کا کھٹکا بھی ہوتا ہے۔
4-﴿وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ﴾”اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں”۔ یہ بھی (لٰکن) کی خبر میں سےہے، اور سابقہ ﴿وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا﴾کی طرح اسے مرفوع ہونا چاہیےتھا۔ مگر یہاں ایک اور نکتہ ہے جس کی وجہ سے یہ مرفوع کی بجائے منصوب ہوا ہے، اور وہ نکتہ ہے صابر لوگوں کی خصوصیت و امتیاز کہ شدت اور تکلیف کے وقت صبر کرنے والوں کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے اور یہ عظیم درجہ ان کے لیے خاص ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی مدح و تعریف کرتے ہیں نیز ایسے لوگوں کوہی بلند مرتبہ و مقام حاصل ہوگا جو ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے تیار کر رکھا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾” جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بےشمار ثواب ملے گا”(الزمر:10)۔ عربی زبان میں اس قسم کے مواقع میں جب مرفوع کو منصوب بنایا جائے تو اس کو نصب بنا براختصاص کہتے ہیں، یہاں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ سبحانہ صرف ان کی مدح فرماتے ہیں اور درجات رفیعہ ان کے لیے ہی مخصوص ہیں۔
ختم شد