رمضان کاایمان
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان کے دوران مسلمان ماضی کی شاندار کامیابیوں کو یاد کرتے ہیں ۔ اس مہینے میں امت نے بظاہر انتہائی طا قتور اورنا قابل تسخیر دشمنوں کے خلاف زبردست کامیابیاں حاصل کیں۔اس مہینے میں مسلمانوں نے بدر میں مغرور قریش ، عین جالوت میں تاتاریوں اور حطین میں صلیبیوں کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ تاریخی کامیابیاں مسلمانوں کے لیے فخر کا باعث ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہماری موجودہ صورتحال کی وجہ سے افسوس کامقام بھی ہے۔
آج مسلمانوں کو فلسطین، مقبوضہ کشمیر، برما، یمن اور شام میں قتل کیا جارہا ہے اورظلم و جبر کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے دشمن امریکہ، بھارت اور یہودی ریاست اپنی وحشیانہ کاروائیوں میں اضافہ کرتے جارہے ہیں اور انہیں دندان شکن جواب نہیں دیا جارہا۔ اس بات کے باوجود کہ مسلمانوں کے پاس دسیوں لاکھ افواج اور دنیا کی معدنیات ، توانائی اور زراعت کے وسائل کاایک بہت بڑا حصہ ہے،ان کی جانب سے دشمنوں کو کوئی جواب نہیں دیاجارہا۔ اس سے بھی بدتریہ ہے کہ مسلم دنیا کے موجودہ حکمران دشمن ریاستوں کے ساتھ گٹھ جوڑ،معاہدوں اور تعلقات کو معمول پر لانے کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ آج یہ جاننا ضروری ہے کہ مسلمانوں کوماضی میں فتوحات اور کامیابیاں ایمان اور اسلام کی حکمرانی کی وجہ سےحاصل ہوئیں تھیں کیونکہ اس کی بدولت ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا اور مدد حاصل تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے امت کے امام کو ‘راع’ (نگہبان) اور ‘جنۃ’ (ڈھال) قرار دیا ہے۔ ہمارے ماضی میں ہم پر ایمان کی نعمت کی وجہ سے حاصل ہونے والا تحفظ بالکل واضح ہے اور آج اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہم شدید خسارے کا سامنا کررہے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کے پہلے حکمران، ریاست کے سربراہ اور افواج کے سپہ سالار تھے۔ ان کے دور میں اسلام عالمی سطح پرنمودار ہوا اور خود کو بہت جلداس مقام پر پہنچایا کہ اس و قت کی عالمی طاقتوں، روم اور فارس، کو چیلنج کرنے کے قابل ہوگیا۔ امت کے بہترین افراد، خلفائے راشدین نے رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی کی اور ان کے نقش قدم پرچلے۔ خلافت راشدہ کے دوران ہر خلیفہ نے نئے نئے علا قے اسلام کی حکمرانی اور اس کے نفاذ کے لیے فتح کیے۔ خلفائے راشدین کے بعد بھی ہر دور میں مسلمانوں کوایسے امام (خلیفہ)میسر رہے جنہوں نے اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کی اور دشمنوں کے خلاف مسلمانوں کو یکجا رکھا۔ امام کی بیعت کی اہمیت اور اسلام کی بنیاد پر حکمرانی کے فرض کی ادائیگی سے ہر دور کے مسلمان اچھی طرح سےآگاہ تھے، لہٰذا انہوں نے اس فرض کی ادائیگی کو یقینی بنایا اور اس کی وجہ سے اللہ نے انہیں عزت عطا فرمائی۔
مسلمان ان ادوار میں بھی جب خلافت بہت کمزور تھی ایک بارعب قوت تھے۔ ہمارے پاس امام تھا جو ہم پر اسلام نافذ کرتا تھا،ہمیں یکجا رکھتا تھا اور ہماری پوزیشن کو مستحکم رکھتا تھا۔ امریکہ اپنے بحری جہازوں کو بحیرہ روم سے گزارنے کے لیے عثمانی خلافت کے الجزائر میں والی کو راہداری فیس ادا کیا کرتا تھا۔ فرانس نے مسلمانوں کے امام ، سلیمان القانونی ،کومدد کے لیے پکارا کہ وہ اس کے قیدبادشاہ کو رہائی دلوائے۔ برطانیہ ایک ڈرامہ نویس کی جانب سے رسول اللہ ﷺکی توہین پر لندن میں عثمانی خلافت کے سفیر سے معذرت کرنے پر مجبور ہوگیا۔
خلافت ایک خواہش نہیں ہے جیسا کہ جنرل باجوہ نے 54ویں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے سامنے دعوی کرتے ہوئے کہا تھا۔ اس سے کہیں بڑھ کر یہ آج ہماری اشد ضرورت ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ نبوت کے منہج پر خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے سنجیدہ،مخلص اور انتھک جدوجہد کریں۔
ختم شد