سوال و جواب: جنوبی تحریک کی حقیقت اور اس کی ماتحتی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
کیا جنوبی تحریک (الحراک الجنوبی) اب بھی امریکی ہے؟ یا یو اے ای کو محدود کیے جانےکی وجہ سے کونسل کی ایجنسی نے برطانیہ کی جانب رخ کیا ہے اور یو اے ای کی پیرو بن گئی ہے اور یو اے ای ملک میں برطانیہ کی نمائندگی کرتی ہے؟ دوسرے الفاظ میں،کیا امریکہ جنوبی تحریک کو تسلسل دینے میں ناکام رہا ہے اور کیا برطانیہ اس تحریک کو یو اے ای کے ذریعے اپنی جانب ملانے میں کامیاب رہا ہے؟ یا یہ تحریک اب بھی امریکہ کی پیروی کر رہی ہے لیکن کیونکہ یہ صرف یو اے ای ہی ہے جو عدن میں ا پنی فوجی طاقت کے سبب جنوبی تحریک پر اثرانداز ہونے میں کامیاب ہے، لہٰذا وہ جنوبی تحریک کو برطانیہ کا وفادار بنائے بغیر اس پر اثرانداز ہو سکا؟
جواب:
1۔ برطانیہ کو اس بات کی تشویش تھی کہ شروع نوّے کی دہائی میں شاہ فہد کے دور میں امریکہ نے مصر اور سعودی عرب کے ذریعہ علی سالم البیض اور علی ناصر محمد کو بلاواسطہ اور بلواسطہ آمادہ کر لیا تھا حالانکہ یہ برطانیہ ہی تھا جس نے اپنے ایجینٹوں کے ذریعے "جنوبی یمن میں قومی آزادی فرنٹ”(National Liberation Front in South Yemen) کی تشکیل کی تھی اور 20/11/1967 سے مذاکرات میں شرکت کے لیے جنیوا میں مدعوکیا تھا۔ پھر برطانیہ نے اپنی افواج کی واپسی کے بعد ، جنوبی یمن کو 30/11/1967 کو آزاد کر دیا اور برطانیہ کی تائید کے ساتھ علی سالم جنوبی یمن کا گورنر بن گیا۔اس طرح سے،
برطانیہ نےعلی سالم کے امریکہ سے رشتے کو ایک ذلّت کے طور پر دیکھا! اس لیے، برطانیہ نے اس کو تخت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا کیونکہ برطانیہ اپنے آدمی علی صالح جیسی طاقت ور شخصیت کے ہوتے ہوئے اس کی استطاعت بھی رکھتا تھا۔
اس طرح سے یمن کے دونوں حصّوں کے اتّحاد کے چار سال بعد ہی ، 1994 میں دونوں حصّوں کی افواج کے مابین جنگ چھڑ گئی!جنگ کے خاتمے کے اور "جنوب” کی افواج کی شکست کے بعد، علی سالم اور علی ناصر محمد نے فرار کی راہ پکڑی اور انہوں نےاپنے آپ کو تھوڑا بہت الگ تھلگ کر لیا۔
اس کے بعد صنعاء میں صالح کی حکومت نے کئی سال تک جنوب کی فوج کا تعاقب کیا اور ان کوکچلتا رہا۔ تب، فوج سے ریٹائرڈ ارکان ،جنہیں ان کے کام سے چھٹّی دے دی گئی تھی، نے جنوب میں ایک ایسوسی ایشن قائم کی جس کا کام تشد دو ظلم اور حقوق کی عدم فراہمی کے حوالے سے آواز بلند کرنا تھا۔ان مظالم و ناانصافیوں کے تسلسل کی وجہ سے فوج کی اس اسمبلی کے آزمودہ کار اشخاص میں بھی علیحدگی پسندی سرائت کرگئی جس سے کہ وہ علیحدگی اور افتراقیت کا گڑھ اور علیحدگی پسند گروپ کا مرکز بن گئی جن کی تحریکیں ہی اب جانے والی جنوبی تحریک(Al-Hirak Al Janoubi) کا موجب بنیں جس نے باضابطہ طور پر 2007 میں اپنے وجود کا اعلان یمن میں کیا۔اس کے علاوہ بھی کچھ کم اہمیت اور کم اثردار تحریکیں چلائیں گئیں جن کا ہم یہاں ذکر نہیں کریں گے۔
2۔ امریکہ نے اس صورت حال کو جنوبی یمن میں اپنے تسلط کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا، جبکہ شمالی یمن میں اس کا دوسرا گڑھ حوثی تحریک کے ذریعے قائم تھا ہی اور اس کو ایران کی تائید حاصل تھی۔اس طرح سے، بین الاقوامی تنازعات کے تناظر میں، جنوبی تحریک جس کا مقصد مظالم اور تشدد کے خلاف آواز بلند کرنا تھا وہ اب یمن میں مداخلت کرنے کے لیے امریکہ کے ہاتھ کا ایک آلہ بن گئی ہے کیونکہ وہاں کی حکومت برطانیہ کی وفادارہے۔
بڑی طاقتیں روائتی طور پرکسی بھی ملک کے اندرونی حالات و تنازعات کا استحصال کرتی آئیں ہیں تاکہ ان پر اثرانداز ہو سکیں۔امریکہ نوے کی دہائی میں 1994 کی خانہ جنگی میں ، سعودی عرب میں ، شاہ فہد کی انٹیلی جینس سروس کے ذریعے جنوبی یمن میں عسکریت
پسند وں سے رابطہ بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ حالانکہ ، سالم البیض اس وقت اس کا ایک پیرو تھا، اس وقت اس کا الگ تھلگ ہونا اور اپنی جلا وطنی کے دوران میں اس کی جانب سے صالح کی حکومت کے خلاف مادی اقدامات کی پکار نے امریکہ کوقائل نہیں کیا کہ سالم اکیلا یہ کام کرسکتا ہے اور وہ کسی ایسے متبادل کی تلاش میں لگ گیا جو قوی سیاسی عمل کو انجام دے سکے تاکہ جنوب کے لوگوں کو ایک بلاک میں متحد کر دے جو صالح کی حکومت پر زبردست دباؤ ڈال سکے۔امریکہ کو اس کا راستہ حزب اختلاف کے حسن باوم کے ذریعہ حاصل ہوا جو جنوبی یمن کی علیحدگی کے لیے سرگرم تھا اور ایک شہر سے دوسرے شہر بہت پھرتی سے گھوم رہا تھا اور قبائل کے درمیان اپنی اور اپنی علیحدگی کے مطالبے کے لیے نصرت و تائید کی تلاش میں گھوم رہا تھا۔ اس سب کا اثر جنوب کی عوام کی بدحالی اور پیچھے رہ جانے میں ظاہر ہوا ۔ جنوب کو یمن سے علیحدہ کرنے کی خاطر حسن اس سے متعلق رائے عامّہ بنانے کے لیے ایک کے بعد دوسری تقریب منعقد کرنے میں مشغول تھا تاکہ تشدد کے بجائے امن و سکون سے یہ مقصد حاصل کیا جاسکے۔یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ حسن باوم کی تحریکوں کو کچھ کامیابی ملی ہے اور کبھی کبھی جنوبی حصّوں میں اس تحریک کو تقویت بھی ملی ہے جہاں جنوب کی عوام کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ان کوجانتے بوجھتے پیچھے رکھا گیا ہے ۔
صنعاء حکومت نے اس کو گرفتاری کیا اور اس پر تشدد بھی کیا جہاں اس کو 2007 اور 2008 کے ایک سال کے وقفے میں ہی کئی دفع گرفتار کیا گیا ۔ اس کو 2010 میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا اور دو مہینے کے بعد 2011 میں رہا کر دیا گیا اور پھر اسی سال دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔اس طرح سے علیحدگی پسند حسن باوم اپنی انتھک کوششوں ، فوج کے بااثر لوگوں، قبائل اور سیاسی کارکنوں کوصنعاء میں مرکزی حکومت کے خلاف ترغیب دلانے، علیحدگی کے مطالبے کو راسخ کرنے اور ان کی پر زور طریقے سے وکالت کرنے اور امریکہ سے اس کے تعلقات اور ایران سے مل رہی اس کو تائید و نصرت کے چلتے وہ جنوبی یمن کی آزادی تحریک الحیراک کی ایک علامت بن گیا ۔حسن باوم کی خاصیت یہ رہی ہے کہ اس نے بہت تیز رفتاری کے ساتھ تحریکیں چلائیں اور اس نے جنوبی تحریک کی سپریم کونسل کی تشکیل کی اور اس کا صدر بن بیٹھا۔ سپریم کونسل آف دی پیس فل موومنٹ فار دی لیبریشن آف دی ساوتھ الحیراک کا ایک اہم دھڑا ہے جس میں سپریم نیشنل کونسل فار انڈیپینڈس آف دی ساوتھ، دی سپریم نیشنل کونسل فار لیبریٹنگ اینڈ ریسٹورنگ اسٹیٹ آف ساوتھ یمن، دی ساوتھرن ڈیموکریٹک اسمبلی اور یونین آف ساوتھرن یوتھ اینڈ اسٹوڈنٹس جیسے دھڑے بھی شامل ہیں۔۔۔دھیل الحیراک کا ایک بہت ہی سرگرم اور فعال حصّہ ہے۔۔۔(الجزیرہ نیٹ 03/03/2011)۔کچھ دوسری ویب سائٹس نے اس کو واضح طور پر ایک ایرانی ایجنٹ قرار دیا جیسا کہ hunadeen.comمیں 13/09/2016بیان ہوا ہے ۔اس طرح سے، جنوبی علیحدگی تحریک جس کی قیادت حسن باوم کر رہا ہے ، ایک سیاسی تحریک ہے جس کا تعلق ابتدا سے ہی امریکہ سے ہے اور یہ جنوبی یمن میں امریکی مداخلت کا ایک مرکز بن گیا ہے۔الحیراک کے ذریعے تحریکیں، تقریبات اور ہڑتالیں کی جاتی رہی ہیں اوردھیل ان کا مرکز رہا ہے۔حالانکہ، حسن باوم حضرمی مکلّا سے ہے، اور دھیل سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ان ساری تحریکوں نے اس گروپ کے لیے ایک طرح سے سیاسی مشق کا کام کیا ہے۔ابتداء میں صنعاء حکومت نے اس تحریک کو خطرناک نہیں سمجھا کیونکہ اس کے اہم کام سیاسی تھے اور اس لیے حکومت صرف اس تحریک کی علامتی شخصیات جیسے حسن باوم، احمد بن فرید، علی الغریب اور علی منسرا کو کچھ وقفے کے لیے گرفتار کر لیتی تھی اور پھر رہا کر دیتی تھی۔
3۔ اس طرح سے، جنوبی تحریک میں امریکہ کے بندے ماہر ہو چکے ہیں اور علیحدگی کا تصور ان میں پیسوست ہو چکا ہے اور وہ ان کے لیے ایک نظریہ (ideology) بن چکا ہے۔جبکہ، وہ لوگ جو جنوبی تحریک کی سرگرمیوں سے متاثر ہیں ؛ان میں سے کچھ مقامی کارکن ہیں اور کچھ یمن میں برطانیہ اور ان کے لوگوں کے اثر میں ہیں ، اور اس طرح کے لوگ کبھی اتحاد کے ساتھ اور کبھی علیحدگی کے ساتھ ہوتے ہیں جبکہ علیحدگی ان کا نظریہ نہیں ہے۔صنعاء کی حکومت ان ہی لوگوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے تاکہ علیحدگی کا تصور تحلیل ہو سکے جو کہ امریکی ایجنٹوں کا خاص مقصد ہے جس کی خاطر وہ ان لوگوں میں اپنے خاص لوگوں کو شامل کراتی ہے ۔جیسا کہ ہم نے بتایا، کہ صنعاء کی حکومت ان کو خطرناک تصور نہیں کرتی تھی، لیکن جب صنعاء میں صدر صالح کی حکومت اور ان کے پیچھے برطانیہ کو یہ واضح ہوا کہ یہ تحریک اب زور پکڑ رہی ہے اور اس کے خطرات میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے خاص طور سے تب جب امریکی ایجنٹ اس کے پشت پر ہیں تو صنعاء کی حکومت ،برطانیہ اور ان کے مقامی پیرو ں نے اس کی روک تھام کے لیے اس کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا ، خاص طور سے جنوب میں پیچھے رہ جانے کے جذبات کے زیر اثر جب اس کو ختم کرنا بہت مشکل ہو گیا ۔جنوبی تحریک کی نشو نماء کی مناسبت سے” برطانوی” روک تھام کا منصوبہ ترقی پاتا گیا، جو صرف گرفتاریوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں شدید قسم کا تشدد بھی پایا جاتا تھا۔یہ تب تک جاری رہا جب تک یو اے ای، اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوے کہ وہ عرب میثاق کا حصّہ ہے، اپنی زمینی افواج کے ساتھ داخل نہیں ہو گیا، اور پھر صالح کی موت کے بعد پر زور حملہ کیا جبکہ شمال میں برطانیہ کا اثر کم ہوا اور اس کو اس کا خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں اگرحوثی(Houthis) شمال میں اپنا اثر بڑھا لیں گے تو ایک خلا پید ا ہو سکتاہے۔اس لیے امریکہ نے ، جنوب میں ایک طاقت کا ہونا ناگزیر سمجھا جو کہ یمن کی حکومت میں اس کے لیے ایک دباؤکا کام کرے گی؛
اگر پورے یمن میں نہیں تو کم سے کم جنوب میں تو اس کی موجودگی درج ہوتی ہی رہے گی۔اس لیے، جنوب میں اپنے اثر کو مرتکز کرنے کے بارے میں وہ بہت غور و خوض کرنے لگا خاص طور سے اس لیے کیونکہ اس کا مکمّل اعتماد حادی پر نہیں تھا کیونکہ وہ یہ سوچتا تھا کہ وہ سعودی عرب کے زیر اثر ہے، اس لیے یو اے ای کی مدد سے اس نے اس کا انتظام کیا ، اس کے ساتھ ہی ساتھ یمن کے صدر-جن کو گزشتہ سال کے آخر میں 04/12/2017 کو حوثیوں نے قتل کر دیا تھا – کے ذریعہ مسلّح افواج کو متحرک کیا گیا جو جنوب کی جانب روانہ ہو کر یو اے ای کی افواج کے ساتھ مل کر حوثیوں کے خلاف تصادم کرنے کو تیار ہو گئیں۔ "یمنی حکومت کے ذریعہ سے اس بات کی توثیق ہوئی ہے کہ علی صالح کا بھتیجا طارق صالح یو اے ای کی فوج کے تحفظ میں عدن میں تھا۔ سفارتی ذرائع کے حوالے سے پتہ چلا ہے کہ یو اے ای احمد بن علی صالح پر لگی پابندیوں کو ہٹانے کے لیے بھر پور کوششوں کررہا ہے تاکہ مستقبل میں ایک سیاسی کردارادا کر سکے”( ناس ٹائمس، یمنی ویبسائٹ 05/02/2018)۔ "ہم طارق صالح کی تائید کریں گے اور شمال میں اور ساری جہت میں ہم اس کی پشت پر کھڑے ہیں جب تک کہ صنعاء مکمل طور پر آزاد نہیں ہو جاتا۔”سپریم ٹرانزیشن کونسل کی افواج کے کمانڈر نے کہا(30/01/2018، فرانس24)۔اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ جنوب میں ایک کھیل کھیل رہا ہے اور علی صالح کے یمنی ریپبلیکن گارڈ اور جنرل کانگریس پارٹی میں موجود کنبے کے لوگوں کو ایجنٹ بنا کر ان کے ذریعے اپنے اثر کو مضبوط کر رہا ہے۔علیحدگی پسند لوگوں کی تائید یو اے ای اپنی ہوائی اور زمینی افواج سے کر رہا ہے، جبکہ سعودی عرب صرف ہوائی طاقت سے ہی اس جنگ میں شامل ہے۔
4۔ اس طرح سے، برطانیہ یو اے ای کے ذریعے جنوب میں کام کرنے لگا تاکہ اصل جنوبی تحریک میں گھس سکے یا اس کو پیچھےکر کے ایک دوسری نئی تحریک کے ذریع اس کو پیچھے ڈال دے ۔یو اے ای نے علی سالم البیض کے حصّے سے شروعات کی حالانکہ برطانیہ علی سالم البیض اور علی ناصر کو دی گئی امریکی امداد اور نصرت کی کوششوں کی شدت سے واقف تھا۔ امریکی مراعات میں ایرانی امداد، مصری سہولتوں کی دستیابی، جیسے کہ علی ناصر محمد کی قیادت میں 2014 میں قاہرہ میں جنوبی تحریک کی میٹنگ کا انعقاد، لبنان کی سہولیات جہاں بیروت نے علی سالم البیض کو پناہ دے رکھی ہے اور اس کو ایک میڈیا پلیٹ فارم مہیّا کرایا گیا ہے جس سے کہ وہ اومان میں 1994 سے محروم تھا ۔ پھر 2014 کے سعودی”فیصلہ کن طوفان”کی شروعات کے بعد ، وہ ریاض منتقل ہو گیا جہاں وہ مال و دولت کی فراوانی سے نوازا گیا۔ بحرحال ، جیسا کہ ہم نے پہلے ہی بتایا ہے یو اے ای نے البیض اور ناصر کے دھڑے کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔جہاں تک اس سوال کا جواب ہے کہ اس نے اس دھڑے سے شروعات کیوں کی تو اس کی دو وجوہات ہیں: اول، کیونکہ وہ تشدد کو اپناتا ہے اور دوئم برطانیہ سے اس کی پیشتر وفاداری کا پس منظر اس کا تعاقب کر رہا ہے، کیونکہ نیشنل فرنٹ کی تشکیل انہیں کے ذریعے ہوئی ہے اور جنوبی یمن کی حکومت کا تاج برطانیہ نے ہی اس کے سر پر رکھاہے۔ اس لیے وہ اس کو اسی دور کی یاد داشت میں جینے دینا چاہتے ہیں، اس تک اس کو لوٹانا چاہتے ہیں ، قریب کرنا چاہتے ہیں اور اس کی حکومت کو بہتر طریقے سے مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ 2015 میں یمن میں عرب معاہدے کے آپریشن کے بعد، البیض کو سعودی عرب سے یو اے ای منتقل کر دیا گیا جہاں وہ ابو ظہبی میں رہ رہا ہے، کیونکہ وہ امریکہ کے وفادار ممالک میں رہائش پزیر رہا ہے اس لیے وہ دو سال تک( 2012 اور 2013) میں لبنان میں ایران کی تائید اور اپنی پارٹی کی حفاظت میں رہا، پھر وہ سعودی عرب چلا گیا اور پھر یواے ای نے اس کو جیت لیا کیونکہ وہ اتحاد(coalition) میں ہے، اور اس کو یہاں منتقل کر دیاجہاں وہ ابو ظہبی میں باوقار و عزت سکونت اختیا ر کی ہے۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ البیض کی وفاداری کا حامل نہیں ہوتی ہے؛جب وہ جنوب یمن کا صدر تھا تو وہ برطانیہ کا وفادار تھا اور شروعاتی نوے کی دہائیوں میں امریکہ نے اس کو اپنا بنا لیا
اور وہ اس وفاداری پر قائم رہا اور امریکی حمائتی ممالک میں گھومتا رہا، اور اب وہ یو اے ای میں ہے جو اس کو دوبارہ پھسلانا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ دوبارہ اپنی وفاداری بدل دے، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے اور یو اے ای کے درمیا ن تناؤ میں اضافہ ہونا طے ہے۔بحرحال، اس کا موقف ٹرانزیشن کونسل سے زیادہ قریب ہے اور اس نے اس کی تعریف بھی کی ہے:” یمن کے سابقہ نائب صدر علی البیض نے ایک ‘جنوبی سیاسی باڈی’ کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ جنوبی ولایات کے تین گورنروں نے ایک دن بعد ہی عدن کے گورنر Aideros Zubaidi کی ایک سیاسی باڈی کی تشکیل کے لیے حمایت کی ہے۔البیض نے ‘العربی الجدید’ کے حوالے سے ایک بیان میں اس کی توثیق کی ہے کہ وہ ‘ہر ممکنہ ذرائع سے’اس مہم کی تائید کرے گا اوراس نے مختلف جنوبی سیاسی طاقتوں اور آزاد شخصیات سے اپیل کی ہے کہ وہ’اس دعوت کے ساتھ مثبت طریقے سے تعامل کریں اور توقع، غفلت اور انحصار کی حالت سے ایک نئے مرحلے کی طرف باہر آجایں’۔ عبیان کا گورنر خضر ال سیدی ، لہج کا گورنر ناصر الخانجے اور دھیل کا گورنر فضل الجادی نے عدن کے گورنر Aidarous al Zubaidi کی ایک "جنوبی باڈی” کی تشکیل کی دعوت پر لبیک کہنے کے ایک دن بعد البیض کا بیان آیا(16/09/2016)۔ اسی کی طرح ، اس کا دوست ، علی ناصر محمد جو کبھی کبھی علیحدگی کی حمایت کرتا ہے اور کبھی اپنی شرائط کی مناسبت سے یمن میں ایک حکومت کا پیروکار بن جاتا ہے، اسی کے مثل ہے!جب یمن کے حل کے بارے میں 04/10/2017 میں دریافت کیا گیا(یعنی کہ، 2017 کے آخر میں حوثیوں کے خلاف علی صالح کی مورچہ بندی سے پہلے)، اس نے کہا: "قومی اتحاد پر مبنی ایک حکومت کی تشکیل اور عام اتفاق، اہم عناصر کا خراج جن سے دونوں پارٹیوں ("حوثیوں اور حادی کی حکومت”)میں جنگ کی آگ بڑھ رہی ہے، اس تغیّر پزیر ی کے وقت میں کسی بھی سرکاری مقام سے اور ساری پارٹیوں سے اسلحے کی واپسی اور ان کو وزارت دفاع کو سونپنا کیونکہ یمن کو ایک صدر، ایک حکومت، ایک وزیر دفاع کی ضرورت ہے اور اگلے مرحلے میں انتخابات کی طرف لوٹنا ہے”(الحرم العربی 04/10/2017)۔ان سب چیزوں سے واضح ہے کہ برطانیہ یوا ے ای کے توسط سے ان اشخاص اور ان کے ونگ تک ایک بااثر درجے تک پہنچنے میں کامیا ب ہو گیا ہے جنہوں نے علیحدگی کو ایک ٹھوس نظریے کے طور پر نہیں اپنایا ہے کہ وہ اس سے بالکل ہٹنے کو تیا ر نہ ہوں جیسے کہ جنوبی تحریک کے معاملے کی شروعات ہوئی تھی بلکہ وہ حالات کے مطابق اپنے میں تغیر لانے کو تیا ر تھے۔
5۔ حسن باوم کا ونگ اپنی بنیاد سے ایک نظریاتی سیاسی علیحدگی کا حامی رہا ہے۔ برطانیہ کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ کسی بھی طرح کی تسکین ، ترغیب یا غلبے پر مبنی حل مفید ثابت نہیں ہوں گے، اس لیے انہوں نے اس کو بنا کسی باضابطہ فیصلے کے ایک بھونڈے طریقے سے اومان میں گھیرنے کا سوچا۔ اور اس نے وہاں سکونت اختیار کرنے کا فیصلہ اس لیے لیا تھا کیونکہ اومان غیر جانب دار ملک لگ رہا تھا گویا کہ اس کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اپنے طے کردہ کردار کی مناسبت سے وہ برطانیہ کے ساتھ قدم بہ قدم چل رہا ہے! اس لیے اومان میں برطانیہ کے ایجنٹوں کے ذریعے حسن باوم پر شکنجہ کسا گیا اور وہ سلالہ کے شہر میں لمبے وقفے تک نظر بند رہا۔ جنوب تحریک میں ملوث امریکہ کے اس سب سے مقدم بندے کی لمبی غیر موجودگی کے چلتے امریکہ کے حامی فرقوں میں کچھ کمزوری آ گئی ہے۔ اس طرح سے، برطانیہ نے اس موقع کو یو اے ای کے ذریعے استعمال کیا اور ایک متوازی جنوبی تحریک کی بنیاد ڈالنے پر زور دیا تاکہ جنوب کے کیس میں حسن باوم کے دھڑے کو کم اہم قرار دے دیا جائے، اور اس مقصد کے لیے انہیں ایدرس زوبیدی مل گیا جو کہ جنوبی تحریک کا ایک قدآور قائد ہے، اور علیحدگی پسند خود عزم تحریک
بنام” HATAM” کا بانی ہے جو 1996 میں قائم ہوئی تھی۔ برطانوی گروپ سے اپنی قربت کے باعث، اس کو صدر حادی نے07/12/2015 کو عدن کا گورنر مقرر کیا، جو کہ (مارچ 2015 )Saudi Decisive Storm کے کچھ مہینوں بعد ہوا۔برطانوی ایجنٹوں کا اس پر اعتماد قائم ہونے کا یہ ایک بہت مضبوط اشارہ تھا۔ایڈرس الزبیدی کا عدن میں ایک زبردست مقام ہے اور وہ اس شہر کا ایک کامیاب گورنر رہ چکا ہے۔اس نے وہاں بجلی بحال کروائی اور مسلّح گروہوں کو شہر سے باہر نکالا۔اس نے حوثیوں سے جنگ کی اور امریکی نمائندے Ould Sheikh کی تجاویز کی مخالفت کی۔یہ سارا کام یو اے ای کی عوامی اور برا ہ راست معاشی اور جنگی امداد سے ہوا۔1994 کی خانہ جنگی کا ایک سپاہی اور علیحدگی تحریک کا اس کے شروعاتی دور سے ہی ایک قائد رہتے ہوئے اور 1994سے Djibouti سے فرار ہونے کے وقت سے صنعاء میں علی صالح کی حکومت کے ذریعے تعاقب کئے جانے تک، Dhale علاقے کا ایک مقامی بیٹا ہونے پر جو کہ جنوبی تحریک کا مرکز اور نکتہ ثقل رہا ہے، عدن کا ایک کامیاب گورنر ہونے کے ناطے اور حوثیوں کے خلاف برسر جنگ ہونے پر وہ جنوب میں دھیرے دھیرے ایک بہت ہی اہم سیاسی شخصیت بن گیا ہے جس کا مقابلہ جنوبی تحریک کے حسن باوم کی تاریخی قیادت سے ہے۔جنگی طور پر ، ایڈریس الذبیدی جنوبی بیلٹ کے بانی حنی بین بریک پر اعتماد کرتا ہےجو یمنی منظر عام پر حوثیوں سے لڑتے ہوئے ، اور پھر سیاسی منظر عام پر یو اے ای کے ذریعے عائد کئے گئے ایک وزیر کے طور پر ظاہر ہوا ہے کیونکہ ابو ظہبی کی فیّاضانہ امداد کی وجہ سے اس نے اپنا اثر حاصل کیا ہے اور جنوبی یمن میں ایک نام نہاد "تحفظی بیلٹ ” کی بنیاد ڈالی جو کہ یو اے ای کا ایک جنگی مسلح گروہ ہے جس کو عوام کی تائید حاصل ہے۔(سسا پوسٹ 02/11/2017)
اس طرح سے، الزبیدی اور بریک کی جنوب میں دلچسپی ہے، لیکن کیونکہ وہ حادی کی حکومت کا حصّہ تھے اور برطانیہ کے لیے ان کی وفاداری کا بھانڈا پھوٹ گیا اور یہ چیزیں ان کی جنوبی تحریک کی دعوت کے لیے درکار ان کی مقبولیت میں ایک شگاف لگاتی ہیں اس لیے پہلا قدم ان کو حادی حکومت سے بے دخل کرنا تھا جس سے کہ یہ ظاہر ہو کہ وہ حادی کیمپ اور خاص طور سے الزبیدی سے شدید مخالفت میں ہیں اور پھر جنوب والے ایک نئی Hirak تحریک کو تشکیل دینے کے لیے اس کے آس پاس جمع ہو جائیں گے اور یہی ہوا۔
6۔ 27 اپریل 2017 کو یمنی صدر نے ایک حکم جاری کرکے عدن کے گورنر ایڈرس الزبیدی اور ریاستی وزیر حنی بین بریک کو برخاست کر دیا جس میں آخرالذکر کی تفتیش کی سفارش بھی کر دی گئی ہے۔جنوبی شہر عدن میں ہزاروں یمنیوں نے حادی کے اس فیصلے کی مذمّت کرنے کے لیے مظاہرے میں حصّہ لیا، اور جنوبی تحریک کے دھڑوں نے 4 مئی 2017 کو ہوئے ” اقرار عدن ” میں ایڈریس الزبیدی کو ایک جنوب کی نمائندگی اور انتظام کرنے کے لیے اور مقاصد اور چاہتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک بلاک کی تشکیل اور اس کی صدارت کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا اور مزید اس کے اس کو پورا حق دیا کہ وہ قرار داد کی ساری دفعات کا نفاذ کرنے کے لیے ضروری اقدامات لے سکتا ہے۔الذوبید ی کو جنوب کا انتظام اور نمائندگی کرنے کے لیے ایک سیاسی قیادت کی تشکیل کا کام سونپنے کے ایک ہفتے کے بعد الزبیدی نے شہر عدن میں 11 مئی 2017 کو ساوتھرن ٹرانزیشن کونسل کی اپنی صدارت کا اعلان کر دیا اور مزید اپنے نائب کے طور پر بین بریک کا انتخاب کیا اور اس کے علاوہ بھی 26 ممبران کو مقرر کیا۔باوم کے لیے آواز بلند کرنے کے ساتھ، سابقہ جنوبی یمن کا علم اپنے ساتھ لگا کر اس نے تقاریر کیں ۔ سابقہ جنوبی یمن کےعلم کو اٹھائے ہوئے ، الزبیدی نے اپنے ٹی وی کے خطاب پر جمعرات میں بیان دیا کہ ” تاریخی عدن قرار داد ” میں ایک "اعلیٰ سیاسی جنوبی قیادت جس کو ساوتھرن ٹرانزیشن کونسل کی صدارت کہا جا تا ہے”قائم ہو گئی۔اس نے آگے کہا کہ حنی بین بریک کونسل کا نائب صدر ہوگا، اس کے علاوہ بھی 26 مزید لوگ اس میں شریک ہوں گے۔ اس کے بعد آگے بیان دیا کہ ” ساوتھرن ٹرانزیشن کونسل کی صدارت اور اس کے کے مختلف حصّوں کے قیام اور جنوب کے اندرون اور داخلی انتظام اور نمائندگی کی کاروائی مکمل کر لے گا۔(CNN Arabic 11/5/2017)
اس طرح سے، الزبیدی اور بین بریک اور ان کی پشت پر یو اے ای (برطانیہ) مکمل جنوب میں قیادت کی تشکیل دینے والی طاقتیں بن گئے ہیں۔صوبوں کے گورنروں کی تقرری یمنی صدر کے ذریعے ہوتی ہے؛یعنی کہ وہ یمن میں برطانوی حلقے کے لوگ ہیں اور ٹرانزیشن کونسل کے باقی قائدین اس کے حمائتی ہیں۔ یہاں تک کہ اس نے باوم کے ونگ کے کچھ لوگوں کو بھی کچھ وقفے کے لیے اس میں شامل کر لیا جیسے کہ علی السعدی اور ناصر الکھب جی اس لیے اگر سچائی منکشف ہوتی ہے تو یا تو وہ خود اس میں سے نکل جائیں گے یا ان کو باہر کا راستہ دکھلا دیا جائے گا۔اس کا ایک مقصد ان کی تقطیب (polarization) کرنا بھی ہو سکتا ہے۔اس طرح سے، ناصر الکھب جی الزبیدی کا ایک شروعاتی حمائتی بنا ہوا ہے۔
عدن میں ایدریس الزبیدی کی قیادت میں ساوتھرن ٹرانزیشن کونسل کا نیم فیصلہ کن قبضے کے ساتھ، دوسرے جنوبی صوبوں میں بین بریک کی قیادت میں نسبتاً بڑی جنگی طاقتوں کا قبضہ اور معارب میں بھی ایدریس الزبیدی کی قیادت کے گرد صوبائی گورنوں کا جمع ہونا، "جنوبی ریاست” کے سابقہ سوشلسٹ لوگوں کی حمایت جیسے کہ علی سالم البیض جس نے ابتداء میں ہی الزبیدی کے لیے اپنی تائید کا اقرار کر دیا تھا، طارق الفضلی کی حمایت اور اس کا اسلامی اسلوب عبیان میں اس کی مضبوط قبائلی پوزیشن میں اضافہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ یو اے ای کی معاشی، سیاسی اور جنگی طاقت کی موجودگی، ان سب چیزوں کے ساتھ برطانیہ نے جنوبی تحریک کے مسئلے کو اپنے ایجنٹ ایدریس الزبیدی کے لیے کافی حد تک طے کر دیا ہے۔اگر سیاسی حالات ایسے ہی رہے خاص طور سے اگر جنوب میں یوا ے ای کی موجودگی کا وزن برقرار رہا تو یہ تسلط اور قبضہ ممکنہ طور پر جاری رہے گا۔
7۔اس میں ہوئی تاخیر کا احساس امریکہ کو ہے اور اس بارے میں وہ اپنی جھنجھلاہٹ بھی ظاہر کر چکا ہے اور جو چیز امریکہ کو پریشان کر رہی ہے وہ ٹرانزیشن کونسل میں اس کے عالمی نمائندے Ould Sheikh کی مخالفت ہے( ایک معتبر ذریعہ کے مطابق یو این کے نمائندے اسماعیل شیخ کو عدن کے برخاست شدہ گورنر ایدریس الزبیدی کی طرف بھیجا جانا اس کے اس بیان کے پس منظر میں کہ جنوب کی علیحدگی کے لیے ایک ٹرانزیشن کونسل کی تشکیل ہوگی ایک "واضح دھمکی” بھرا پیغام ثابت ہوا۔ المشہد الیمینی نے ایک باخبر ذریعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسماعیل شیخ نے الزبیدی سے ملاقات کی اور اس کو اپنی اعلان کردہ کونسل پر اصرار کرنے پر ایک واضح طور پر دھمکی بھرا پیغام دیا جس کو یمنی صدارت ، جی سی سی ، حوثی گروپ اور جنوبی تحریک کے بہت سے لوگوں نے ٹھکرا دیا۔اگر الزبیدی اس پر مصر رہتا ہے تو یو این اور تحفظی کونسل اس کو ان لوگوں میں شامل کر لیں گے جو یمن میں امن و امان میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور ساتویں باب کے تحت 2216 کی قرارداد کے نفاذ پر زور دیں گے اور حوثی اور صالح کی مانند”باغی” قرار دیے جائیں گے ۔۔۔(Russia Today 14/5/2017)
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے اس مرض کا علاج کھوج لیا ہے، اس لیے اس نے باوم کو رہا کرنے کے لیے مجبور کیا۔ اس کی رہائی کے بعد، حسن باوم نے یو اے ای کی حمایت کردہ ٹرانزیشن کونسل کے خلاف کچھ بہت سخت اقدامات لیے، جس سے کہ یمن میں برطانوی – امریکی رقابت اور تنازعات کا کھلے عام بڑا انکشاف ہوا اور ایسا لگا کہ اس کی یہ حرکات واضح طور پر سعودی تائید سے ہو رہی ہیں۔ اس طرح سے، ان کی بصارت و بینائی کے تحت ہی اس کی قیادت میں Revolutionary Movement Council کی پہلی
کانگریس کا انعقاد شہر عدن میں 17/08/2017 کو یو اے ای پر جنوبی یمن پر قبضے کا الزام عائد کرتے ہوئے ہوا جس میں اس کے 600 کے قریب پیرو کاروں نے شرکت کی ۔کانفرنس کے بیان میں کہا گیا:” ہم اپنے جنوبی لوگوں کے جوش و خروش کے استحصال ،جھوٹ کی سرائیت اورجذباتی طور پر اثرانداز کرکے مقبول حمایت حاصل کرنے کے عمل کو قطعی طور سے ٹھکراتے ہیں جس کے بعد جنوب کی مقبول رضامندی کو تبدیل کیا جا سکے۔۔۔ ہم اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ Supreme Council of the Revolutionary Movement کے صدر حسن باوم ہمارے قائد اور جنوب کی علامت ہیں جس کو ہم عزیز رکھتے ہیں اور جس میں ہم فخر محسوس کرتے ہیں۔۔۔آج جو بھی جنوب میں بیرونی طاقتوں کی جنونی ریس چل رہی ہے جیسے کہ یو اے ای، جو ایسا ملک بنا ہوا ہے جو کہ جنوبی بندرگاہوں اور تجارتی اشیاء پر قبضہ کر رہا ہے اور ہمارے لوگوں کی قسمتوں اور ذہنی رجحانوں کو اپنے دست قدرت میں رکھتا ہے اور بدلے میں اپنے گنے چنے متبعین کو کچھ روٹی کے ٹکڑے ڈال جاتا ہے۔”(Aden Al Ghad 17/08/2017)۔ یعنی کہ، باوم کا گروہ یو اے ای کے لیے عوامی عداوت کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یمن کو چھوڑ دے اور باوم کی کانفرنس الزبیدی کے گروہ کو ” یواے ای کے پیروکار ، جو انہیں کچھ روٹی کے ٹکڑے ڈال دیتے ہیں” قرار دیتی ہے۔
پھر اس کے بعد باوم کی دوسری کانفرنس 11/11/2017 کو ہوئی اورباوم کی Revolutionary Movement Council” “کی دوسری سالانہ کانفرنس کے
آخر ی اعلان میں جو کہ عدن میں ہوئی اور العربی الجدید نے جس کا ایک نسخہ حاصل کر لیا ، یہ کہا گیا کہ "ہم عرب اتحاد کے نام نہاد ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی ساری افواج ہماری سرزمین سے ہٹانے کے بعد موومینٹ سپریم کونسل سے براہ راست مکالمہ کریں اور ہم اور ان کے درمیان سماجی اور مذہبی رشتوں کی شدت و گہرائی کی اپنی طرف سے توثیق کرتے ہیں ۔ باوم کی زیر قیادت کونسل اتحاد کو "قابض طاقتوں ” کے نام سے بیان کرتی ہے۔اورمزید کہتی ہے ، "قابض طاقتوں سے صحیح وقت اور صحیح جگہ پر اپنے قومی مفادات کی مناسبت سے ہر جائز طریقے سے نپٹنے کا ہم پورا حق رکھتے ہیں۔”اپنے بیان میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ” کوئی بھی مذاکرہ یا حل جس میں جنوبی مسئلے اور اس کے جائز نمائندے خارج رکھے جائیں گےوہ کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا کیونکہ جائز نمائندے وہ ہیں جنہوں نے پہلے دن سے ہی اس تحریک کی قیادت کی ہے اور یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو موقع پرست ہوں، پیسے سے خریدے گئے ہوں یا بیرونی قبضے کے ذریعے بٹھائے گئے ہوں”(العربی الجدید 11/11/2017)۔ حالانکہ یہ بیان عرب اتحاد کے بارے میں تھا مگر اس کا رخ سیدھا یو اے ای کی طرف تھا کیونکہ یہ کانفرنس سعودی تحفظ میں ہوئی تھی!
8۔ نتیجتاً:1994 میں علی سالم البیض اور علی ناصر محمد کی شکست کے بعد اور جنوبی یمن کے وسائل پر علی صالح کے قبضے کے بعد، جنوب کے لوگوں کی حاشیہ بندی اور بہت سے جنوبی سپاہیوں پر تشدد ۔۔۔ ان ساری چیزوں نےتب سے ہی متعدد مخالفانہ تحریکوں کو عروج بخشا ہے جس میں کہ تین قابل ذکر ہیں:
-جنوبی تحریک، علی سالم البیض ونگ جو کہ متذبذب ہے:کبھی امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے ساتھ اور کبھی برطانیہ اور اس کے ایجنٹوں سے موافقت رکھتا ہے۔
-جنوبی تحریک، حسن باوم کا ونگ جس کی تائید امریکہ اور اس کے ایجنٹ کر رہے ہیں، خاص طور سے ایران۔
-جنوبی تحریک، الزبیدی کا ونگ جس کی حمایت پر برطانیہ اور اس کے ایجنٹ ہیں خاص طور سے یو اے ای۔
-جیسا کہ ہم نے اوپر نشاندہی کی ہے، ہم نے یمن کے مسائل پر ان کی سب سے اہم پوزیشن کو نمایاں کیا ہے اور یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارے مسائل پر ہمارے اپنے ہی لوگوں کے زنگ آلود اوزاروں کے ذریعے استعماری کفاّر کی چھیڑچھاڑ ہو رہی ہے! اس لیے، یمن میں اور اس کے علاوہ ہماری ہی زمینوں میں ہمارے ہی ہتھیاروں اور لوگوں کے ذریعے ہمارا خون بہایا جا رہا ہے ۔اور یہ لوگ یا تو اس بات کو بھول گئے ہیں یا بھولنے کا ناٹک کر رہے ہیں کہ اگر ان کو اس کا احساس ہو جائے تو وہ خون کے آنسو روئیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس بات کو حرام کیا ہے کہ مسلمان جابرانہ کفّار کی طرف کسی بھی طرح سے مائل ہوں:
﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ﴾ان ظالموں کی طرف ذرا نہ جھکنا ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو اللہ سے تمہیں بچا سکے اور کہیں سے تم کو مدد نہ پہنچے گی”(الھود :113)۔اللہ کے رسول ﷺ نے بنا کسی حق کے مومن کے خون کو بہانے کو پوری دنیا کے ختم ہو جانے سے زیادہ سنگین اور شدید بتایا ۔ ترمذی نے عبد اللہ بن عمر سے روائیت کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : «لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ»"اس دنیا کا خاتمہ اللہ کے نزدیک کم اہمیت رکھتا ہےبہ نسبت اس کے ایک مسلم مرد کو قتل کیا جائے”۔
ابن عساکر نے اپنی معاجم میں روائیت کیا: یہ ایک حسن حدیث ہے۔ تو یہ کفّار اور استعماریوں کے فائدے کے لیے کیسے بہایا جا سکتا ہے؟یقیناً یہ تو گناہ پر گناہ ہے۔﴿سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ﴾”یہ مجرم اپنی مکاریوں کی پاداش میں اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب سے دو چار ہوں گے”(الانعام:124)۔
بحرحال ، اللہ کے رسول ﷺ نے یمن کو ایک ایمان اور حکمت والی جگہ قرار دیا۔ اور اس میں کسی بھی طرح سے مخلص ، صداقت پسند اور وفادار لوگوں کی کمی نہیں رہی ہے جو ان کافروں اور ان استعماریوں کا ساتھ دینے والوں کے خلاف کھڑے ہو سکیں ۔وہ یمن کو اللہ کے اذن سے دار الاسلام بنائیں گے، انشاءاللہ اور اس کو خلافت راشدہ کے تلے اسلام کے علم کے نیچے لانے کی کوشش کریں گے جو کہ اس کے وقار و عظمت کو دوبارہ قائم کرے گی۔ جیسا کہ اللہ کےرسول ﷺ نے فرمایا: «أَتَاكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً وَأَلْيَنُ قُلُوبًا الْإِيمَانُ يَمَانٍ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ»"یمن کے لوگ تمہارے پاس آئے ہیں اور وہ تم سے زیادہ حلیم اور رقیق القلب ہیں ۔ ایمان یمن کا ہے اور حکمت یمن کی ہے۔۔۔”
8جمادالثانی 1439 بعد ہجری
24/02/2018
ختم شد