سوال و جواب: مقلد متبع
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: السلامعليكم ورحمۃالله وبركاتہ، اے امیر اور ہمارے بھائی! اللہ آپ کی حفاظت کرے، میں دعا گو ہوں کہ آپ اس سوال کے جواب کے لئے وقت نکال سکیں گے۔
میں نے آپ کی کتاب "تيسير الوصول إلى الأصول” کے صفحہ نمبر273 میں درج ذیل پڑھا ہے:
"اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ: کیا مقلد ایک خاص مسئلہ میں تقلید اختیار کرنے کے بعد اسی مسئلہ میں کسی دوسرے مجتہد کی اتباع اختیار کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مقلد پر لازم ہے کہ وہ حکم شرعی پر عمل کرے جسے کسی مجتہد نے مستنبط کیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مقلد کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک خاص مسئلہ میں تقلید اختیار کرنے کے بعد اسی مسئلہ میں کسی اور مجتہد کی اتباع اختیار کرے کیونکہ وہ اس مسئلہ میں حکم شرعی اپنا چکا ہے اور اس پر عمل بھی کر چکا ہے۔”
اسے پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ: مثلاً، اگر کوئی شخص، جو عربی زبان سے ناواقف ہو، نماز کے مسئلہ میں امام شافعیؒ کی تقلید اختیار کرے، اور پھر وہ نماز کے مسئلہ پر روسی زبان میں ترجمہ شدہ امام مالکؒ کی فقہ کی کتاب پڑھے، اور اب وہ امام شافعیؒ کی رائے کو چھوڑ کر امام مالکؒ کی رائے اپنانا چاہتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کرنا شریعت میں جائز ہے؟ دوسرے الفاظ میں کیا عربی زبان جانے بغیر ایک دلیل پر دوسری دلیل کو ترجیح دینے کا فیصلہ کرنا درست ہے؟ جبکہ دلیل اس وقت تک شرعی دلیل نہیں تصور کی جاتی جب تک عربی زبان میں نہ ہو۔ میں یہ سوال اس لئے پوچھ رہا ہوں کیونکہ ہمارے ہاں کئی مسلمان ایک مجتہد کی تقلید اختیار کرنے کے بعد اسے چھوڑ کر دوسرے مجتہد کو اپنا لیتے ہیں۔ یہ سب کرتے وقت وہ عربی زبان اور شرعی علوم سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث کا مطالعہ روسی زبان میں کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ شرعی ادِلّہ سے واقف ہیں۔ برائے مہربانی میرے سوال کا جواب عنایت فرمایے تاکہ میں اور دوسرے حضرات بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ جزاک اللہ خیر، اللہ آپ کے کام میں برکت ڈالے۔
منجانب:امام النووی
جواب:
وعليكم اسلام ورحمۃ الله وبركاتہ
یہ مسئلہ درج ذیل ہے:
اگر کوئی مسلمان کسی مسئلہ میں ایک خاص مذہب (مسلک،school of thought) کی تقلید اختیار کرتا ہے جیسے امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کے مطابق نماز پڑھے، اور وہ اسے تبدیل کرناچاہے کہ امام شافعیؒ کے اجتہاد کےمطابق نماز ادا کرے۔ تو یہ صرف ان مندرجہ ذیل صورتوں میں جائز ہے:
1۔ یہ ترجیح شرعی ترجیح ہو، نہ کہ یہ آسانی کے حصول یا نفسانی خواہشات پر مبنی ہو کیونکہ خواہشات کی پیروی منع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى” خواہشات کی اتباع مت کرو” (النساء: 135)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ "اگر تمہارے درمیان کسی معاملے پرتنازعہ ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو” (النساء: 59)۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقلد کئی آراء میں سے ایک رائےکو اختیار کرنے کے لئے جو معیار اپنائے وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رضا پر مبنی ہونا چاہیے، اور یہ خواہشات کی پیروی سے بہت مختلف ہے۔ بغیر شرعی ترجیح کے دو آراء میں سے ایک کو اختیار کرنے کا مطلب خواہشات کی اتباع ہی ہے اور یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی جانب رجوع کرنا نہیں ہے۔ ترجیح(ایک رائے پر دوسری رائے کو مقدم کرنے) کے کئی معیار ہیں، جن کے ذریعے مقلد دو مجتہد کی آراء میں سے ایک کو اختیار کرتا ہےیا ایک حکم پر دوسرے حکم کو ترجیح دیتا ہے، ان میں سے سب سے اہم یہ ہیں: علم، فہم اورعدالت (راست بازی) ۔ مقلد مجتہد کا انتخاب اس کے علم اور راست بازی کی بنیاد پر کر سکتا ہے کیونکہ گواہ کا عادل ہونا شہادت دینے کے لئے شرط ہے۔ اور حکمِ شرعی کی تعلیم استاد کی طرف سے یہ شہادت دینا ہے کہ یہ حکم شرعی ہےاور اس حکم شرعی کو استاد کی راست گوئی کی بنا پر قبول کیا جانا چاہئے، اور اسی بنا پرحکم شرعی مستنبط کرنے والے مجتہد کا عادل ہونابدرجہ اولیٰ ضروری ہے۔لہذا حکم شرعی کو خواہ استاد سے حاصل کیا یا مجتہد سے دونوں کے لئے عادل ہونا ناگزیر ہے۔ پس جو بھی یہ یقین رکھتا ہو کہ امام شافعی زیادہ جاننے والے تھے اور ان کا مذہب زیادہ صحیح ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ خواہشات کی بنا پر وہ کسی اور کے مذہب(رائے) پر عمل کرے، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ دوسری رائے اس وقت اختیار کر ے جب اس کے پاس اپنی رائے کے برخلاف قوی دلیل موجود ہو۔ لہذا ترجیح کرنا ناگزیر ہے مگر یہ خواہشات اور آسانی کی بنا پر ہرگزنہیں ہونی چاہیے۔ مقلد کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ پسند کی بنیاد پر کسی بھی مسئلے میں اپنامذہب تبدیل کرے۔
2۔ حکم شرعی کی معرفت کے لحاظ سے لوگ دو طرح کے ہیں؛ ایک مجتہد اور دوسرا مقلد، تیسری کوئی قسم نہیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ یا تو کوئی اپنےاجتہاد کے ذریعے اس حکم شرعی تک پہنچے گا اور اسے اختیار کرے گایا پھر کسی اور کے اجتہاد کی بنا پر اسے اختیار کرے گا، پس یہ معاملہ ان دو امورکے اندر ہی محدود ہے۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو مجتہد نہیں ہے لازماً کسی قسم کامقلد ہو گا۔ تقلید دراصل کسی مسئلہ پر دوسروں کے مستنبط شدہ احکام کی پیروی کرنا ہے چاہے وہ خود مجتہد ہو یا نہ ہو۔ مجتہد کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی خاص مسئلہ میں دوسرے مجتہد کی تقلید کرے چاہے وہ خود اجتہاد کی قابلیت رکھتا ہو، اور وہ اس مسئلہ میں مقلد ہو گا۔ لہذا تقلید اختیار کرنے والا مجتہد اور غیر مجتہد دونوں ہو سکتے ہیں۔3۔ مجتہد وہ ہے جو اجتہاد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اجتہاد کرنے کے لئے عربی لغت کا کافی علمsufficient knowledge رکھتاہو،
قرآن و سنت کا کافیsufficient/enough علم رکھتا ہو،اسےدلائل کاموازنہ کرنے،انہیں جوڑنے، اور ان کے درمیان ترجیح کے طریقہ کار کی کافی معرفت حاصل ہو، اور اس بنا پر وہ حکم شرعی کا استنباط کر نے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر مجتہد کسی مسئلہ میں حکم شرعی کا استنباط کرے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس مسئلہ میں کسی اور مجتہد کی تقلید کرے اور اس رائے کے خلاف جائے جس تک اجتہاد نے اسے پہنچایا ہے۔ وہ اپنی رائے کو دوسری رائے کے لئے نہیں چھوڑ سکتا ما سوائے اگر اسے معلوم ہو کہ وہ دلیل جس پر اس نے اعتماد کیا وہ کمزور ہے اور دوسرے مجتہد کی دلیل قوی ہے تو اس صورت میں اس پر اپنی رائے کو فوراً چھوڑنا اور قوی دلیل پر مبنی رائے کو اپنانا لازم ہو گا۔ اس صورت میں اس کے لئے اپنی پرانی رائے پر رہنا حرام ہوگا۔
یہ مجتہد سے متعلق تھا جب وہ اپنے اجتہاد کے ذریعے کسی مسئلہ کے متعلق حکم شرعی تک پہنچے۔ تاہم اگر مجتہد نے کسی مسئلہ پر اجتہاد نہیں کیا تو اس پر جائز ہے کہ وہ دوسرے مجتہد کی تقلید اختیار کرے اور اس پر لازم نہیں کے وہ ہر مسئلہ پر اجتہاد کرے کیونکہ اجتہاد کرنا فرضِ کفایہ ہے، فرضِ عین نہیں۔ لہٰذا اگر وہ کسی مسئلہ میں شرعی حکم جانتا ہو تو اس پر لازم نہیں کہ وہ اپنا اجتہاد کرے بلکہ اس کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی دوسرے مجتہد کی تقلید کرے یا یہ بھی جائز ہے کہ و ہ اپنا اجتہاد کرے۔
دوسرے الفاظ میں ایک مجتہد ایک رائے کوچھوڑ کرکسی دوسری رائے کو ایک ترجیحی معیار پر اختیار کرتا ہے اور یہ معیارقوتِ دلیل ہے، چاہے وہ رائے اس کے اپنے اجتہا د کا نتیجہ ہو یا اس نے کسی اور مجتہد کی رائے کو اختیار کیا ہو۔
4۔ یہ ہے مجتہد کے تقلید کرنے کی حقیقت۔ جہاں تک غیر مجتہد کا تعلق ہے تو یہ دو قسم کے ہیں: مُتَّبع muttabi’اور عامی، ان دونوں کے لئے ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اختیارکرنے کی اپنی اپنی شرائط ہیں۔ اور تبدیلی کی ان تمام صورتوں میں خواہشات یا آسانی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ یہ صرف تب ممکن ہے جب مقلد مُتّبع یا مقلد عامی شرعی معیار کی بنا پر ایسا کرے۔
مقلد مطبع وہ ہے جو کچھ تشریعی علوم جانتا ہو، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
- عربی لغت کی مناسب معرفت: یعنی وہ عربی زبان کی کسی حد تک سمجھتا رکھتاہو ، قرآن کو عربی میں پڑھ سکتا ہو، حدیث کا مفہوم عربی میں سمجھ جاتا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث کی عبارت پڑھنے پر اس میں موجود ہر لفظ کے معانی اسے سمجھ میں آ جائیں بلکہ وہ ناقابل فہم لفظ کا مطلب پوچھ لے یا اس کا مطلب تلاش کر لے۔۔۔
- اس کے پاس متواتر، صحیح، حسن، اور ضعیف احادیث کے بارے میں مناسب معلومات ہوں چاہے یہ کسی ترجمے کے ذریعے ہی ہوں۔ مثلاًجب وہ مسلم یا بخاری میں کوئی حدیث دیکھے تو جانتا ہو کہ یہ صحیح ہے، اور جب وہ ترمذی کی کوئی حدیث دیکھے جسے امام ترمذی نے حسن قرار دیا ہے تو وہ جانتا ہو کہ اس سے مراد کیا ہے اور صحیح، حسن، اور ضعیف کے مفہوم سےواقف ہو۔
مقلد مطبع دلیل کی معرفت وآگاہی کی بنیاد پر ایک رائے سے دوسری رائے پر منتقل ہوتا ہے۔ وہ کسی رائے کی اتباع اس کی دلیل کی قوت یعنی ترجیحی معیار کے ذریعےکرتا ہے اور اپنی پرانی رائے کو دلیل کی نا واقفیت کی بنا پر چھوڑ دیتا ہے۔ اگر وہ دلیل کی واقفیت کے بغیر کسی مذہب کا مقلد ہو اور اسے دوسرے مذہب سے آگاہی حاصل ہو جائے مع اس کے ادِلّہ کے،تو وہ اس مذہب کو اختیار کر لیتا ہےکہ جس کی دلیل سے وہ واقف ہے اور اس مذہب کو ترک کر دیتا ہے کہ جس کی دلیل کو وہ نہیں جانتا۔ دوسرے الفاظ میں مقلد متبع ترجیحی معیار کی بنیاد پر ایک رائے سے دوسری رائے پر منتقل ہوتا ہے، یعنی اس حکم کی اتباع کرتا ہے جس کی دلیل
وہ جانتا ہےاور اس رائے کو ترک کر دیتا ہے جس کی دلیل وہ نہیں جانتا تھا۔
- مقلد عامی وہ ہے جوان علوم سے بے بہرہ ہےجو تشریع legislationکے لیے معتبر سمجھے جاتے ہیں، پس وہ عربی زبان نہیں سمجھتا، اور وہ قرآن و سنت کے ادِلّہ سے بھی لاعلم ہوتا ہے۔۔۔ وہ اللہ کی عبادت ویسے کرتا ہے جیسے اس کے مذہب کےشیخ نے اسے بتایا ہے۔ ایسا شخص کسی دوسری رائے کو اختیار نہیں کر سکتا ما سوائے وہ ترجیح اختیار کرے۔ اور عامی کی ترجیح کا معیار شیخ کے علم ،تقویٰ اور حسن معاملہ پر اعتماد ہے۔ تاہم وہ اپنی مسجد کے امام یا اپنے والد یا اپنے استاد (جو قرآن سکھائے)کی پیروی اختیار کرتا ہے۔ لہذا وہ ان ہی کی طرح نماز ادا کرے گا مثلاًشافعی مذہب کے مطابق۔ اس صورت میں وہ کسی ایک رائے سے دوسری رائے پر منتقل نہیں ہوتا ما سوائے ایک ترجیحی بنیاد پر، اور وہ یہ ہے کہ وہ علم، تقویٰ اور عدل کی بنا پراِن سے بڑھ کر کسی دوسرے شخص پر اعتماد کرے۔تو اگریہ دوسرا شخص امام ابو حنیفہؒ کے مذہب کے مطابق نماز ادا کرتا ہے اور وہ اسے علم اور تقویٰ کے اعتبار سے زیادہ معتبر دکھائی دیتا ہےاوروہ اس کے علم پرمطمئن ہے، خصوصاً جب وہ امام ابو خنیفہ کے مذہب کے مطابق نماز کے بارے میں اس کے دروس بھی سنے،اور یوں اس کا اعتماد اور اطمینان اس کے دل میں بیٹھ جائے۔تو اس صورت میں اس کے لیے جائز ہے کہ وہ نماز کے مسئلہ میں امام شافعیؒ کے مذہب سے امام ابو حنیفہؒ کے مذہب پر منتقل ہو جائے، اعتماد اور اطمینان کی ترجیح کی بنیاد پر۔۔۔دوسرے الفاظ میں مقلد عامی ایک رائے سے دوسری رائے پر ترجیحی بنیاد پر منتقل ہوا۔ جب مقلد عامی کسی شخص کو جانے اور اسے اس کے تقویٰ اورراست بازی پر اعتماد ہو اور وہ اس کے علم و فہم پر مطمئن ہو تو وہ اس شخص کے مذہب کو اختیار کر سکتا ہے۔
5۔ ان تمام صورتوں میں جب ایک مقلد کسی مجتہد کی اتباع کرتا ہے یا پھر دوسرے مجتہد کی جانب منتقلی اختیار کرنا چاہتا ہےتو اسے ایک ترجیحی معیار کی ضرورت ہے، چاہے اس کے پاس دلیل کا علم ہو یا نہ ہو۔ یا اس نے کسی دوسرے شخص سے کہ جس پر وہ بھروسہ کرتا ہے یہ
سمجھا کہ فلاں مجتہد کی دلیل اس مجتہد سے زیادہ قوی ہےکہ جس کی وہ تقلید کر رہا ہے۔ لیکن اگر اس نے ایک مسئلہ میں کسی رائے کو ابھی تک اختیار ہی نہیں کیا اور پہلی دفعہ کسی رائے کو اپنانا ہے تو وہ اس مسئلے میں کسی بھی مجتہد کی تقلید کر سکتا ہے جس کے علم و رہنمائی پر اسے بھروسہ ہو ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی ایک مسئلہ میں ایک ہی مجتہد کی تقلید کی جائے اور اس مسئلے کی شرائط اور ارکان میں اسی مجتہد کے اجتہاد کی پیروی کی جائے۔ مثلاًنماز کے مسئلہ میں ایک ہی مجتہد کی رائے کو اختیار کرنا لازم ہے یعنی نماز کی شرائط اور اس کےاراکین میں جیسے وضو، قیام، رکوع وغیرہ۔ یہ سب ایک ہی مجتہد سے لینا ضروری ہے کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ نماز ابوحنیفہ کے مذہب کے مطابق اور وضو شافعی مذہب کے مطابق کیا جائے، بلکہ پورا مسئلہ ایک مذہب کے مطابق اختیار ہونا چاہیے۔ لیکن مختلف مسائل ، جیسے نماز، روزہ، اور حج وغیرہ، میں یہ جائز ہے کہ ایک ہی مجتہد سے سب اختیار کئے جائیں اور یہ بھی جائز ہے کہ نماز ایک مجتہد سے اور روزہ دوسرے مجتہدسے اخذ کئے جائیں۔
6۔ مندرجہ بالا تفصیل کی بنا پر آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جو بھائی عربی نہیں جانتے اور اپنے آپ کو مقلد متبع سمجھتے ہیں اور ادِلّہ کا ترجمہ پڑھ کر ایک مذہب کو چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر لیتے ہیں،یہ گمان کرتے ہوئے کہ وہ متبع ہیں جو دلیل کی معرفت سے کر سکتا ہے۔ لیکن ان بھائیوں کی حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے کیونکہ وہ عربی نہیں جانتے اور صرف ترجمہ پڑھنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
مذہب تبدیل کرنے کے لئے انہیں مقلد عامی کی طرح مزید ترجیحی معیار اپنانے کی ضرورت ہے جیسے کسی عربی جاننے والے شخص پر اعتماد ہونا جو دلیل کی معرفت رکھتا ہو اور ان کو سمجھا بھی سکتا ہو کہ فلاں مذہب زیادہ قوی ہے۔۔۔ اگر ایسے شخص کے علم اور فہم پر اعتماد ہو تب اس بھروسے کی بنیاد پر مذہب تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر وہ بھائی اپنی پچھلی رائے کو چھوڑ کر دوسری رائے اپنانا چاہیں تو صرف ترجمہ پڑھنا کافی نہیں جب تک وہ عربی نہیں جانتے اور ان کو مقلد عامی ہونے کے ناطے ایک مزید ترجیحی معیار اپنانا ہو گا۔
اس حقیقت پر یہی میری رائے ہے، واللہ ا علم واحکم
آپ کا بھائی
عطا بن خلیل ابو رَشتہ
15 جمادى الأول 1439ہجری
یکم فروری 2018
ختم شد