سوال و جواب: قرض کی ضمانت کا معاوضہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
السلام علیکم۔۔۔ ہمارے محترم شیخ اور امیر
اللہ آپ کو تمام آفات اور ضرر سے محفوظ رکھے، اورآپ کو جلد زمین پر اختیار دے، انشاء اللہ۔
یہ ایک فوری جواب طلب سوال ہے۔ ایک شخص نے کچھ تاجروں کا بہت بڑا قرض لوٹانا ہے۔ ایک دوسرے شخص نے یہ پیشکش کی کہ وہ تاجروں سے بات کرے گا کہ قرض میں کچھ کمی کریں اوراس کمی کے بدلے اپنی جیب سے اس قرض کی فوری ادائیگی کردے گا۔ کم کی گئی رقم، اس کمی کے بعد مقروض اور اس ضامن (دوسرا شخص) کے درمیان ایک تناسب میں تقسیم ہو گی، یعنی ضامن اور مقروض ایک تناسب سے اس کو آپس میں بانٹ لیں گے۔ کیا یہ جائز ہے؟ اللہ آپ کو برکت دے اور آپ کا مددگار ہو۔
یوسف ابواسلام
جواب:
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
جو میں آپ کے سوال سے سمجھا ہوں کہ آپ کچھ تاجروں کے مقروض ہیں اور کوئی شخص آپ کی طرف سے تاجروں کو قرض کی ادائیگی میں آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ تاجروں سے قرض کی کمی پر بات طے کرے گا اور اس کمی (discount) کا ایک حصہ لے گا، مثلاً اگر قرض 10000 تھا، وہ بحث کر کے اسے 8000 پر لے آئے گا اور آپ سے آپ کے طرف سے قرض ادا کرنے کے بدلے 1000 لے لے گا، یعنی کمی کا آدھا۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس بات کا ضامن بن رہا ہے کہ آپ قرض چکا دیں گے،اور وہ ایک معاوضے کے بدلے آپ کی طرف سے ادا کر رہا ہے، جو کہ اس بچت کا ایک تناسب ہے جو وہ تاجروں سے حاصل کر سکتا ہے۔
اگر میری سمجھ درست ہے،تو یہ لین دین جائز نہیں کیونکہ یہ ضمانت کا معاملہ ہے، یعنی آپ کی طرف سے قرض کی ادائیگی کی ضمانت اور اسلام میں ضمانت کی کچھ شرائط ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ضمانت معاوضے کے بدلے نہیں ہوتی اور آپ کے معاملے میں وہ شخص معاوضے کے بدلے آپ کا ضامن بننا چاہتا ہے۔ یہ لین دین اس طریقے سے جائز نہیں۔ ضمانت کی دلیل سے یہ واضح ہے کہ یہ ایک ذمہ داریliability کو ذمہ داری کے ساتھ جوڑنا ہے اور یہ دراصل ذمہ داری کے مستقل حق کی ضمانت ہے۔ اور یہ واضح ہے کہ اس میں ایک ضامن (ضمانت دینے والا) ہوتا ہے، ایک وہ چیز جس کی ضمانت دی جائے اور ایک وہ جس کو ضمانت دی گئی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل ابوداؤد نے جابرؓ سے روایت کی ہے کہ،«كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي عَلَى رَجُلٍ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَأُتِيَ بِمَيِّتٍ فَقَالَ أَعَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا نَعَمْ دِينَارَانِ قَالَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ هُمَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ» "رسول اللہ ﷺ کسی ایسے شخض کا جنازہ نہ پڑھاتے تھے جو مقروض حالت میں مرا ہو۔ ایک میت لائی گئی تو آپﷺ نے پوچھا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، دو درہم۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنے ساتھی کا جنازہ خود پڑھو۔ پھر ابوقتادہ الانصاری نے کہا: میں ادا کر دوں گا یارسول اللہ۔ پھر آپﷺ نے اس شخص کا جنازہ پڑھایا۔ جب اللہ نے آپﷺ کو فتح عطا کی تو فرمایا: میں ہر مومن سے اس کی ذات سے زیادہ قریب ہوں،
تواگر کوئی مقروض مرا تو اس کی ادائیگی میری ذمہ داری ہے، اور اگر کوئی وراثت چھوڑ کر مرا تووہ اس کے وارثوں کی ہے۔”
اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ ابوقتادہ نے قرض کے مالک کے مالی حق کی ادائیگی کے فرض میں مرنے والے کی ذمہ داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو جوڑ دیا۔ یہ واضح ہے کہ ضمانت میں ایک ضامن (ضمانت دینے والا) ہوتا ہے، ایک وہ چیز جس کی ضمانت دی جائے ،ایک وہ جس کو ضمانت دی جائے اور یہ ضمانت جس سے دونوں متفق ہوں، ذمہ داری کے حق right of liabilityکے ساتھ بغیر کسی معاوضے کے جوڑی جا رہی ہے۔ حدیث میں ضمانت کے درست ہونے کی شرائط اور باہمی معاہدے کی شرائط موجود ہیں۔لہٰذا آپ کے معاملے میں اس شخص کے لیے یہ تو جائز ہے کہ وہ قرض کی ادائیگی کے لیے آپ کا ضامن بنے اور اس پر آپ سے اتفاق کرے لیکن اس پر معاوضہ لینا جائز نہیں، لہٰذا وہ اس پر معاوضہ نہیں لے سکتا۔
میں دُھراتا ہوں، اگر میں آپ کا سوال صحیح سمجھ پایا ہوں، تو میرے علم کے مطابق اس معاملے میں یہی جواب ہے والله اعلم واحكم۔ لیکن اگر آپ کے سوال کی یہ سمجھ درست نہیں تو اس کی مزید تفصیل بیان کریں تاکہ اللہ کے اِذن سے میں درست حقیقت پر جواب دے سکوں۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خليل ابو الرشتہ
2جمادی الاول 1439 ہجری
19 جنوری 2018
ختم شد