نظریہ ٔباجوہ کاخیالی مفروضہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خالدصلاح الدین،پاکستان
برطانیہ کے سیکورٹی تِھنک ٹینک رائل یونائیڈسروسز انسٹیٹیوٹ(آر۔یو-ایس-آئی) نےایک تجزیہ میں کہا ہے کہ افواجِ پاکستان”نظریۂ باجوہ”کے تحت امریکی انتظامیہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں کےخلاف مزاحمت پر اُترآئی ہیں۔
آر-یو-ایس-آئی کی اس رپورٹ1 میں کہا گیا ہےکہ امریکہ آج بھی وہی دھمکیاں دے رہا ہے جو وہ جارج ڈبلیوبش کے زمانے سے دیتا آرہا ہے،مگر” اب وہ دن چلے گئے ہیں کہ جب پاکستان بزدلی اور خوف کی وجہ سے امریکہ کے مطالبات قبول کرکے اُسےخوش کرتاتھا”۔تِھنک ٹینک کاخیال ہےکہ اس موقف کو”نظریہ باجوہ”کہا جارہا ہے اورجو تجویز کرتاہےکہ اب افواجِ پاکستان کو دہشت گردی کی اس جنگ کے لئے’مزید کرو(ڈُومور)’ کے مطالبے کو قبول نہیں کرناچاہیے،بلکہ اب باقی دنیاکو’مزید کرو’ کے اس مطالبے کے مطابق خوداس جنگ کو لڑناہوگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ”2018 کے آغاز سے، یہ امریکہ ہی ہےجسے پاکستان کی ضرورت ہےنہ کہ پاکستان کہ جس کو امریکہ کی ضرورت ہو۔امریکی سیکرٹری دفاع جیمزمیٹس پہلےہی کہہ چکا ہے کہ وہ افواجِ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مسلسل رابطےمیں ہے،کیونکہ اِن کی اجازت کےبغیرامریکی فورسز نہ تو اپنا سامان افغانستان منتقل کرسکتی ہیں اور نہ ہی وہ وہاں اپنی بقاء کو قائم رکھ سکتی ہیں کیونکہ افغانستان چاروں اطراف سےدوسرے ممالک سے گھرا ہوا ہے۔اگرٹرمپ کےٹویٹس(tweets) سے پاکستان کو کچھ احساس ہوا ہےتو وہ یہ ہے کہ سات دہائیوں سے امریکہ پر جو بھروسہ کیا جارہا تھا وہ غلط ہے۔پاکستان کی فوجی قیادت نے حملہ کرنے اور فوجی ساز وسامان کی ترسیل کی جو بھرپورمدد امریکہ کو فراہم کی ہے اُس کا امریکہ کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے”۔
اس رپورٹ کی پاکستانی میڈیا میں بڑے پیمانے پرتشہیر کی گئی لیکن جو نہیں کیا گیا وہ اس رپورٹ کی غیر جانبدارانہ جانچ پڑتال تھی جو کہ نہایت ضروری ہے۔گرچہ یہ رپورٹ ایک برطانوی تِھنک ٹینک کی طرف سے شائع کی گئی ہے،لیکن اس رپورٹ میں پیش کردہ اکثر دلائل بار بار دہرائے گئےہیں۔رپورٹ کامرکزی خیال ایک آزاد فوجی پالیسی کی ضرورت کاتصورپیش کرتاہے،جو کہ پاکستان کی ضروریات کے مطابق ہو،نہ کہ امریکہ کی ضروریات کے مطابق۔ دراصلی یہی وہ تصورہےجوغلط ہےاوربنیادی طورپر اس ہی پر سوال اٹھنےچاہئیں۔امریکی پالیسی اہداف کے لئےپاکستان کی زبردست غلامی کےثبوت رپورٹ کی اشاعت کےدو دن بعد ہی سامنےآگئے۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل باجوہ نےمیونخ سیکیورٹی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے جو کہا وہ آر۔یو-ایس-آئی کی رپورٹ کے بر خلاف فوجی قیادت کے شدیدتضادات کوواضح کرتا ہے ۔انہوں نے کہا2"یہ میراپکا عقیدہ ہےکہ پاکستان کی
دیر پا سلامتی افغانستان میں امن اور استحکام پرمنحصر ہے،لہذا،اپنے محدود وسائل کے باوجود،ہم اپنے مغربی پڑوسی کو امن فراہم کرنے کے لئے اپنی پوری کوشش کررہے ہیں”یہ بالکل وہی ہے جو امریکہ ہم سےچاہتاہے۔
جنرل باجوہ نے مزید کہا،”ہم نے تنہا اس سرحد کے مناسب انتظام کو یقینی بنانے کیلئے کئی اقدامات کئےہیں۔ہم نےسرحدوں کے لئے دسیوں مخصوص نئے فوجی یونٹس کو تربیت دے کر تیار کیا ہے،سرحد کی نگرانی کے لئے سینکڑوں نئے قلعے تعمیر کئے ہیں اور 2300 کلو میٹر سرحد پر باڑ لگانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ہم سرحد ی ٹرمینلز پر اسکینرمشینیں اور بائیو میٹرک آلات نصب کررہے ہیں تاکہ جہاں عام افغان عوام کو سہولت فراہم کی جاسکے تو وہیں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ شرپسندوں اور دہشت گردوں کو روکا یا گرفتار بھی کیا جاسکے”۔ یہ سب بھی اُن امریکی مطالبوں کے جواب میں کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے پاکستان سے افغانستان میں دراندازی روکنے کو کہا تھا۔
پاکستانی چیف آف آرمی اسٹاف نےامریکہ کے ساتھ کئے گئے اپنےوعدوں سے متعلق کوئی ابہام نہیں چھوڑا۔انہوں نےکہا کہ”گرچہ ہم بھرپور طریقے سے علاقے میں نئی امریکی حکمت عملی کی حمایت کر رہےہیں،جو بنیادی طور پرمتحرک رہنے کے نقطۂ نظر پر مبنی ہے،لیکن ہم تنازعے میں موجود جماعتوں کومذاکرات کی میز پر لانے کی اپنی کوشش میں کوئی کسرنہیں چھوڑ رہے”۔یہ سب امریکہ کےمطالبے کے عین مطابق کیا جارہا ہے کہ جس میں امریکہ نےپاکستان کو افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے تصفیہ طلب حل نکالنے کا ہدف دیا ہے۔
پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک مسئلہ کہ جس کی وجہ سے اُس کے معاملات پر مغربی اثر ورسوخ حاوی ہے وہ یہ ہے کہ اُس کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کی تربیت مغربی نظریات اور اقدار میں ہوئی ہے جس کی وجہ سےترقی کے لئے اِن لوگوں کا نقطہ نظر ہے کہ یہ مغربی مدد اور رہنمائی پر بهروسا کئے بغیر ممکن نہیں۔لہذا پاکستان کی حکمران اشرافیہ خطے کےمستقبل کومغربی پالیسی سے آزاد کرکے چلانے کی بصارت ہی نہیں رکھتی بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر مغربی مفادات کو چیلنج کرنے کو مہلک اور نقصان دہ سمجھتی ہے۔یہ سوچ اُس انتہائی ذلت اور واضح نقصان کےباوجود ہے کہ پاکستان جس کا شکار اِس مغربی پالیسی کی وجہ سےہوا ہے۔پاکستان کے حکمرانوں میں سب سے زیادہ” دوراندیش” اِس بات کی وکالت کرتے ملیں گے کہ ہمیں اب مغرب پر انحصار کم کر کے اسےروس اور چین پر انحصار سے تبدیل کردینا چاہیے۔
یہ نام نہاد”متبادل” نقطہ ٔنظر ہماری سیاسی اورفوجی اشرافیہ کی پست ذہنیت اور نااہلیت کو واضح کرتا ہے۔پاکستان کبھی بھی مغربی اثرورسوخ یا غیرملکی قوتوں پرانحصار کے ذریعے آزاد نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی حکمران اشرافیہ یا تو ایک حقیقی متبادل کونہ اپنا لیں جو ہماری قومی،علاقائی اور عالمی سیاست کومنظم کرے،یا پھر اس حکمران اشرافیہ کو ہٹا دیا جائے اور اِس کی جگہ ایک نئےحکمران گروہ کو اقتدار سونپ دیا جائے جومسلمانوں اوردنیاکےمعاملات کو چلانے کے لئے ایک نیا نقطۂ نظرپیش کرے۔مسلم دنیا کے پاس اپنے اور دنیا کے امور منظم کرنے کی اعلیٰ تاریخ اور وسیع تجربہ موجودہے۔بےشک مسلمان ماضی میں اسلام کےنقطہ نظر اور اپنی ریاست’خلافت’ کے سائے تلے دنیا کےحکمران تھے۔لہذا صرف اپنی تاریخ سےجوش اورحوصلہ لیتے ہوئےنبوت کے طریقے پرخلافت کےقیام کے ذریعےاسلامی ریاست کے تحت ہی ہم دوبارہ سےوہ آزادی اورقوت حاصل کرسکتے ہیں جوپاکستان سےمغربی اثر و رسوخ کا خاتمہ کرے گا اور خطے اوردنیاکے معاملات کومسلمانوں کےمفادات کے تحت ڈھال دےگا۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
"اے ایمان والو! الله اور اس کے رسولﷺ کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسے کام کے لئے بلائیں جس میں تمہارے لیے زندگی ہے، اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کئے جاؤ گے”(سورة الانفال:24)
ختم شد
- https://rusi.org/sites/default/files/20180216_rusi_newsbrief_vol.38_no.1_alam_web.pdf
- https://dunyanews.tv/en/Pakistan/428271-Full-text-of-COAS-address-at-MSC-Germany