ویسٹ فیلیا کے تحت قومی ریاستوں کا نظام استعماریوں کے لیے دوسری ریاستوں پر بالادستی کا طریقہ کار ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: افضل قمر، پاکستان
موجودہ ریاستی نظام’ پوری دنیا پر یورپی ممالک نے مسلط کیاہے جس کی بنیادیں عیسائی اصلاحی تحریکوں کے مابین ہونے والی کشمکش میں پیوست ہیں۔ موجودہ جدید سرمایہ دارانہ نظام میں اس کے کچھ نمایاں پہلوؤں موجود ہیں خصوصاً مصالحت یا سمجھوتے کا اصول۔جہاں تک سمجھوتے کا تعلق ہے تو سمجھوتہ اس و قت تک نہیں ہوسکا تھا جب تک یورپ نے کئی صدیوں تک جنگوں کاسامنا نہیں کرلیا اور اس دوران بہت زیادہ خون نہیں بہہ گیا۔ موجودہ عالمی نظام ریاستوں پر مشتمل ہے ان ریاستوں کو ویسٹ فیلین کہا جاتا ہے کیونکہ ان ممالک پر لازم تھا کہ وہ 1649 میں "ویسٹ فیلیا امن معاہدے” کےذریعے طے پانے والے اصولوں کو تسلیم کریں۔
یہ بات لازمی یاد رہے کہ یہ "امن” ایک نام نہاد امن تھا۔کیونکہ اس کے نتیجے میں کوئی امن کا دور نہیں آیا بلکہ وہ دور سامنے آیا جس میں یورپی طا قتوں کے درمیان جنگیں مذہب کی بنیاد نہیں بلکہ قومی ریاست کی بنیاد پر لڑیں گئی۔ اس معاہدے نے تنازعے کو ختم نہیں کیا بلکہ صرف بین الاقوامی تنازعے کی بنیاد کو تبدیل کیا ۔ اس معاہدے کامطلب یہ بھی تھا کہ عیسائی کامن ویلتھ(Res Publica Christiana) کے تصور سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ عیسائی کامن ویلتھ درحقیقت اسلامی خلافت کی مسلسل وسعت پزیری کو روکنے کے لیے ایک کوشش تھی کیونکہ اس کے نتیجے میں یورپ کے علاقے اسلام کے لیے کھلتے جارہے تھے۔ یہ لازمی دیکھا جائے کہ ویسٹ فیلیا کے معاہدے کے نتیجے میں رومن ریاست کا جو تھوڑا بہت اثرورسوخ تھا اس کو بھی ختم کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں شہنشاہ emperorبہت سارے دیگر بادشاہوں monarch میں سے صرف ایک بادشاہ بن کر رہ گیا اگرچہ وہ اب بھی کافی طاقتور تھا۔ ویسٹ فیلیا ماڈل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس دور میں جایا جائے جب پروٹسٹنٹ اصلاحی تحریک چل رہی تھی۔ مغربی رومن ریاست کے خاتمے کے بعد روم میں ایک عیسائی چرچ کا سربراہ (سب سے بڑا بشپ ) رہ گیا۔ دیگر چاربشپ مشرقی رومن ریاست سے تعلق رکھتے تھے جو 1453 تک قائم رہی تھی جب خلافت نے قسطنطنیہ کو اسلام کے لیے فتح کرلیا۔ جب یہ صورتحال بنی تو اس وقت تک مغرب کا بشپ پوپ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ پوپ نہ صرف سابق رومن ریاست میں بلکہ جرمن علاقوں میں بھی پوپ یعنی چرچ کا سربراہ تھا جہاں مذہب مقامی کافر لوگوںمیں پھیل رہا تھا۔ لیکن اسی دوران چرچ کئی مظالم میں ملوث تھا۔ ایک جرمن راہب ،مارٹن لوتھر، جو چرچ کو اس کی اصل بنیادوں کی جانب لے جانا چاہتا تھا، نے مذہبی پیشواؤں کی جانب سے مکمل معافی دینے کے عمل کو غلط استعمال کرنے کی نشاندہی کی۔1517 میں لوتھر کے "پچانوے نظریات” یا "معافی دینے کے اختیار کے دلائل” اصلاحی تحریک کی بنیاد تھے۔اس نے عوامی رائے کو کافی متاثر کیااور زیادہ تر یورپ نے اس کی پیروی کی۔ پوپ کا دفاع کرنے والوں نے بھی یہ تسلیم کی کہ چرچ کے کئی طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔1520 میں لوتھر نے پوپ لیو دہم کی جانب سے اپنی تمام تحریروں سےدستبرداری کے مطالبے کو مسترد کردیا اور پھر رومن شہنشاہ چارلس پنجم اور کئی دیگر افراد کو چرچ سے خارج کردیا گیا۔
عیسائیت میں پروٹیسٹنٹ اور کیتھولک تفریق کی وجہ سے یورپ ایک زبردست بحران اور افراتفری کا شکار ہوگیا۔ خصوصا رومن ریاست میں شدید تقسیم پیدا ہو گئی اور اس کے نتیجے میں جنگ شروع ہوگئی۔ یہ جنگ 1555 میں اوگس برگ کے امن معاہدے اور "جس کی حکومت اس کا مذہب” کے اصول کو تسلیم کیے جانے پر ختم ہوئی۔ یہ درحقیقت کوئی برداشت کا اصول نہیں تھا۔جب ایک بار حکمران نے کسی ایک عیسائی مذہبی عقیدے کو اختیار کرلیا تو وہ اس
کے نفاذ کا اختیار رکھتا تھا اس بات سے قطع نظر کے اس کی رعایا کس عیسائی مذہبی عقیدے پر ایمان رکھتی ہے۔ اس دور میں پورپ کے لوگ مذہبی عقیدے کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے تھے لیکن مصلحت اور سمجھوتے کا اصول طے کرلیا گیا تھا اور وہ بھی عقیدے کے معاملے میں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فرانس کا کیتھولک بادشاہ پروٹسٹنٹ Huguenots پر مظالم ڈھانے کے لیے آزاد تھا اور پھر 1572 میں سینٹ بارتھولومیو کے دن(St Bartholomew’s Day) اس نےقتل عام کیا ۔ کئی مسائل حل طلب تھے۔مثال کے طور پر ہالینڈ کے ایک علاقے میں پروٹسٹنٹ اکثریت میں ہوگئے لیکن اس پر اسپین کا بادشا ہ اور رومن شہنشاہ حکومت کرتا تھا جو کہ دونوں ہی کیتھولک تھے۔ اس اصول کا مطلب یہ تھا کہ ہالینڈ کے اس علاقے کے اکثریتی پروٹسٹنٹ مظالم سے بچنے کے لیے چھپتے پھریں۔ اس صورتحال نے ہالینڈ میں بغاوت کی بنیاد رکھ دی۔ ویسٹ فیلیا کے امن معاہدے کا ایک اہم نقطہ ہالینڈ میں ہونے والی بغاوت اور اسپین اور ہالینڈ کے مابین 80 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ تھا۔ اس معاہدے نے تیس سال سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے مابین جاری جنگ کا خاتمہ کیا جسے اگسبرگ کا معاہدہ ختم کرنےمیں ناکام رہا تھا۔
ویسٹ فیلین تصور اس معاہدے پر دستخط کے ایک سال بعد ایک اہم امتحان کا شکارہوا جب انگلستان نے اپنے بادشاہ چارلس اول کا سر قلم کردیا۔ چارلس اول ایک عجیب و غریب شخصیت کا مالک تھا۔ اس کا والد پروٹسٹنٹ اور دادی کیتھولک تھی ۔ اس نے شادی ایک رومن کیتھولک خاتون سے کی تھی۔ اس کا ایک بیٹا چارلس دوئم رومن کیتھولک تھا جس نے اپنے عقیدے کا اظہار بستر مرگ پر کیا تھا اور اس کے ایک اور بیٹے جیمز دوئم نے اپنے اس عقیدے کا اظہار بابنگ دہل کیا تھا۔ اور وہ ایک پروٹسٹنٹ خاتون کا دادا تھا جس نے برطانوی بادشاہت سے کیتھولک عنصر کا خاتمہ کردیا تھا۔ چنانچہ جب چارلس اول کاسر قلم کیا گیا توویسٹ فیلین معاہدے کی روشنی میں دوسری ریاستوں کے امور میں عدم مداخلت کے اصول پر عمل کیا گیا ۔ پس اعلانیہ کوئی انتقام نہیں لیا گیا اگرچہ کیتھولک ممالک نے اس حکومت کےخلاف جارحانہ رویہ اپنائے رکھا جس نے اسے قتل کیا تھا۔ بعد کے سالوں میں اگر بادشاہ کو برطرف کردیا جاتا تھا تو کوئی اس کا وکیل بن کر مداخلت نہیں کرتا تھا۔ ویسٹ فیلیا معاہدے نے مخصوص سرمایہ دارانہ مصلحت کی بنیاد رکھی ، بین الاقوامی تنازعات مذہبی بنیادوں پر حل نہہں کیے جائیں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ مذہب کا متبادل تلاش کیا جائے۔ ویسٹ فیلیا نے نئی بنیاد فراہم کی۔ اب ممالک کو ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کی پیروی کرنی تھی۔ اس وقت اس کامطلب حکمران اور اس کی رعایا کے درمیان مذہب کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعے میں عدم مداخلت تھا۔ اس معاہدے نے اختلافات کوحل کرنے کے لیے بین الاقوامی فورمز کو استعمال کرنے کا اصول بھی طے کیا۔ جہاں تک اس اصول کاتعلق ہے جس پر ریاستیں منظم کی جائیں گی تو ویسٹ فیلیا کے ماڈل نے قومی ریاست(نیشن سٹیٹ) کا تصور پیش کیا۔
ہالینڈ قومی ریاست کی ایک مثال تھی۔ انیسوی صدی نے یہ دیکھا کہ جرمن اور اطالوی قوم نے اس تصور کی بنیاد پر ریاستیں قائم کیں۔ انیسوی صدی نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ یورپی نو آبادیات نے ریاست کا مقام حاصل کیا۔ شمالی امریکہ میں برطانوی نو آبادیات نے آزادی حاصل کی جس میں امریکہ نے 1783 میں جنگ کے ذریعے اور کینیڈا نے قدرے پر امن طریقے سے 1867 میں آزادی حاصل کی۔ نپولین کے ہاتھوں اسپین اور پرتگال کی فتح کی بعد ان ممالک کی وسطی اور جنوبی امریکہ میں موجود نو آبادیات نے ریاست کا درجہ حاصل کیا۔ ان نئی ریاستوں کو پرانی ریاستوں نے کام کرنے کاموقع فراہم کیا اور یہ انہوں نے ویسٹ فیلیا معاہدے کی بنیاد پر کیا۔ ان نئی مملکتوں کوآزاد اور خودمختار ریاستیں تسلیم کیا گیا جو "اقوام کی کمیٹی”(لیگ آف نیشنز)میں برابر کی رکن تھیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب استعماری ریاستیں ختم ہوئیں تو ایک بار پھر ویسٹ فیلیا کے تصور کو استعمال کیا گیا۔ نئی بننے والی مملکتوں کو بین الاقوامی نظام میں شامل ہونا تھا اور انہیں نو آبادیات سے خودمختار ریاستوں میں تبدیل ہونا تھا۔ لیکن زمینی حقائق کے باعث یہ ضروری
نہیں تھا کہ یہ ریاستیں ان ممالک میں بسنے والی قوموں کی نمائندگی کررہی ہوں بلکہ یہ ریاستیں اس لیے بنائیں گئیں تا کہ استعماری مفادات کومحفوظ کیا جاسکے۔
یہ بات واضح ہے کہ ویسٹ فیلیا کے نتیجے میں سامنے آنے والی بین الاقوامی برادری استحکام نہیں لاسکی کیونکہ اس کے خمیرمیں ہی عدم استحکام موجودہے۔ ایک شخص جو ایک ریاست کی شہریت رکھتا ہے وہ کسی ایسی قوم سے ہوسکتا ہے جس کی لسانی شناخت کچھ اور ہو۔ ایک مثال لیں جیسا کہ سوڈان۔ یہ ریاست حال ہی میں دو ریاستوں میں تقسیم ہوئی ہے ایک کا نام سوڈان ہی ہے جبکہ دوسری کا نام جنوبی سوڈان ہے۔ سوڈان میں عرب افریقی لوگ ہیں جبکہ جنوبی سوڈان میں خالصتاً افریقی لوگ ہیں۔ حال ہی میں قبائلی بنیادوں پر ہونے والے ہنگاموں نے اس نئی ریاست کے مزید تقسیم ہو نے کاخطرہ پیدا کردیا ہے۔ جس لسانی ا قلیت نے آزادی حاصل کی تھی اس میں اس قدرتقسیم موجود ہے کہ وہ مزید ٹکڑوں میں بٹ سکتی ہے۔ پاکستان بھی بلوچستان، خیبر پختونخوا،سندھ اور جنوبی پنجاب میں لسانی کشمکش کا سامنا کررہا ہے۔
جہاں تک ویسٹ فیلیا کے تحت خودمختاری کا تعلق ہے تو بیرونی مداخلت سے آزادی سب کے لیے نہیں ہے۔ اس سلسلے کی سب سے اہم مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد ویت نام کی جنگ کے دوران ویت نام کی جانب سے کمبوڈیا پر حملہ تھا۔ پھر بھارت نے 1971 میں مشر قی پاکستان میں مداخلت کی۔ اور اب "منحصر خودمختاری”contingent sovereigntyکا تصور سامنے آرہاہے جو عدم مداخلت کی روایت کو چیلنج کررہا ہے اور امریکہ اسےفوجی مداخلت کے لیے استعمال کرتا آرہا ہے۔ افغانستان و عرا ق پرامریکی حملہ ویسٹ فیلیا کے خودمختاری کے تصورکی کھلی خلافت ورزی تھا۔ جہاں تک اقوام متحدہ کا تعلق ہے کہ یہ وہ فورم ہے جہاں مداخلت کی جگہ تنازعات کو حل کیا جاتا ہے تو اس ادارے کو امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب امریکہ ایران میں ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاملے اور حالیہ مظاہروں کے حوالے سے براہ راست مداخلت کررہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی خودمختاری کی کوئی حرمت نہیں ہے حالانکہ ویسٹ فیلیا کا اصول ایران پر انیسوی صدی میں لاگو کیا گیا تھا۔
جہاں تک انسانی بنیادوں پر مداخلت کا تعلق ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا اطلاق اس وقت نہیں ہوتا جب مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہوتا ہے۔ اس و قت میانمار فوج روہنگیا مسلمانوں کے خاتمے یعنی نسل کشی کے منصوبے پرکام کررہی ہے۔ مسلمانوں کویہ آپشن دی گئی کہ وہ ہجرت کر کے بنگلادیش کے مہاجر کیمپوں میں چلے جائیں یا پھر موت کو گلے لگا لیں۔ میانمار نے یہ جرائم کرکے ویسٹ فیلیا کے تحت ملنے والی خودمختاری کا غلط استعمال کیا لیکن بین الاقوامی برادری نے الٹامیانمار کی حکومت کو جمہوریت کی جانب پیش قدمی کرنے پر مبارک باد دی۔ اس سے پہلے بھی میانمار میں نسل کشی کے وا قعات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا لیکن ویسٹ فیلیا کے اصول یعنی عدم مداخلت پر سختی سےعمل کیا گیا تھا۔ 1990 کی دہائی میں بوسنیا میں سرب مسلمانوں کا قتل عام کررہے تھے لیکن وہاں کوئی مداخلت نہیں کی گئی۔ ایک اور مثال کشمیر کی ہے جہاں آزادی کی تحریک کووحشیانہ طریقے سے کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عدم مداخلت کا جواز یہ کہہ کردیا جاتا ہے کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ بھارتی ریاست کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے لیکن یہ بات مداخلت کا جواز فراہم نہیں کرتی کیونکہ بھارت امریکہ کی مضبوطی سے پیروی کررہا ہے۔ لیکن اگر پاکستان کشمیرکے مسلمانوں کی حمایت کرے تو اس کو اس کی سخت سزا دی جاتی ہے۔
ایک طرف امریکہ کشمیر اور میانمار میں مداخلت سے گریز کرتا ہے تو دوسری جانب وہ ویسٹ فیلیاکے تحت افغانستان کو ملنے والی خودمختاری کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ افغانستان نے امریکہ پر حملے کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کی اجازت دی تھی تب بھی کیا افغانستان پرحملے کا جواز تھا؟ آخر کیوں اس تنازعے کو باقی تنازعوں کی ماننداقوام متحدہ میں لے کر نہیں گئے؟
ویسٹ فیلیا کےماڈل کو امریکہ اس وقت نظر انداز کردیتا ہے جب وہ اس کے مفادات کی راہ میں حائل ہوتا ہے اور اس وقت اس پر عمل کرتا ہے جب اس کا مفاد پورا ہورہاہو۔ امریکہ نے خود کو یہ حق دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہے یا جب ضرورت محسوس کرے دوسری ریاست کی خودمختاری کو پامال کرلے۔
اس دوہرے پیمانے کی سب سے واضح مثال فلسطین ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر یہودی وجود نے قبضہ کررکھا ہے۔ اس کی عرب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ عربوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ بھاگ جائیں ورنہ یہودی دہشت گرد غنڈوں کے ہاتھوں مار دیے جائیں گے۔ اور
پھر مہاجرین کو کیمپوں سے واپس اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
فلسطین اس بات کی مثال ہے پہلی جنگ عظیم کے بعد عثمانی خلافت کو توڑنے کے دوران ویسٹ فیلیا کے تصور خودمختاری کی عام خلاف ورزی کی گئی۔ خلافت عثمانی کی تقسیم کے دوران لوگوں کی خواہشات کونہیں بلکہ مغربی طا قتوں کی خواہشات کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ خلافت کے عرب علا قوں کوخلافت سے کاٹا گیااوران پر برطانیہ اور فرانس قابض ہوگئے ۔ عثمانی خلافت پر قبضے کے بعد عرب علا قے مختلف ممالک اور زیر تحفظ ممالک میں تبدیل کر دیےگئے۔ فلسطین کی زیرتحفظ مملکت برطانیہ کے حصے میں آئی اور پھر اسے بھی 1948 میں آزادی دی گئی۔ صیہونیوں نے فوری طور پر اس پر قبضہ کرلیا اور یہودی ریاست قائم کردی۔ تین دہائیوں کی برطانوی حکمرانی نے صیہونیوں کو اس قابل کیا کہ وہ فلسطین میں جمع ہوسکیں۔ یہ ایک طرح سے حملہ تھا جس کی ویسٹ فیلین خودمختاری کے تصورات کے تحت اجازت نہیں تھی کیونکہ اس میں ایک علا قے کی آبادی کو ہجرت کے ذریعے تبدیل کیاگیا۔ لیکن استعماری ویسٹ فیلیا کے تحت یہودی وجود کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کے مفاد میں ہے ۔ مغربی ریاستیں یہودی وجود کی حمایت کرتی ہیں جبکہ وہ عرب مسلمانوں اور عیسائیوں کی زمینوں پر قبضہ اور حملے کرتی ہے جس کا تازہ ترین مشاہدہ امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے و قت ہوا۔ یہ بات واضح رہے کہ مغربی طا قتیں ،جنہوں نے ویسٹ فیلیا کے ذریعے قائم کردہ امن سے خودمختاری کے تصور کو تعمیر کیا تھا، کبھی بھی اس کی حرمت کو پامال کرنے میں دیر نہیں کرتیں جب یہ ان کے مفاد کی راہ میں آجائے۔ کمزور ریاستوں کے لیے ویسٹ فیلیا کا یہ تصور تحفظ کاباعث نہیں ہے کہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ یہ تصور کمزور ریاستوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے طا قتور ریاستوں کے لیے ایک آلہ ہے۔ یہ تصور کمزور ریاستوں کے شہریوں کو
طاقتور ریاستوں کی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ یہ تصور کمزور ممالک کی حکومتوں کو طاقتور ریاستوں کو مزید رعاتیں دینے کاجواز فراہم کرتا ہے اور اگر ویسٹ فلین دنیا نہ ہو تو یہ صورتِ حال بھی نہ ہو۔
استعماری ریاستیں ویسٹ فیلین ماڈل کوختم ہونے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کریں گی۔ وہ اس میں موجود طاقتور اور پرانی ریاستوں کے متعلق موجود تعصب کی حمایت کرتی ہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ویسٹ فیلیا کے مخالف متبادل دینے کے لیے خلافت قائم کریں۔ خلافت میں مسلمانوں کے علاقوں کے درمیان کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ خلافت بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل تک پھیلی دنیا کے سب سے بڑی ریاست ہوگی۔ وہ کسی بھی علاقے میں بسنے والے لوگوں کے مذہبی جذبات کو نظر انداز نہیں کرے گی۔ خلافت مذہب کو دیگر تمام پیمانوں سے زیادہ اہمیت دے گی۔ خلافت قبیلے، نسل یا قومیت کی بنیاد پر تقسیم کی مذمت کرے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ "لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے”(الحجرات:13)۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا، لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ "وہ جو عصبیت کی بنیاد پر لوگوں کو پکارتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے؛ اور وہ جس کا خاتمہ عصبیت کی پکار پر ہوا وہ ہم میں سے نہیں ہے”(ابو داؤد)۔ خلافت کا دوبارہ قیام ویسٹ فیلین تصورات کے خاتمے کا باعث بنے گا جس نے مسلم علاقوں کو تقسیم کررکھا ہے۔ خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ مسلمان ایک ریاست تلے یکجا ہوجائیں۔ اگر مسلمانوں پر ان علاقوں میں ظلم و ستم ہورہا ہو جو خلافت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں تو خلافت ان کی مدد سے انکار یہ کہہ کر نہیں کرے گی کہ ویسٹ فیلیا کے تصور خودمختاری اور عدم مداخلت کے تصور اسے ان کی
مدد کرنے سے روکتے ہیں ۔ خلافت غیرمسلم ممالک کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے ان سےمزاکرات، معاہدے اور مختلف امور پر موقف اختیار کرے گی ۔ خلافت ان ریاستوں کے ساتھ معاہدے کرے گی جو جارح نہیں ہیں اور اس طرح انہیں اسلام میں داخل ہونے میں سہولت فراہم ہو گی۔ خلافت ان ممالک کے خلاف جنگی موقف اپنائے گی جو جارح ہیں تا کہ اپنے شہریوں کو ان سے تحفظ فراہم کرے ۔ اور بین الاقوامی سطح پر وہ دنیا کو ویسٹ فیلین نمونے کو مسترد کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی،اس کے دہرے معیار کو بے نقاب کرے گی
اور یہ کہ کس طرح استعماری ممالک اس کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ اورخلافت جارح ریاستوں کو اپنے منہ سے ویسٹ فیلیا کامنافقت پرمبنی پردہ اتاردینے پرمجبور کردے گی کیونکہ وہ درحقیقت کسی اصول ضابطے کونہیں مانتے بلکہ صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ یقیناً اگر ایک ایسی طاقت ابھرتی ہے جو ریاستوں کے درمیان تعلقات کے لیے ایک بالکل نئی بنیاد فراہم کرے تو ان استعماری ریاستوں کو اس کو بھی قبول کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی بلکہ اگر وہ انہیں فائدہ مند لگے گی تو ہوسکتا ہے کہ وہ بھی دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اسے استعمال کریں۔
ختم شد