اپنے مغربی آقاؤں کی خوشی کی خاطر بصیرت سے عاری پاکستانی حکومت اپنے تعلیمی نظام کو سیکولر بنانے میں تیزی دکھا رہی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستانی تعلیمی نظام کو درپیش متعدد مسائل میں سے سب سے خطرناک مسئلہ اسکولوں کو سیکولر بنانے کا ہے کیونکہ آلودہ افکار مستقبل کی نسلوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سیکولرازم کے تصور کی جڑیں اس مشنری یلغار میں موجود ہیں جو مسلم علاقوں میں خلافت کے انہدام سے قبل وقوع پزیر ہوئی تھی ۔ براعظم ایشیاء میں یہ عرب علاقوں سے پہلے شروع ہو گئی تھی جب مغل حکومت کا خاتمہ ہوا۔ لارڈ میکالے نے بیان دیا جس میں اس نے لوگوں کا اسلامی ثقافت پر فخر ختم کرنے اورانگریزی زبان و ثقافت کو آسمانی صحیفے کی طرح قبول کرنے اوراس سے محبت پیدا کرنے کے لیے، ہند کے اس پرانے اور قدیم تعلیمی نظام کو بدلنے کی بات کی، جو اسلام پرمبنی تھا۔سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ استعمار پاکستانی تعلیمی نظام میں کیا مسائل دیکھتا ہے ۔ اس کے مطابق چوتھی اور پانچویں جماعت کی کتابیں ہندو مخالف اور سکھ مخالف مواد سے بھری پڑی ہیں۔ چھٹی جماعت سے عیسائی مخالف، انگریز مخالف اور یورپی مخالف افکار شروع ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو پڑھایا جاتا ہے کہ عیسائی اور یورپی لوگ مسلمانوں کو زندگی میں ترقی کرتا دیکھ کر ناخوش تھے۔ ساتویں جماعت سے یہودی مخالف مواد شروع ہوتا ہے۔ نویں دسویں جماعت سے جہاد کی اہمیت سیکھائی جاتی ہے۔ اقتباسات جن میں 1965 کی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو برا بتایا جاتا ہے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو بھارت کی سازش گردانا جاتا ہے۔پاکستان میں سیکولرازم کا ایجنڈا دو طریقے سے کام کر رہا ہے: ایک طریقہ حکومتی یا پبلک سیکٹر کے ذریعے سے کام کررہا ہے جہاں بچوں کے اذہان کو سیکولر نظریات اور خیالات کا غلام بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ حکومت کے امریکی آقاؤں کے مفادات کا تحفظ ہوسکے۔ یہ نظریات طالب علموں پر مسلط کیے جارہے ہیں اور ا ن پر لازم کیا جارہا ہے کہ وہ اسے ایک لازمی دوائی کے طور پر لیں چاہے اس کے کچھ بھی اثرات برآمد ہوں۔پاکستان میں حکمرانوں نےہمیشہ اپنے سیاسی مفادات کے مطابق نصاب سے کھلواڑ کیاہے۔ مثلاً ضیاء کے دور میں وقت کی ضرورت یہ تھی کہ لوگوں کو اسلامی جذبات کے ذریعے روس کے خلاف لڑنے پر ابھارا جائے، تو اس نے اسلامیات کو پرائمری سے یونیورسٹی تک لازمی قرار دے دیا۔ چھٹی جماعت سے سرکاری اسکولوں میں عربی کی تعلیم شروع ہوئی جو بعد میں بغیر کسی وضاحت کے روک دی گئی۔ مشرف دور میں مفادات بدل گئے جب پاکستان نے امریکہ کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ لہٰذا نصاب کے سلسلے میں امریکی احکامات کی پیروی کی گئی، مگر اس بار یہ نصاب میں سے جہاد کو نکالنے کے لیے تھی۔ مشرف نے بھی تعلیمی سیکٹر کی اصلاحات کا اعلان کیا، جن کا ظاہراًمقصد نصاب کی تبدیلی کے ذریعے تعلیمی نظام کو جدید بنانا تھا۔ مگران اصلاحات کا ایک بڑا ہدف تعلیمی نظام کو مزید سیکولر بنانا تھا، جس کا پسِ منظر عالمی دباؤ میں اضافہ اور پاکستان میں لوگوں کی اسلام سے شدید وابستگی تھی۔ 11/9 کے بعد امریکی صدر جارج بش نے کہا، "صدر مشرف نے زبردست قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیاہے”، لیکن کچھ مواقعوں پر بش کو صدر مشرف سے خود بات کرنی پڑی تاکہ اس کو کچھ پالیسیوں، خصوصاً تعلیمی پالیسی، کی تبدیلی کے حوالے سے یادہانی کروا سکے۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے پاکستان کا تعلیمی نظام مغربی استعماری حکومتوں اور اداروں کے ہاتھوں اس میں موجود اسلامی افکار و نظریات کو نکالنے کے حوالے سے منصوبوں اور پروگراموں کا سامنا کرتا آ رہا ہے۔ لیکن "دہشت گردی” کے خلاف جنگ میں شمولیت نے اس منصوبے پر کام کومزید تیز کردیا تا کہ پاکستانی بچوں کے اذہان کو استعماری افکار و خیالات سے بھر دیا جائے ۔ اب اسے بنیاد پرستوں کےخلاف ایک جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مغربی استعمار اور ان کے ایجنٹوں کے مطابق اسلامی ذہنیت رکھتے ہیں اور تعلیم کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ حکومت اس دلیل کو استعمال کرتی ہے تاکہ اسلامی تاریخ اور علوم کو مزید کم کیا جا سکے۔ ہماری شاندار تاریخ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے صرف مخصوص منتخب تاریخ ہی پڑھائی جاتی ہے۔ اور مغرب کی سنہری لڑکی یعنی ملالہ یوسفزئی اور ارفع کریم پر مضامین چوتھی جماعت کی معاشرتی علوم کی کتاب میں ڈالے گئے ہیں، جبکہ مغرب کی چاپلوسی کرنے والے حکمرانوں، بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو،کو بتدریج پانچویں اور چھٹی جماعت کی کتابوں میں شامل کیا جائے گا۔اسلام اور اسلامی تعلیمات کسی بھی مسلمان کے علم کا محور و مرکز ہونا چائیے۔ مگر 2004 میں قومی اسمبلی کےایک اجلاس میں وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے لعیق خان (ایم ایم اے، سندھ) کے سوال "اِنٹر میں فرسٹ ایئر کی بیالوجی کی کتاب سے قرآنی آیات کیوں نکالی گئیں؟ ” کے جواب میں کہا، "قرآنی آیات کی شمولیت نصاب کی ضرورت نہیں”۔2006 میں پرائمری کے نصاب میں کچھ تبدیلیاں کی گئی اور اسلامیات سے متعلق مواد کو دیگر تمام مضامین (سبجیکٹ) سے نکال دیا گیا۔ 2006 میں مزید اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس بنائی گئی جس کا مقصد تعلیمی نظام میں اسلام پسندی کو کم کرنا اور اسلامی مواد کو دیگر مضامین سے نکال کر اسلامیات تک محدود کرنا تھا۔ نصاب کی ان تبدیلیوں میں جن مضامین کا اضافہ شامل تھا، ان میں جماعت 8 تا 10 کے لیے”پاکستان میں اقلیتوں کا کردار”کا مضمون ہے، جس میں پاکستان کے بننے اور اسلام سے پہلے کی تاریخ میں اقلیتوں کے کردار پر زور دیا گیا۔
پاکستان میں69 فیصد تعلیمی ادارے پبلک ہونے کی وجہ سے حکومت کے زیر سایہ ہیں۔ ان کے نصاب، تیاری، پالیسی اور معیار کے لیے وفاقی وزارت تعلیم ذمہ دار ہے۔ پھر صوبائی ادارے موجود ہیں جو قومی پالیسی، عالمی مسائل اور مارکیٹ ڈیمانڈ کی بنیاد پر تعلیمی اسکیمیں بناتے ہیں۔ مارکیٹ ڈیمانڈ اور عالمی مسائل کا تعین عام طور پر”غیر سرکاری تنظیمیں” NGOs کرتی ہیں جنہیں بیرونی امداد حاصل ہوتی ہے اور وہ ان کے مفادات کے مطابق کام کرتی ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں موجود کئی غیر سرکاری تنظیمیں NGOs کی پشت پناہی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کرتے ہیں اور ایک NGO بنام "Save the children” کو CIA اور اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے سے تعلق کی بنیاد پرملک سے نکالا گیا۔
سال 2016 میں”امریکی کمیشن برائے بین الا قوامی مذہبی آزادی” نے ایک پاکستانی NGO بنام "Peace and Education Foundation” کے تعاون سے ایک رپورٹ
میں پاکستانی نصاب کی کتابوں میں مزید تبدیلیوں کی تجویز دی ہے۔ رپورٹ جس کا عنوان "Teaching intolerance in Pakistan – Religious Bias in Public School Textbooks” ہے،میں تجویز دی گئی ہے کہ "مذہبی برداشت” کو پیدا کرنے کے لیے اسلام کے واحد درست دین ہونے کی سوچ کو نصاب کی کتابوں سے نکالا جائے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں اسکول کی کتابوں میں جہاد اور جنگی ہیرزو کو بڑھاوا دینے اور ان کی تعریفیں کرنے، بالخصوص محمد بن قاسم کے سندھ فتح کو بیان کرنے کی روش پر تنقید کی گئی۔ اس کے علاوہ کچھ اور اسلامی عقائد کی شمولیت کا بھی ذکر کیا گیا۔ مثلاً ایک اقتباس جس کو مسئلہ گردانا گیا، "اسلام کا دین، ثقافت اور معاشرتی نظام غیر مسلموں سے یکسر مختلف ہے۔۔۔۔”۔ رپورٹ میں مزید تجویز دی گئی کہ مذہبی آزادی پر موجود بین الاقوامی سیکولر روایات نصاب کی کتابوں میں شامل کی جانی چاہیے اور ایسا کوئی مواد نہیں پڑھانا چاہیے جو ایک مذہب کو دوسرے پر فوقیت دیتا ہو۔ مزید یہ کہ نصاب ایک تعمیری وطنیت کا تصور دے جہاں تمام مذہبی اقلیتوں کے ہیروز کو نصاب میں شامل کیا جائے۔”امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی” کے مطابق ان کی "مذہبی عدم برداشت” کی زیادہ تر مثالیں جو پچھلی 2011 کی رپورٹ "Connecting the Dots: Education and Religious discrimination in Pakistan” میں شائع ہوئی تھیں، اب نصاب کی کتابوں سے نکالی جا چکی ہیں۔
نجی سیکٹر میں بحث و تقاریر کے نام پرمعاشرتی اور اخلاقی اقدار کو دین کے بارے میں شکوک پیدا کر کے ہدف بنایا جاتا ہے۔نصاب کی کتابوں، ادبی کتابوں اور ویڈیوز کے ذریعے مغربی ثقافت سے روشناس کرانا عام بات ہے۔ مڈل اسکول میں اسلامی تاریخ ایسے پڑھائی جاتی ہے کہ اس سے یہ ثابت کیا جائے کہ کفار کو حلیف اور دوست کے طور پر لیا جا سکتا ہے، جبکہ قرآن میں سورۃ المائدہ آیت 51 میں اس کی واضح طور پرممانعت کی گئی ہے۔ ادب میں شاعری اور نثر کے ذریعے بہت چھوٹی عمر سے ہی محبت اور رومانس کا مغربی نقطہ نظر اذہان میں ڈالا جاتا ہے۔ مثال کے طور پررومیو اور جولیٹ Romeo and Juliet آٹھویں جماعت میں پڑھائی جاتی ہے۔ کفریہ عقائد کو اسلامی لباس پہنا کر پڑھایا جاتا ہے، جیسے وہ تمام تفصیلات جو ہندوؤں اور نصرانیت کے بارے میں ہیں۔ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جہاں غیر مسلم اساتذہ نےاسلامیات پڑھاتے ہوئے اسلامی تاریخ کا مذاق اڑایا اور تاریخ اسلام کی مشہور شخصیات حتیٰ کہ صحابہ کرام کی توہین کی۔
بہت سے اسکول جو’O’ اور’ A level ‘پڑھاتے ہیں، ان کا نصاب اور کتابیں برطانیہ سے آتی ہیں کیونکہ ان کے امتحانات برطانیہ میں موجود بورڈ لیتا ہے جس کے لیے نصاب ان کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔ یہ معاملہ ہمارے تعلیمی نظام اور پرانے استعماری آقاؤں کے درمیان ربط ظاہر کرتا ہے جنہوں نے اس ملک میں مدرسوں کا نظام ختم کر کے اس کی جگہ باقاعدہ سیکولر نظام تعلیم رائج کیا۔ ضیاء الحق کے دور میں اسلامیات اور معاشرتی علوم O’ level کے طلباء کے لیے لازمی قرار دیے گئے تاکہ ان کی سند کالج کی شرائط کو پورا کرے۔ پہلے مشنری اسکول دانستہ طور پر شروع کیے گئے اور اب ہر پبلک اور پرائیویٹ اسکول مشنری سکولوں جیسا کردار ہی ادا کر رہا ہے۔ ادب، فنون لطیفہ، تاریخ، حتیٰ کہ سائنس میں بھی بچوں کو ایسا مواد دیا جاتا ہے جو ان کے اسلامی عقائد سے ٹکراتا ہے۔ مثلاً چھٹی جماعت کے بچے مصری تہذیب پڑھنے اور ریت سے ممی کے ماڈل بنانے پر مہینوں لگاتے ہیں، جبکہ مصر پر اسلام کی حکومت کو مکمل نظرانداز کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
علاوہ ازیں، لڑکوں اور لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ پڑھائی اور ریسرچ کے لیے اکٹھے پڑھیں، جس کے باعث کالج کے اندر اور باہر وہ اکثر وقت اکٹھے گزارتے ہیں۔ میوزک، ڈانس اور رات گئے کنسرٹ عام روایت بن چکے ہیں جن کو پبلک سیکٹر میں بھی محظوظ ہونے کا کم خرچ ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ان اداروں میں نشہ بھی عام بات ہے مگر انتظامیہ نوجوانوں کی اس ذہنی اور جسمانی تباہی پر آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے اعلیٰ درجہ کے نجی اسکولوں میں44 فیصدسے53 فیصد طلباء نشے کا شکار ہیں۔ طلباء کے مطابق انہیں یہ نشا دیگر طلباء سے، سڑک پر نشہ فروشوں سے اور حتیٰ کہ اساتذہ سے بھی ملتا ہے۔ نشے کے شکار ان طلباء کی عمریں 12 سے 19 سال کے درمیان ہیں مگر کچھ واقعات میں 8 سال کے بھی ملتے ہیں۔ آج کل نشے کی زیادتی سے کسی نوجوان کی موت کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ کچھ ہی عرصہ قبل ایک لڑکا اپنے ہوسٹل کے کمرے میں ہیروئین کی زیادہ مقدار کے استعمال کی وجہ سے مردہ حالت میں پایا گیا۔
المیہ تو یہ ہے کہ انتظامیہ اپنی ساکھ خراب ہونے کے ڈر سے اس معاملے کو حل کرنے سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔
ایک پروگرام "Model United Nations” کے نام سے ملک میں اہمیت پکڑ رہا ہے۔ اس پروگرام میں طلباء عالمی طاقتوں کی پالیسیوں اور اہداف کو پڑھتے ہیں اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ فوٹوگرافی سے لے کر تقریر تک ہر طرح کے مقابلے اس کا حصہ ہیں اور زیادہ تر مقابلوں کے بعد لڑکے اور لڑکییوں کے مخلوط کھانے، ڈانس اور محفلیں ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ اساتذہ کی تربیت یا تو بیرونی تنظیموں یا مغرب کے پیسے پر چلنے والی مقامی تنظیموں سے کی جاتی ہے۔ اساتذہ کو تربیتی پروگراموں کے لیے امریکہ اور بھارت بھیجا جاتا ہے۔ حال ہی میں 50 پاکستانی اساتذہ چین کی دعوت پر چینی زبان سیکھنے بیجنگ گئے۔ چین کو دوست سمجھنا اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی حکام سنکیانگ کے مسلمانوں پر اپنے دین پر چلنے کے نتیجے میں ہونے والے ظلم کے بارے میں کوئی درد نہیں رکھتے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لاَ يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الآيَاتِ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ"اے ایمان والو! تم اپنا دوست ایمان والوں کے سوا کسی اور کو نہ بناؤ۔ (تم تو) نہیں دیکھتے دوسرے لوگ تمہاری تباہی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے، وہ تو چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو۔ ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے بھی ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے، ہم نے تمہارے لیے آیتیں بیان کر دیں اگر عقلمند ہو (تو غور کرو)” (آل عمران: 118)۔
USAID جسے 1961 میں بنایا گیا، پاکستان میں تعلیمی اصلاحات کے لیے پیسہ خرچ کرر ہی ہے۔ ہم شاید یہ سوچتے ہیں کہ یہ خوش نصیبی ہے جبکہ درحقیقت یہ افسوسناک اور خطرناک بات ہے۔ یہ معاشرے اور تعلیم میں اسلامی ثقافت کی عدم موجودگی ہی ہے جو ہماری نوجوان نسل کو فکری طور پر مغربی افکار اور طرز زندگی کی طرف مائل کر رہی ہے۔ ایک ایسی ریاست میں اسلامی تعلیمی نظام کا نفاذ، جو تمام تفصیلات کے ساتھ اسلامی عقائد و قوانین کو نافذ کرے، ہی وہ طریقہ ہے جس سے نئی نسل کے اذہان میں اسلامی افکار کو داخل کیا جا سکتا ہے۔ حزب التحریر کےخلافت کے لیے ترتیب دیے گئے آئین کی دفعہ 170 میں درج ہے: "تعلیمی نصاب کا اسلامی عقیدہ کی بنیاد پر استوار ہونا فرض ہے چنانچہ تمام تدریسی مواد اور تدریسی طریقے کو اس طرح وضع کیا جائے گا کہ اس بنیاد سے روگردانی نہ ہو”۔
مدد کرنے سے روکتے ہیں ۔ خلافت غیرمسلم ممالک کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے ان سےمزاکرات، معاہدے اور مختلف امور پر موقف اختیار کرے گی ۔ خلافت ان ریاستوں کے ساتھ معاہدے کرے گی جو جارح نہیں ہیں اور اس طرح انہیں اسلام میں داخل ہونے میں سہولت فراہم ہو گی۔ خلافت ان ممالک کے خلاف جنگی موقف اپنائے گی جو جارح ہیں تا کہ اپنے شہریوں کو ان سے تحفظ فراہم کرے ۔ اور بین الاقوامی سطح پر وہ دنیا کو ویسٹ فیلین نمونے کو مسترد کرنے کی حوصلہ افزائی کرے گی،اس کے دہرے معیار کو بے نقاب کرے گی
اور یہ کہ کس طرح استعماری ممالک اس کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ اورخلافت جارح ریاستوں کو اپنے منہ سے ویسٹ فیلیا کامنافقت پرمبنی پردہ اتاردینے پرمجبور کردے گی کیونکہ وہ درحقیقت کسی اصول ضابطے کونہیں مانتے بلکہ صرف اور صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ یقیناً اگر ایک ایسی طاقت ابھرتی ہے جو ریاستوں کے درمیان تعلقات کے لیے ایک بالکل نئی بنیاد فراہم کرے تو ان استعماری ریاستوں کو اس کو بھی قبول کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی بلکہ اگر وہ انہیں فائدہ مند لگے گی تو ہوسکتا ہے کہ وہ بھی دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اسے استعمال کریں۔
ختم شد