امام اعظم : ابو حنیفہ النعمان (80 – 150) ہجری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان کےاساتذہ:
امام ابو حنیفہ نے فرمایا: "میں علم اور فقہ کے مرکز میں تھا، میں فقہا کے ساتھ بیٹھا اور پڑھا، میں نے فقہ پر عمل کیا اور فقہا کے ہی ذریعے ایک فقیہ بنا”۔ اس روایت میں امام ابو حنیفہ یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ایک استاد کے ساتھ ہی منسلک رہے ، ایک ہی استاد کے ساتھ وقف رہنے کا یہ طرز ہمیں تمام اماموں میں نظر آتا ہے۔ امام مالک ،ابنِ ھرمز کے ساتھ رہے، امام شافعی امام مالک کے ساتھ اور امام احمد امام شافعی کے عراق جانے تک ان کے ساتھ رہے۔ ایک استاد سے ساتھ منسلک ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر اساتذہ کا انکار کیا جائے یا ان سے سوال نہ پوچھا جائے یا علم نہ حاصل کیا جائے۔ بلکہ استاد کے ساتھ اس تعلق کا مطلب یہ ہے کہ وہ طالب علم اس استاد کو سب سے زیادہ عالم اور اپنے لیے سب سے زیادہ گرم جوش دیکھتا ہے، اوروہ محسوس کرتا ہےکہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو وقف کرنا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند اور زیادہ علم کے حصول کا سبب بنے گا۔
جہاں تک ان اساتذہ کا تعلق ہے جن کے ساتھ امام ابو حنیفہ منسلک رہے، وہ حماد بن ابی سلیمان تھے۔ امام ابو حنیفہ ان کے ساتھ 18 سال رہے۔ امام نے اپنے استاد سے اپنے بارے میں روایت نقل کی ہے جو انہوں نے ابو حنیفہ کی یاداشت، تجزیے اور امتیاز کے بارے میں کہی کہ "حلقہ میں سب سے آگے میرے ساتھ کوئی نہیں بیٹھے گا سوائے ابوحنیفہ کے”۔
ابو حنیفہ نے ایک واضح وجہ سے استاد کے طور پرحماد کا انتخاب کیا۔ کوفہ اساتذہ اور علماء سے بھرا پڑا تھا مگر نھوں نے حماد کو چنا کیونکہ ان کے پاس اولین صحابہؓ سے حاصل شدہ علم تھا ،وہ صحابہ جواپنے علم کی وسعت میں مشہور تھے اور انھوں نے عقیدہ اور شرع کے اصول براہِ راست رسول اللہ ﷺ سے سیکھے تھے، ان میں عمر بن خطابؓ،علی بن ابی طالبؓ، عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ شامل ہیں۔
امام ابو حنیفہ نے علم حماد سے لیا اور حماد نے علم ابراہیم نخعی سے لیا جو اولین تابعین میں سے تھے، اورعراق کے فقیہ اور کوفہ کے محدث تھے۔ وہ اپنے تقویٰ، خوفِ خدا،عبادات اور دین پر مضبوطی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ ان کا انتقال 50 سال کی عمر میں 96 ہجری میں ہوا۔ شعبی نے ان کی تدفین پر کہا: "تم نے ایک بہترین انسان کو دفنایا ہے”۔ کسی نے پوچھا، "کون؟ کیا حسن؟”، یعنی حسن البصری، تو انھوں نےکہا: "حسن، اہلِ بصرہ، اہلِ کوفہ، اہلِ شام اور اہلِ حجاز سے زیادہ سمجھ رکھنے والا”۔ ابراہیم نخعی کا سعید بن جُبیر کے نظر میں جو مقام تھا ، وہ ان کے اس قول سے پتہ چلتا ہے:”تم مجھ سے فتویٰ مانگتے ہو جبکہ تمہارے درمیان ابراہیم نخعی موجود ہیں”۔اپنی عجزوانکساری کے باعث وہ اس وقت تک نہیں بولتے تھے جب تک سوال نہ کیا جائے، اور جب سوال کیا جاتا تو کہتے، "میں نے بات کی اور اگر چپ رہنے کی کوئی وجہ ہوتی تو نہ بولتا۔ جس زمانے میں میں کوفہ کا فقیہ ہوں یہ ایک بُرا وقت ہے”۔ ابراہیم نخعی کی فقہی آراء ان کو اپنا ایک مذہب بنانے کے انتہائی قریب لے آئیں۔ معاملات میں نہ پڑنے کی عادت اورایک آنکھ سے محرومی کے باوجود ان کی بہت عزت تھی، یہاں تک کہ سفیان بن مغیرہ نے کہا:”ہم ابراہیم نخعی کی عزت ایک ماہر استاد کی طرح کرتے تھے”۔ ابراہیم نے عائشہ ؓ سے ملاقاتیں کیں اور جب وہ چھوٹی عمر میں حج کے لیے گئے تو انہیں عائشہ ؓ کی رفاقت نصیب ہوئی ۔
امام ابو حنیفہ کے استاد، حماد نے عامر الشعبی سے بھی علم سیکھا جو ابراہیم نخعی کے قریبی دوست تھے۔ یہ دونوں علم میں جڑواں تھے اور اکٹھے یاد کیے جاتے تھے۔ امام شعبی کوفہ اور کوفہ کے باہر، فقہاء کے سرداروں میں سے تھے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے 500صحابہؓ کو جانتے تھے۔ انھوں نے اُن سے علم سیکھا اور اُن کو سنا۔ کوفہ میں ان کا ایک بڑا حلقۂ تدریس تھا۔ محمد بن سیرین نے کہا، "میں کوفہ آیا تو شعبی کا ایک بہت بڑا حلقہ تھا اور اُن دِنوں اصحابِ رسول کی تعداد بہت تھی”۔ ابنِ شہاب زُہری کہتے ہیں:”علماء چار ہیں، ابن مُسیب مدینہ میں،شعبی کوفہ میں، البصری بصرہ میں اور مکحول شام میں”۔
وہ تیسرے عالم جن سے امام ابو حنیفہ کے استاد، حماد نے علم سیکھا، وہ سعید بن جبیر ہیں جنہیں حجاج نے 50 سال کی عمر میں 95 ہجری میں قتل کردیا تھا۔ حجاج نے کئی اسلام کے علماء کو قتل کیا جن کی امت نے اتنی تکلیف محسوس نہیں کی تھی جتنی سعید بن جبیر کے قتل کی تھی۔ کیونکہ وہ تابعین میں سب سے مشہور اورفقیہ، عالم اور قاری تھے جو رمضان میں مسلمانوں کی نماز میں امامت کرواتے تھے۔
ایک رات وہ عبداللہ بن مسعودؓ کی قرأت میں تلاوت کرتے تھے تو دوسرے رات میں زید بن ثابتؓ کی قرأت میں اور پھر کسی اور کی قرأت میں تلاوت کرتے تھے۔ سعید بن جبیر دین میں اپنے علم کی وجہ سے اپنے دور کے کئی تابعین سے ممتاز مانے جاتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ طلاق کے معاملات میں سب سے زیادہ عالم سعید بن مسیب، حج کے معاملات میں عطا بن ابی رباح، حلال اور حرام میں طاوؤس، تفسیر میں مجاہد بن جبر ہیں، مگر ان سب سے فاضل سعید بن جبیر ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے کہا، "حجاج نے سعید بن جبیر کو قتل کر دیا، زمین پر کوئی ایسانہیں جس کو ان کے علم کی ضرورت نہ ہو”۔
جہاں تک حماد بن سلیمان کا تعلق ہے جنہوں نے ان سب سے علم سیکھا، اوروہ امام ابو حنیفہ کے اساتذہ میں سے سے اہم تھےتوامام ابو حنیفہ ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ طویل نشستوں میں بیٹھے، ان کے لیے ہمیشہ موجود رہے اور انہی کے پاس آئے۔ حماد کئی اماموں اور فقہاء کے استاد رہے جن میں سفیان ثوری اور شعبہ بن حجاج شامل ہیں جو فقیہ، محدث اور راوی ہیں اور جن کے بارے میں امام شافعی نے کہا، "اگر شعبہ نہ ہوتے تو عراق میں حدیث کا علم موجود نہ ہوتا”۔ ان کی فقہ کی سمجھ دو عظیم صحابہ، علی بن ابی طالبؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ کے فہم کے نہایت قریب تھی۔
جہاں تک اما م ابو حنیفہ کے دیگر اساتذہ کا تعلق ہے جن سے انھوں نے علم سیکھا، تووہ اہلِ کوفہ میں سے محارب بن دثاراورسماك بن حرب ہیں جو 80 صحابہ ؓکو جانتے تھے اور انہوں نے ان سے علم سیکھا اور روایت کی۔ انھوں نے اولین تابعین سے بھی علم سیکھا جن میں عبد الكريم ابو اُميہ اورعطیہ بن سعد بن جنادہ شامل ہیں جنھوں نے کچھ صحابہؓ سے روایات کیں۔ اور ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو علم حدیث، فقہ، شاعری، علم الرجال اور قانونی معاملات کا وسیع علم رکھتے تھےاور انہیں امین، صدیق، ثقہ اور عبادت وزہد میں کثرت رکھنے، حتی کہ گھڑ سواری میں مہارت کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ امام ابوحنیفہ کے کچھ اساتذہ تھے جو کوفہ سے نہیں تھے، ان میں انس بن مالکؓ ہیں جو آخری صحابی تھے اور بصرہ میں فوت ہوئے۔ ان میں تابعی ہشام بن عروہ بن زبیر ہیں جو صحابی عبداللہ بن زبیرؓ کے بھتیجے ہیں۔ ہشام نے دونوں صحابہ عبداللہ بن عمرؓ اور انس بن مالکؓ کو دیکھا۔ اس کے علاوہ تابعی عطاء بن ابی رباح جو مکہ کے مفتی اور فقیہ تھے، جنہوں نے بہت سے صحابہؓ سے علم سیکھا اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 200 صحابہؓ کو دیکھا۔ پھر نافع مولا عبداللہ بن عمرتھے جنھوں نے کئی صحابہؓ کو سنا اور جن کو خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے مصر بھیجا تھا تاکہ مصریوں کو سنت سکھائی جائے۔ اہلُ الحدیث طبقےکے مطابق: "شافعی سے مالک سے نافع سے ابن عمر کی سندان تمام کے جلال کی وجہ سے ایک بھی اساتذہ تھے۔ سنہری سند ہے”۔ پھر امام ابو حنیفہ کے اہل بیت میں سے
امام ابو حنیفہ اہل بیت کی بہت عزت کرتے تھے، ان سے محبت کرتے تھے، ان سے قبول کرتے تھے اور ان کی قدر کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے ان سے علم سیکھا۔ وہ محمد الباقر اور ان کے بھائی زید سے بھی ملے، جو زین العابدین علی بن الحسین کے بیٹے ہیں۔ وہ دونوں امام ابو حنیفہ سے عمر رسیدہ تھے، لہٰذا ان سے سیکھا، خصوصاً زید سے جن سے بہت علم سیکھا۔
جہاں تک محمد الباقر کا تعلق ہے، وہ ایک عظیم عالم تھے جن میں اہل بیت والی اخلاق صفات پائی جاتی تھیں ، جیسے شفقت اور وقار۔ ان کو باقر اس لیے کہا جاتا تھا کہ ان میں علم سیکھنے کی بہت صلاحیت تھی۔ الباقر اپنے دونوں والدین کی طرف سے اہل بیت میں سے تھے اور تابعین علماء میں سے تھے۔ انھوں نے اپنے والد، اپنے دونوں دادا، حسن اور حسین، اپنے چچا، ابو ہریرہ، محمد بن حنفیہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور ایسی دیگر ہستیوں سے روایات کی ہیں۔ ان کے بارے میں بہت سے عظیم علماء نے روایات کیں ہیں جن میں ان کے بیٹے جعفرصادق، اس کے علاوہ محمد بن شہاب زُہری اور عمر بن دینار شامل ہیں۔ امام محمد الباقر نے ان کے خلاف انتہائی سختی کا مظاہرہ کیا جنہوں نے برائی کے ساتھ خلفاء راشدین کے مخالفت کی۔
جہاں تک زیدبن علی زین العابدین کا تعلق ہے جو اہلِ بیت میں سے تھے، تو ان سے بھی امام ابو حنیفہ نے علم سیکھا۔ وہ محمد الباقر کے بھائی تھے اور علم اور حدیث میں ماہر تھے اور بہادر انسان تھے۔ ان کے بھتیجے جعفر صادق نے کہا، "اللہ ہمارے چچا پر رحم کرے، اللہ کی قسم وہ ہمارے ماہر استاد ہیں۔ اللہ کی قسم دنیا اور آخرت میں اب ہم میں سے ان جیسا کوئی نہیں”۔ زید ایک مذہب کے امام بھی ہیں جو ان کے نام پر ہے۔ امام زیدفقہا میں ابان بن عثمان، ابن شہاب زُہری، عروہ بن زبیر، شعبہ بن حجاج اور دیگر سے روایات
نقل کیں۔ شیعہ فقہا میں انھوں نے اپنے والد زین العابدین اور اپنے بھائی محمد الباقر جو ان سے 10 سال بڑے تھے، سے روایات لیں۔ امام زید کا مذہب ابو بکر ؓو عمرؓ کی خلافت کو تسلیم کرتا ہے، اگرچہ وہ علیؓ کو پہلے دو خلفاء سے افضل سمجھتے تھے لیکن ان کا مذہب بہتر کی موجودگی میں کسی اورامامت کی اجازت دیتا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق ابوبکرؓ کی خلافت تمام صحابہؓ کی رائے اور ان کے اختیار کیے گئے شرعی قواعد کےتحت انجام پائی تھی۔ زید حجاز میں قیام کے دوران امام ابو حنیفہ کے استاد رہے اور امام ابوحنیفہ نے زید کے بارے میں کہا، "میں زید کو ایسے ہی دیکھتا تھا جیسے ان کے خاندان کو۔ میں نے ان کے زمانے میں ان سے زیادہ فقہی سمجھ، زیادہ علم، حاضر جواب اور فصیح گفتگو والا شخص نہیں دیکھا۔ ان کا کوئی مقابلہ نہیں”۔
جہاں تک عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابو طالب کا تعلق ہے، جوامام ابو حنیفہ کے استاد تھے اور ایک عظیم عالم اور محدث تھے،تو ان کے متعلق مصعب بن عبداللہ نے کہا: "میں نے اپنے علماء میں سے کوئی ایسا نہیں دیکھا جس کی اتنی عزت کی جاتی ہو جتنی عبداللہ بن حسن بن حسن کی”۔ انھوں نے اپنے والد، اپنی والدہ، اپنے دادا کے رشتے دار عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب، اعرج اور عِکرِمہ سے روایات کیں۔ وہ جنھوں نے ان سے روایات کیں، ان میں سے بیشتر فقہ کے امام ہیں جیسے امام مالک اور سفیان ثوری۔ ان کا خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے نزدیک بھی ایک مرتبہ اور مقام تھا۔
جہاں تک امام جعفر صادق بن امام محمد الباقر کا تعلق ہے، توان کو صادق اپنی سچائی اور ایمان داری کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔متعدد مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے 55 حج کیے، اور 130 سے 136 ہجری کے درمیان مکہ میں قیام کیا۔
امام ابو حنیفہ کا حلقہ:امام ابو حنیفہ نے اپنے استاد حماد بن سلیمان کی وفات (120 ہجری) تک علیحدہ حلقہ نہیں بنایا۔ انہوں نے ایک دفعہ کوشش کی کہ اپنے استاد کا حلقہ چھوڑ کر علیحدہ حلقہ بنائیں۔ مگر ایک مرتبہ جب وہ مسجد میں داخل ہوئے، توانھوں نے اپنے استاد کو دیکھا اور انتہائی شرم محسوس کی، چنانچہ وہ اپنے استاد کے پہلو میں اپنی جگہ پر آ گئے۔
اسی دن اتفاق سے ان کے استاد کو اپنے حصے کی وراثت حاصل کرنے کے لیے اپنے آبائی علاقے بصرہ سفر کرنا پڑا۔ لہٰذا حماد نے اپنی عدم موجودگی میں دو مہینے کے لیے اپنے حلقہ کی ذمہ داری ابوحنیفہ کو سونپ دی۔ کوفہ واپسی پر ان کے طلباء نے ان کو تمام مسائل کے تفصیلات دیں جو انھوں نے محفوظ کیں تھیں۔ حماد نے 40 جوابات کی تصدیق کی اور 20 کو رد کیا۔ لہٰذا ابو حنیفہ یہ جان کر کچھ غمگین ہوئے کہ وہ ابھی فکری پختگی تک نہیں پہنچے، باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایک ہی حلقہ تک محدود رکھا۔
کوفہ کی مسجد میں ہونے والے حلقات:امام ابوحنیفہ کے بقول کوفہ علم کی کان تھااور اس کی سب سے بڑی مسجد فقہی حلقات کا گڑھ تھی۔ اس میں بینائی سے محروم سلیمان بن مہران، جو اپنی فصاحت و بلاغت میں مشہور تھے، کا حلقہ،مسعر بن کدام کا حلقہ جن کو "المصحف” کہا جاتا تھا اور سفیان ثوری کا حلقہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن امام ابو حنیفہ کا حلقہ سب سے بڑا اور وسیع تھا، خاص طور پر جب مسعر اور سفیان اپنے حلقات کے ساتھ مکہ چلے گئے۔ یہ حلقات فقہ اور حدیث تک محدود نہ تھے، بلکہ قرأت کے حلقات بھی تھے جیسے حمزہ بن حبیب القاری کا حلقہ جن کی قرات آفاقی طور پر قبول کی جاتی تھی۔ سفیان ثوری نے حمزہ کے بارے میں کہا کہ وہ تاثیر کے بغیرقرآن سے کچھ تلاوت نہیں کرتے۔ پھر ایک اور مشہور قاری شعبہ بن عياش بن سالم ازدي کا حلقہ تھا۔ حمزہ اور شعبہ کے حلقات سے برتر عاصم کا حلقہ تھا جو قرأت میں ابو حنیفہ کے شیخ تھے۔ مسجد کوفہ میں ان تمام حلقات کی موجودگی میں امام ابوحنیفہ کا حلقہ اپنے کثرتِ علم کی وجہ سے ممتاز تھا۔ اگر وہ حج کا ارادہ کرتے، جو انہوں نے 55 بار کیا، تو ان کی شہرت کی وجہ سے ان کا حلقہ ان کے ساتھ جاتا اور یہی حالت مدینہ سفر کی بھی تھی۔ انہوں نے امام مالک سے ملاقات کی اور ان سے دینی امور اور فقہ پر سوالات کیے اور اکثر دونوں ایک ہی رائےپر متفق ہوتے۔ علماء کے اذہان میں امام ابوحنیفہ کا خاکہ ایسا تھا کہ ان کے پاس تین چوتھائی علم ہے اور وہ سوالات کرتے اور ان کے جوابات دیتے ہیں۔ اس لیے زاہد امام فضیل بن عیاض ان کے بارے میں کہتے ہیں، "امام ابو حنیفہ اپنی فقہ، سخاوت، مال اور اعلیٰ اقدار کی وجہ سے مشہور تھے”۔ انہوں نے مزید کہا، "وہ بہت صبر سے دن رات علم سکھاتے، ان کی راتیں بہت خوب ہوتیں تھیں، وہ چپ رہتے اور کم بولتے تھےسوائے حلال اور حرام کے معاملے کے۔ انہوں نے حق کی بلندیوں کو چُھوا اور حکمرانوں کی دولت سے دور رہے”۔ ان کے دور کے ایک اور عالم عبداللہ بن مبارک ان کے ایک حلقہ جس میں معسر بن کدام شامل تھے، کے بارے میں کہتے ہیں، "میں نے معسر کو ابو حنیفہ کے حلقہ میں ان کے ساتھ دیکھا، ان سے پوچھتے ہوئے اور فائدہ حاصل کرتے ہوئے اور میں نے
کوئی ایسا نہیں دیکھا جو فقہ میں ابو حنیفہ سے بہتر بولتا ہو”۔ معسر اس حلقہ کے بارے میں کہتے ہیں، ” وہ لوگ دن میں اپنے معاملات کے لیے نکلتے اور پھر امام ابو حنیفہ سے آ کر ملتے، اور وہ ان کے لیے نیچے بیٹھ جاتے۔ سوال اور بحث کرنے والے اپنی آوازیں ضرورت سے زیادہ اونچی کر لیتے”۔ معسر سے مزید کہا، إن رجلًا يُسكن الله به هذه الأصوات لعظيم الشأن "ان آوازوں میں بھی ایک انسان کا اللہ کی طرف سے کامیابی حاصل کر لینا ایک بہترین معاملہ ہے”۔
ابو حنیفہ کا حلقہ علم کی تحقیق کے لیے ایک مجمع تھا جہاں بحث عام تھی اور دن رات معاملات پر تحقیق ہوتی تھی۔ اگر امام ایک تسلی بخش رائے تک نہیں پہنچتے تھے تو اپنے شاگرد ابو یوسفؒ سے کہتے، "اس کو فلاں کے دروازے پر لگا دو”۔
امام ابو حنیفہ ایک کھلے ذہن کے مالک تھے، وہ اپنی رائے کو تحریر نہیں ہونے دیتے جب تک اس کی درستگی پر مکمل یقین نہ ہو۔ لہٰذا انہوں نے عمر الفاروق کی اقدار کی پیروی کی جہاں عمر الفاروق نے موسیٰ العشری کو کسی ایسے فتویٰ پر چلنے سے منع کیا جو غلط ثابت ہو جائے۔ اور ابو حنیفہ نے یہی کیا، اگر کسی رائے کے بعد ان کو یہ واضح ہو گیا کہ یہ صحیح نہیں ہے۔
ابو حنیفہ نے اس شخص کو تنبیہ کی جو دنیاوی مفاد کے لیے عالم بن بیٹھا، من تعلم العلم للدنيا حرم بركته، ولم يرسخ في قلبه. ومن تعلمه للدين بورك له في علمه، ورسخ في قلبه، وانتفع المقتبسون منه "جو کوئی اس دنیا کے لیے علم حاصل کرے گا، وہ برکات سے ہاتھ دھو بیٹھے گا اور علم اس کے دل میں نہیں اترے گا۔ اور جو کوئی دین کے لیے سیکھے گا، اس میں برکت ہو گی اور وہ اس کے دل میں اترے گا اور طلباء اس سے مستفید ہوں گے”۔ ابو حنیفہ ایک مالدار انسان تھے اور ان کا منافع بخش کاروبار تھا لیکن وہ اپنے طلباء پر بھی خرچتے تھے تاکہ وہ اپنی زندگی کی ضروریات پوری کر سکیں، جسے آج کے زمانے میں اسکالرشپ کہا جاتا ہے۔ یہ اچھا عمل ابو حنیفہ نے اپنے استاد حماد سے لیا اور انہوں نے اپنے استاد ابراھیم النخعی سے لیا۔ ابو یوسف کہتے تھے، "ابو حنیفہ میرے ساتھ 25 سال رہے اور اگر میں ان سے کہتا کہ میں نے آپ سے بہتر انسان نہیں دیکھا تو کہتے، کیسے؟ اگر تم حماد کو دیکھ لیتے (تو یہ نہ کہتے)۔ وہ کہتے، میں نے حماد کی وفات سے آج تک ایسی نماز نہیں پڑھی جس میں ان کے لیے اور اپنے والد کے لیے مغفرت نہ مانگی ہو، اور وہ جنہوں نے ان سے سیکھا اور جنہوں نے ان کو سکھایا”۔ جب انھوں نے ابو یوسف میں کمال اور ارادے کی مضبوطی دیکھی تو نصیحت کی، كن من السلطان كما أنت من النار، تنتفع بها وتتباعد عنها، ولا تدنُ منها؛ فإنك تحترق وتتأذى منها؛ فإن السلطان لا يرى لأحد ما يرى لنفسه "حکمرن سے ایسے محتاط رہو جیسے آگ سے، تم اس سے فائدہ اٹھاؤ مگر تم اس کے پاس نہیں جا سکتے سوائے اس کے کہ وہ تمھیں جلائے اور نقصان پہنچائے کیونکہ حکمران کسی اور کے لیے وہ نہیں دیکھتا جو وہ اپنے لیے دیکھتا ہے”۔
ختم شد