اس دنیا کی زندگی بہت ہی مختصر ہے، لہٰذااللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کریں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں نظر آنے والے عزم، تحریک، عجلت کے احساس، پہل کرنے کی صلاحیت اور قوتِ عمل کی وجہ انتظام و انصرامِ وقت جیسے تصورات نہیں تھے ۔ بلکہ یہ صفات زندگی کی حقیقت کامکمل ادارک کرنے اور اُس پر پختہ یقین کا نتیجہ تھےجیسا کہ زندگی کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی میں بیان کیا گیا ۔ یقیناً دنیا کی زندگی مختصر ہی سمجھی جاتی ہے، یہاں تک ان کے نزدیک بھی جنہوں نے بہت لمبی عمریں پائیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ "اور ہم نے نوحؑ کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے پھر اُن(قوم ) کو طوفان (کے عذاب) نے آپکڑا۔ اور وہ ظالم تھے”(العنکبوت:14)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، فَلَمَّا أَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، قَالَ: يَا نُوحٌ، يَا أَكْبَرَ الأَنْبِيَاءِ، وَيَا طَوِيلَ الْعُمُرِ، وَيَا مُجَابَ الدَّعْوَةِ، كَيْفَ رَأَيْتَ الدُّنْيَا؟ قَالَ: مِثْلَ رَجُلٍ بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ لَهُ بَابَانِ، فَدَخَلَ مِنْ وَاحِدٍ، وَخَرَجَ مِنَ الآخَرِ "موت کا فرشتہ حضرت نوح ؑ کے پاس آیا اور کہا:’اے نوحؑ، پیغمبروں میں سب سے لمبی عمر پانے والے، آپؑ نے اس دنیا اور اس کی آسائشوں کو کیسا پایا؟’۔ آپؑ نے فرمایا:ایک ایسے آدمی کی طرح جو ایک ایسے کمرے میں داخل ہو جس کے دو دروازے ہوں اور وہ اس کمرے کے بیچ میں کچھ دیر کے لیے کھڑا رہے، اور پھر دوسرے دروازے سے نکل جائے "۔ تو نوحؑ کے لیے دنیا کی زندگی اتنی مختصر تھی جنہوں نے ساڑھے نو سو سال کی عمر پائی تھی، تو پھر ہمیں ، امتِ محمد ﷺ کو اس دنیا کی زندگی کوکیسے دیکھنا چاہیے جبکہ آپ ﷺ نے فرمایا، عُمُرُ أُمَّتِي مِنْ سِتِّينَ سَنَةً إِلَى سَبْعِينَ سَنَةً "میری امت میں زندگی کی طوالت ساٹھ سے ستر سال ہے”۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم اُس دروازے کے بالکل پاس پیدا ہوئے ہیں جہاں سے ہمیں لازمی واپس جانا ہے؟ کیا ہمارے پاس اتنا و قت ہے کہ ہم اپنے دین کے حوالے سے ذمہ داریوں کی ادائیگی کو التوا میں ڈال دیں؟ ہم میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اُس کی یہ زندگی ضائع نہ ہوجائے۔ ہر دن اور دن کا ہر حصہ ہمارے لیے اہم ہونا چاہیےیہاں تک کہ پوری زندگی اسی طرح گزرے اور اللہ سبحانہُ و تعالیٰ راضی ہو جائے۔
یقیناً اس دنیا کی زندگی مختصر ہے اور روزِ آخرت وہ لوگ جنہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت نہیں کی ہو گی انہیں اس بات کا شدید احساس ہوگا۔ انہوں نے اپنی زندگی فضول کھیل کود اور دنیاوی لذتوں اور خواہشات کی پیچھے ضائع کردی ہوگی۔ وہ اس قدر مایوسی کا شکار ہوں گے کہ وہ کہیں گے کہ ان کی زندگی تو محض ایک دن بلکہ اس سے بھی کم عرصے پر محیط تھی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ (112) قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ (113) قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً لَوْ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (114) أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ (115) فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ (116)"(اللہ) پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے؟ وہ کہیں گے کہ ہم ایک روز یا ایک روز سے بھی کم رہے تھے، شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیئے۔(اللہ) فرمائے گا کہ (وہاں) تم (بہت ہی) کم رہے کاش تم جانتے ہوتے۔کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بےفائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ تواللہ جو سچا بادشاہ ہے (اس کی شان) اس سے اونچی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش بزرگ کا مالک ہے۔” (المومنون:116-112)۔ تو ہمیں کس طرح اپنے شب و روز گزارنے چاہیے؟ تو کیا اپنے خاندان کے ساتھ گزارا پورا دن یا دفتر میں رات دیر تک رک کر کام کرنے کو ہم ایک ایسا و قت قرار دیں گے کہ ہمارا یہ وقت ایک اہم کام میں صرف ہوا،لیکن نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کے لیے چند گھنٹے لگا کر ہی ہم مطمئن ہو جائیں گے؟ ہم کس طرح پورا دن یا دن کا کچھ حصہ گھر پر گزارنے کو ترجیح دے سکتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دین نافذ ہی نہ ہو، خونِ مسلم زمین کی پیاس بجھا رہاہو، مسلم علا قوں پر پست ترین لوگ قابض ہوں اور مسلمان دنیا بھر میں مہاجر بنے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں، سمندروں میں ڈوب رہے ہوں، کھلے آسمان تلے سو رہے ہوں اور بھوک اور سردی کا شکار ہوں؟ کیا ہمارے پاس آرام کرنے کا وقت ہے اور کیا یہ آرام کرنے کا و قت ہے؟
ہمیں اس دنیا میں اپنے قیام کے متعلق شیطان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے۔ اس دنیا کی زندگی بذات خود ہی مختصر نہیں ہے بلکہ جب اس کا آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی سے موازنہ کیا جائے تو اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ "اور دنیا کی زندگی آخرت (کے مقابلے) میں (بہت) تھوڑا فائدہ ہے”(الرعد:26)، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ ” کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے "(النساء:77) ، اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ "اےمیری قوم! یہ دنیا کی زندگی (چند روزہ) فائدہ اٹھانے کی چیز ہے۔ اور جو آخرت ہے وہی ہمیشہ رہنے کا گھر ہے” (غافر:39)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، وَاللَّهِ مَا الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ هَذِهِ – وَأَشَارَ يَحْيَى بِالسَّبَّابَةِ – فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ يَرْجِعُ "اللہ کی قسم دنیا ، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے ، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہوگا؟”۔ لہٰذا ہم کیوں سمندر کی جگہ اس چیز کے پیچھے بھاگیں جو ہماری انگلی کوبھی بھر نہیں سکتی اور ہم اس کے لیے اپنے گھنٹوں، دنوں، ہفتوں اور مہینوں لگا دیں؟ ہمیں اُن کم درجے کے معاملات کے پیچھے اپنا و قت برباد نہیں کرنا چاہیے جو ہمیں فرض اعمال کی ادائیگی سے بےپروا کردے ۔یقیناً اپنی دنیاوی امور پرلگنے والے وقت کو محدود کرنا ہے تا کہ ہم اُن معاملات پر اپنے گھنٹوں، دنوں اور مہینوں لگا سکیں جو آخرت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
صرف اس دنیا کی زندگی محدود ہی نہیں بلکہ یہ تو کسی بھی و قت ختم ہوسکتی ہے۔ موت سے کسی صورت فرار ممکن نہیں ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری موت کا کونسا و قت مقرر ہے، تو پھر ہم اس معاملے کوکیسے التوا میں ڈال سکتے ہیں جس کی ادائیگی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہے؟ ان اہم معاملات کو
التوا میں ڈالنا خود کو دھوکے میں ڈالنا، جھوٹی امید لگانا اور فریب میں مبتلا کرنا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ” اور ہر ایک کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ آ جاتی ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرسکتے ہیں نہ جلدی "(الاعراف:34)۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ ” لذتوں کو توڑنے والی(یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو "(ابن ماجہ)۔ ہم اس امید پر اپنے دین کے معاملات کو التوا میں نہیں ڈال سکتے کہ میں اگلے مہینے،اگلے ہفتے، کل یایہ کہ اگلے گھنٹے بھی زندہ رہوں گا۔ اس قسم کی امید جھوٹی امید ہے۔ یقیناً اس قسم کی امید کے پورا ہونے سے قبل ہی موت انسان کوجکڑ لیتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کچھ لکیریں کھینچیں اور کہا، هَذَا الأَمَلُ وَهَذَا أَجَلُهُ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَهُ الْخَطُّ الأَقْرَبُ "یہ انسان کی امید ہے اور یہ انسان کی موت کا و قت، اور ابھی وہ اس ( امید کی) حالت میں ہوتا ہے کہ (موت کی) لکیر قریب آجاتی ہے "(بخاری)۔ تو پھر ہم کیسے خلافت کے داعی کی اس دعوت سے منہ موڑ سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی کی بحالی کے لیے کام کرو؟ ہم کیسے اس کام کو التوا میں ڈال سکتے ہیں جو کفر کی حکمرانی کے خلاف آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے؟ اس کام کو کل تک التوا میں کیوں ڈالیں جو آج کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس بات کا ادراک کہ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے ہمیں اس اہم کام کو تیزی سے کرنے پر مجبور نہیں کرتی؟ اگر ہم مطلوبہ رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہے تو کیا ہمیں اپنی عادات و اطوار کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟
یقیناً دنیا کی زندگی مختصر ہے تو ہمیں اس کی حیثیت کے مطابق اس سے معاملہ کرنا چاہیے۔ اس دنیا کی خواہشات، تسکین، مزے ہمارے وقت کو نہ کھا جائیں کہ ہمارے پاس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کے لیے اتنا وقت ہی میسر نہ ہو جتنا کہ اس کا حق ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا، كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّك غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ "اس دنیا میں ایسے رہو جیسے تم اجنبی یا راہ گزر ہو "(بخاری)۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا، أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ ” کیا تم آخرت (کی نعمتوں) کو چھوڑ کر دینا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو۔ دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں "(التوبۃ:38)۔ مسلمان کی زندگی ایک مسافر کی سی ہے جو اس سے گزرتا چلاجاتا ہے اور اسے ایسے بسر نہیں کرتاجیسا کہ اسے یہاں پر مستقل قیام کرنا ہے۔ وہ اپنے پیشے کو تبدیل کرنے میں تاخیر نہیں کرتا اگر وہ یہ محسوس کرے کہ یہ کام اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑتا کہ وہ دعوت پر و قت لگا سکے۔ وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے، اپنے مستقبل کو بہتر کرنے، گھر خریدنے، بچوں کی تعلیم اور اپنی رفیقِ زندگی کو خوش رکھنے کی خواہش کو محدود رکھتا ہے، کیونکہ اس کے لیے سب سے اہم و قت وہ ہے جو وہ اسلام کی دعوت میں لگاتا ہے۔ جب آپ اسے ملیں تو آپ کو اکثر اس میں بے آرامی اور نیند کی کمی کے آثار نظر آتے ہیں۔ اور اس حال میں بھی جب آپ اسے دعوت کے کام میں مزید حصہ ڈالنے کو کہیں تو وہ اس کے لیے بغیر کسی شکایت کےخوشی خوشی تیار ہوتا ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے اس بیان کو سمجھتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، لا راحة بعد اليوم يا خديجة "اے خدیجہ ، آج کے بعد کوئی آرام نہیں ہے”۔ اور جب وہ یہ بات سمجھ لے کہ فلاں کام اس دین کے لیے انتہائی ضروری ہے تو بغیر کسی تاخیر اور تذبذب کے اسےپورا کرنے کے لئے چل پڑتا ہے۔ عقبہ بن الحارث نے روایت کی: ایک بار رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز ادا کی اور پھر تیزی سے اپنے گھر گئے اور فوراً واپس آئے۔ میں نے (یا کسی اورنے) آپ ﷺ سے پوچھا کہ کیا معاملہ تھا، اور آپ ﷺنے فرمایا، كُنْتُ خَلَّفْتُ فِي الْبَيْتِ تِبْرًا مِنَ الصَّدَقَةِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُبَيِّتَهُ فَقَسَمْتُهُ "”میں گھر سونےکا ایک ٹکڑا بھول آیا تھا جو صدقے کا تھا اور میں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ وہ میرے گھر رات گزارے، لہٰذا میں نے اسے تقسیم کردیا”(بخاری)۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ کے پیغام کو پہنچانے میں جلدی کرتا ہے چاہےاُسے اپنی جان کو ہی خطرے میں کیوں نہ ڈالنا پڑے۔ مسلم نے انس بن مالک سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو جاسوس کے طور پربھیجا کہ دیکھے ابوسفیان کا کارواں کیا کررہا ہے۔۔۔۔ مشرکین ہماری جانب بڑھے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ "اٹھو جنت میں داخل ہونے کے لیے جس کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے "۔
عمیر بن الھمام الانصاری نے کہا، يَا رَسُولَ اللَّهِ جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ "اے اللہ کے رسول ﷺ ، کیا جنت زمین و آسمان کی وسعت کے برابر ہے؟”۔ آپ ﷺنے فرمایا، نَعَمْ "ہاں”۔ عمیر نے کہا، بَخٍ بَخٍ "میری خوش قسمتی!”۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا، مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ "کس چیز نے تمہیں یہ الفاظ کہنے پر مجبور کیا (میری خوش قسمتی!)؟”۔انہوں نے کہا، لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلاَّ رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا "اے اللہ کے رسولﷺ،کسی چیز نے نہیں سوائے اس خواہش کے کہ میں بھی اس کا رہائشی بن جاؤں”۔ آپﷺ نے فرمایا، فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا "تم یقیناً اس کے رہائشیوں میں سے ہو”۔عمیر نے اپنے تھیلے سے کھجوریں نکالیں اور انہیں کھانے لگے۔ پھر عمیر نے کہا، لَئِنْ أَنَا حَيِيتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةٌ طَوِيلَةٌ "اگر میں اتنی زندگی پاؤں کہ یہ تمام کھجوریں کھا سکوں،تو یہ بہت طویل زندگی ہو گی”۔ راوی نے کہا :” عمیر نے اپنی تمام کھجوریں پھینک دیں۔ پھر وہ دشمن سے اس وقت تک لڑتے رہے جب تک وہ شہید نہیں ہوگئے” ۔ یقیناً مسلمان اعلیٰ ترین قربانی دینے کے لیے دنیا میں اپنا آخری کھانا کھانے کے لیے درکار وقت بھی لگانا پسند نہیں کرتا۔
یقیناً دنیا کی یہ زندگی عارضی اور مختصر ہے اور کوئی نہیں جانتا کب اس کا اختتام ہو جائے ، تو ہمیں اس حقیقت کے مطابق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔ اگر ہم سوئے پڑے ہیں تو اس سے نکل کر عمل کی دنیا میں آئیں۔ اگر ہم عمل کررہے ہیں تو اس میں تیزی لائیں۔ آج کے دن کرنے والے کاموں کو آج ہی کے دن ختم کریں تا کہ آنے والے کل دوسرے نئے کاموں کا آغاز کیا جائے۔ ہماری رفتار کا تعین اس چیزکے مطابق ہونا چاہیے جس کا تقاضا ہمارا دین اور ہماری امت کرتی ہے نہ کہ ہم اپنی مرضی کی رفتار پر چلیں۔ آئیں اور بھرپور تحریکی جدوجہد کریں تا کہ اس مختصر سی زندگی میں ہمارے تمام اعمال پر ہمیں اجر ملے اور جب ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور پیش ہوں تو وہ ہم سے راضی ہو۔
ختم شد