تفسیر سورۃ البقرۃآیت178-179
مشہور فقیہ اور رہنما، امیر حزب التحریر، شیخ عطا ءبن خلیل ابورَشتہ کی کتاب "التیسیرفی اصول التفسیر” سے اقتباس :
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿ أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَى بِالأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنْ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ (البقرة: 178) وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُوْلِي الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 179)﴾
"اے ایمان والو! جو لوگ(جان بوجھ کر ناحق) قتل کردیئے جائیں ان کے بارے میں تم پر قصاص (کا حکم) فرض کردیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت (ہی کو قتل کیا جائے)، پھر اگر قاتل کو اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث ) کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو معروف طریقے کے مطابق( خون بہا کا ) مطالبہ کرنا( وارث کا) حق ہے اور اسے خوش اسلوبی سے ادا کرنا (قاتل کا) فرض ہے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک آسانی پیدا کی گئی ہے اور ایک رحمت ہے۔ اس کے بعد بھی کوئی زیادتی کرے تو وہ دردناک عذاب کا مستحق ہے اور اے عقل رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی( کا سامان ہے) اُمید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے ) بچوگے”
(البقرہ : 179178-)
گذشتہ آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان و کفر اور نفاق کے موضوع کو بیان کیا، پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے یہود کو عطا کردہ انعامات اور ان کی ناشکری کا ذکر کیا ،پھر یہ بیان کیا کہ ان اہلِ کتاب کی کتابوں میں رسول اللہ ﷺ کے صفات اور علامات مذکور ہیں، پھر بھی یہ لوگ اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں ،یہ بھی بیان کیا کہ یہ اہل کتاب(یہود و نصاریٰ) اپنے اپنے دین اور قبلے کی برتری ثابت کرنے کے لیے جھگڑوں اور تنازعات کا شکار ہیں اور اس کے علاوہ اُصول دین اور بنیادی امور بیان کیے۔ اب اس کے بعداللہ سبحانہ و تعالیٰ کچھ شرعی احکام کا ذکر فرماتے ہیں، جو لوگوں کے باہمی تعلقات کی تدبیر و انتظام سے متعلق ہیں۔
مذکورہ دونوں آیتوں میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ کچھ یوں ہے:
1۔ مقتولین کے قصاص میں مساوات اور برابری کا معاملہ کیا جائے اور اس میں کسی قسم کی اونچ نیچ اور کمی بیشی نہ کی جائے۔ لہٰذا اگر ایک غلام دوسرے غلام کو قتل کردے ، تو قاتل غلام کو ہی اس کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں لوگوں کا مقتول غلام چونکہ فلاں لوگوں کےقاتل غلام سے بہتر ہے، لہٰذا قاتل غلام کا اس کے بدلے قتل کیا جانا کافی نہیں اس لیے مقتول غلام کے بدلے میں ان کا آزاد مرد قصاصاً قتل کیا جائے ۔ اسی طرح اگر کوئی آزاد آدمی کسی دوسرے آزاد آدمی کو قتل کرے تو قتل کرنے والے آزاد آدمی کو ہی قتل کیا جائے گا، یہ نہیں کہا جائے گا کہ تمہارا مقتول فرد ہمارے قاتل فرد سے کم مرتبے والا ہے ،چنانچہ تمہارے اس مقتول آزاد کے بدلے ہمارے غلام کا قتل ہوجانا کافی سمجھا جائے۔ اسی طرح ایک عورت دوسری عورت کے بدلے قتل کی جائے گی، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس قبیلے کی عورت دوسرے قبیلے کے مرد کے برابر ہے ،اس لیے قاتل عورت کا قتل کافی نہیں، بلکہ اس کے بدلے قاتل عورت کے قبیلے میں سے مرد کو قتل کیا جائے ۔
یہ آیت انہی جیسے واقعات (اور تصورات ) کا حکم بتانے کے لیے نازل ہوئی، ایک روایت میں ہے کہ دو عرب قبیلوں کے درمیان قبل از اسلام جاہلی ادوار میں خونی معاملات پیش آئے تھے اور ایک قبیلہ دوسرے کے مقابلے میں قدرے اونچی حیثیت کا تھا ، اُس قبیلے نے قسم کھائی کہ ہم اپنے غلام کے بدلے تمہارے آزاد آدمی کو قتل کریں گے اور اپنی عورت کے بدلے تمہارے مرد کو قتل کریں گے۔ اسلام کی آمد ہوئی تو یہ قبیلے اپنا معاملہ رسول اللہﷺ کے پاس لے کرآئے ، چنانچہ مذکورہ آیت نازل ہوئی (یہ اس آیت کا پسِ منظر ہے)۔
آیت کا ظاہری اور لفظی مطلب (منطوق)وہی ہےجو ہم نے بیان کیا اوریہی ( قصاص کے حکم کا بیان) اس کا موضوع ہے ۔ علم التفسیر کے اصول، العِبرَةُ بِعُمومِ اللَّفظِ لا بِخُصُوصِ السَّبَب، کے مطابق لفظ کے عمومی معنی کا لحاظ کیاجاتا ہے نہ کہ مخصوص اسباب کا ۔ اس اصول کے مطابق آیت کا موضوع ہے؛ قاتل کا مقتول کے بدلے قتل کیا جانا، مقتول یا قاتل خواہ کوئی بھی ہو،یعنی آزاد کو آزاد کے بدلے ، غلام کو غلام کے بدلے اور عورت کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ یہ اس آیت کا موضوع ہے اور اس کا بیان اس آیت کے اندر وضاحت سے کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک آزاد آدمی کسی غلام کو قتل کردے یا ایک مرد کسی عورت کو قتل کردے ،اس صورت میں کیا حکم ہے؟ یعنی کیا اس صورت میں بھی قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کیا جائے گا؟ بالفاظِ دیگر کیا آیت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے؟(جبکہ آیت کے صریح الفاظ میں اس کا ذکر نہیں)
اس کا جواب ہے، جی ہاں! قاتل کوئی بھی ہو ،مقتول کے بدلے قاتل کو ہی قتل کیا جائے گا اوراس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
ا۔ آیت مقتولین کے قصاص کے حوالے سے عام ہے کہ، كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى "ناحق قتل کیے جانے والوں کے بارے میں تم پر قصاص ہے”۔ "تم پر قصاص ہے” یعنی تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔ پس ایک توقصاص کا لفظ اس بات کا قرینہ ہے کہ” کُتِبَ "سے مراد طلب ِجازم ہے،نتیجہ یہ ہے کہ قتل کیے جانے والوں کا قصاص فرض ہے ۔ دوسرا یہ کہ "قتلیٰ” کا لفظ عام ہے چنانچہ کسی بھی انسان کوقتل کیا جائے تو اس کے قاتل سے قصاص لیاجائے، یعنی قاتل کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے جو اس نے کیا ہے۔ یہ اصول عام رہے گا ،سوائے یہ کہ کسی نص کے ذریعے اس میں تخصیص کی گئی ہو، جیسے آنحضرت ﷺ کا قول ((لا يُقتَل والد بولده )) "والد کو اپنی اولاد کے قتل پر نہیں قتل کیا جائے گا”(رواہ ترمذی واحمد)۔ یہ حدیث اس آیت کے اندر تخصیص کرتی ہے ۔پس اگر کوئی والد اپنے بچے کو قتل کردے تو اس کو قصاصاً قتل نہیں کیا جائے گا۔ یا جیسا کہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد((لا يُقتَل مسلم بكافر)) "کسی مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا”( رواہ بخاری و ترمذی )۔ اس لیے اگر کوئی مسلمان آدمی کسی حربی کافر کو قتل کردے تو اس کو قصاصاً قتل نہیں کیاجائے گا۔ اس حدیث میں مطلق کافر کا ذکر ہے مگر ہمارے نزدیک اس سے حربی کافر مراد ہے ، کیونکہ ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ذمی اور کافر معاہد کو اس سے خارج کردیا ہے اور ان دونوں کے قتل پر قصاص کا حکم دیا ہے جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے ((لا يُقتَل مسلمٌ بكافر ولا ذو عهد في عهده))”کسی مسلمان کو کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا اور نہ کسی معاہد کو اس کے عہد کے دوران قتل کیا جائے گا”(نسائی: 4653،4654) ۔ اس میں ” ذو عہدٍ ” کا عطف "مسلمٌ ” کے لفظ پر کیا گیاہے اور یہ دونوں مرفوع ہیں، یعنی مسلمان کو کافر کے بدلے اور اہلِ معاہد ہ کو بھی کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے۔ چنانچہ پہلی حدیث میں مذکور کافر سے مرادایسا کافر ہے جو اہلِ معاہدہ کافر سے علاوہ ہے ،اور ایسے کافر کا اہلِ ذمہ میں سے نہ ہونا بطریق اولیٰ ہے۔ پس حدیث میں مذکور "کافر” سے کافر حربی مراد ہے (الحاصل آیت اگر چہ ہر قسم کے قاتل اور مقتول کے حوالے سے عام ہےمگر حدیث اس میں تخصیص کرتی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافرکوقتل کردے تو قصاصاً مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے ۔ اسی طرح حدیث میں اگرچہ مطلق کافر کا ذکر ہے مگر رسول اللہ ﷺ کی ایک اور حدیث اس حدیث کی تخصیص کرتی ہے جس کی بنا پرمطلق کافر سے کافرحربی مراد ہے جیسا کہ واضح کیا گیا)۔
ب۔ یہاں جو منطوق (لفظی معنی)ہے وہ ہے آزاد کا آزاد کے بدلے قتل ، غلام کا غلام کے بدلے اور عورت کا عورت کے بدلے قتل۔ جہاں تک اس آیت کے مفہوم کی بات ہے، سو یہاں اس پر عمل نہیں کیا جائے گا ، یعنی اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، اسی طرح یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اگرمرد عورت کو قتل کردے تو اس کو عورت کے بدلے نہ قتل کیا جائے ،یہ اس لیے کیونکہ یہاں آنحضرت ﷺ کے قول کی وجہ سے اس آیت کا مفہوم معطل کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ، الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ "مسلمانو ں اپنے خون میں برابر ہیں” (ابو داؤد: 3758، نسائي: 6952، احمد: 1/119، 122، 192)۔ اس میں مرد اور عورت اور آزاد و غلام سب شامل ہیں ۔اسی طرح آپ ﷺ کا یہ فرمان، مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ ” جو کسی غلام کو قتل کردے، ہم اس کو قتل کریں گے” (ترمذي: 1334، نسائي: 4655، ابو داؤد: 3914، ابنِ ماجه: 2653، احمد: 5/10، 11، 12) ۔
اس کے علاوہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ کی موجودگی میں جو کیا تھا کہ اگر ایک گروہ کسی ایک آدمی کو قتل کردے، تو پورے کے پورے گروہ کو قتل کیا جاتا۔ ایک دفعہ سات آدمیوں نے مل کرایک غلام کو قتل کردیا ، عمرؓ نے ان ساتوں آدمیوں کو قتل کیا اور فرمایا: "اگر صنعاء شہر کے تمام لوگ بھی اکٹھے ہو کر اس کو قتل کردیتے ، میں ان سب کو قتل کردیتا”۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ قاتل کو مقتول کے بدلے قتل کیاجائے ،خواہ کوئی بھی ہو اور قتل کرنے والوں کی تعداد خواہ کتنی ہی ہو۔
2۔ (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ) "پھر اگر قاتل کو اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث ) کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے” اس آیت میں دو امر مذکور ہیں:
ا۔ ایک تو مقتول کے ورثاء کو بھائی بتایاگیا ہے،جو لفظ” اخیہ”سے واضح ہے، اس سے درگزر کی حوصلہ افزائی ملحوظ ہے ، یعنی گویا مقتول کے اولیاء قاتل کے بھائی ہی ہیں،لہٰذاانہیں چاہیے کہ عفو ودرگزر سے کام لیں۔
ب۔ "شیء” کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ معافی ہوتے ہی قصاص ساقط ہوجاتا ہے، خواہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو۔ تھوڑی معافی سے مراد بعض ورثاء کی طرف سے معافی دینا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اولیائے مقتول میں سے کوئی بھی فرد اگر قاتل کو معاف کردے تو قصاص نہیں ہوگا ، اس لیے اگر بعض معاف کردیں اور بعض معاف کردینے سے انکار کرلیں تو معاف کردینے والوں کی معافی کا اعتبار ہوگا۔ اس کو”شیئٌ”سے تعبیر کیاگیا ہے کیونکہ اس صورت میں تمام ورثاء کی طرف سے معافی نہیں ہوئی۔تاہم قصاص پھر بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ (ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ )”یہ اللہ کی طرف سے ایک رحمت اور فضل اور آسانی ہے”۔
3۔ جب سب کی طرف سے معافی دی جائے یا بعض کی طر ف سے ،تو اب اولیائے مقتول معروف طریقے سے دیت( خون بہا) کے مطالبے کے حق دار ٹھہر جاتے ہیں اور قاتل پر لازم ہے کہ خوش اسلوبی سے دیت کی ادائیگی کرکے مقتول کے ورثاء کو اطمینان اورسکون پہنچائے۔
جب اولیائے مقتول معافی دیدیں تواس کے بعد اگر وہ چاہیں تو دیت لیں یا دیت کا مطالبہ کیے بغیر معاف کردیں ۔تمام حالات میں مقتول کے ورثاء کو ان کو دیے گئے کسی بھی حق پر مجبور نہیں کیا جاسکتا،یعنی قصاص ، دیت یا معافی میں سے جبری کوئی کام نہیں کروایا جائے گا،نہ ہی مقتول کے اولیاء اس سے تجاوز کرسکتے ہیں۔ جیساکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: من أصيب بقتل أو خَبَل فإنه يختار إحدى ثلاث: إما أن يقتص أو أن يعفو وإما أن يأخذ الدية فإن أراد الرابعة فخذوا على يديه، ومن اعتدى بعد ذلك فله نار جهنم خالدا فيها ” جس کا کوئی آدمی قتل ہوجائے یا زخمی کیا جائے تو وہ تین چیزوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے: قصاص لے یا معافی دے یا پھر دیت لے۔ کسی چوتھی چیز کی کوشش کرے تو اس کا ہاتھ روکو، اس حکم کے(بتانے کے) بعد بھی کوئی تجاوز کرے گا تو وہ جہنم میں ہمیشہ کی سزا بھگتا رہے گا”(ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد،دارمی)۔
تجاوز کا مطلب یہ ہے کہ اگر قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کردیا ، یامعافی دینے یا دیت لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیا تو اس کے لیے دردناک عذاب ہوگا ۔یعنی دنیا میں قصاص لیاجائے گا یا آخرت میں آتشِ دوزخ کا مزہ چکے گا۔
4۔ پھر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آخری آیت میں بیان فرمایا کہ مسلمانوں کے لیے قصاص کے اندر زندگی ہے، فرمایا(وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُوْلِي الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی( کا سامان )ہے”۔ اس کا مطلب یا توہے :
ا۔ کہ قصاص کے قانون میں قاتل اور مقتول دونوں کے لیے زندگی ہے، کیونکہ جب قاتل یہ جانتا ہو کہ کسی کی جان لینے پر قصاصاً اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا،تو اس کا یہ احساس اسے کسی بے گناہ انسان کے قتل سےباز رکھنے کا باعث ہوگا ، چنانچہ دوسرے لوگوں کی زندگی محفوظ ہوجاتی ہے اور اس کی زندگی بھی محفوظ ہوجاتی ہے ، جب وہ کسی کو قتل نہیں کرے گا تو اسے بھی قصاص کے طور پر قتل نہیں کیا جائے گا۔اس صورت میں آیت میں لفظِ قصاص سے پہلے مشروعیت کا لفظ مضمر(underlying) مانا جائے گا اور معنی یوں ہوں گےکہ قصاص کے قانون اجراء میں قاتل کی بھی زندگی ہے اور جس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اس کی بھی زندگی ہے۔
ب۔ قصاص یعنی قاتل کے قتل میں دیگرلوگوں کی زندگی پوشیدہ ہے ، یعنی اگر قاتل دندناتا پھرے اور اسے قصاص میں قتل نہ کیا جائے تو وہ اور دلیر ہوجائے گا اورمتعدد لوگ اس کے شر سے غیر محفوظ ہوں گے۔ اس بنا پر قصاص میں تخصیص ہوگئی،یعنی اگر چہ یہ لفظ عام ہے مگراس صورت میں صرف قاتل کے قتل ہونے کے ساتھ خاص ہوگا ،یعنی قاتل کے قتل کردیے جانے کو قصاص کہا جاتا ہےاور اس میں دیگر لوگوں کی زندگی محفوظ ہوجاتی ہے ، جن کو قتل کرنا اس کے لیے ممکن تھا اگر قصاص لیے بغیر اسے آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اوراس حالت میں قصاص کا عام حکم قاتل کے قتل کے لیے خاص ہوگا اور اب قصاص کے معنی یہ ہوں گے کہ قاتل کو حقیقتاً قتل کردینے میں زندگی ہے، یعنی یہاں مشروعیت کو مضمر (underlying)نہیں مانا جائے گا،یعنی قصاص کا قانون نہیں بلکہ اس سے حقیقتاً قتل ہی مراد ہوگا ، مگر یہ حقیقت خاص کر قاتل کا قتل کرنا ہے۔
حقیقت مخصوصہ مجاز پر مقدم ہوتی ہے، چونکہ اضمار(پوشیدہ معنی) بھی ایک قسم کا مجازی معنی ہے ،لہٰذا لفظ قصاص کی حقیقتِ مخصوصہ اضمار(پوشیدہ معنی)پر مقدم ہوگی اور چونکہ قاتل کا قتل قصاص کا حقیقی معنی ہے،چنانچہ قصاص کے مذکورہ معنی قصاص کے مجازی معنی پر مقدم ہوں گے۔ قصاص کے مجازی معنی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ تشریع یا مشروعیت کو مضمر مانا جائے، جیساکہ اصولِ فقہ میں مشہور و معروف ہے۔ اس کے لیے اصولِ فقہ میں مخصوص باب ذکر کیا گیا ہے جہاں یہ بحث موجود ہے کہ ایک ہی دلیل کے الفاظ اگر متعدد مفہوموں کے حامل ہوں تو وہاں کس مفہوم کو ترجیح دی جائے، پس یہاں آیت کریمہ کے دوسرے معنی زیادہ راجح اور اولیٰ ہیں،جو اس کے حقیقی معنی ہیں یعنی قاتل کو قتل کردینے میں ان دیگر لوگوں کی زندگی پوشیدہ ہے کہ اگر قاتل دندناتا پھرتا تو وہ ان کو بھی قتل کردیتا۔
ج۔ قصاص کے قانون پر مرتب ہونے والی زندگی کی عظمت سے وہی لوگ آگاہی رکھتے ہیں جو عقل و خرد کے مالک ہوں ، جن کے اذہان اللہ تعالیٰ کی نشانیوںمیں غور و فکر کرتے ہوں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے خطاب میں ان کا خصوصی ذکر کیا ، یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے خطاب کے اہل ہیں ، جن کوخطاب الٰہی کے معانی کا ادراک ہے ،تاکہ وہ قتل جیسے اقدامات کا ارتکاب کرنے سے پرہیز کریں جو قصاص کا باعث اور اللہ تعالیٰ کےقہر و غضب کا موجب ہوں۔
ختم شد