اداریہ: اشراف کے لیے اشرافیہ کی ناکام ہوتی جمہوری حکمرانی کا خاتمہ کرو
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جب جمہوریت واضح طور پر ناکام ہو رہی ہے۔ مغربی دانشور پوچھ رہے ہیں کہ ” جمہوریت کے ساتھ کیا خرابی ہوگئی ہے؟”، ” یہ کیوںمشکلات کا شکار ہو گئی ہے؟” اور "اس کو کھڑا کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟”۔ یہ سوالات زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یقیناً جمہوریت پر ہر طرف سے شکوک و شبہات کی بارش ہو رہی ہے جن کو دور کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔ مغربی علا قوں میں جمہوریت کاکمزورہو جانا اور غیر مغربی دنیامیں اس کے اثرونفوذ میں کم واقع ہو جانا ان لوگوں پر دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے جو عقل اور ہوش رکھتے ہیں۔
جمہوریت کے دل، یعنی مغرب میں نظر آنے والی خرابیوں میں سے کچھ پاکستان میں بھی نظر آرہی ہیں۔ 1950میں برطانیہ کی کُل آبادی کا 20 فیصد سیاسی جماعتوں کا رکن ہوتاتھا جبکہ آج صرف ایک فیصد آبادی سیاسی جماعتوں کی رکن ہے۔ ووٹ ڈالنے کی شرح میں بھی مسلسل کمی وا قع ہو رہی ہے۔ 49 جمہوریتوں میں یہ دیکھا گیا کہ ووٹ ڈالنے کی شرح 84-1980 کے مقابلے میں 13-2007 میں 10فیصد کم ہوگئی ہے۔ 2012میں سات یورپی ممالک کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ آدھے سے زیادہ ووٹرز کو "حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے”۔ اسی سال برطانوی ووٹرز پر کیے جانے والے یوگوو(YouGov) سروے کے مطابق 62 فیصد نے اتفا ق کیا کہ”سیاست دان ہر و قت جھوٹ بولتے ہیں”۔ 1980 سے 2000 کے درمیان جمہوریت نے کم بحرانوں کا سامنا کیا لیکن 2000 کے بعد سے یہ بہت زیادہ بحرانوں کاسامنا کررہی ہے جن میں پاناما پیپرز کے بعد پیدا ہونے والا بحران بھی شامل ہے۔
جمہوریت اپنی واضح ناانصافی اور عدم مساوات کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہے ۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی حکمرانی ہے لیکن یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ بلکہ درحقیقت جمہوریت اشرافیہ کی حکمرانی ہے، چند لوگوں کی حکمرانی ہے، طاقتور سرمایہ دار اشرافیہ کی حکمرانی ہے۔ یہ وہ اشرافیہ ہے جو قانون سازی کے اختیار کے وجہ سے اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اس کے ہاتھوں میں دولت مسلسل آتی رہے جس کے نتیجے میں چند ہاتھوں میں دولت کا زبردست ارتکاز ہوجاتا ہے۔ یہ ہے وہ "حکومت کے اندر حکومت”جس نے اپنے پیسے کی ہوس کی پیاس بجھانے کے لیے خارجہ پالیسی پر قبضہ کرلیا ہے۔ ظلم پرمبنی جنگوں کے ذریعے یہ اپنے فوجی سازو سامان کے کاروبار کو بڑھاتی ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں موجود تیل وگیس پر قبضہ کر کے اس علا قے کے لوگوں کواس عظیم دولت سے محروم کردیتی ہے جس سے ان کے خلاف لوگوں کے دلوں میں شدید نفرت پیدا ہوتی ہے۔
جمہوریت کی اصلاح نہیں کی جاسکتی ہے۔ جمہوریت اپنے خمیر کی وجہ سے لوگوں کو ناکام کررہی ہے۔ جمہوریت مٹھی بھر اشرافیہ کی حکمرانی ہے کیونکہ یہ صحیح اور غلط قرار دینے کا حق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بجائے چند لوگوں کو عطا کردیتی ہے۔ وہاں کیسے انصاف ہوسکتا ہے جہاں کچھ لوگ دوسروں کے لیے قوانین بنائیں اور اپنے لیے ان میں چور دروازے بنائیں تا کہ ان پر انہی قوانین کا اطلاق نہ ہوسکے؟ وہاں کیسے مساوات قائم ہو سکتی ہے جہاں ایک مخصوص گروہ کو یہ آزادی حاصل ہو کہ وہ قوانین میں تبدیلی لاکر اپنی مرضی اور خواہش کی زندگی گزاریں؟
مغرب کے پاس جمہوریت کاکوئی متبادل نہیں ہے اور اسی وجہ سے وہ جمہوریت کی تعفن زدہ لاش کو زندگی بخشنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے بالکل بھی ایسی صورتحال نہیں ہے۔ ان کے پاس متبادل موجود ہے جواسلام کا نظام حکمرانی یعنی خلافت ہے۔ خلافت میں حکمران مقتدرِ اعلیٰ نہیں ہوتے بلکہ وہ قرآن و سنت کے تابع ہوتے ہیں اور اگر وہ قرآن وسنت سے اخذ کردہ قوانین کی خلاف وزری کریں تو انہیں برطرف کیا جاسکتا ہے۔ خلافت میں مجلسِ امت کے منتخب نمائندگان قوانین نہیں بناتے بلکہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کیا قوانین قرآن و سنت سے ہی اخذکیے جارہے ہیں۔ خلافت میں اس کے شہری اجتماعی طور پر مقتدر نہیں ہوتے بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ واحد مقتدرِاعلیٰ ہوتے ہیں۔ خلافت میں خارجہ پالیسی کا مقصد حکمرانوں کے لیے منفعت اور مال جمع کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کے پیغام کو دعوت و جہاد کے ذریعے پھیلا کر دنیا سے ظلم کا خاتمہ اور انصاف کا قیام ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے خلافت ایک آزمودہ حل ہے جس نے دولت کی منصفانہ تقسیم کی تھی، بغیر امتیاز کے انصاف کے فراہمی اور مختلف لوگوں کے درمیان امن و اخوت کوقائم کیا تھا۔
جمہوریت اپنی موت آپ مرچکی ہے اور اب اسے دفنانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے پاس متبادل اسلام ہے۔ تو پھر پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کی کیا کوئی وجہ رہ جاتی ہے؟ یقیناً یہ وقت ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے۔
ختم شد