سوال و جواب: ایران ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی دست برداری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال : ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ اداروں پرقائم ایک ریاست ہے اور بین الاقوامی سیاست میں امریکہ کا کردار و خاکہ امریکی صدر کے بجائے ان اداروں کے ذریعہ ہی طے کیاجاتاہے لہٰذا ہم اس بات کو کیسے دیکھیں کہ امریکہ نے ایک طرف توایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا تھا اوراس کو اپنی فتح قرار دیا تھا اور اب ٹرمپ اس معاہدے سے دست بردارہوگیا ہے اور اس کو فتح قرار دے رہا ہے؟ براہ کرم وضاحت کریں ، آپ کا بےحد شکریہ !
جواب: ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں امریکہ کا کردار و خاکہ وہاں کے اداروں کے ذریعہ ہی طے کیا جاتاہےاور امریکی صدرذاتی طور پراس کو طے نہیں کرتا ہےحالانکہ فیصلے کو ظاہر کرنے میں صدر کا اندازنمایاں ہوتا ہےالبتہ اس سوال میں یہ پوچھا نہیں گیا کہ کون سی بنیاد ہے جس پریہ رہنمائی وہدایات قائم ہوتی ہیں اور جس سےاس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے۔ ان ریاستی اداروں کی بنیاد امریکی مفادات ہوتے ہیں۔ کسی ایک صورت حال میں کوئی معاہدہ درکار ہوتوادارے اس کی منظوری دیتے ہیں اور صدربھی اس کی منظوری دیتا ہےاور اگر امریکی مفادات معاہدے کے حق میں نہ ہوں تو یہ ادارے معاہدے سے دست برداری کو منظور کرتے ہیں اور صدر بھی اس دست برداری کو منظور کرتا ہے۔
1۔ مثال کے طور پر امریکی ایجنٹ بشار کے جابرانہ اقتدارکو برقرار رکھنے کی خاطرایران،امریکہ کے لئےنہایت اہم تھا جب تک امریکہ کو بشار کا متبادل نہ ملے۔ امریکہ کو جب شام کی عوامی تحریک سے ایک بڑا خطرہ محسوس ہوا جنہوں نے اسلام اور اسلامی حکومت کا نعرہ لگایا تھاتواس کویہ خوف لاحق ہواتھا کہ اس ظالم وجابر کااقتدار ختم ہو جائے گا اورملک شام میں اسلام کی حکومت آجائےگی اور اس طرح خطے سے امریکی اثرو نفوذ ختم ہوجائےگاخاص طور پر جب اس عوامی تحریک میں 2015 میں مزیداضافہ ہوا اور یہ ہر جگہ پھیل گئی۔ چنانچہ ایسے حالات میں امریکہ چاہتا تھا کہ یہاں پر ایران نمایاں کردارادا کرے اور اس لیےایران پر عائدپابندیاں ہٹائیں جائیں تاکہ وہ امریکہ کی جانب سےاس عطا کردہ کردار کو بخوبی ادا کرسکے۔چنانچہ اس ایٹمی معاہدے پر دستخط کرنا امریکی مفادمیں تھا تاکہ ایران کے سامنے موجودرکاوٹوں اوردشواریوں کو دور کیا جائے ۔
یہ معاہدہ بہرحال ایران کوذلیل کرنے والا تھا جیسا کہ14 جولائی 2015 کومعاہدے پر دستخط کے بعد ٹی وی پر نشر کی گئی سابقہ امریکی صدر باراک اوبامہ کی تقریر سے بھی اس تذلیل کی تصدیق ہوتی ہے جب اس نے کہاکہ:
۔ اس معاہدہ کے ذریعہ ایران کےلئے ایٹمی ہتھیار بنانے کے ہرراستے کو بند کردیا گیاہے۔۔اوریہ معاہدہ ایران کواس کےدوتہائی نصب شدہ سینٹری فیوج ہٹانے اور بین الاقوامی نگرانی میں ان کو محفوظ کرنے کا پابندکرتا ہے۔
۔اس کو اس کےافزودہ یورنیم کے 98 فیصد حصے سے دست بردار کراتا ہے۔
۔ ایران قبول کرتا ہے کہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی توپابندیاں فوری دوبارہ نافذ کردی جائیں۔
۔ ایران بین الاقوامی ایٹمی انرجی ایجنسی (IAEA) کو ہمیشہ کے لئے مستقل رسائی عطاء کرے گا جہاں بھی اور جب بھی درکار ہوجائے (BBC 14/7/2015)
20 جولائی 2015 کو اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل کےذریعہ اس معاہدے کی منظوری کے بعد ہم نے22جولائی 2015 کو ایک سوال کےجواب میں ایران کے ساتھ امریکی ایٹمی معاہدے کے اغراض کی وضاحت یوں کی تھی:
"ان سب سےظاہر ہوتا ہے کہ اس معاہدے کے پیچھے امریکہ کا مقصد ایران پر سے پابندیاں ہٹاکراور اس کے ساتھ کھلے تعلقات قائم کرکے ایران کے کام میں آسانی پیدا کرنا تھا تاکہ وہ اپنے لیے تجویز کردہ کردار کو باآسانی انجام دے سکے جو امریکہ کے کام کو آسان کرے اور اس کا کچھ بوجھ ہلکا کرےاور خطے کے لوگوں اور ریاستوں کے ساتھ اپنے خفیہ کھیل کوپوشیدہ رکھنے کاسامان تیار کرسکے۔لہٰذا ایران خطے میں امریکہ کی پالیسی پرعملی طور پرکام کرتا رہےگا جیسا کہ عراق ، ملک شام اور یمن میں ایران کا معاملہ ہے البتہ معاہدے سے قبل ایرانی ہاتھ کو پوشیدہ رکھا جاتا تھا اس کے برخلاف اب کسی پردہ کی آڑ لئے بغیریا شفاف پردوں کے پیچھے سے ایران اس پر کا م کرے گا”۔
بلاشبہ ایران نے یمن ، شام، عراق ان ممالک میں امریکہ کی خاطرنہایت مجرمانہ گھناؤنا کردار ادا کیا ہےاور اپنےکالے کرتوتوں کوعوامی دائرے میں مزاحمت اور فرقہ وارنہ منافرت کے اپنےجعلی جھوٹےنعروں کے پیچھے جاکر کھلے طور پرانجام دیا ہے۔
یوں یہ معاہدہ طے کرنا امریکی مفادات کے حق میں تھا تاکہ ایرانی معیشت بحال ہو جس کے ذریعہ وہ خطے میں امریکی منصوبے کو نافذ کرنے میں سرگرم کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکے اور اس یقین دہانی کے ذریعہ کہ اس کےخلاف عائدمعاشی پابندیاں ہٹالی جائیں گیں بالخصوص جب ملک شام کی بے قابو ہوتی صورت حال میں جابر بشار لاسد کے اقتدارکے کمزورہونےکے ساتھ امریکی نفوذ کا خاتمہ نظر آرہا تھااور اس کی خاطرایران سے یہ کردار درکا ر تھا کہ وہ بشارکے دفاع میں کھڑاہواور اس کے لئےاس پر عائدمعاشی پابندیاں ہٹائے جانے کااس کو یقین دلایا جائے۔ سال 2015 میں بشار کی صورت حال نہایت نازک تھی اور اس کا اقتدار تقریباً ختم ہو نے پر تھا لہٰذامریکہ نے ایران کے ساتھ14 جولائی 2015 کو ایٹمی معاہدہ کیا تاکہ ملک شام میں اس کاکردار متعارف کرایاجائے، اور نہ صرف ایران کو بلکہ اوبامہ نے30 ستمبر 2015 کو پوٹن کے ساتھ ملاقات کرکے روسی افواج کو بھی ملک شام میں مدعو کیا اور روس کوپوری اجازت دی گئی کہ اس وقت تک کسی بھی طرح بشار کے اقتدار کو گرنے سے بچایا جائے جب تک کوئی دوسرا متبادل امریکی ایجنٹ تیار نہیں ہوجاتا۔ 2۔ البتہ اب صورت حال کے متعلق امریکہ کا نقطہ نظر تبدیل ہوچکا ہے بالخصوص آج جب ملک شام کے حالات پربشار غالب ہے۔اس بات نے ٹرمپ انتظامیہ کومزید ایک اور نقطہ نظردیا ہےخصوصاً جب امریکہ کو عراق اور ملک شام میں آزادی کا مطالبہ کرتی ہوئی عوام کے خلاف براہ راست یا بالواستہ جو پیش رفت ہاتھ آئی ہےتو اس کے بعدایران کو کسی براہ راست مزیدکوئی کردار دینے کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ جیسا کہ صورت حال اب بدل چکی ہے اور یہ اوبامہ کے آخری دور سے شروع ہوئی تھی جب اس نے سعودی عرب اور ترکی کو براہ راست کردار عطاء کیا تھا۔
ان دونوں ممالک کی سازشیں شامی انقلاب کے خلاف روس و ایران اوراس کی پارٹی( حزب اللہ) اور شامی اقتدار کے ہتھیاروں اور ہتھکنڈوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں جنہوں نے صرف شامی انقلاب کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ترکی اور سعودی اقتدار نے پرفریب ہتھکنڈوں کے ذریعہ بشار اقتدار کے لئے فتح حاصل کرلی یوں ایران اپنےکردار کو نبھانے میں کافی پیچھے رہ گیا جو وہ سعودی عرب اور ترکی سے قبل صورت حال کو سنبھالنے کی خاطرفطری طور پر تنہاء انجام دیتا چلا آرہا تھا ۔۔۔چنانچہ امریکہ نےاب ایران کے کردار کو قائدانہ کردار کی بجائےاضافی کردار میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ بات قازقستان کےشہرآستانہ میں ہونے والے معاہدات سےظاہر ہوجاتی ہے۔ اس طرح امریکہ تشدد کی روک تھام کے جواز کے پیچھے چھپ کر شامی انقلاب کو روکنے میں کامیاب ہوگیااور یہ ان بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے جو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے دست برداری کےامریکی اعلان کے پس پشت کارفرما ہےجس میں اس نئی قائم ہونے والی صورت حال میں امریکی مفاد کی خاطر معاہدے سے دست برداری درکارہے۔ ان نئے حالات میں امریکہ کو اب خطے میں ایران کے کردار کو گھٹانا ہےاور اس کے لئے درکار تھا کہ معاہدے کے ذریعہ ایران کے فائدہ کو ٹرمپ بڑھا چڑھا کردکھائےتاکہ بتاسکے کہ وہ اس معاہدے سے کیوں دستبردار ہونا چاہتا ہے کیونکہ اس کے دعوی کے مطابق یہ ایران کو ایٹمی ہتھیارحاصل کرنےمیں مدد کرتاہے۔ اس لیے 8 مئی 2018 کوتقریر کے ذریعہ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے دست برداری کا اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا کہ”اگر میں اس معاہدے کو جاری رکھنے کی اجازت دوں تو مشرقی وسطیٰ میں بہت جلد ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی اور ایرانی اقتدار کی تمام حرکتوں سے زیادہ خطرناک حرکت ایٹمی ہتھیارحاصل کرنے کی کوشش ہے”۔ مزید اس نے کہا کہ”نظری طور پر نام نہاد ایرانی معاہدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کرنے والا تھا لیکن اصل میں معاہدے کی رُوسے ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت حاصل تھی”۔ مزید اس نے کہا :”ظاہر ہےایرانی رہنما یہ کہیں گے کہ انہوں نے معاہدے پر نئے مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کردیا ہے،اور جب وہ ایسا کریں گے تو میں طاقت اور تیاری رکھتا ہوں "اور کہا کہ :” ہم نے دنیا بھر میں اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کی ہے اور اس کے بعد مجھ پرواضح ہوگیا ہے کہ ہم ایران کوایٹم بم بنانے سے نہیں روک سکتے ، چنانچہ میں آج ہی یہ اعلان کرتا ہوں کہ امریکہ اس ایرانی ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہوگا اس معاہدے میں کچھ نہیں ہےجو ایران کو تباہی کےاس عمل سے روکے۔۔ میں چند لمحوں میں صدارتی میمورنڈم پر دستخط کردوں گا تاکہ ایرانی اقتدارپر امریکی ایٹمی پابندیوں کو عائدکرنا شروع کردیاجائے”۔ اور پھر ٹرمپ نے صدارتی میمورنڈم پر دستخط کئےاور کہا:”معاہدہے سے متعلق مذاکرات اچھی طرح سے نہیں کئے گئے تھے اورمعاہدہ میں بنیادی خرابی تھی اور معاہدے کی میعاد سےمتعلق شقیں مکمل طور پر ناقابل قبول ہیں اور جب ہم ایران ایٹمی معاہد ے سےباہرنکل رہے ہیں تو ہم اتحادیوں کے ساتھ مل کرایرانی ایٹمی خطرے سے متعلق حقیقی مستقل اور جامع حل تلاش کریں گے۔۔اس معاہدے کی وجہ سے ہی یہ بدترین حکومت برسراقتدار ہے اور یہ زبردست دہشت گرد ی کااقتدار ہے۔۔کئی بلین ڈالر کی مالیت کا” (Sputnik, Al-Jazeera 8/5/2018) ۔
یہاں یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ ٹرمپ نے جھوٹ پر مبنی بیانات دئیےاور ایران کی صلاحیت کو بڑھا چڑھا کربیان کیا تاکہ حقیقی وجہ بیان کئے بغیر ایران ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہونے کاجواز لا سکے۔ حقیقی وجہ یہ ہے کہ آج امریکی مفاد کو درکار ہے کہ ایران کو کم تر کردار دیاجائےاور خطے میں اس کا کردار گھٹایا جائےلیکن اسے تیاررہنا ہے کہ وہ امریکی پالیسی کی ضرورت کے مطابق عمل درآمد کرتارہے۔ یہ وہ چیز ہے جو امریکی پالیسی میں کئی بار دوہرائی جاتی ہے،یعنی امریکہ اپنے مفاد کے مطابق اپنی پالیسی کو تبدیل کرلیتا ہے جیسا کہ روس کے ساتھ بھی ہوا جب30 ستمبر 2015کواوبامہ کی روس کےصدر پوٹن کے ساتھ ملاقات ہوئی اور اس نے ملکِ شام کے مشن میں ایران کی مدد کے لئے روس کو داخل ہونے کے لئے طلب کیا تھا تاکہ بشار کا اقتدار باقی بچا رہے۔ اس کردار کے تحت امریکہ نے ملک شام میں روس کو داخل ہونے اورفوجی مستعدی کا مظاہرہ کرنےکی اجازت دی تھی۔ لیکن جب روس نے اس کردار کا استعمال خود اپنے مفاد کے لئے کیا تاکہ خود کو امریکہ سے الگ آزادانہ کارروائی کرنے والا ظاہرکرے توامریکہ کے مفاد میں اب یہ ضروری تھا کہ روس کوایسا سبق سکھائے تاکہ وہ اپنی حد جان لے اور اسی لئےروس پرملک شام میں بمباری کی گئی تھی۔جیساکہ ہم نے اس سے قبل 14 اپریل 2018 کو ایک سوال کے جواب بتایا تھا کہ "امریکی حملہ روس کے لئے ایک سبق تھا بجائے یہ کہ شامی کیمیا ئی ہتھیاروں پر کیا گیا کوئی حملہ تھا، آج علی الصبح تقریباً دس مختلف مقامات پرحملے کئے گئے ، البتہ آج صبح میڈیا میں چند ملٹری آفیسرزکے تبصروں کےمطابق ان میں سے کچھ مقامات ہی بشار کے کیمیائی ہتھیار کے مراکز یا ریسرچ سنٹرتھے اور ان کی اکثریت فوجی مقامات تھے”۔ اس طرح یہ معلوم بات ہےکہ امریکی پالیسی کس طرح اس کے مفادات کے ساتھ تبدیل ہوجاتی ہے۔
3۔ امریکی مفاد کو مزید جوایک چیزخاطر درکارتھی وہ یہ کہ امریکہ چاہتا تھا کہ فلسطین اور القدس پر یہودی قبضے اور جرائم سے توجہ ہٹ جائے اورطویل عرصے سےامریکہ اپنا سفارت خانہ القدس یعنی یروشلم میں منتقل کرنا چاہتا تھا البتہ وہ موجودہ دوریاستی حل کے نفاذ اور یروشلم کی تقسیم کی خاطر رکا ہوا تھا اور اسی لیےاب تک سفارت خانے کی منتقلی کو ملتوی کرتا آرہا تھا۔ لیکن اب امریکہ دو ریاستی حل کی بجائے چند ترمیمات و افعال کے ذریعہ دوسرا حل پیش کرکے فلسطین کا ایک مختلف سیاسی حل دیکھتا ہےجس کو وہ صدی کا سب سے بڑا معاہدہ قرار دیتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لئےدرکار تھا کہ امریکہ کی جانب سے طے شدہ عمل یعنی سفارت خانے کوالقدس منتقل کرنے پرعمل درآمد کرناشروع کردےاور اس پر موجود سنسنی اور کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس کے لئے اس نے ایران پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اس کے کردار کو بڑھا چڑھا کربیان کیا اور یہ کام "رُوَیبضۃ” حاکموں کے ساتھ 21مئی 2017 کو ٹرمپ کی ایک کانفرنس میں کیا گیا جب ٹرمپ نے 55 اسلامی ملکوں کےسربراہوں اورنمائندوں کو طلب کرکے ان سے خطاب کیا تاکہ ارضِ فلسطین پر قائم یہودی وجود اور سعودی و دیگر حکومتوں کے مابین مصالحت کے معاہدات پر دستخط کروائےیعنی یہودی وجود کے ساتھ ان کے تعلقات کو قائم کروایا جائے اور فلسطین کے ایک ایسے حل کی جانب قدم بڑھائےجس کےمتعلق ابھی تک امریکہ نے ا علان نہیں کیا ہے۔سعودی حکومت اس امریکی حل کو فروغ دینے کی کوشش کررہی ہےاور فلسطینی اتھارٹی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اس حل کو قبول کرلےیعنی امریکہ یہودی وجود جس نے فلسطین اوراسراء ومعراج کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اس پرسے دھیان ہٹاکرایران کو توجہ کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔چنانچہ اس پر سعودی عرب نے ٹرمپ کی اطاعت و تابعداری اختیار کی اوراس کی حمایت کرکے اس حل کو فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے۔اس لیے امریکہ کے مفاد میں ہے کہ ایٹمی معاہدے کے موضوع کو خوب بھڑکائےاور ایران کوبڑھا چڑھا کر دکھائے گویا یہ دکھلائے کہ ایٹمی معاہدہ ایران کی ہزیمت و بے عزتی نہیں تھی بلکہ اس معاہدے کی وجہ سے ایران طاقتور بن رہا تھا۔ جہاں تک معاہدے کی بات ہے تومعاہدے میں جو کچھ شامل تھا تو امریکہ کی طرف سے ایران کوذلیل کرنے والا اس سے زیادہ کوئی دوسرا معاہدہ نہیں ہوسکتا تھا۔
اس بات کو نوٹ کیا گیا کہ امریکہ یہودی وجود کی بجائے ایران کوخطے کا دشمن بنا کر پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مثال کے طور پرحالیہ دنوں میں جب ایران کےاندرحکومت مخالف مظاہرے ہوئے تھےتو امریکہ نے مظاہروں پراپنی پوری توجہ مرکوز کی تھی اور مظاہرین کی تحریک کو استعمال کیا۔ یہاں غور طلب یہ بات ہے کہ خطہ میں ایران کا کردار امریکہ کی جانب سے پوری احتیاط و توجہ سے تیار کی گئی ایک تفصیلی امریکی پالیسی ہےاور امریکہ کا ایران میں مظاہرین کی تحریک میں شامل ہونے اور استعمال کرنے کا مقصد ایران کے اقتدار کو تبدیل کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے دیگر اغراض ومقاصد تھے جن کو ہم نے11جنوری 2018 میں ایک سوال کے جواب میں یوں بیان کیا تھا:
” تو پھر امریکہ کیوں ان مظاہروں کا فائدہ اٹھارہا ہے اور اس کو کس لیےاستعمال کررہا ہے؟ تو یہ دومقاصد کے لئے اہم ہے:
پہلا مقصدتو فلسطین اورالقدس (یروشلم )کےمتعلق ٹرمپ کے دئیے گئے بیانات سے دھیان ہٹانے کی خاطر اور خطے کو ایران سے متعلق مصروف و بے چین رکھنا ہے تاکہ ایران ہی خطے کے دیگرممالک کو اپناسب سے بڑا دشمن نظرآئے اور اس طرح خطے میں سب کی توجہ ایران پر لگی رہے اور یہودی ریاست سے توجہ اگر پوری طرح نہ ہٹے تو کم ازکم اس پر کم توجہ جائے جوکہ فلسطین کا غاصب ہے۔
دوسرامقصدیہ کہ خطے میں امریکہ کے ایجنٹوں کو اس دھوکے کے ذریعے بچانا ہے کہ وہ خطےمیں ایران کے خطرے کے خلاف کھڑے ہیں اور امریکہ کو ایران کے خطرات سے بچارہے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے 7 دسمبر2017 کو اپنے پمفلٹ میں بیان کیا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے القدس کے متعلق دیے گئے بیانات اور یہ کہ وہ یہودی ریاست کا دارلحکومت ہے امریکہ کی جانب سے اپنے پٹھوؤں کے منہ پرایک زور دار تمانچہ تھا، ہم نے کہا تھا: "القدس (یروشلم ) مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں بسا ہوا ہےاور ٹرمپ کے بیانات پر ان امریکی ایجنٹوں کی خاموشی اور امریکہ کے لئے اطمینان بخش ایجنٹ بنےرہنےپر اصراران کے لیے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔۔۔ایران کے خلاف ٹرمپ کا بیان ان ایجنٹوں کے کردار کو سہارا عطاکرتا ہے جس کا سہارا لے کر وہ ٹرمپ کے القدس کے متعلق بیانات آنے کے باوجود اسے اپنےامریکی ایجنٹ بنے رہنے کے لیےعذر کے طور پرپیش کریں ۔۔۔یہ کہہ کر کہ ٹرمپ ایران کے خلاف کھڑا ہے جو کہ ہمارا کٹر دشمن ہے ۔اس(مشترکہ خطرے) کو اپنی امریکی ایجنٹی کے لیے عذربناناجرم کرنے سے زیادہ خطرناک ہے ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ﴾اللہ انہیں غارت کرے، یہ کس دھوکہ میں مبتلاء ہیں ( المنافقون :4)”۔
4۔ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کرنےمیں امریکہ کا کلیدی کردار تھا اور یورپ نے معاہدے کی امریکی کاپی کو منظور کرکے صرف اس پر دستخط کر کے دستخطی فریق بنناقبول کیا تھا یعنی یورپ نےامریکہ کے سامنے خودسپردگی کے ساتھ اس معاہدے کو تسلیم کیا تھا تاکہ اس کا بین الاقوامی وجود اہم بنا رہے!اور ہم نے ایٹمی معاہدے کے دوران یورپ کی پوزیشن کو22 جولائی 2015 کوایک سوال کے جواب میں یوں بیان کیا تھا:
"۔۔۔یورپ کے سامنےاور کوئی چارہ نہیں تھا جب ان کو یہ سمجھ آچکا تھا کہ وہ ایران کےاس امریکی ایٹمی معاہدے کو روک نہیں سکتے ہیں یا امریکی نفوذ پر کسی بھی طرح اثرانداز نہیں ہوسکتے ہیں سوائے اس کہ ایران کی جانب بڑھیں اوراس کے اندرسرمایہ کاری اور منصوبوں کو بطور مال غنیمت حاصل کریں کیو نکہ جرمنی مالی رکاوٹوں کا شکار ہےاوراس معاہدے کے ذریعے ایران میں لمبے عرصے کام کرناممکن ہوسکتا ہے تاکہ دوبارہ وہاں یورپی اثرونفوذ پیدا کرسکیں یا پھر امریکہ کے ہمراہ اپنے لیے کچھ اثرو نفوذحاصل کرسکیں۔۔۔”
اس طرح یورپ نے معاہدے سے فائدہ اٹھا کر ایران کے ساتھ تجارتی تعلق قائم کرلیا چنانچہ ایران اور یورپ کے درمیان تجارتی توازن میں اضافہ ہوگیا۔معاہدے سے قبل اور ایران پر پابندی کےدوران امریکہ کے ساتھ یورپی تجارت میں کمی آئی تھی اور یہ تیسری وجہ تھی جس کی وجہ سے ٹرمپ نے معاہدے کو توڑنے میں جلدی کی تاکہ بالخصوص تجارتی طور پریورپ کو سبق سکھایا جاسکے۔ ٹرمپ نے 7مئی کوایک ٹویٹ کے ذریعہ اعلان کیا کہ اس نے ایران ایٹمی معاہدے کے متعلق بیان کے دن کوجلدی کرنے یعنی12 مئی سے 8 مئی کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
اس اقدام کے متعلق یہ بات قابل غور ہے کہ یہ قدم ایٹمی معاہدے سے دستبرداری سےبازرکھنےکی خاطر لئے جانے والے یورپی اقدامات کے پیش نظر لیا گیا۔ سائٹ العربی الجدید نے موقع إكسيوس alalam.irکے حوالہ سے بتایا کہ :”۔۔امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پامپو نےجمعہ4مئی 2018 کو اپنے یورپی ہم منصبوں فرانسیسی ، برطانوی ، جرمن وزرائے خارجہ کوامریکہ کے ایران ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہونے کے ٹرمپ کے ارادے کے متعلق بتایااوراس نے معاہدے کی ممکنہ ترمیم کے متعلق گذشتہ مہینوں کے دوران امریکی مذاکرات کاروں کی قائم ہوئی اتفاق رائے کو رد کردیا”۔ امریکہ نے یورپ کے ساتھ اشتراک و تعاون منظور نہیں کیا اورنہ یورپ کی کوئی پرواہ کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چندباتوں کے لئے وہ یورپ کو سبق سکھانا چاہتا ہےاور ان کوخود سے دورکرنا چاہتا ہےاور اس موضوع پر ان سے کوئی اشتراک نہیں چاہتا ہے۔
5- یورپ سمجھ چکا ہےکہ معاہدے کو منسوخ کرنے سے اس کو زبردست تجارتی خسارہ ہوگا جو سیاسی طور پربھی نقصان دہ ہوگاچنانچہ اس نے پوری کوشش کی کہ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرکے اس کو معاہدہ سے دست بردار ہونے سے روکا جائے۔ فرانس کا صدرماکرون امریکہ گیااور اس نے امریکی صدر ٹرمپ کو معاہدے سے دست برداری سے باز رکھنے کے لئے متفق کرنے کی کوشش کی۔ اس کے بعدجرمنی کی چانسلر مرکل نے کوشش کی اور امریکہ کو رعایتیں دیں لیکن اس کوقبول نہیں کیا گیا۔ یوں یورپ کی کمزور پوزیشن کھل کر سامنے آگئی۔ اس کے بعد برطانیہ نے ماکرون اور مرکل سے رابطہ کیا اور ایرانی ایٹمی معاہدے کومشترکہ طور پرازخود جاری رکھنےکا اعلان کیا۔ اس کے بعد برطانوی وزیر خارجہ جانسن نے امریکہ کے دورے پر جاکر وہاں سےیہ اعلان کیا کہ دنیا ایرانی ایٹمی معاہدے کی وجہ سے محفوظ ترہے بجائے اس کہ جب سرے سےایٹمی معاہدہ موجود ہی نہ تھااوراس طرح اس معاملے پر برطانیہ کی تیز ترمزاحمت سامنے آئی اور ٹرمپ نےاپنے موقف کو ظاہر کرنے کی تاریخ 12 مئی سے گھٹا کر8 مئی کردی تاکہ یورپ مزید متحرک نہ ہواور اپنے موقف کااعلان کیا۔ اس طرح یورپ کوکوئی وقعت نہیں دی گئی کیونکہ امریکی اداروں کو معاہدے سے دست برداری کے اس اقدام میں امریکی مفاد کے لئے تین محرکات /عوامل نظر آئے تھے۔
6- امریکہ کی جانب سےایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے خلاف آنے والے ردعمل درج ذیل تھے:
الف: یورپ افسردہ ہے،اس پر پشیمانی اور بے چینی چھائی ہوئی ہے! جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بتایا کہ اس نے امریکہ کے2015 کےاس تاریخی ایران ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہونے کےامریکی صدر ٹرمپ کے فیصلہ کو انتہائی افسوس اورفکرمندی کے
ساتھ نوٹ کیا ہے اور کہا کہ: "ہم اس معاہدے کے ساتھ پوری سنجیدگی سے وابستہ رہیں گے اور اپنے اختیار میں پوری کوشش کریں گےتاکہ ایران اس معاہدے پر کاربند رہے۔ جرمنی نے فرانس اور برطانیہ سےاشتراک کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے "۔اس نے مزید کہا کہ” حل مشترکہ بات چیت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے”اور یہ کہ "یورپ کو خارجہ اور سیکیوریٹی پالیسی میں مزید ذمہ داریوں کواٹھانا ہوگا”اور اس بات پر زور ڈالا کہ "جرمنی اپنے تمام تر اختیارات کے ذریعےیقینی بنائے گا کہ ایران ایٹمی معاہدے کے تحت خودپرعائد ہونے والی ذمہ داری کا پابند رہےاوربتایا کہ ایران اب تک اس پر پابندرہا ہے اور کہا کہ ایٹمی معاہدے پر سوال کھڑے کرنے کی بجائےبات چیت ہونی چاہیے تاکہ مزیدوسیع تر معاہدے پر بات چیت ہوسکے جومعاہدے کی اصل شرائط کے علاوہ وسیع تر ہوسکے” (Reuters, 9/5/2018)۔
یوں مرکل نے امریکہ کے تعلق سے یورپ کے ناکام ہونے اور اس کے ذریعے معاہدے سے دست برداری کے نتیجہ میں پڑنےوالے اثرات پر مایوسی کااعلان کیا۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ یورپ نے امریکہ کے ساتھ اعلیٰ سطحی کوشش کی تاکہ ٹرمپ کو اس معاہدے سے دست بردار ہونےسے باز رکھےاوریہ بات رکھی کہ ایران کے ساتھ معاہدے پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے لیکن اس نے ان کی بات کا جواب نہیں دیا بلکہ اس معاہدے کے متعلق اپناموقف بتانے کی تاریخ کو گھٹا کر جلدی کرنے کا اعلان کرکے ان کوحیران کردیا، اس طرح یورپ کی امریکہ کے سامنے کمزوری ظاہر ہو گئی۔
اس کے بعدمئی 2018 کے دوسرے ہفتےمیں متضاد یورپی بیانات سامنےآئے جوامریکہ کی معاہدے سےدست برداری پر ان کی بے چینی اورمایوسی کو ظاہر کرتے تھے۔ایک طرف تو ایسے بیانات تھے جن سے امریکی فیصلے کوچیلنج کرنا ظاہر ہوتا تھا جیسا کہ یورپی یونین کے خارجہ سکریٹری Federica Mogherini کا یہ بیان :”میں بالخصوص آج رات ٹرمپ کے نئے بیان کےاعلان سے فکر مند ہوں "مزید کہا کہ”یورپی یونین اپنے سیکیوریٹی مفادات اور معاشی سرمایہ کاری کے مفادات کے تحفظ کی خاطر کارروائی کرنے کے لئے پرعزم ہے”۔۔”ہم اس ایٹمی معاہدے کو دیگر بین الاقوامی برادری کے اشتراک کے ساتھ برقرار اورجاری رکھیں گے”۔ ٹرمپ کے بیانات کے ردعمل میں فرانسیسی وزیر خارجہ Jean-Yves Le Drian نے کہا کہ:”معاہدہ ختم نہیں ہوا۔۔فرانس، جرمنی اور برطانیہ بروز پیر (14/5/2018) ایک اجلاس منعقد کریں گے تا کہ تازہ ترین پیش رفت، ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور دیگر معاملات پر گفتگو کریں اور ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کو جاری رکھیں گے اور زوردیا کہ بین الاقوامی توانائی کی کمیٹی (IAEA)کو چاہیے کہ ایران کےذریعہ معاہدے کی شرطوں کا احترام کرنے کا اعتراف کرے” ۔ (Al-Jazeera 9/5/2018).
برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایک مشترکہ بیان دیا جو ان کے متحدہ موقف کو ظاہر کرتا ہے:”مشترکہ طور پر ہم JCPOA کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو جاری رکھنےپر زوردیتے ہیں اورتمام فریقوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ معاہدے کے مکمل نفاذ پر عمل درآمد کرتے رہیں اور اس ذمہ داری سے متعلق سنجیدہ کا مظاہرہ کریں ، ساتھ ہی معاہدے کے تحت ایرانی عوام کےمعاشی مفادات کے حصول کو بھی یقینی بنائیں” (Al-Jazeera 9/5/2018).
"واشنگٹن کا ایٹمی معاہدے سے دست بردار ہونے کا فیصلہ ہمارے موقف کو تبدیل نہیں کرتا ہےاور اس معاہدے سے دست بردار ہونے کاہمارا ارادہ نہیں ہے” ،برطانوی وزیر خارجہ جانسن نےاپنے ملک کی پارلیمنٹ سے کہا۔ ” میں امریکہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایسے عمل سے باز رہے جومعاہدے کے دیگر فریقوں کومعاہدے جاری رکھنے سے روکےاورمشترکہ حفاظتی مفاد کی خاطر درخواست کرتا ہوں ” (Guardian 9/5/2018)، چنانچہ ان بیانات سے ایسانظر آتا ہے کہ یورپ امریکی فیصلے کو چیلنج کرے گا اور معاہدے پر عمل جاری رہے گا۔
جبکہ دوسری جانب چند یورپی بیانات اس موقف سے پیچھے ہٹتے، نرمی اختیار کرنے اور اپنی کمپنیوں کے تعلق سے پرخوف نظرآئے۔ "ایٹمی معاہدے پر امریکہ کے بغیر پابند رہنا مشکل ہوگا” انجیلامرکل کی پارٹی کے بین الاقوامی پالیسی کے سربراہ Norbert Roitgen نےبیان دیا۔ مزید اس نے کہا کہ جو کوئی بھی”ایران میں سرمایہ کاری کرے گااس کو امریکہ کی سخت ترین پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گاجس کا ازالہ نہیں کیا جا سکے گا” اور اس نے یہ کہتے
ہوئےخبردار کرنے کی کوشش کی کہ”چنانچہ جن کمپنیوں پر اس کا اثر پڑا ہے وہ شائد جلدہی وہاں اپنی سرمایہ کاری بند کردیں گی یا پھر اس ملک سے ہی پوری طرح نکل آئیں گی”(Der Spiegel, Germany, 9/5/2018) ۔
فرانسیسی وزیر Jean-Yves Le Drian نے9 مئی 2018 کوRTL چینل پرکہا کہ:”ایران نے اپنی ایٹمی سرگرمیوں کو روکنے کا فیصلہ اس معاشی مفاد کے عوض کیا تھا جس کو ہم یورپی تحفظ فراہم کریں گےاوراتھارٹی کچھ دنوں میں ایران میں موجود فرانسیسی کمپنیوں سےتعلق قائم کرے گی کہ ہم کس طرح ایران میں ان کے آپریشن میں مدد کرسکتے ہیں اور جس حد تک ممکن ہوامریکی کارروائیوں سے ان کو بچانے کی کوشش کریں گے”۔ اس طرح یورپ نے اپنے معاشی مفادات کے مستقبل کےمتعلق اپنی فکرمندی ظاہرکی۔
ب: ایرانی ردعمل اس کی بہ نسبت پر اطمینان تھا اوراس میں یورپ کی جانب جھکاؤ نہیں تھا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کے فیصلہ کو "نفسیاتی جنگ اور معاشی دباؤ” کا نام دیااور کہا کہ”ہم ٹرمپ کو یہ نفسیاتی جنگ جیتنے اور ایرانی عوام پر معاشی دباؤ ڈالنے نہیں دیں گے” اور کہا کہ”اس کا ملک ایٹمی معاہدے پر امریکہ کے بغیر بھی کاربند ہے اگر چند ہفتوں میں اس کو یقین دہانی دلائی جائے کہ اس کو معاہدے کے تحت معاشی فائدے حاصل ہوتے رہیں گےاور اس کے لئے دیگر فریقوں سے ضمانت بھی ملے۔ اور ہم اپنے اتحادیوں اور ایٹمی معاہدے کے دیگر فریقوں سے بات چیت کرنے سےقبل چند ہفتوں تک انتظار کریں گے جن کے ساتھ ہماری گفتگوجاری ہے۔ یہ سارا معاملہ ہمارے مفادات کی ضمانت سے جڑا ہوا ہے اگر اس کا یقین دلایا جائے گا تو ہم معاہدے کے تحت پابند رہیں گے لیکن اگر معاہدہ صرف کاغذی رہ جائے گا اوراس سے ایرانی عوام کے مفادات کی ضمانت حاصل نہیں ہوگی تو ہمارے لئے راستہ صاف ہو جائےگا” (Iran’s official television 9/5/2018)۔
ایرانی شوریٰ کونسل کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا:”یورپ اس سے قبل بھی امریکی دباؤ میں آچکاہے جس کی وجہ سےاس سے قبل 2012 اور 2015 کے درمیان پابندی کے دوران وہاں کی اکثر کمپنیوں نےایران سے اخراج کرلیا تھا۔ معاہدات کو جاری رکھنے کے ان کے بیانات پرہم زیادہ پر اعتماد نہیں ہو سکتے البتہ چند ہفتوں کے مشاہدے کے بعداس کو آزمایا جاسکتا ہےتاکہ دنیا کے سامنے واضح ہو جائے کہ ایران نے پوری کوشش کی تھی کہ ایک پرامن سیاسی حل نکل سکے” (Deutsche Welle, 9/5/2018)۔ اس طرح ایران کو یورپی موقف اور اس پر پابندی کے متعلق پورا اعتماد نہیں ہےاور اس کو اپنے مفادات کا خوف ہے اور اگر پابندیاں عائد کی گئیں تو اس کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ج: روس نے ٹرمپ مخالف اپنا موقف یورپی موقف کے ساتھ نہیں ملایااور اپنے موقف کا تنہا اعلان کیا: "روس کو ٹرمپ کے فیصلے نے بے حد مایوس کیا ہے۔۔۔اس کو منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہےخاص طور پرایک ایسا معاہدہ جو مکمل طور پرموثر تھا ۔۔۔اور ماسکو ایٹمی معاہدے کےدیگر فریقوں کے ساتھ اشتراک کرنے کی خاطر تیار ہےاور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترقی دیتا رہے گا” (Al Jazeera 9/5/2018)روسی وزیرخارجہ لاؤروف نے کہا۔ اور دیگر فریقوں یعنی یورپی فریق جنہوں نے روس سے تعلق قائم نہیں کیا اورانہوں نے آپس میں طے کیااوراس کے بغیر ایران کے ساتھ گفتگو کرنے کا فیصلہ کیا۔ روس ان سے اشتراک کے تعلق سے احتیاط سے بات کرتا ہے، اس طرح روس کا معاملہ نازک ہے وہ اس معاملے میں امریکہ کے ہمراہ نہیں جا سکتا کیونکہ یہ ایران سے جڑےاس کے مفاد ات اورپالیسی کے خلاف ہےاور وہ یورپ کے ساتھ نہیں جاسکتا ہے جو روس کے ساتھ اپنے تعلقات خود کشیدہ کررہے ہیں تاکہ روس ان کوسب سے الگ تھلگ کرنے میں امریکہ کا آلہ کار نہ بن سکے۔د: جہاں تک چین کی پالیسی کا تعلق ہے تو چین کے مشرقی وسطی ٰکے خصوصی سفیر Gong Xiaosheng نےکہا:”تمام فریق جو ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے میں شامل ہیں وہ لازمی طور پراس کی پابندی کریں اور آپس کی بات چیت اور گفتگو کے ذریعہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور اس کا ملک تمام دستخط کرنے والے ممالک کے درمیان اشتراک بڑھانے کےلئے تعاون کرنےکو تیار ہے” (Xen-Kho 9/5/ 2018) ۔ یہ ایک مبہم سا عوامی بیان ہے جس کے تحت چین یورپی ممالک کے ساتھ بھی کھڑا نہیں ہوا جومعاہدے سے دست برداری کےمخالف ہیں بلکہ اس نے اس بیان کےذریعہ یورپی اور امریکی موقف کو ایک ہی سطح پر رکھ دیا ہے۔ امریکہ کے تئیں چین کے کمزور بین الاقوامی موقف اور امریکہ کےساتھ تجارتی تعلقات کی وجہ سے چین کی پس وپیش کی بنا پرچین کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتاہے۔
خلاصہ: ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے سے دست برداری کا اعلان اس لئےنہیں کیا کہ اس معاہدے میں کسی طرح ایران کی یا ایرانی مفادات کی جیت تھی یا اس سے ایران کا درجہ بڑھ گیا تھا، بلکہ اوبامہ کے دور میں ہوئے اس معاہدے کی حقیقت پہلے ہی ایران کی ذلت اور بے غیرتی کے ساتھ اپنے ایٹمی پروگرام سے دست برداری کی تھی بلکہ ٹرمپ نے اس معاہدے سے دست برداری اس لئے اختیار کی کیونکہ امریکہ کے مفادات کو آج تین عوامل درکار ہیں جن کا بیان اوپر گذرچکا ہے۔
الف: امریکہ کو ایران کے جس کردار کی ضرورت تھی بالخصوص جو اس نے2015 میں ادا کیا، تھا اس کردار کی اب ضرورت نہیں رہی جیسی 2015 میں تھی۔
ب: ایران کے خلاف امریکی دشمنی کو بڑھا چڑھا کر ظاہر کرنا، بالخصوص سعودی عرب اور اسی کی طرح کے دیگرحکومتوں کے سامنے تاکہ ان کا اول دشمن یہودی وجود کی بجائے ایران ہو جائے۔ ج: یورپ کو سزا دینا،بالخصوص تجارتی طور پر کیونکہ یورپ نے اس معاہدے کےقائم ہونے کے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایران کے ساتھ تجارت بحال کی اور امریکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات میں سرد مہری دکھائی تھی۔ماضی کے کفار ومشرکین کی طرح امریکہ ومغرب بھی کسی عہد کو پورا نہیں کرتے ہیں اور نہ کسی معاہدہ وعہد کا پاس رکھتے ہیں بلکہ ہر دفعہ اپنے معاہدے اور عہد کو توڑتے رہتے ہیں اور ان کو کسی کا ڈر نہیں۔ وہ اسلام کی اعلیٰ اقداراور اس کے احکام سے کتنے دور ہیں جوانسان کوعہد اور معاہدوں کا پابند کرتا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ﴾
"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے معاہدوں کو پورا کرو”(المائدہ:1)
بلاشبہ انسانیت کوآج خلافتِ راشدہ کی سخت ضرورت ہے جو معاہدات کو پورا کرےاور عہدکی پاسداری کرےاور لوگوں کے درمیان انصاف ، تحفظ اور امن وامان کو پھیلائے بالخصوص جب کفار نے پوری زمین میں فسادبرپا کر رکھاہے اور اب یہ فساد لوگوں پر ظلم کرتا ہےاور ہر جاندار وبے جان کوتباہ کئے جارہا ہے ۔
مسلمانو! اس خلافت کے قیام کے لئے اٹھ کھڑے ہو، اس کی عظمت وجلال اورفتوحات کےذریعہ سرخرو ہو جاؤ، سچ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب آپ ﷺ نےتمام کمزوریوں، علالتوں اور تذلیل سے تحفظ حاصل کرنےکے لئےخلیفہ کو امت کے لیے ڈھال یعنی تحفظ قرار دیا۔»إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ«”خلیفہ تمہاری ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کرتم قتال کرتے ہواور خود کو بچاتے ہو” ( مسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا)
27 شعبان 1439 ہجری
13/5/2018 CE
ختم شد