سوال و جواب: قائدہ شریعہ :علت (شرعی وجہ) اپنے وجود اور عدم وجود کے لحاظ سے سبب کے گرد گھومتی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، اللہ آپ کی کوششوں میں برکت دے اور جزائے خیر دے
ہمارے محترم شیخ، میں ایک شرعی قاعدے کے بارے میں سوال کرنا چاہوں گا۔
"علت اپنے وجود اور عدم وجود کے لحاظ سےاپنے سبب کے گرد گھومتی ہے۔۔۔” سوال یہ ہے کہ: "آپ ﷺ سے پکی ہوئی کھجوروں (رطب) کے بدلے خشک کھجوروں (تمر) کی تجارت کے بارے میں پوچھا گیا» أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ جَوَازِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ هَلْ يَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِس؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالَ:
فَلاَ إِذَنْ«” نبی ﷺ نے فرمایا: کیا رطب خشک ہو جانے کے بعد وزن میں کم ہو جاتی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے کہا: پھر نہیں”۔
اب اگر ہمیں کمی کی مقدار معلوم ہو اور اس کو پورا کر دیا جائے تو کیا یہ تجارت جائز ہو گی؟ دوسرے الفاظ میں اگر پکی کھجوروں (رطب) کا وزن ایک کلو ہے اور جب وہ خشک (تمر) ہو جائے تو اس کا وزن 900 گرام ہو جائے، تو کیا ہم 900 گرام خشک کھجوریں ایک کلو پکی کھجوروں کی قیمت میں بیچ سکتے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو اس جملے میں کیا فائدہ ہے کہ ‘علت (مقدار کی)کمی میں ہے’؟
رفیق احمد ابو جعفر
جواب:
وعلیکم اسلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
آپ کے سوال میں آپ کا اشارہ "اسلامی شخصیہ جلد 3” میں درج "علت ِ دلالۃ” کی طرف ہے، اور یہاں میں آپ کے سوال کے حوالے سے اس کا ذکر کرنا چاہوں گا جو کتاب میں درج ہے: "جہاں تک اس علت کا تعلق ہے جودلیل کی دلالت سےثابت ہوتی ہے جسے دلالتِ تنبیہ و ایما کہا جاتا ہے، تو اس کی دو قسمیں ہیں: اول: جب حکم ایک وصف مفھم (reasoned description)کی بنا پرہو۔۔۔ دوئم: جب جملے کے الفاظ اپنی وضع کے لحاظ سے علت کی طرف اشارہ نہ کرتے ہوں لیکن الفاظ کے معانی علت کی موجودگی کو لازمی بناتے ہوں اور اس کی پانچ اقسام ہیں :1):۔۔۔ 2):۔۔۔ 3): اگر شارع نے اس حکم کے ساتھ کسی ایسے وصف کا ذکر کیا جو اگر تعلیل کے لیے (علت کے طور پر)نہیں ہے تو اس کا ذکر بے کار ہے، اور شارع کی حیثیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے اورچونکہ عام طور پر شرعی نصوص میں جو کچھ بھی ذکر کیا گیا ہو وہ قانونی معنی رکھتا ہےلہذا یہ وصف ایک علت سمجھا جاتا ہے اور اس نص کو علت والی نص سمجھا جاتا ہے، مثلاً اگر بات سوال کا جواب ہے، پھر یا تو وصف سوال کے اندر ہی بیان کیاگیا ہے، یا یہ وضاحت اس حکم سے الگ کسی اور ایسی ہی جگہ کی گئی ہے۔ جیسا کہ روایت ہے کہ:« أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ جَوَازِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ هَلْ يَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِس؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالَ: فَلاَ إِذَنْ»”رسول اللہ ﷺ سے خشک کھجور کے بدلے تر کھجور کو بیچنے کے بارے میں سوال کیا گیا۔ تو آپ ﷺ نے پوچھا: کیا کھجور خشک ہو جانے کے بعد وزن میں کم ہو جاتی ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے کہا: پھر نہیں” (دارقطنی)۔لہٰذاجواب میں بیچنے کی ممانعت کےحکم کے ساتھ کمی کا تعلق کہ جب رطب خشک ہو جاتی ہےتو اس کا وزن کم ہو جاتا ہے ،بیکار نہیں ہے، لازمی بات ہے کہ اس کی اہمیت ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کا جواب کو حرف ‘فَ’ کے ساتھ جوڑنا اور فرمانا:”فلا إذن” "تو پھرنہیں” علت کی ایک شکل ہے، اس تعلق سے پتا چلتا ہے کہ رطب کھجور کی خشک کھجور کے عوض تجارت کی ممانعت کی علت دراصل "(مقدار کی)کمی” ہے، جس کو (ممانعت کے)حکم کو حرف ‘فَ'(جو کہ وصف ہے)کے ساتھ جوڑنے سے لیا گیا ہےاور لفظ”اذن” کے ساتھ تعلق سے ۔ اس مثال میں علت سوال کے اندر ہی موجود ہے۔ جبکہ اس کی مثال کہ جہاں وصف سوال میں نہیں، یہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے حکم واضح کیا، تو آپ ﷺ نے سوال سے ہٹ کر اس جیسی ایک حقیقت کو بیان کیا، جیسے روایت ہے کہ جب ایک عورت خثعمیہ نے نبی ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! میرے والد فوت ہو گئے مگر انھوں نے حج نہیں کیا۔ اگر میں ان کی جگہ کر لوں تو کیا ان کو فائدہ دے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:«أرأيتِ لوْ كانَ على أبيكِ دَيْنٌ أَكُنْتِ قاضِيَتَه؟ قالت: نعم. قال: فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ بالقَضاء»”اگر تمہارے والد مقروض ہوتے، کیا تم ان کا قرضہ ادا کرتیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ ﷺ نے کہا: پھر اللہ کا قرض ادا کرنا اس سے بہتر ہے”۔ یہاں خثعمیہ نے حج کے بارے میں پوچھا اور نبی ﷺ نے انسانی قرض کا ذکر کیا، لہٰذا آپ ﷺ نے اس کے سوال سے مشابہ ایک دوسری چیز کا ذکر کیا، اور آپ ﷺ نے حکم کے ساتھ اس کا تعلق قائم کیاکہ جس کے متعلق اس نے سوال کیا تھا۔ لہٰذا حکم کا وصف سے تعلق قائم ہو گیااور یہاں وصف ‘قرض’ ہے، کہ قرض کا ذکر بے کار نہیں اور اس کی اہمیت ہونا لازمی ہے۔ اور چونکہ نبی ﷺ نے اس وصف کا ذکر کیا اور اس پر حکم کو منحصر کیا، اس سے علت کا پتہ چلتا ہے ورنہ اس کا ذکر بے کار تھا”۔ ۔۔اختتام
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس عبارت میں آپ کے سوال کا جواب موجود ہے، جس سوال میں آپ نے کہا: "اگر اس کا جواب نفی میں ہے توپھر اس جملے میں کیا فائدہ ہے کہ ‘یہاں علت (مقدار کی)کمی ہے’؟”۔۔۔ تحقیق سے مندرجہ ذیل میں پکی کھجوروں کے خشک ہونے سے کمی کو بیان کرنے کے فائدے کا پتا چلتا ہے:لہٰذا جواب میں کمی کے وصف کے ساتھ حکم کو جوڑنا کہ رطب خشک ہو کر کم ہو جاتی ہیں، بے کار نہیں، بلکہ اس کی اہمیت لازم ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ کے جواب ” فلا إذنَ” میں کھجوروں کی فروخت کے متعلق جواب کا حرف ‘فَ’ کے ساتھ تعلق علت کی شکلوں میں سے ایک شکل ہے۔ اس تعلق سے معلوم ہوتا ہے کہ رطب کھجور کے بیچنے کی ممانعت کے لیے کمی ایک علت ہے، جو کہ حکم کو حرف ‘فَ’ کے ساتھ جوڑنے اور لفظ” إذن” سے اس کے تعلق سے پیدا ہوتی ہے،اس مثال میں وصف سوال کے اندر موجود ہے۔ لہٰذا یہاں فائدہ علت کی موجودگی ہے یعنی کمی کے ذکر سے ہی پکی کھجوروں کو خشک کھجوروں سے تجارت کرنے کی ممانعت کی علت کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا آپ کا یہ سوال بے فائدہ ہے: ” اس جملے میں کیا فائدہ ہے کہ ‘علت(مقدار کی) کمی ہے’؟ ” یہ سوال ایک غلط فہمی ہے۔ بلکہ جیسے تحقیق سے پتہ چلا کہ کمی کے ذکر کا کیا فائدہ ہے۔ حکم کوکمی کے وصف کے ساتھ جوڑنا ہی دراصل فائدہ ہے، یعنی، یہ ہے کہ کمی وہ علت ہے کہ جس کی وجہ سے خشک کھجوروں کے بدلے پکی کھجوروں کی فروخت منع ہے، ورنہ کمی کا ذکر کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ یہاں فائدہ کھجوروں کی فروخت سے روکنے کے لیے علت کو بیان کرناہے۔ "نبی ﷺ سے پکی ہوئی کھجوروں (رطب) کے بدلے خشک کھجوروں (تمر) کی تجارت کے بارے میں پوچھا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا رطب خشک ہو جانے کے بعد وزن میں کم ہو جاتی ہے؟ جب انھوں نے اثبات میں جواب دیا،تو آپ ﷺ نے کہا: پھر نہیں”۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کمی کو پورا کرنا کیوں درست نہیں، جیسے آپ کے سوال میں ذکر ہے: ” اگر ہمیں کمی کی مقدار معلوم ہو اور اس کو پورا کر دیا جائے تو کیا یہ تجارت جائز ہو گی؟” بالفاظ دیگر، اگر آپ 1کلو پکی کھجوریں، 1 کلو خشک کھجوروں کے بدلے خریدیں اور پھر پکی کھجوروں کے کلو پراتنا اضافی لیں جتنا دونوں کے وزن میں فرق ہے۔ مثلاً جب پکی کھجوریں خشک ہو کر 100گرام کم ہو جائیں اور آپ 1 کلو خشک کھجوروں کو 1.1 کلو پکی کھجوروں کے بدلے فروخت کریں۔ یہ جائز نہیں کیونکہ کھجوران چھ اصناف میں سے ایک ہے جس کا غیر برابر بدل سود ہے۔ اگر اس کا اسی کی جنس کے بدلے لین دین کیا جائے، تو اس کے پیسے لینے کی اجازت نہیں یعنی ایک ہی جنس کی دو چیزوں کے درمیان معیار یا خصوصیت کے فرق کی وجہ سے۔ یہ کھجوروں کے سود کے لیے بیان کردہ چھ اصناف میں سے ایک صنف ہونے کی بنا پرجائز نہیں۔ آپ خشک کھجور ایک قیمت پر فروخت کریں، پھر اس قیمت سے پکی کھجوریں خریدیں۔ اس کی دلیل یہ ہے:أخرج البخاري في صحيحه عَنْ يَحْيَى قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «جَاءَ بِلَالٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ أَيْنَ هَذَا قَالَ بِلَالٌ كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ عِنْدَ ذَلِكَ أَوَّهْ أَوَّهْ عَيْنُ الرِّبَا عَيْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعْ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِهِ»
وأخرجه مسلم كذلك بخاری نے اپنی صحیح میں کہا کہ یحییٰ نے کہا: میں نے عقبہ بن عبد الغافر سے سنا کہ ابو سعید خدری ؓ نے کہا:”بلال ؓ اعلیٰ نسل کی کھجوروں کے ساتھ آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا: کہاں سے (خریدی ہیں تم نے)؟ بلال نے کہا: ہمارے پاس ہلکے معیار کی کھجوریں تھیں اور میں نے دو صاع (ہلکی معیار کی) ایک صاع (اعلی میعار) کے بدلے تجارت کر لی، آپ ﷺ کے کھانے کے لیے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے کہا: ہلاکت ہو! ہلاکت ہو! یہ دراصل سود ہے، لہٰذا مت کرو۔ جب تم (اعلیٰ معیارکی) کھجوریں خریدنا چاہو، تو (ہلکے معیار کی) الگ سودے میں بیچو اور پھر (اعلیٰ معیار کی) خریدو”۔ (مسلم نے بھی ایسی ہی روایت بیان کی ہے)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کمی کے ذکر کا فائدہ پکی کھجوروں کے بدلے خشک کھجوروں کی فروخت کی ممانعت کی علت کا بیان ہے، پکی کھجوریں خشک ہو کر ہلکی ہو جاتی ہیں۔ جہاں تک کمی یا "ارش” ادا کرنے کی ممانعت کی بات ہے، یہ اس لیے کہ جن چھ اصناف میں سود ہوتا ہے ان میں فرق کالینا جائز نہیں۔
امید ہے کہ یہ جواب واضح ہو گا، واللہ اعلم۔
آپ کا بھائی،
عطاء بن خلیل ابورَشتہ
6 جمادی الاخر، 1439 ہجری،
22 فروری 2018 عیسوی
ختم شد