قرضے معاف کر کے جمہوریت کرپشن کو قانونی بنا دیتی ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر :شہزاد شیخ
25 جولائی 2018 کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں کرپشن سب سے اہم انتخابی مسئلہ ہے۔ لیکن جمہوریت کے ذریعے کرپشن کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ بیماری کا علاج اسی بیماری سے کیا جائے۔ اربوں روپوں کےقرضوں کی معافی اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوریت کرپشن کو پروان چڑھاتی ہے۔ 9 جون 2018 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے 222 کمپنیوں اور اداروں کو حکم دیا کہ وہ ایک ہفتے میں اُن اربوں روپوں کے قرضوں کی معافی کی وضاحت پیش کریں جو انہوں نے تجارتی بینکوں سےلیے تھے اور انہوں نے واپس نہیں کیے تھے۔ یہ احکامات تین رکنی بینچ نے جاری کیے جس کی سربراہی چیف جسٹس ثاقب نصار کررہے تھے جنہوں نے پریس رپورٹس کی بنیاد پر 2008 میں شروع ہونے والی تحقیقات پر ازخود نوٹس لیا تھا کہ مرکزی بینک نے خاموشی سے تجارتی بینکوں کو ‘نان پرفارمنگ’ قرضوں کو صدر مشرف کی جانب سے پیش کی گئی ایک اسکیم کے تحت معاف کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اکتوبر 2002 کے انتخابات کے فوراً بعد اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ان کی مالیاتی ٹیم نے قرضے معاف کرنے کی ایک اسکیم متعارف کرائی تھی اور اس کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک نے بی پی ڈی سرکیولر29 برائے 2002 جاری کیا جس میں ایسے قرضوں کے حوالے سے ہدایات دیں گئی تھیں جو واپس نہیں کیے جارہے تھے۔ بجائے اس کے کہ ان قرضوں کی واپسی کے لیے بھر پور مہم چلائی جاتی ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ اسکیم متعارف کرادی کہ جوکمپنیاں تین سال سے "نقصان”میں جارہی ہیں تو بینک ان کے قرضے معاف کرسکتے ہیں۔
جمہوریت میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جو بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے لیے فائدے مند ہوں،جن میں سے ایک ان کے ذمہ قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری سے دستبرداری بھی شامل ہے۔ جمہوریت میں بننے والے قوانین یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر ایک کمپنی اپنی مالیاتی ذمہ داریاں ادا نہیں کرپاتی اور اس کے اثاثے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ناکافی ہیں تو اس کمپنی کے مالکوں سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اپنی ذاتی دولت سے ان ادائیگیوں کو مکمل کریں ۔ جمہوری قوانین کمپنی کو ان کے مالکان سے الگ ایک ہستی قرار دیتے ہیں کیونکہ کمپنی مالکان کی دولت پرقائم ہوتی ہے نہ کہ مالکان کی ذات پر قائم ہوتی ہے۔ تو اگر ایک کمپنی اپنی مالیاتی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو مالیاتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیےاس کے مالکان کی ذاتی دولت کو ہاتھ پھر بھی نہیں لگایا جاسکتا جو اسی کمپنی کے ذریعے ہی حاصل کی گئی ہوتی ہے۔ اور اگر اس قانون کے ذریعے مالکان کے مفادات پورے نہ ہورہے ہوں تو ان کے مالیاتی مفادات کو پورا کرنے کے لیے نئی قانون سازی کردی جاتی ہے۔ اس معاملے میں بجائے اس کے کہ ان کمپنیوں کوبند کیا جاتا جو اپنے ذمہ قرضے ادا نہیں کرسکیں تھیں، الٹا ان کے قرضے ہی معاف کردیے گئے اور انہیں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ اس طرح سے قرضوں کی ادائیگی سے دستبردار ہوجانا سرمایہ دارانہ اسٹاک شیئر کمپنی کا خاصہ ہے۔ اس طرح کے کمپنی ڈھانچے کی وجہ سے سرمایہ داروں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ ان شعبوں میں بھی کام کرسکیں جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہےجیسا کہ بھاری صنعتیں، ٹرانسپورٹ، ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ۔ اس طرح ان کمپنیوں کے پاس اتنا سرمایہ جمع ہوجاتا ہے جو ایک فرد یا چند افراد مل کر جمع ہی نہیں کرسکتے اور اس طرح اس بات کے امکانات انتہائی کم ہوتے ہیں کہ چند افراد کی دولت اس کمپنی کے ذمہ مالیاتی ادائیگیوں کا بوجھ اٹھا سکیں۔ لہٰذا اس خرابی کو اس طرح صحیح کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو ڈیفالٹ کرجاتے ہیں یا پھر قرضے معاف کرواتے ہیں اور یہ دونوں معاملات سرمایہ دارانہ نظام میں ایک معمول ہیں۔
اس کے برخلاف اسلام میں یہ اعلان کرتا ہے کہ کمپنی مالکان کی ذات پر بنتی ہے اور اس طرح سرمایہ دارانہ اسٹاک شیئر کمپنی کا خاتمہ کرتا ہے جو صرف دولت کی بنیاد پر بنتی ہیں اور اس کا مالکان کی ذات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس طرح اسلام نے نجی کمپنیوں کوان شعبے میں بالادست کردار ادا کرنے سے روک دیا جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے،اور اس طرح اس شعبے میں ریاستی کمپنیوں کی بالادستی قائم ہو جاتی ہے اور ریاست لوگوں کے امور کی زیادہ بہتر طریقے سے دیکھ بھال کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا آج کی بڑی بڑی سرمایہ دارانہ کمپنیوں کے مقابلے میں اسلام میں عموماً نجی کمپنیاں چھوٹی ہوں گی۔
اسلامی ریاست میں اگر ایک کمپنی کے اثاثے اس کی مالیاتی ذمہ داریوں کی ادائیگیوں کے لیے ناکافی ثابت ہوتے ہیں تو مالکان کی ذاتی دولت کو کمپنی کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جائے گا کیونکہ درحقیقت کمپنی کی ذمہ داری اس کے مالکان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسلام قرضے کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھتا ہے کہ اگر ایک شخص اس حالت میں انتقال کرجائے کہ اس کے ذمہ قرض ہو تو اس کی وراثت اس وقت تک اس کے وارثین میں تقسیم نہیں کی جاتی جب تک اس میں سے وہ قرضہ ادا نہ کردیا جائے۔ النسائی (4605)نے محمد ابن جحشؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلاَءُ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ، مَوْلَى مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ وَضَعَ رَاحَتَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ ثُمَّ قَالَ " سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا نُزِّلَ مِنَ التَّشْدِيدِ " . فَسَكَتْنَا وَفَزِعْنَا فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ سَأَلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نُزِّلَ فَقَالَ " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلاً قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ ثُمَّ أُحْيِيَ ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ "،
"ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ انہوں دے گا۔ اس کے بعد موروثی حکمرانی ہوگی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کر دے گا۔ پھر ظلم کی حکمرانی ہوگی اور اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ چاہے گا اسے ختم کر دے گا۔ پھر (دوبارہ) نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہوگی۔ اس کے بعد آپ ﷺخاموش ہو گئے”۔
ختم شد