سی پیک ۔ بڑی طاقتوں سے تعلقات رکھنے کی وجہ سےجڑے خطرات کے متعلق ایک سبق
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خالدصلاح الدین،پاکستان
امریکہ سے دوطرفہ معاہدوں کے بعد، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) ایک بڑا دوطرفہ معاہدہ ہے۔ بے شک پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے اس میں شمولیت پر کامیابی کا دعویٰ اس بنیاد پر کرنے کی کوشش کی کہ سی پیک پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ توانائی اور انفراسٹرکچر سے متعلق فوائد کو بنیاد بناتے ہوئے اس کو ایک سنگِ میل کہا گیا۔ احسن اقبال نے 12 دسمبر 2017 کو کہا: "سی پیک ملک میں توانائی، اقتصادی اور انفراسٹرکچرکی ترقی کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہو گا”۔ احسن اقبال نے کہا کہ گوادر کو چین اور ملک کے دیگر علاقوں سے جوڑنے کے لیے پورے ملک میں سڑکوں اور ریلوے کا جال بچھایا جا رہا ہے جو علاقائی آمدورفت میں ترقی اور اقتصادی فوائد پیدا کرے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 12 جولائی 2017 کو کہا: "سی پیک ملک میں ایک اقتصادی انقلاب برپا کرے گا”۔ آرمی چیف نے کہا کہ یہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور فوج اس سی پیک منصوبے کی پوری حفاظت کرے گی۔ اس کے باوجود سال 2018 کے آغاز میں پاکستان کو ایک شدید مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا جب ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر صرف دو ماہ کی درآمدات جتنے رہ گئے۔ علاوہ ازیں، FATF کی وجہ سے حالات مزید ناخوشگوار ہو گئے۔ لہٰذا یہ سوچنے کی بات ہے کہ وہ کون سا سنگِ میل ہے جس کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اسٹریٹیجک لحاظ سے بڑی عالمی طاقتوں چین اور امریکہ کو سی پیک کا کیا فائدہ ہے؟
متعدد کالموں میں سی پیک کو چین کے لیے آبنائے ملاکا(Strait of Malacca)کے مسئلے کے حل کے لیے اسٹریٹیجک فائدے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ چینی توانائی کا80 فیصدآبنائے ملاکا سے گزرتا ہے اور امریکہ سے تنازعہ کے نتیجے میں چین کو امریکہ کی ناکہ بندی کا کافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
لیکن اگر ہم سی پیک کی صلاحیت کی بات کریں تو اس میں امریکہ کی آبنائے ملاکا کی ناکہ بندی کے نتیجے میں متبادل گزرگاہ بننےکی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ توانائی کے بھوکے چین کی 2017 میں تیل کی درآمدات 8.4 ملین بیرل یومیہ تھی۔ سب سےبڑے تیل کے ٹینکر میں تقریباً 500,000 بیرل تیل آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خام تیل کے 16 ٹینکر (بحری جہاز) روزانہ گوادر کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوں اور پھر ان سے سڑک پر چلنے والے 18 ویل ٹینکر ہزاروں کی تعداد میں صبح شام شاہراہ قراقرم سے گزرتے ہوئے چین کے باڈر تک پہنچیں ۔ یہ تعداد اس (سی پیک) کو عملی متبادل کے طور پررد کر دیتی ہے۔ چین اپنے بحری بیڑے کے لیے سمندر میں گوادر پر ایک بندرگاہ کے لیے ترس رہا ہے۔ یہ اسے بحر ہند میں موجود رہنے اور بحر ہند اورجنوبی چینی سمندر میں امریکی بحری بیڑوں کی موجودگی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت دے گا۔ دفاعی حلقوںمیں یہ بات عام ہے کہ چین اس کے لیے ترس رہا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سی پیک ترقیاتی کاموں کے ذریعےسیکیورٹی اہداف حاصل کرے گا،تو اس کے لیے چین کے سیکیورٹی خدشات کو سمجھنا ضروری ہے ، خصوصاً وہ جو اس کے مغربی علاقے سنکیانگ سے جنم لیتے ہیں۔ "ایک چین” کے اصول One China principleکی وجہ سے بیجنگ سنکیانگ کی ایغور عوام کو دباتا ہےاور اس سیاسی تشدد کے ساتھ ساتھ اس نے وہاں اپنے سیکیورٹی اداروں کی تعداد کوبڑھایا ہے اور اسی سلسلے میں اس نےاقتصادی ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں۔ اس سے پاکستان کا تعلق یہ ہے کہ ایغورعسکری جماعتوں جیسے مشرقی ترکمانستان اسلامی تحریک (ETIM) نے پاک افغان سرحد پر پناہ لی اور القائدہ اور پاکستانی و افغانی طالبان سے روابط قائم کیے۔ لہٰذا سی پیک کے نتیجے میں چین پاکستانی حکومت پر اثرانداز ہو سکے گا کہ وہ ان عسکریت پسندوں کا صفایا کرے۔
اس حوالے سے امریکی موقف دلچسپ ہے۔ واشنگٹن نے کھلم کھلا سی پیک کے خلاف بیانات نہیں دیے۔ سی پیک کے خلاف ایک صریح بیان 7 اکتوبر 2017 کو اس وقت سامنے آیا جب سیکٹری دفاع میٹس نے کہا کہ امریکہ One belt one road پالیسی کے خلاف ہے، لیکن 21 اکتوبر 2017 کو اس کی سرکاری تردید اس بیان سے کی گئی جو امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے دیا: "ہم سمجھتے ہیں کہ پاک -چین اقتصادی راہداری (سی پیک) -اور خصوصاً اس کی توجہ نقل و حمل کے انفراسٹرکچر اور توانائی کی ترقی پر مرکوز ہونے میں- پاکستان اور علاقے میں استحکام اور خوشحالی لانے کی صلاحیت موجود ہے”۔ لہٰذا خطے میں امریکہ اور چین کی دشمنی کے حوالے سے دیکھا جائے تو سی پیک پر دونوں ہم آہنگ ہیں۔ بیان کا حصہ "پاکستان اور علاقے میں استحکام اور خوشحالی” چین کے مندرجہ بالا سیکیورٹی تحفظات سے ہم آہنگ ہے۔ امریکہ کے لحاظ سے، اس سے بنیادی طور پرہندوستان کو اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کو فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا ہوسکتا ہے کہ مودی ظاہری طور پر سی پیک کو تنقید کا نشانہ بنائے، لیکن بھارت کو کافی امید ہے کہ چین پاکستان پر دباؤ ڈال کر ہندوستان میں سرحد پار دہشت گردی کے مسئلے کو ختم کر سکے گا۔ تو گویاامریکہ بھی تقریباًاس سی پیک منصوبےمیں ایک خاموش شریک کے طور پر موجود ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، جو کہ اس میں ایک چھوٹا شریک ہے، تو اس کے لیے حالات مختلف ہیں۔ پاکستانی قیادت سی پیک کے جواز کے طور پر اقتصادی خوشحالی اور کثیر تعداد میں چین کی طرف سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو پیش کر تی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کی بنیادی لاجِک یہ ہے کہ اس سے معیشت پروان چڑھتی ہے۔
پاکستان کی معیشت اس وقت سے مشکلات کا شکار ہے جب سے مشرف امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کو غیر معمولی درجے تک لے گیا۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر عموماً کم ہی رہے ہیں کیونکہ پاکستان کی ہر حکومت صنعتی میدان میں خاطر خواہ ترقی نہیں لاسکی۔ امریکہ کی طرف سےدہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں اداکی گئی رقموں اور بیرون ِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ترسیلاتِ زر کی بدولت پاکستان کے زرمبادلہ کو کچھ سہارا ملتا رہا، لیکن مشرف کے بعد جب امریکی ادائیگی مزید مشروط ہونے لگی تو پاکستانی حکمران آئی ایم ایف کے مزید مقروض ہو تے گئے۔
2017 کے وسط سے روپے کی قدر میں بتدریج کمی کی گئی تاکہ درآمدات کو مہنگا اوربرآمدات کو سستا کیا جائے۔ اس کا مقصد زر مبادلہ کو بڑھانا تھا جس میں بہت زیادہ کمی واقع ہو گئی تھی۔ اس کی دلیل یہ دی گئی کہ اگر ہمارے پاس ڈالر نہیں ہوں گے تو درآمدات کی ادائیگی نہیں ہو سکتی جس سے ہم مشکلات میں گھر جائیں گے۔ درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ضروری ہے۔ اور ظاہری سے بات ہے کہ یہ قرضہ سود کے ساتھ ادا کرنا ہوتا ہے جو معیشت کو اور مفلوج کرتا ہے۔ لہٰذا معیشت کو اتنا بڑھانا ہے کہ نہ صرف مستقبل کی درآمدات بلکہ سودی قرضوں کی ادائیگی بھی ہو سکے۔ 11 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک کالم "Financing burden of CPEC” میں ڈاکٹر عشرت حسین نے سی پیک کے بارے مثبت تاثر قائم کرتے ہوئے کہا: "برآمدات کو، ڈالروں میں، سالانہ 14 فیصدکے لحاظ سے بڑھنا ہو گا ” تاکہ زرمبادلہ کے ملک سے باہر چلے جانے کا سدِباب کیا جا سکے۔ مزید کہا: "یہ ناممکن نہیں کیونکہ پاکستان نے اس سے پہلے بھی یہ پیداواری ہدف حاصل کیا ہے”۔ معیشت کی بڑھوتری کا مطلب یہ ہے کہ ایک دور کے مقابلے میں دوسرے دور کے دوران معیشت کی اشیاء و خدمات پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔
توہماری برآمد کردہ اشیاء وخدمات ڈالر کے لحاظ سےکم ازکم 14 فیصدبڑھنی چائیے۔ اس کا پہلے تو مطلب یہ ہے کہ برآمد کے لیےہماری مصنوعات کو قیمت کے لحاظ سے دوسروں سے بہتر ہونا پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ سوائے انجینئرز، ڈاکٹرز اور سافٹ ویر کے ماہرین کے، ہم نے کیا برآمد کیا ہے؟ پچھلے 17 سال میں خطیر منافع والی صنعتوں جیسے بھاری صنعت اور الیکٹرانکس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، تو اس بات کی کیا امید ہے کہ معیشت میں اس قدر بڑھوتری ہو پائے گی کہ یہ بڑھتی ہوئی درآمدات اور سودی ادائیگیوں کو پورا کر سکے۔ علاوہ ازیں چینی توانائی کی کمپنیوں سے17 سے 20 فیصد منافع کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ چین سے لیے گیے قرضوں پر بھاری شرح پر سود کی ادائیگی کےعلاوہ ہے۔ یہ وعدہ شدہ منافع ہے جو توانائی کی قیمت کو زیادہ رکھے گا اور اس طرح نتیجتاً اشیاء و خدمات کی قیمت کو زیادہ رکھے گا۔ پھر عالمی منڈی میں ہماری برآمدات دوسرے ممالک سے کیسے مقابلہ کر سکتی ہیں؟
علاوہ ازیں، سی پیک کا صرف 25 فیصدکام ہی پاکستان کی کمپنیوں کو دیا گیا ہے، باقی کام چینی کمپنیوں کو ہی دیا گیا ہے۔ پاکستانی کمپنیوں کو چینی کمپنیوں کے ریٹ کا 40 فیصددیا جا رہا ہے۔ چینی کمپنیاں چین سے ہی سیمنٹ، لوہا، ٹرک اور مزدور لارہی ہیں۔ لہٰذا ہماری اپنی لوہے، سیمنٹ اور لیبر مارکیٹ میں بڑھنے کا امکان کہاں ہے؟ لہٰذا سی پیک سے اصل ترقی چین اور چینی کمپنیوں کی ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بدولت چین سے آنے والا پیسہ واپس چینیوں ہی کے پاس 20 فیصد اضافے کے ساتھ چلا جائے گا ۔ تو اس سب میں پاکستان کا فائدہ کہاں ہے؟
جہاں تک جمع ہونے والے قرضے کا تعلق ہے، قرضوں کی ادائیگی پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور معیشت مزید قرضوں کی ادائیگی برداشت نہیں کر سکتی۔ سی پیک منصوبے کی طرف تیزی دکھانے نے زیادہ ادائیگیوں کے لیے زیادہ قرض لینے کی ضرورت کو جنم دیا ہے۔ آئی ایم ایف ڈالر میں قرض دیتا ہے۔ زیادہ قرضوں کی وجہ سے زیادہ ٹریثری بانڈ جاری کیے گئے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہوئی، جس سے مزید مہنگائی بڑھی جو اپنے ساتھ پاکستانی معیشت پر اپنے تمام ترمنفی اثرات لائی۔
امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑکی وجہ سے پاکستا ن پرامریکی کنٹرول خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، اوراب اس کے ساتھ ایک چینی راج بھی بن رہا ہے۔ جب سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ Hambantota port پر چینی قرضوں کی مدد سے توسیع ہوئی، اور بعد میں جب سری لنکا قرضے ادا نہ کر پایا، بیجنگ نے ان قرضوں کو شراکت داری میں تبدیل کر کے سری لنکا کو ایک "کالونی جیسا” بنا لیا۔
بڑی طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ میں چھوٹے حصہ دار کے طور پر پاکستان نے یقیناً بہت کم حاصل کیاہے۔ امریکہ اور چین کی پالیسی کے دھارے جس نکتے پر آپس میں ملتے ہیں وہ یہ ہے کہ کس طرح وہ سی پیک سے اپنے مفادات پورے کر سکتے ہیں، چاہے پاکستان کو اس کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔
امریکہ اور چین دونوں ہی "اسلامی انتہاپسندی” کو روکنے کے درپے ہیں، جو دراصل اسلام اور خلافت کے حق میں اٹھنے والی لہر ہے۔ چینی پاکستان کے کرپٹ لیڈروں کے کے ذریعے اپنا فائدے نکالنے کا موقع بنا رہے ہیں ،جنہوں نے اپنے مفاد کی خاطر پاکستان کے حق میں اس قدر نقصان دہ منصوبے پر لبیک کہا۔ سی پیک ایک "گیم چینجر” سے زیادہ "گیم اوور” ہے۔
بڑی طاقتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ دراصل چھوٹٰی ریاستوں کا استحصال کرنے کے لیے ہوتا ہے، تاکہ بڑی طاقتیں دنیا کی بساط پر اپنے اثرورسوخ کو بڑھا سکیں۔ تمام معاہدات، دوطرفہ بات چیت اور معاملات اسی بنیاد پر ہوتے ہیں اور یہ ہر اس ملک کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے جو اس شکنجے میں پھنستا ہے۔ جنوبی امریکہ سے لے کرافریقہ تک اور مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیاء تک ، ایک ملک بھی ایسا نہیں جو ان گٹھ جوڑوں کے نتیجے میں اتنا طاقتور ہو گیا ہو کہ وہ بڑی طاقتوں کا مقابلہ کر سکے۔ ایسا نہ تو ہوا ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا کیونکہ گٹھ جوڑ کا مقصد کمزور ریاست کا فوجی اور معاشی استحصال کرنا ہوتا ہے جس سے اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَلَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾”اللہ نےکفار کو مومنین پر کوئی اختیار نہیں دیا” (النساء 141)۔پاکستان کبھی بھی وہ عزت و مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا، جس کا وہ حقدار ہے، جب تک کہ وہ تمام دشمن ممالک سے گٹھ جوڑ ختم نہیں کر دیتا، چاہے وہ امریکہ ہویاروس یا پھرچین۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا،﴿لاَّ يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَافِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ﴾”مومنین کفار کو مومنین کے مقابلے میں اپنا دوست اورحلیف نہ بنائیں” (آل عمران: 28)۔خوشحالی اور تحفظ صرف اللہ کے دین سے ہی ہے، لہٰذا اس غلامی اور شرمندگی کے نظام کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کے اہلِ نُصرہ پر واجب ہے کہ جمہوریت کو ختم کر کے اس کی جگہ منہجِ نبوت پر خلافت کو قائم کریں، جو مسلمانوں کی عزت، خوشحالی اور تحفظ کی ضامن ہوگی۔
ختم شد