جولائی کاالیکشن:ملکی حالات جمہوریت کے خاتمے کا تقاضا کرتے ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: افضل بن قمر، پاکستان
25 جولائی 2018 کو عام انتخابات منعقد ہوئے۔ یہ انتخابات اس بات کی عملی مثال ہیں کہ جمہوریت کی اصل کیا ہے۔ امیدواروں سے یہ متوقع ہوتاہے کہ وہ جھوٹ بولیں گے، جھوٹے وعدے اور ہر طرح کی دھوکہ دہی کریں گے اور یہ کہہ کر ووٹروں پر اثرانداز ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ وہ انہی کی برادری، خاندان یا مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ کہ دوسرے امیدوار باہر کے لوگ ہیں۔
انتخابات سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ کیسے یہ منتخب قانون ساز اپنے انتخاب کے لیے "پیسے” کا سہارا لیتے ہیں۔ تمام امیدوار الیکشن کے لیے طے کردہ زیادہ سے زیادہ اخراجات کی حدوں کونظر انداز کرتے ہوئے اس انداز سے خرچے کے گوشوارے جمع کراتے ہیں جو ہوتےتو خیالی ہیں مگر قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ یوں الیکشن جیتنے کے بعد اسمبلیوں میں پہنچ کر پیسے اکٹھے کرنامنتخب نمائندے کی ترجیح بن جاتا ہے اور اس کا یہ عمل صرف اس الیکشن کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ مستقبل کی کسی بھی انتخابی مہمات کے لیے بھی ہوتا ہے ۔
اس انتخابی مہم کا ایک مخصوص نقطہ کرپشن تھا۔ تاہم وہ پہلاا مر جو ایک امیدوارکو کرپشن کرنےکی طرف دھکیلتا ہے وہ یہ ہے کہ اسےانتخابی مہم کے اخراجات اپنی جیب سے برداشت کرنے ہوتے ہیں۔ اگر وہ آئندہ بھی انتخابات لڑنے کا خواہاں ہوتو اسے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ان پیسوںکو کسی طرح وصول کرےجو اس نے حالیہ الیکشن مہم پر لگائے ہیں۔ اور جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ پیسہ اپنے پیچھے کوئی نشان چھوڑے بغیر جمع کیا جا سکتا ہے تو وہ اس میں سے کچھ اپنے ذاتی استعمال کے لیے خرچ کرنے کی لالچ کرتا ہے۔ ایک منتخب قانون ساز اپنے پیشے اور دیگر معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ اکثر اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں کچھ اضافی پیسے اس کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
یہاں پر بحیثیت منتخب قانون ساز اس کی طاقت اس کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔
پاکستانی آئین کے مطابق اسمبلیوں میں موجود قانون ساز قادر وخود مختاراور تمام قوانین ،بشمول انتخابی قوانین، خصوصاً انتخابی مہم کے بجٹ سے متعلقہ قوانین کو طے کرنے کا حتمی اختیار رکھتے ہیں۔ الیکشن ان قوانین کے تحت منعقد ہوتے ہیں جن پر نگران حکومت ذمہ دار ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی قانون جو رکاوٹ بن سکتا ہو، مقننہ کی طاقت کے ذریعے اس انداز سےتبدیل کیا جا سکتا ہے کہ منتخب قانون سازاسمبلی نشست سے محروم نہ ہوں۔
بے انتہا پیسہ حاصل کرنے کی ضرورت عوامی نمائندگان یعنی قانون سازوں کو اپنے ووٹ بیچنے پر ابھارتی ہے۔ چونکہ پارلیمانی نظام میں اکثرووٹ رازداری کی بنیاد پر ہوتے ہیں، ووٹ خریدنے والے قانون سازکے پاس فرداً فرداًًًًًًً جانے کی بجائے پارٹی کے لیڈر کے پاس جاتے ہیں، اگرچہ پارلیمانی نظام میں ان کو بھی لابی کیا ]خریدا[ جا سکتا ہے۔یہ دلچسپ بات ہے کہ سیاسی جماعتیں کرپشن کے مسئلے پر بہت شور کرتی ہیں لیکن اسی وقت وہ اس نظام کی حمائتی بھی ہیں جس میں یہ کرپشن ممکن ہوتی ہے۔ مختصراً یہ کہ ان کے نزدیک نظام میں کچھ ردوبدل ہونا چاہیے لیکن اس کوبنیاد سے یکسر تبدیل نہیں کرنا چاہیے ۔
ایک تبدیلی جو آئینِ پاکستان میں اس مضبوطی سے کی گئی ہےکہ کوئی اس پر اب سوال نہیں اٹھاتا، وہ آئین میں قراردادِ مقاصد کی شمولیت تھی۔ اس کا سہارا وہ لوگ لیتے ہیں جو آئین کو اسلام کے دائرے کے اندر سمجھتے ہیں۔ یہ قرارداداللہ کی حاکمیت کے الفاظ کو برقرار رکھتےہوئے اس کے معنی کو تبدیل کر دیتی ہے۔ 1949 میں قومی اسمبلی سے پاس کی گئی قراردادِ مقاصد نے برائے نام اللہ کی حاکمیت کا ذکر کرتے ہوئے روایتی جمہوری آئین کی راہ ہموار کی جبکہ یہ واضح تھا کہ تمام تر اختیار کا استعمال لوگوں کے منتخب نمائندے ہی کریں گے۔گویا کہ پاکستان کے عوام اور وہ طبقہ جس نے استعمار کے بعد اختیار سنبھالا تھا، ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ لوگوں نے تقسیم ہند کی حمایت کی تھی اور آل انڈیا مسلم لیگ "پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ”کے نعرے کی وجہ سے ہی لوگوں کو تقسیمِ ہند کی تحریک کے لیےاپنے پیچھے اکٹھا کر پائی تھی۔ گو کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے نمایاں قائدین بمشکل مذہبی رجحان رکھتے تھے، لیکن جس تحریک کی وہ قیادت کر رہے تھے اس کی بنیاد مذہب تھی۔ تقسیم کے بعد عام عوام کو شبہات تھے کہ انھیں وہ اسلامی ریاست نہیں ملی کہ جس کی انھوں نے خواہش کی تھی، بلکہ اس کی جگہ انہیں ایک روایتی جمہوری ریاست ملی ہے۔ قراردادِ مقاصد کی شکل میں انہیں اس چیز کا ایک اور ٹیکہ لگایا گیا، کہ جس چیز نے انھیں تحریکِ آزادی کی حمایت پر آمادہ کیا تھا، یعنی اسلام کی خواہش۔قراردادِ مقاصد کے مطابق حاکمیت اعلیٰ اللہ کے پاس ہے، لیکن اس کا عملی استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعےسے ہو گا۔ انہی نمائندوں کو چننے کے لیے 25 جولائی کو انتخابات منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کے ذریعے "برطانوی راج” کے بعد آنے والوں کے لیے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ بتدریج جمہوری طریقے سے ہی استعمال ہو گی۔
حاکمیتِ اعلیٰ قانون بنانے کی طاقت ہے اور اللہ کی حاکمیت شریعت میں نظر آتی ہے۔ قراردادِ مقاصد نے اس سے فراریہ کہہ کےکر دیا کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گااور اس کے نتیجے میں اسلامی نظریاتی کونسل کالائحہ اختیار کیا گیا، ایک سرکاری ادارہ جو قوانین کو قرآن و سنت سے مطابقت کے لیے پرکھتا ہے اور پارلیمنٹ کو رپورٹ بھیجتا ہے جو پھر اس رپورٹ کی روشنی میں ترامیم کرتی ہے۔ لیکن پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے۔ لہٰذا یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ قوانین جن کو غیر اسلامی قرار دیا جاتا ہے، نافذ ہی رہتے ہیں جب تک کہ پارلیمنٹ کچھ نہ کرے۔ لہٰذا حاکمیتِ اعلیٰ کی اصل مالک اوراصل قانون ساز پارلیمنٹ ہی ہے۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوریت کہ جگہ فوجی اقتدار سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہو جاتی۔ پہلے مارشل لاء کے بعد بھی ایک آئین نافذ کیا گیا اور دوسرے مارشل لاء کے نتیجے میں بھی، کافی تبدیلیوں کے بعد، 1973 کا آئین نافذ کیا گیا۔
اس کے بعد بھی دو مارشل لاء آئے مگردونوں نے 1973 کے آئین کو قائم رکھا، گو کہ مارشل لاء کے بعد منتخب پارلیمنٹ نے کچھ تبدیلیاں کیں ۔جبکہ ان کے لیے 1973 کا آئین قائم رکھنا بالکل ضروری نہیں تھا، جیسے کہ 1958 کے مارشل لاء نے 1956 کے آئین کو معطل کیا اور 1969 کے مارشل لاء نے 1962 کے آئین کو معطل کیا۔ یہ قابلِ غور بات ہے کہ مارشل کے قانون کے مطابق پارلیمنٹ کی قانون سازی کی طاقت چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (یا 1999 میں چیف ایگزیٹو) کے ہاتھ میں چلی گئی تھی۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ ایک ملک جو اسلام کے نام پر قائم ہوا، اس میں ایک ایسا آئین ہو جو اسے معاملات اسلام کے برخلاف چلانے کی اجازت دے۔ شاید اس کا ایک اشارہ بنیادی ڈھانچے کے تصور سے ملتا ہے جو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے جاری کیا اور پاکستانی سپریم کورٹ نے اسے مسترد نہیں کیا۔ اس تصور کے مطابق آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ ہے جس کو پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی، نہ ہی آئینی تبدیلی کے ذریعے اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ آئین کی تشریح کرتے وقت سپریم کورٹ اس بنیادی ڈھانچے کے خلاف جانے والی آئینی ترامیم کو بھی ختم کر سکتی ہے۔ اس طرح ایک انداز سےآئین کا یہ بنیادی ڈھانچہ عوامی نمائندوں سے محفوظ رکھا گیاہے۔ اس میں سے ایک نمایاں چیزنظام کا جمہوری طرز ہے، اس سوچ کے ساتھ کہ یہ تونظام کے لیے لازمی ہے۔
واضح طور پر ہندوستان کو تقسیم اور پاکستان کو آزادی اس لیے نہیں دی گئی تھی کہ مسلمان اسلام کے مطابق زندگی گزاریں، بلکہ دنیا میں ایک اور جمہوریت لانے کے لیے تھی۔حقیقی نجات اور حریت صرف خلافت علیٰ منہج نبوت سے ہی ممکن ہو گی اور اس خطے کے لوگ اسلام کے نظاموں کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش کو پورا کر سکیں گے۔برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں حصہ اس لیے نہیں ڈالا تھا کہ کوئی جمہوری نظام آئے، جس سے محض نظام کے اوپر بیٹھےچہرے تبدیل ہو جائیں جبکہ وہ نظام بدستور ظلم اور استعماریت پر ہی مبنی ہو۔ اس وقت کا ہدف ایک اسلامی نظام کا قیام تھا تاکہ اس وقت کے سرمایہ دارانہ نظام سے اس کو تبدیل کیا جائے۔ وہ مقصد آج بھی موجود ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام آج بھی رائج ہے، جیسے باقی مسلم دنیا میں، اور لوگ ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو ان کو ایک عزت دار، خوشحال اور پرامن زندگی دے، جس میں کوئی ظلم نہ ہو، اور یہ صرف اللہ کے دیے قوانین کے نفاذ سے ممکن ہے۔اس کی بجائے لوگوں کوجو پیش کیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ مختلف جماعتوں میں سے کسی کا انتخاب کریں جو اس نظام میں ہی پیوند لگانے کی آفر کرتی ہیں۔ یہ شاید اس لائحہ عمل ہی کی فطری ناکامی ہے کہ مشاہدہ کرنے والے اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ووٹروں میں جوش کی کمی ہے۔ یہ جوش تب ہی بڑھے گا جب انھیں اس نظام میں صرف کچھ ردوبدل کی بجائے اس نظام کی مکمل تبدیلی کا موقع فراہم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس امریکی راج کو مزید ایک اور سال گزرنے نہ پائے اور اس سے پہلے ہی اس زمین کو امت کی ڈھال نصیب ہو، ایک خلیفۂ راشد جو اسلام کے ذریعے حکمرانی کرے اور ہمیں دشمن کے خلاف ایک کر دے۔ آئیں ہم مل کر اس زمین پر جمہوریت کے ظلم اور بربریت کو ختم کرنے کی کوشش کریں، تاکہ ہم نبی ﷺ کی بشارت حاصل کر سکیں، جب آپ ﷺ نے فرمایا:
ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ثُمَّ سَكَتَ
"پھر ظلم اور جبر کی حکومت ہو گی، اور وہ تب تک رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر جب اللہ اس کو ختم کرنا چاہے گا، ختم کر دے گا۔ پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی۔ پھر آپ ﷺ خاموش ہو گئے”۔ (مسنداحمد)
ختم شد