پاکستان کاخستہ حال تعلیمی نظام ملک کے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کر رہا ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان میں تعلیم کا معیار مسلسل گر رہا ہے۔پرائمری اسکولوں کے تقریبا ًآدھے طالب علموں کو پڑھنا اور لکھنا تک نہیں آتا۔ملک کا یہ غیرمعیاری تعلیمی نظام غربت کے خاتمے میں ناکامی کی ایک اہم وجہ ہے،اور اس سے ہمیں اپنے حکمرانوں کے اس نام نہادقومی ایجنڈا کے بارے میں ان کی دھوکہ دہی کا پتہ چلتاہے۔الف اعلان پاکستان کی ڈسٹرکٹ درجہ کی تعلیمی رپورٹ2015، تعلیمی معیار کی سالانہ اسٹیٹس رپورٹ 2014، پاکستان شماریات کا بیورو، PSLMS 13-2012 ،اکیڈمی آف ایجوکیشن پلانگ اور مینجمنٹ اور نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم 14-2013، کی یہ سب رپورٹیں ایک انتہائی مایوس کن تصویر پیش کر رہی ہیں بشمول اُن شہری علاقوں کے کہ جہاں تعلیمی معیار کے بہترین ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔تقریباً 41 فیصد لاہورمیں،45 فیصد کراچی میں،50 فیصد اسلام آباد میں اور 30 فیصد راولپنڈی میں پرائمری کے طالب علم سادہ الفاظ پر مشتمل جملے پڑھنے اور لکھنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتے۔ 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 154144 اسکولوں میں سےصرف52 فیصد میں عمارتوں کے ضروری بنیادی ڈھانچےکےچاراجزاء بیرونی دیوار،بجلی، پانی اور واش روم موجود ہیں، جبکہ 11 فیصد اسکولوں میں دستیاب چار بنیادی سہولیات میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے۔حکومت کی طرف سے تعلیم کے شعبے میں انتہائی کم سرمایہ کاری پاکستان کے تعلیم کے شعبے کی خراب کارکردگی کی اہم وجہ ہے۔آزادی کے بعد سے لے کر آج تک پاکستان کی حکومت،اس مسئلےکی شدت کوپہچاننےمیں ناکام رہی ہے۔
گذشتہ70سالوں میں تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں،اور یہ سب ناکامیاں پاکستان کےسیکولرنظام میں موجودبنیادی خامیوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔پہلی تعلیمی کانفرنس کراچی میں اس وقت کےگورنرجنرل محمدعلی جناح کی سربراہی میں منعقدہوئی تھی۔اگرچہ اس میں کئی پالیسیوں کااعلان کیا گیا تھااوربہت ساری کمیٹیاں تشکیل دیں گئی تھیں،مگریہ کانفرنس ناکام رہی،اورنوزائیدہ مملکت میں مہاجرین کی تعداد اور دیگرانتظامی مسائل کو اس کانفرنس کی ناکامی کے لیےموردالزام ٹہرایا گیا،لیکن برطانوی نوآبادیاتی نظام ملک میں جاری وساری رہا۔اس کےبعد سےکئی پالیسیوں کااعلان کیا گیالیکن وہ بھی مطلوبہ ا ہداف حاصل کر نےمیں ناکام رہی ہیں۔
1959، 1970، 1972، 1979، 1992، 1998اور 2009میں کچھ پالیسیوں کا اعلان کیاگیا لیکن الفاظ بدل بدل کے اسی فارمولےکولاگوکیا گیااور ہر گذشتہ ناکامی کےلئےمختلف سیاسی حالات پرالزام ڈال دیا گیا۔-11 2010 میں آرٹیکل A25 متعارف کرایا گیا،جس میں بیان کیاگیاتھا: "قانون کے مطابق ریاست16-5سال کی عمرکےتمام بچوں کو مفت بنیادی اور لازمی تعلیم فراہم کرےگی”،لیکن یہ آرٹیکل اب تک صرف ایک خواب ہی ہے۔
اسلام میں نہ صرف تعلیم ایک بنیادی حق ہے جسے حکومت کو اپنے تمام شہریوں،چاہےوہ مرد ہوں یا عورت،مسلم ہوں یا غیرمسلم کوفراہم کرنا لازم ہے، بلکہ علم کاحاصل کرنا ہرمومن مرد اور عورت پر فرض ہے،جیسے کہ انس بن مالک سےروایت ہے کہ:رسول اللہﷺنےفرمایا :»طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم« "علم کا حاصل کرنا ہرمسلمان پرفرض ہے۔”
ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں 16-2015 کے بجٹ میں تعلیم کے لئے ترقیاتی اخراجات 969،039 ملین مختص کیے گئے ،جو کہ جی ڈی پی کا صرف 2.3 فیصد ہے جبکہ جنگ سے تباہ حال افغانستان نے4 فیصد مختص کیے ، بھارت نے7 فیصد مختص کیے تھے اور روانڈا نے اپنے جی ڈی پی کا 9 فیصدتعلیم پر خرچ کیا ہے۔
ملک میں ایک سے زیادہ تعلیمی نظاموں کی موجودگی اس بات کی ایک اہم نشانی ہے کہ حکومت اپنے تمام شہریوں کو اچھے معیار اور ایک ہی قسم و نوعیت کی تعلیم فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔مزید برآں،سرکاری،نجی اور اسلامی تین قسم کے اسکول تین مختلف سمتوں میں کام کر رہے ہیں اور تین مختلف ذہنیتوں کو فروغ دے رہے ہیں،جس کی وجہ سے تین مختلف طرح کی سوچ کے لوگ پروان چڑھ رہے ہیں۔سرکاری اسکولوں کی سہولتوں کی انتہائی کمی، نصاب کی فرسودگی اور بد حال انتظامی امور کی اپنی خوفناک کہانیاں ہیں۔
2011 کی یو ایس ایڈ کی طرف سے تعلیم پر تیار کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے پبلک اسکولوں میں سے 37 فی صد میں کوئی باتھ روم نہیں ہیں، 85 فیصد میں بجلی نہیں ہے اور دیہی علاقوں میں تقریباً 50فیصد اسکولوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے۔ یونیسکو کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسکولوں میں گنجائش سے بہت زیادہ پُر ہجوم کلاس رومز میں پاکستان جنوبی ایشیا میں پہلے نمبر پر ہے،جس کا تناسب ہر تین اساتذہ کے لئے پانچ سو طالب علم ہے۔یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے کو بہت بُری طرح نظر انداز کیا گیا ہے،اور اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران تعلیم کے لیے اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے کوئی دلچسپی رکھتے ہی نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی جانوں کو اللہ کے دشمنوں کو فروخت کرنے میں اندھے ہوچکے ہیں۔رسول اللہ ﷺنے فرمایا:»مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ« "ایسا کوئی حکمران نہیں ہے کہ جو مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے اور انہیں دھوکہ دیتے ہوئے مر جائے، سوائے اس کے کہ اللہ نے جنت اس پر حرام کردی ہے”ٓ(بخاری)۔
مزید برآں،حکام پوشیدہ طریقوں سے پیسہ کمانے کے لئے تعلیم کے شعبے کو استعمال کرتے ہیں،جیسے کہ گھوسٹ اسکول(یعنی وہ اسکول جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے)،جن کی شکایات زیادہ تر سندھ اور بلوچستان کے علاقوں سےہیں۔
بلوچستان کے وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارت وال نے اسمبلی کے ایک اجلاس میں چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ،تقریباً 900 گھوسٹ اسکولوں کے تین لاکھ طلبہ کے جعلی اندراج کا پتہ چلا ہے اور60 ہزار میں سے15 ہزار اساتذہ کے ریکارڈ نامعلوم ہیں۔ان ‘نامعلوم’ اساتذہ کی تنخواہیں ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ادا کی جارہی ہیں اور یہ اساتذہ عام طور پر مقامی سیاستدانوں کے جاننے والے یا خیرخواہ ہیں،جبکہ ان سکولوں میں داخل ہونے والے کچھ طالب علم اِن چودھریوں اور وڈیروں کے کھیتوں میں مزدوروں کے طور پر کام کر رہے ہیں۔اس طرح کی دھوکہ دہی سے ایک بڑی رقم بنائی گئی ہے۔
دوسری طرف مدرسے، جو تعلیم کا ایک دوسرا ذریعہ ہے،11/9 کے بعد سے حکومت کے غضب کا شکار ہیں۔جنوری 2015 میں شروع ہونے والے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے 18 میں سے 10 نقات مدرسوں کو رجسٹر اور ریگولیٹ کرنے اور نام نہاد فرقہ وارانہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے حل کے حوالے سےہیں۔البتہ جو واحد کام حکومت نے مدرسوں کے حوالے سے کیا ہے وہ اپنے آقا امریکہ کے مفاد کے لیے ان مدرسوں کے نصاب کو سیکیولر بنانے کی کوشش ہے۔اس کے برعکس،مدرسےجو پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لئے ایک قسم کی مفت تعلیم کا واحد ذریعہ ہے،ان کے تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے حکومت کو کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ایک اور معاملہ جو کہ تعلیم پر اثر اندازہوتا ہے وہ امتحانات کا نظام ہے۔طالب علموں کی صلاحیتوں کا فیصلہ کرنے لئے امتحانی پرچوں میں تنقیدی سوچ اور حساب کتاب کی قابلیت کو جانچنے کے طریقوں کے بجائے،فرسودہ رٹے بازی کے طریقے پر انحصار شدہ سوالات بنائے جاتے ہیں۔یہ طریقہ میٹرک سسٹم میں استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کا انتخاب کرنے کا واحد سبب یہ ہے کہ یہ لوگوں کے لئے سستا ہے۔مزید برآں، تنقید ی سوچ ،جو کبھی اسلامی تمدن کا معیار ہوا کرتی تھی اور امت کے شاندار دماغوں کے پروان چڑھنے کا ذریعہ تھی،اب مفقود ہے،کیونکہ یہ سوچ یا تو کسی ناپید تعلیمی نظام کی قربان گاہ پر قربانی کردی گئی ہے،یا یہ اس ملک سے ذہین لوگوں کے انخلاء کی شکل میں ہم سے چھین لی گئی ہے۔مغربی یونیورسٹیاں حقیقت میں گھات لگائے نجی اسکولوں کے تعاون سے پاکستان کے شاندار دماغوں کو تلاش کرتی ہےتاکہ انہیں پاکستان یا باقی مسلم دنیا کی آبادی کے فائدے کے بجائے مغربی ریاستوں کے فائدے کے لیے استعمال کیاجاسکے۔
نجی شعبے کے اسکول حکومت کے بنائے ہوئے نصاب کےمطابق تو چلتے ہیں مگر ان کا طریقہ تعلیم بالکل مختلف ہے۔مثال کے طور پر اشرافیہ کے بچوں کے لیے کام کرنے والے ایلیٹ نجی اسکول اپنے طالب علموں کو غیر ملکی امتحانات کے لئے تیار کرتے ہیں ،جبکہ عام نجی اسکول اپنے طالب علموں کو مقامی امتحانی بورڈ کے امتحانات کے لئے تیار کرتے ہیں۔ایلیٹ اسکول اپنی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بہت زیادہ فیس لیتے ہیں،اور اگر والدین یہ خرچہ برداشت کرسکتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینے کی خواہش میں اس ذریعہ تعلیم کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان ایلیٹ اسکولوں میں اتنے پیسےخرچ کرنے کے باوجود بھی، زیادہ تر والدین کو شام کو ٹیوٹر رکھنے یا اپنے بچوں کو اکیڈمیوں میں بھیجنے کی ضرورت پڑتی ہے جو ان والدین کا اپنے بچوں کی تعلیم پر پیسے اور وقت کے خرچ میں غیر ضروری اضافے کا سبب بنتا ہے۔پاکستان میں ایک آدمی کی اوسط سالانہ آمدنی 1513 ڈالر ہے، جبکہ ایک اعلیٰ درجے کے نجی ایلیٹ سکول کی مڈل تک کی تعلیم کی اوسط سالانہ فیس 2800 ڈالر ہے اور بعد میں ہائی سکول تک پہنچتے پہنچتے یہ اوسط سالانہ فیس بھی 5200 ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ،اے اور او لیول کے امتحانات کی امتحانی فیس الگ لی جاتی ہے جو ان اسکولوں کی ماہانہ تعلیمی فیس کے اخراجات کے علاوہ ہے۔نجی ایلیٹ سکولوں کی یہ تعلیم ان بچوں کو دنیاوی لحاظ سے تو کچھ فائدہ حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے،لیکن آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کے لحاظ سے ناکام ہے کیونکہ یہ ادارے اسلام کی صحیح تعلیمات سیکھانے سے محروم ہیں۔
درحقیقت نوآبادیاتی طاقت ، کہ جس نے ہم پر حکمرانی کی ہے، نے ہمارا تعلیم نظام اس طرح ڈیزائن کیا ہے کہ جو ہماری ذہنیت کو تبدیل کردے اور ہمارے دماغوں کو سیکولر بنا دے،یہ گلاسڑا نظام ہمارے تعلیمی شعبے کے تمام مسائل کا بنیادی سبب ہے۔ کسی بھی قوم کے لیےتعلیم کا ایک اہم مقصد دنیا میں ہونے والی نئی سے نئی ایجادات اور ترقی سے ہم آہنگ رہنا،اور دنیا میں دوسری اقوام سے آگے نکلنا اور ممتاز مقام حاصل کرنا ہوتا ہے۔اسلام سائنس کے مطالعے، نئی پیش رفتوں اور ایجادات سے متعلق علم میں مہارت اور ترقی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی ضروری اقدامات کرتا ہے کہ یہ سب اسلامی عقیدہ سے پوری طرح جوڑے رہیں۔اسلام میں تعلیم کا مقصد اسلامی شخصیت کی تعمیر اور ساتھ ہی زندگی کے معاملات سے متعلق لوگوں کو علم فراہم کرنا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے تدریس کے طریقے وضع کیے جاتے ہیں؛کوئی بھی طریقہ جو اس مقصد کے حصول کے خلاف ہو رد کردیا جاتا ہے۔اسلامی تاریخ سائنسی، مذہبی، فلسفیانہ اور ثقافتی پیش رفت سے بھری پڑی ہے اور اس کی وجہ اسلامی حکمرانوں کی تعمیر و ترقی کے مقصد سےمخلص ہونا تھا۔یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ گلوبل انوویشن انڈیکس کی 2015 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان 141 ممالک میں سے 131 نمبر پر آیا تھا-جو کہ ملک میں بنائی گئی اقتصادی تعمیر و ترقی سے متعلق ہماری ناکام پالیسیوں کی ایک مایوس کن تصویر ہے۔پاکستان کی اتنی خراب صورت حال کی وجہ سے قومی اسمبلی کی انکوائری کمیٹی کی طرف سےجواب طلبی پر وزارتِ سائنس وٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ میں مندرجہ ذیل وجوہات بیان کی گئیں:
1 ) سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح فیصد کا کم ہونا۔
2 ) ہمارے تعلیمی اداروں میں سائنسی تعلیم کا ابتر معیار۔
عربی زبان کی تعلیم پر بھی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، نتیجے کے طور پر مسلم نوجوان قرآن کو سمجھنے سے دور ہوتے جار ہے ہیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کیا جارہا ہے کہ عربی صرف کوئی روایتی زبان نہیں ہے بلکہ یہ وہ زبان ہے کہ جو دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو متحد کرتی ہے۔ اسلام کےسنہرے ادوار میں سائنسی علم عام طور پر اُن قرآنی آیات کے مطالعے سے شروع ہوا تھا جو مسلمانوں کو علم کے حصول کے فروغ اور دنیا کو مسخر کرنے کو کہتا ہے۔پاکستان میں آنے والے ہر حکمران نے ایسی پالیسیاں بنائیں کہ جس کی وجہ سے ہر آنے والی مسلمان نو جوان نسل سے حقیقی علم کی دولت اور عظمت چھنتی چلی گئی۔یہ نوجوان دیکھتے ہیں کہ ان کے والدین اپنی زندگیوں کا بہترین حصہ روز مرہ کے خرچوں کو بمشکل پورا کرنے اور انہیں بہتر تعلیم فراہم کرنے کی جدوجہدمیں خرچ کر دیتے ہیں ،اور اس پر مذاق یہ ہے کہ تعلیم بھی ایسی کہ جو انہیں نہ صرف ایک اچھی ملازمت حاصل کرنے کے قابل نہیں بناتی ، بلکہ اس کے برعکس یہ تعلیم انہیں اکثر اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے محروم رہنے کی قیمت میں حاصل ہوتی ہے۔
یہاں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان سب مسائل کا حل نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام پر مبنی اسلامی تعلیمی نظام ہی سے ممکن ہے ۔ حزب التحریر نے واضح اور جامع شکل میں اس اسلامی تعلیمی نظام کو اپنے آئینی مسودہ کے کتابچے ، ” ریاستِ خلافت میں تعلیمی نصاب کی بنیادیں” اور اپنی کچھ دوسری ثقافتی کتب میں بھی شائع کیا ہے۔اسلامی تعلیمی نظام ہی آج کی اور آنے والی ہماری نوجوانوں نسل کے تمام مسائل کا حل فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حکم پر مبنی شرعی احکامات سے اخذ شدہ ہے لہٰذاصرف یہی مسلم نوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے،جبکہ آج ان نوجوان کو جان بوجھ کر اندھیرے راستوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے یعنی بے راہ روی کا وہ راستہ کہ جوان کی زندگیوں میں بےسکونی اور بے یقینی لا رہا ہے اور ان کی آخرت کو بھی برباد کررہا ہے۔
صرف خلافت کا قیام ہی یقینی بنائے گا کہ یہ نظام ایماندارانہ طور پر نافذ ہو۔اور پھرصرف اُسی وقت ہم حقیقی علم کی طاقت کو دیکھ سکیں گے۔اس تعلیمی نظام میں مدبرانہ طریقوں پر علم فراہم کیا جائے گا، یہ ایسے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ مسلم نوجوانوں کو قابل انسان بنائے جو دنیا بھر میں اسلام کی روشنی پھیلائیں گے اور جو دنیا میں علم کے تمام شعبوں میں سبقت لے جائیں گے اور اس ہی کے ذریعہ اپنے لئے جنت کا راستہ کھولیں گے جو ہر مسلمان کے لئے ایک حتمی مقصد ہے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
»مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ«
"جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر سفر کرتا ہے تو، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے جنت کی طرف جانے والے راستوں میں سے ایک پر سفر کرنے کی توفیق عطا کر دیتا ہے”
اخلاق جہاں
مرکزی میڈیا آفس
حزب التحریر
ختم شد