کیا اردگان ترکی میں خلافت کے اعلان کی تیاریاں کر رہا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بلاشبہ عہدِ حاضر کے مسلمان خلافت کے لیے بے تاب ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی تڑپ رکھتے ہیں،تقریباً پورے عالم اسلام پر ٹوٹ پڑنے والی بد ترین ذلت و بربادی کے اس عمومی منظرنامے اور ملبے کاڈھیر بنے عالم اسلام کے کھنڈرات پر سے کھڑے مسلمانوں کی نظریں آج ایک زلزلے کی منتظر ہیں، یہ زلزلہ تب ہوگا جب ترک مسلمان عرب ممالک بلکہ پورے عالم اسلام میں سے خلافت کی طرف پہل کریں گے اور اپنے پروردگار کے سوا کسی اور کی وفادار ی کواور اپنے عظیم دین اسلام کے نظام کے علاوہ تمام دیگر نظاموں کو جھٹک دیں گے۔ اسلام نے عربوں کو ایک الگ تھلگ رہنے والی قوم کی سطح سے، جس کی دیگر اقوام کی نظروں میں کوئی قیمت اور وقعت نہیں تھی، اُٹھا کر انہیں سرداری اور جہانبانی کی چوٹی پر لا کھڑا کیا، مگر یہ اس وقت ہی ہوا تھا جب قوم حجاز نے اسلام کے زرّین احکامات کے بل بوتے پر اپنے داخلی حالات کو ٹھیک کر لیا اور انتہائی قلیل عرصے میں وہ قوت و طاقت اور دبدبہ و شوکت حاصل کی جس کو آج بھی سیاسی دانشور اپنے مطالعہ میں رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے آس پاس کے علاقوں میں جنگی معرکے سر کرنے اور اسلامی ثقافت کوفروغ دے کر اسلام پھیلانے لگے، الجزیرہ کے عرب قبائل اس جدید دین کی طرف لپک گئے، چنانچہ محمدﷺ کی قائم کردہ ریاست کا پہلا عشرہ مکمل ہونے سے بھی پہلے اسلام کی جڑیں مضبوط ہوگئیں،اس کے بعد عربوں نے دنیا کی بڑی ریاستوں کو للکارنا شروع کیا۔یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں دوبارہ موقعہ ملا اور ریاستِ خلافت الثانی قائم کردی ،تو کیا ایسا ممکن ہے کہ یہ دوسری خلافت بھی اُسی پہلی ریاست جیسی بن سکے گی،مسلمان تو اس کا جواب مثبت دیتے ہی ہیں ،کہ جی ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔ کفریہ ریاستوں کے مفکرین بھی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور بڑی ریاستوں کے سیاستدان اسلام کی دوبارہ واپسی سے لرزہ براندام رہتے ہیں۔ انہیں جس چیز کا خوف لاحق ہے وہ یہ ہے کہ کہیں آج کی طاقتور ترک ریاست کے ہاتھوں عظیم اسلام کی واپسی کا آغاز نہ ہو جائے ، کیونکہ ترک قوم جو خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ سے آشنا ہے،دین اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کے خواب دیکھتی ہے، عثمانی خلافت کے دور میں اِستنبول اسلامی ریاست اور پوری اُمت کا مرکز تھا، ترکی کے علاوہ مغربی سیاسی سورماؤں کو طاقتور پاکستان سے بھی ڈر لگا رہتا ہے ، ان کے لیے مصر کی صورتحال بھی کسی خطرے سے کم نہیں، جو عظیم فوجی طاقت کی حامل ریاست ہے اور بحر متوسط اور بحر احمر کے کنارے پر واقع دنیا کا اہم ملک ہے،نہر سویز کی عالمی تجارتی گزرگاہ اس میں واقع ہے۔ عالم اسلام کے اندر موجود اپنے دین اسلام کے ساتھ والہانہ محبت اور اسلامی ریاست کے قیام کی صلاحیت و قابلیت بڑی ریاستوں کے سیاستدانوں کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر خظرہ ہے ،یہ صورتحال ان کے پہلوؤں میں کانٹوں کی طرح چبھتی ہے، ان حالات میں بالخصوص امریکا کی بے چینی سمجھ میں آتی ہے۔
خلافت کے زلزلہ سے امریکی اور یورپی بے چینیوں کی حقیقت جاننے کے لیےاتنا ہی کافی ہے کہ ان کے خیال میں امت مسلمہ اب ان کے کنٹرول میں نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں مغرب مسلم ممالک کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں بآسانی اپنی مرضی چلایا کرتا تھا اور تمام معاملات اس کے قبضے میں تھے، لیکن اس صدی کے شروع ہوتے ہی امت نے کروٹ لی ، اور نئے قسم کے حالات دیکھنے میں آئےجو یورپ کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ان حالات کا مشاہدہ پہلی بار 2001 میں ہوا ، جب افغان طالبان نے القاعدہ سے الگ ہونے کا مطالبہ مسترد کردیا ، جسے امریکہ نے نائن الیون کے حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور امریکی مطالبہ ماننے کے بجائےطالبان نے جنگ کو ترجیح دی تھی، جس کے نتیجے میں امریکہ کی افغانستان پر حملے اور قبضے کے بعد طالبان کو اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ شروعات تھیں ، اس کے بعد2003ء میں امریکہ نے عراق پر قبضہ کر لیا۔ امریکہ نے بڑی دھوم دھام سے عراقی فوج کو شکست دینے کا اعلان تو کردیا مگر اس کے بعد جب عراق کی دلدلوں میں امریکی افواج کی کھالیں کھینچی گئیں تب اُسے اندازہ ہوا کہ مقابلہ سخت ہے ، اور اس کی آنکھوں کے سامنے شکست کے آثار دکھائی دینے لگے۔ پھر 2011ء میں عرب بہار کی تحریکوں نے سر اٹھایا جس کا نعرہ تھا "حکومت کو گرا کر ختم کرنا ہے”،یعنی امریکہ یا یورپ کی ایجنٹ حکومتیں،جو متعفن اور بوسیدہ ہو کر کب سے عوامی مقبولیت کھوچکی ہیں، یہاں تک کہ اب یہ سقوط کے دہانے پرپہنچ گئی ہیں۔ چونکہ امریکی و یورپی خفیہ اداروں کے اذہان میں اس قسم کی تحریکوں کی کوئی توقع نہیں تھی،اس لیے ان ریاستوں نے بے قابو ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بڑے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ 2011 میں شروع ہونے والا انقلابِ شام کا ایک مخصوص انداز تھا، اس میں حکومت گرانے کے ساتھ ساتھ خلافت ِ راشدہ کے قیام کا نعرہ بھی پر زور طریقے سے بلند کیا جانے لگا،چنانچہ امریکہ نے اس کے خلاف طاقت کا بہت زیادہ استعمال کیا ۔ اس بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں ایران اور روس اور دیگر کو شامی حکومت کا ہمنوا بننے کا آرڈر دیا ، جبکہ امریکہ نے باور یہ کرایا کہ خود وہ شامی حکومت اور اس کے حلیف ریاستوں ایران اور روس وغیرہ کا مخالف ہے ۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی مذکورہ پالیسی اس کی ضرورت اور ناگزیراسٹریٹجی تھی ، ورنہ حالات سنگین ہوجاتے اور بے قابو ہوکر اس کے ہاتھ سے نکل جاتے ۔ مختصر یہ کہ انقلاب ِ شام کی صورتحال سے امریکہ کا یہ خوف بڑھتا گیا کہ اب نبوت کے نقش قدم پر قیامِ خلافت کا زلزلہ آیا چاہتا ہے۔
یہاں دو قسم کے مسئلے منظر عام پر آئے۔ ایک ،شامی انقلاب کو گھیرا ڈالنے کے لیے ترکی بڑے پیمانے پر امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے لگا ، اس کا اصل سرمایہ یہ تھا کہ ترکی میں بر سر اقتدار پارٹی کو "اسلامی پارٹی” سمجھا جاتا ہے اور اس کا صدر رجب طیب اردوگان کو "معتدل اسلامی” تحریکوں کے ہاں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے ۔ دوسرا یہ کہ موصل میں "جعلی خلافت "کا اعلان کیا گیا۔ انہی دو مسئلوں کی بنا پر امریکہ میں ایک جدید فکر پروان چڑھی کہ” عثمانی ترکی” ہی عالم اسلام کی اس بے قابو صورتحال کو کنڑول کرنے کا ایک کامیاب ذریعہ ہوسکتا ہے۔ ” اس امریکی سوچ کی سنجیدگی کے ثبوت کے لیے CNN کی عربی نیوز سروس نے 12 جون 2014 کو بیان کیا” سالہا سال سے سیاسی پنڈت یہ پیشن گوئیاں کر تے آرہے ہیں کہ چند عوامل جن میں سے بعض کا تعلق تاریخ کے ساتھ اور بعض کا نئی اور اہم قرار دادوں کے ساتھ ہے ، ایسے سامنے آئے ہیں جو اس دہکتے بھڑکتے خطے میں جلنے والی آگ پر مزید تیل چھڑکا نے کا باعث بن سکتے ہیں”۔ دوسری طرف ” اٹلس کونسل” کے مفکرین وارننگ دیتے نظر آتے ہیں کہ عرب خطے میں انارکی سے ایک تصور کے جنم لینے کا خدشہ ہے جس کی بنیاد وسیع وعریض ریاست خلافت کا قیام ہوگا”۔ 2016 میں امریکی ماہرین نے انتباہ کیا کہ امریکہ کو دو بڑی جنگوں کا سامنا ہے ، ایک اسلامی سرزمینوں میں اور دوسری چین کے ساتھ۔
اس کا مطلب ہے کہ اپنے عالمی اثر و رسوخ اور بین الاقوامی حیثیت کی حفاظت کے پیش نظر امریکہ نہایت سنجیدگی سے اس امکان پر غور کر رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ حالات کا نتیجہ ریاست خلافت کے قیام کی شکل میں دیکھنا پڑے،اس لیے وہ ابھی سے تیاری میں مصروف ہے۔ اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لیے ترک حکومت کی حقیقت اور اردوگان کے ایجنٹ ہونے کے معاملے پرنظر ڈالنا ضروری ہے،یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ "موڈریٹ اسلامک” کہلائی جانے والی پارٹیوں کا استنبول اور انقرہ کی طرف کھچ جانے کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے بعد ہم اس پر بات کریں گے کہ امریکہ "عثمانی ترکی ” کے حوالے سے اتنا سنجیدہ کیوں ہوچکا ہے؟اورامریکہ "عثمانی ترکی” کو کیا کیا مراعات دے رہا ہے، اس کے بعد ان عثمانی اشاروں کو مد نظر رکھیں گے جو اردوگان پیش کرنے لگا ہے ،اس سب پر بحث کرنے کے بعد اس اہم امریکی سوچ کی سنجیدگی کے حوالے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے ،اس پوری بحث کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان امریکہ کے اس سیاسی جال میں پھنسنے سے بچ سکیں۔
ترک حکومت کی حقیقت :
ترک حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ یہ واضح طور پر ایک سیکولر حکومت ہے، برطانوی ایجنٹ مصطفیٰ کمال نے خلافت عثمانیہ کے ملبے پر جس نظام کی عمارت کھڑی کی تھی ، آج تک وہی نظام مسلط ہے۔ طرز ِحکومت خواہ اردوگان کا اپنایا ہوا صدارتی نظام ہو،جس کے لیے 2017 میں ریفرنڈم کروایا گیا، یا پارلیمانی ہو جہاں وزیر اعظم ہی سربراہ ریاست ہوتا ہے اور زمامِ حکومت اسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے، دونوں طرز کے نظام سرمایہ دارانہ نظام سے اخذ کیے گئے ہیں جس کا ہمارے عظیم دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، نیز یہ طرز ِ حکومت اور شکل و ہئیت کے اعتبار سے بھی غیر اسلامی نظام ہیں۔ ترکی کی پالیسی کیا ہے؟ داخلی طور پر اس کی پالیسی سرمایہ دارانہ پالیسی ہے نہ کہ اسلامی،کیونکہ ترکی کے موجودہ قوانین وہی انسانوں کے وضع کردہ قوانین ہیں جنہیں پارلیمنٹ منظور کرتی ہے۔ اس کاکوئی قانون شریعت سے اخذ شدہ نہیں ،سوائے چند شخصی شرعی احکام کے۔ شادی کے مسئلے کو دیکھیں ، ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنا ترکی قوانین کی نظر میں ممنوع اور ناجائز ہے، جبکہ ترک قانون ایک مسلمان عورت کو کافر کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دیتا ہے، اس کے عدالتی قوانین بھی انسانوں کے وضع کردہ ہیں،ان کا بھی ماخذ شریعت نہیں۔
اس کے باوجود کہ اردوگان کی بر سرِ اقتدار "جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ "پارٹی کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ یہ ایک اسلامی پارٹی ہے ، مگر یہ ہر گز اسلامی پارٹی نہیں ،یہ محض خوش فہمی ہے، کیونکہ اس نے عصری قوانین میں کوئی تبدیلی کی، نہ ہی ان میں تبدیلی کی کوئی کوشش کی ہے۔ بعض اسلامی کہلائی جانے والی پارٹیاں شرعی احکام کے نفاذ کے لیے تدریجی طریقہ کار پیش کرتی ہیں،اس سے قطع نظر کہ تدریجی نفاذ ( گریجول ازم)کے بارے میں شرعی نقطہ نظر کیا ہے ، سادہ لفظوں میں تصور یہ ہے کہ اسلام کے تدریجی نفاذ کی سوچ پر قائم ریاست اسلام کے کسی ایک جز کو نافذ جبکہ دوسرے کومؤخر کیے رکھتی ہے، اور ہر سال اپنے قوانین کے اندر شرعی احکام میں سے کچھ نئے اضافے کرتی رہتی ہے، یہ تدریج کے بارے میں سادہ تصور ہے، جبکہ ترک صدر اردوگان اور اس کی "اسلامی” پارٹی کسی طرح بھی شرعی احکام کا نفاذ نہیں کرتی ( سوائے ان چند پرسنل لاز کے جس کا ہم نے پچھلی سطور میں ذکرکیا جو اردوگان کے آنے سے پہلے ہی موجود تھے) اور اس کے باوجود کہ وہ ترکی میں 2002 سے حکومت کرتا آرہا ہے ، مگر ریاست کے اندر شرعی احکامات میں اب تک کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا، صدر اردوگان تدریجی نفاذ کا تصور بالکل پیش نہیں کرتا، نہ ہی اس نے کبھی ایسی کوئی بات کی ، اس کے کسی انتخابی پروگرام میں شرعی احکامات کو شامل ہی نہیں کیا گیا، چنانچہ اردوگان کھلم کھلا سیکولر ہے،اورسیکولر ہونا اس کے لیے کوئی عار یا وجۂشرمندگی نہیں۔ اس نے مصر کے دورے میں اخوان المسلمون سے بھی سیکولر ازم کا مطالبہ کیا، جرمن نیوز ایجنسی(DWA ) 13/9/2011) کی رپورٹ کے مطابق "ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان نے مصر کے لوگوں کو اس بات کی تحریک دی کہ وہ ایک سیکولر ریاست کے قیام کے لیے کام کریں،اس نے اس بات پر زور دیا کہ سیکولر ریاست کا مطلب ‘لادین ریاست’ نہیں ہوتا۔ مصری ٹی وی چینل "دریم ” کے ساتھ انٹر ویو کے دوران اردوگان نے سیکولر بنیادوں پر مصرکا دستور مرتب کرنے کا اظہار کیا ، خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ترکی اس وقت ایک متوازن سیکولر ریاست کا نمونہ ہے ، اس نے اشارہ دیا کہ ایک سیکولر ریاست کا وزیر اعظم ہوکر بھی وہ مسلمان ہے۔
اردوگان اور اس کی پارٹی اسلامی احکامات کا راستہ روکنے میں سختی سے کام لیتے ہیں،ڈاٹ مصر14/11/2014 کے مطابق” ترکی میں بر سر اقتدار جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے بحر اسود پر واقع ریزہ شہرمیں اپنے نائب بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں کے پارٹی رکن اور چئیر مین بلدیہ خلیل باکرچی سے سرکاری سطح پر تحقیقات شروع کی جائیں ۔ خلیل باکرچی نے میڈیا پر بیان دیا تھا جس میں انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ترکی میں متعدد شادیوں کی اجازت دی جائے۔ اس کا یہ مطالبہ مملکت ترکیہ کے دستور کے خلاف تھا”۔
اس کے علاوہ ترکی قومیت کا نظریہ ترک حکومت کا جزوِ لا ینفک ہے۔ اس لیے کرد اور عرب مسلمانوں کو ترک ریاست کی اقلیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حکومتی عہدوں کے لیے انہیں ترکیوں جیسی حیثیت حاصل نہیں۔ ریاست اپنی غیر اسلامی ترک قومیت والے مزاج کو چھپاتی نہیں، گویا انہیں اس کا پتہ ہی نہیں کہ محمد ﷺ نے قومیت کو بدبودار کہا ہے(دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ)یعنی” اس کو چھوڑدو، یہ بدبودار ہے”دینِ اسلام ایک اسلامی امت کے درمیان کسی بھی قسم کی تفریق کو مسترد کرتا ہے اور اس کو حرام قرار دیا ہے۔
جہاں تک ترکی کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو یہ بھی مکمل طور پر اسلامی اساس پر نہیں کھڑی ہے، یہ پالیسی ترک ریاست کے لیے ملک سے باہراسلام کی دعوت کو اپناہدف قرار نہیں دیتی۔ اگر امریکہ میں مسجد بنانا یا مغرب میں اسلامک سنٹر کھولنا ہی کوئی بڑا کام ہے تو اس میں ترکی کی کیا خصوصیت ہے،خلیج کے چھوٹی ریاستیں اور مصر ودیگر مسلم حکومتیں بھی تو یہ ‘کارِ خیر’ انجام دیتی ہیں ۔ باہر کے ممالک میں رہائش پذیر تارکین ِوطن مسلمان عالمِ اسلام کے تعاون یا اپنی مدد آپ کے تحت مساجد تعمیر کرواتے ہیں۔ ترکی اپنی خارجہ پالیسیوں میں بھی مسلمانوں کے ساتھ بحیثیت مسلمان تعاون کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا، یہودیوں کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات قائم ہیں اور فلسطینیوں کے خلاف روزانہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود ترکی یہودیوں کے ساتھ عسکری و فوجی تعاون بھی کرتا ہے، یہ وہی تعاون ہے جس کی اردوگان رَٹ لگاتا رہتا ہے۔ ترکی کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں کو جو تعاون دیا جاتا ہے، کسی مغربی ملک کی طرف سے دیے جانے والے تعاون کے دسویں حصے کے بھی برابر نہیں، یہ تعاون بھی یہودی آبادی کی بہبود کے لیے مغربی اسٹریٹجی کے مطابق پیش کیا جاتا ہے۔ اب آتے ہیں شام کی طرف ،جہاں بشار الاسد نے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا ، دور دراز سے امریکہ اپنے حواریوں سمیت شام میں آدھمکا، روس بھی آیا، مگر ترکی نے صرف اس وقت ہی مداخلت کرنی شروع کی جب قتل و غارت گری کا ایک عرصہ بیت چکا تھا، اور مسلمانوں کا خون بے دریغ بہایا جا چکا تھا۔ یہ مداخلت بشار الاسد کے مفاد کے لیے تھی کیونکہ ترک حکومت انقرہ ، آستانہ اور جنیوا میں ترک نواز دھڑوں پر دباؤ ڈالتی رہی کہ وہ بشار الاسد کے ساتھ مذاکرات کریں،ترکی نےان ڈھروں کو ان علاقوں سے باہر نکالا جہاں وہ بشار الاسد کے خلاف بر سر پیکار تھے اور ” فرات شیلڈ” نامی آپریشن میں "تنظیم الدولۃ "کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا ، اور” غصن الزیتون ” نامی آپریشن میں ان دھڑوں کو کرد تنظیموں کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ اس قسم کی تمام مداخلتیں باقی ماندہ مخلص انقلابیوں کے خلاف بشار کی کامیابی کا سبب بنیں۔ روہینگیا جس کی مظلومیت نے پوری دنیا کی آنکھوں کو اشکبار کردیا ،بجائے ان کی عملی مدد کے ترکی نے میانمار کی وحشی فوج کے ساتھ تعاون کیا اور دوسری طرف اعلان یہ کیا کہ ترکی نے روہینگیا مسلمانوں کو اپنا تعاون بھیج دیا ہے، ترکی نے جس انداز میں ان کی حمایت کے لیے آواز اُٹھائی، اس کے بالمقابل بعض مغربی ممالک کی آواز یں زیادہ بااثر تھیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ترکی اپنے حکومتی نظم اور اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی دونوں کے حوالے سے ایک سیکولر ملک ہے،اور اس کے رجحانات اسلامی شرعی رجحانات نہیں ، اس لیے اس سے تدریجی اسلام کے نفاذ کی امیدیں بھی وابستہ نہ کی جائیں ، جبکہ اسلام کے تدریجاًنفاذ کے شرعی طور پر درست ہونے پر بہت بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔ ان امور کے واضح ہونے کے باوجود اردوگان کی ترکی پر اگر کسی کو اسلامی ہونے کا شبہ ہوتا ہے تو وہ خود فریبی میں مبتلا ہے۔ لہٰذا ترکی عالم اسلام کے بقیہ ممالک سے قطعاً مختلف نہیں ،یہ مسلسل اسلام کے داعیوں کا تعاقب کرتا ہے اور ترکی کے قید خانے ان سے بھرے ہوئے ہیں۔ ترک ریاست کو ترکی میں اسلام کے نفاذ کی دعوت برداشت نہیں، اسلام کے نفاذ کی دعوت دینے والوں کو "انتہا پسند” اور ” دہشت گرد” ہونے کا الزام دیاجاتا ہے ، بالکل جیسا کہ مغرب کا طرز عمل ہے۔
بے شک صدر اردوگان ایک ایجنٹ ہے :
اردوگان خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک ایجنٹ کا کردار ادا کرتا ہے، تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو جاننے کے لیے بہت زیادہ گہرائی سے سوچنے کی ضرورت پڑے، کیونکہ ترکی آج کے اردوگان کے دور میں بھی اور اس سے پہلے 1952 سےنیٹو NATOالائنس کاحصہ ہے ، جو کہ قانونی طور پر امریکی عسکری کمان کے تحت ہے ، ترکی میں ہی نیٹو کا سب سے بڑا بیس”انجرلیک” موجود ہے، جہاں سے امریکی جنگی طیارے شام و عراق میں نہتے مسلمانوں پر بمباری کے لیے اڑان بھرتے رہے۔ دوسری طرف ترکی کئی دہائیوں سے یورپی یونین میں شامل ہونے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اور اپنے آپ کو یورپین ریاست کہتا ہے،اس نے یورپی یونین میں شمولیت کی تمام شرائط بھی تسلیم کرلی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، اسی وجہ سے مغربی ممالک نے یورپی یونین میں اس کی شمولیت مسترد کردی ہے مگر اس کے باوجود وہ اپنے اس مطالبے پر بضد ہے اور اس سے پیچھے نہیں ہٹا۔ یہی وجہ ہے کہ ترک ریاست کے خیالات اور خواہشات و رجحانات سب کے سب مغربی ہیں ، اردوگان نے انہیں تبدیل نہیں کیا۔ جہاں تک دنیائے اسلام کے ساتھ اس کے "مضبوط”تعلقات کا تعلق ہے تو یہ یورپی اتحاد میں شمولیت مسترد ہونے کے ردِ عمل کے طور پر ہے۔ دوسرا یہ کہ ترکی کے یہ تعلقات موجودہ عصری نظام کے فریم کے مطابق دیگر ریاستوں اورحکومتوں کے ساتھ قائم کیے گئے ہیں اور ترکی کی طرف سے ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آتی کہ اس صورتِ حال میں کوئی تبدیلی لائی جائےیا اس کو ختم کیا جائے۔ اس پر مزید دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ،یہ سب جانتے ہیں۔
ممالک کی اسٹریٹیجز کو گہری نظر سے دیکھنے والے سیاستدان لوگ بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ترک ریاست کے امریکا کے ساتھ روابط ہیں، امریکا نے ہی اردوگان اور اس کی پارٹی کو ترکی میں تسلط حاصل کرنے کے سلسلے میں متعدد سیاسی وسائل ، مالی مراعات کی فراہمی اور دیگر ذرائع سے سپورٹ فراہم کی ، امریکا ہی یہ چاہتا تھا کہ ترک افواج میں موجود یورپ کے وفادار سرکش جرنیلوں کو لگام ڈالی جائے ، 2016 کی ناکام ہوجانے والی انقلابی جد و جہد کے بعد اس پر تیزی سے عمل کیا گیا ، جبکہ "گولن” کو اس انقلاب کا ذمہ دار قرار دینے کا ڈرامہ رچایا گیا، اس کے ساتھ یہ مصنوعی ڈرامہ بھی کہ اس انقلابی کوشش میں امریکہ کا بھی کچھ دخل تھا۔ اس کے علاوہ شام میں پیش آنے والے حالات و واقعات سے اردوگان امریکا تعلقات کی واضح مثال سامنے آئی، چنانچہ ترک خفیہ ایجنسیاں امریکی ایجنسیوں کے شانہ بشانہ شامی فوج سے الگ ہونے والے افسروں کوکھلم کھلا خوش آمدید کہتی تھیں ، تاکہ شامی” چیف کمیٹی” اور” مسلح برادری کی اعلیٰ کمانڈ” جیسے دھڑوں کی تشکیل کرکےمسلح اپوزیشن کو وجود دیا جائے، یوں شامی انقلاب اور ان عسکری دھڑوں کو حکومت گرانے اور اسلامی ریاست کے قیام کے مقصد سے ہٹا دیا جائے، اس کے لیے ترکی اور امریکا کو واضح انداز میں شانہ بشانہ باہمی کام کرتے دیکھا گیا ، اسی طرح استنبول اور انقرہ میں شامی اپوزیشن کی کانفرنسوں میں یہی کچھ ہوتا رہا جن کا نگران شام کے لیے امریکی سفیر فورڈ ہوا کرتا تھا۔ جب ٹرمپ انتظامیہ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد امریکا نےشام کے مسئلے پر روس کے ساتھ مذاکرات سے کنارہ کش ہونے کا تہیہ کر لیا ، تو امریکہ نے آستانہ مذاکرات میں ترکی کو اپنا نائب بنایا، جس کے نتیجے میں شام میں سیز فائر کرنے ، کشیدگی کم کرنے اورذمہ دار ریاستوں کی سوچ پھیلانے کا امریکی خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ ترکی ان ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے سیز فائر کی ضمانت تودی، مگر بشار حکومت اور روس کی طرف سے سیز فائر کے معاہدات پر عمل نہیں ہوا،کیونکہ ترکی نے اس کی ذمہ داری نہیں اٹھائی تھی۔امن کونسل میں بھی اس کا کردار امریکا جیسا رہاہے، جہاں وہ صرف اپنی پریشانی کا اظہار کردیتا ہے اور کچھ نہیں، جبکہ مجرم بشار شام میں مغربی غوطہ اور مشرقی غوطہ میں اورشیفونیہ وغیرہ کے علاقوں میں قتلِ عام کرتا رہا اور اس سے پہلے ادلب میں خون ریزی کرتا رہا ، جبکہ یہ سب وہ خطے ہیں جہاں کشیدگی کم کرنے کی ضمانت ترکی نے دی تھی۔ اس حوالے سے اس کی پالیسی ہوبہو امریکی پالیسی جیسی ہے، یعنی” شامی حکومت کو فتح حاصل کرنے دو”۔ اس طرح ترک صدر اردوگان کی امریکا کے ساتھ وفاداری ملاوٹ سے پاک وفاداری ہے اور ترکی کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر امریکی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے۔
معتدل اسلامی پارٹیوں ” کا ترکی میں اکٹھا ہونا :
جہاں تک ترکی میں ” معتدل اسلامی پارٹیوں” کے آکر جمع ہونے کا تعلق ہے تو اس کی وجوہات بڑی حد تک واضح ہیں۔ ” لڑاؤ اور حکومت کرو” کی مغربی پالیسی کے مطابق ترکی ایک بڑی "سنی” ریاست ہے، جو تمام سنی اسلامی جماعتوں کو یکجا کرسکتی ہے، جیسا کہ اسی مغربی پالیسی کے مطابق ایران کے لیے تمام شیعہ اسلامی جماعتوں کو یکجا کرنا ممکن ہے، اور چونکہ ترکی میں بر سر اقتدار ٹولہ ایک ” اسلامی” پارٹی کہلاتی ہے ،لہذا اس کے لیے اسلام پسند پارٹیوں کو یکجا کرنا ایک سہل امر ہے ، یہی وجہ ہے کہ اردوگان کے دور میں ترکی میں عرب پارٹیاں سرگرم ہوئیں جو معتدل اسلامی پارٹیاں کہلاتی ہیں، اور استنبول اخوان المسلمون کا قبلہ و کعبہ بن گیا ،بالخصوص ان اشخاص کے لیے جو 2013 میں سیسی کے خلاف برپا ہونے والے انقلاب کے بعد سیسی حکومت کے فرار ی بنے، یہی وجہ ہے کہ وہاں ” معتدل اسلامی جماعتوں ” کی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں اور انہیں تعلیمی گرانٹس دی جاتی ہیں ، اس سے یہ دکھانا مقصود ہے کہ گویا یہ ترکی کی اپنی جدید پالیسی ہے جس کو اردوگان نے اپنایا ہے، اس سے پہلے مصطفیٰ کمال کے تاریک دور سے آج تک بر سر اقتدار آنے والی حکومتوں میں ایسا نہیں دیکھا گیا۔ اس تعاون اور ان مراعات کے باعث معتدل اسلامی پارٹیاں کہلانے والی عرب پارٹیوں کے درمیان اردوگان کو بڑی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، اور اس کو”عظیم مسلم قیادت ” کا خطاب ملا، تیونس کی نہضہ پارٹی کا قائد راشد غنوشی اس کے گن گانے لگا، یہاں تک کہ مصر کے قرضاوی نے اسے السلطان کا خطاب دیا، اورترکی حماس کی بہت سی قیادتوں کے لیے پناہ گاہ بن چکا ہے، بالخصوص جب سعودی عرب اور مصر نے قطر کے گرد گھیرا تنگ کردیا تو قطری حکومت نے ان قیادتوں سے قطر چھوڑ کر نکلنے کا مطالبہ کیا۔اور وہ سب ترکی میں چلے آئے۔
باریکی سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علاقائی قوت کی حامل ریاستوں کی کوشش ہوتی ہے کہ آس پاس کے کمزور ممالک کے اندرونی معاملات پر اثر انداز ہوا جائے، وہ اس کے لیے اس ملک کی پارٹیوں ، اپوزیشن اور مسلح گروپوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اگر بڑے ممالک کا کسی چھوٹے ملک پر مضبوط اثر و رسوخ ہو تو وہ چھوٹاملک اس بڑے ملک کی خاطر پڑوسی ممالک پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلا ترکی جس کے پیچھے امریکا کھڑا ہے ، ان پارٹیوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے۔خواہ یہ خفیہ طریقے سے ہی ہو، تاکہ وہ امریکی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں، بلکہ ترکی کی خواہش ہے کہ یہ پارٹیاں اس کی متعدد پالیسیوں کی تکمیل کے لیے آلۂ کار بنیں مثلاً ان کی مالی و سیاسی سپورٹ کرکے، انہیں میڈیا کوریج فراہم کر کےاور ان پارٹیوں کے ملک بدرقائدین کو ترکی میں پناہ لینے وغیرہ جیسی دیگر مراعات دے کر، اس سے مندرجہ ذیل مقاصد پورے ہوں گے:۔
- فلسطین میں، امریکا چاہتا ہے کہ حماس پرقطری اثر کے بالمقابل ترکی اثرو رسوخ قائم کیا جائے،جس کا مقصد ہے کہ یورپین سپورٹ کے حامل ملک قطر کو فلسطینی مسئلے کے حل کے متعلق امریکی پروگراموں کو سبوتاژ نہ کرنے دیا جائے، ترکی ایسا تب ہی کرسکتا ہے جب حماس کو مالی سپورٹ اور مختلف قسم کی مراعات دے کر بہلایا جائے۔
- شام میں،ترکی نےایک طرف تو مالی مدد بہم پہنچائی ،جبکہ اس کو ماڈرن اسلامی ریاست کے عنوان سے بھی شہرت حاصل ہے،اس وجہ سے ترکی شام کے متعدد مسلح گروپوں کو جو ماڈرن اسلام کے رجحانات رکھنے والے تھے، سیز فائر کے لیےمذاکرات کی میز پر بٹھانے میں کامیاب ہوا ، اور ان کو روس اور شامی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے قازقستان کےدارلحکومت آستانہ میں کھینچ لایا، اورانہیں باور کرایا کہ ترکی ان کے ساتھ ہے اور یہ ایک ذمہ دار ریاست ہے، پھر ان کو حرام اور غیر اسلامی جنگوں اور معرکوں میں دھکیلا اور بشار کی مجرم حکومت کے خلاف جنگ اور اس کا خاتمہ کردینے کے بجائے ان کو کرد مسلمانوں سے لڑوایا، یوں امریکا نےشامی حکومت کو ترکی کے ذریعے بھی زندگی فراہم کی۔
مصر میں 2013 کے انقلاب کے بعد اخوان المسلمون کی متعدد قیادتوں کو ترکی میں جہاں ایک "اسلامی” پارٹی برسر اقتدار ہے، پناہ لینی پڑی، ترکی میں اخوان کے قائدین کا پناہ گزین ہوکر آنا امریکا کی ایک ناگزیر ضرورت تھی،امریکا چاہتا تھا کہ مرسی کے خلاف فوجی انقلاب برپا کرنے کے بعد اخوان المسلمون کی نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جائے،تاکہ سیسی حکومت کے لیے کسی بھی بڑے خطرے کا سد باب کیا جاسکے، یہ اس لیے کیونکہ جب پارٹیوں کی نقل و حرکت نظروں کے نیچے ہو، تو نظر رکھنے والے کے لیے اس کے اہداف کو ناکام بنانا ممکن ہوتا ہے۔ امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ صرف قطر ہی اخوان المسلون پر اثر انداز ہونے والی ریاست باقی نہ رہے۔
عرب خطے کے مغربی ممالک میں ،تیونس کی "نہضہ پارٹی” اور مغربی "تحریک انصاف "جیسی "ماڈرن اسلامی” پارٹیوں نے تو پہلے سے ہی ترکی میں اردوگان کی کامیابیوں پر بہت اچھل کود کرکے خاصی دھول اُڑائی ہے اور وہ سیاست میں ترکی کے تجربات کو سیکھنے اور ترکی کے ساتھ مضبوط تعلقات بنانے کی خواہشمند ہیں۔ مغربی عرب ریاستوں پر اثر انداز ہونے کے لیے اختیار کردہ بہت سے دیگر ذرائع میں سے یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ جسے استعمال کرکےامریکہ فرانسیسی اور برطانوی اثر و نفوذ کی بجائے اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک خطرناک گیم ہے کہ "ماڈرن اسلامی” جماعتیں عالمی و علاقائی کشیدگی کے اکھاڑے میں اُتر آئی ہیں ، جس کا ان کے دین کے ساتھ کوئی تعلق ہے نہ ہی ان کے اعلان کردہ مبدا (آئیڈیالوجی ) کے ساتھ۔ اس لیے یہ جماعتیں بھی دوسری سیکولر پارٹیوں کی مانند کشیدگیوں کی آگ کا ایندھن بنیں گی ، ایک ایسی آگ جس سے امت کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، لہٰذا اصولی طور پر ایک سیکولر نظام کو دوسرے سیکولر نظام سے تبدیل کرنا شرعی نقطۂ نظر سے تبدیلی نہیں کہلائی جاسکتی۔ البتہ یہ تبدیلی عالمی کشیدگیوں کے حوالے سے انتہائی اہم ہے ، خاص کر جب کہ امریکا ،برطانیہ و فرانس کی وفادار حکومتوں کو کسی بھی طریقے سے اکھاڑدینے کے درپے ہے، خواہ یہ انتخابات کے ذریعے ہو یا مسلح کاروائی کے ذریعے۔ترکی نے ” اسلامی ” اپوزیشنز کو کئی دیگر ممالک سے بھی اکٹھا کر لیا ہے، کیونکہ وہ خصوصی طور پر وقتاً فوقتاً اعلان کرتا رہتا ہے کہ ترکی اہل سنت کا مرکز ہے جیسا کہ موصل جنگ کے دوران اس نے یہ اعلان کیا تھا،وہ یہ سب کچھ خطے کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے امریکی منصوبے کے مطابق سرانجام دے رہا ہے۔
"عثمانی ترک پروگرام ” کے لیے سنجیدگی اور امریکی مراعات
مصطفیٰ کمال کے بعد سیکولر ترکی کسی بھی قسم کے عثمانی تعلق سے یکسر نکلتا جا رہا تھا،لیکن گزشتہ چند سالوں میں دیکھا گیا کہ گویا اردوگان مصطفیٰ کمال کے دور سےجاری اس ترک پالیسی کو مجروح کر رہا ہے، بلکہ کبھی ایسا بھی محسوس ہوا کہ جیسے وہ اس کو پاش پاش کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے ، اور اردوگا ن کی جد و جہد ترکی کے دائیں بازو کے رجحانات سے متصادم ہے، اوران رجحانات کے ساتھ تصادم اس کے نزدیک بہت اہم ہے۔ انہی رجحانات کی بنا پر لوگ سابق صدر عبداللہ گل کی اہلیہ پر تنقید کرتے تھے ، کیونکہ وہ اپنا سر ڈھانپتی تھی،ان کی سوچ یہ تھی کہ ترکی کی” خاتون اول” کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ملک کی سیکولر چہرے کے خدو خال کا مظہر ہو ، جبکہ سر کو ڈھانپنا ایک اسلامی روپ ہے، مگرگزشتہ چند ہی سالوں کے دوران اردوگان اس سے بھی آگے گزرتا چلا گیا اور اس کے دور اقتدار میں ترکی میں بعض عثمانی مظاہر دیکھنے میں آئے، جیسے اردوگان کے گارڈ اور ان کا عثمانی لباس اوردوسرے عثمانی ورثوں کی احیا۔اس بنا پر اناضول نیوز ایجنسی نے 10/2/2018 کو لکھا :”ترک صدر رجب طیب اردوگا ن نے اتوار کے دن بعض لوگوں کی طرف سے سلطان عبد الحمید الثانی کے دور خلافت سے عداوت و دشمنی ظاہر کرنے پر کڑی تنقید کی ، جسے بجا طور پر کامیابیوں کا دور کہا جاسکتا ہے، اُنہوں نے انتباہ کیا کہ تاریخ کے مطالعے میں سلیکٹیو سٹڈی کا طریقہ استعمال نہ کیا جائے، اردوگان نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ کچھ لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ترکی کی تاریخ 1923 ء سے شروع کی جائے( جو ٹرکش ری پبلک کی تاسیس کی تاریخ ہے)اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ہمیں اپنی بنیادوں اور مضبوط اقدار سے کاٹ دینے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔اس نے مزید کہا” اپوزیشن لیڈرکا جس طبقےکے ساتھ تعلق ہے،اس نے اپنے آباؤ اجداد کے ساتھ دشمنی کوریاست کے ساتھ وفاداری کے لیے معیار بنایا ہوا ہے۔ اردوگان نے مزید کہا” ان لوگوں کی نظر میں ترک جمہوریہ ایک نو زائیدہ ریاست ہے ، جس کا ظہور حال ہی میں ہوا ہے اور یہ سلجوقی اور عثمانی سلاطین کا ترکی نہیں جو چھ سو سال تک عالمی نظام کی قیادت کرتے رہے۔
یہ تو تھی ترکی کی اندرونی صورتِ حال،جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آج کے ترکی کو عثمانی روپ میں دکھانے کے لیے امریکہ اُردوگان کو مراعات دے رہا ہے، تو اس کی تفصیل یہ ہے:
امریکا ترکی کو بیرونی دنیا میں فوجی اڈے تعمیر کرنے کے لیے بڑی بڑی مراعات آفر کر رہا ہے، تاکہ دنیا والے ترکی کو بڑی ریاست باور کرلیں۔ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب 2014ء میں ترکی نے عراق کے بعشیقہ کیمپ میں ہونے والی بشمرگہ مشقوں میں اپنی فوجیں بھیجیں۔ اس کے بعد قطر کا گھیراؤ کرنے کے لیے ترکی نے قطر میں اپنے جدید تعمیر کردہ اڈے کے لیے اپنے فوجی روانہ کیے، قابل غور بات یہ ہے کہ ترک افواج اس سے قبل 2013 میں قطر کے العدید بیس میں اُترتی تھیں جہاں امریکہ کا بڑی فوجی اڈا موجود ہے، یہ امریکی آشیر باد کے بغیر ناممکن ہے ۔بحیرہ چین کی طرف اپنی دو تہائی افواج کی منتقلی کے لیے تشکیل کردہ اسٹریٹجی 2012 کے مطابق امریکا ترکی جیسے معتمد ممالک سے اس بات کا خواہشمند ہے کہ وہ کچھ بیسز میں امریکا کی جگہ کام کرےیا امریکی اڈوں کے بعض ملحقہ پارٹس میں کام کرے جیسے قطر کاالعدید اڈا۔ صومالیہ میں ترکی کا فوجی اڈہ بھی اسی سے منسلک ہے۔ چھوٹے ممالک دوسرے ممالک میں اپنے اڈے قائم نہیں کرتے،اس لیے ترکی کا اپنے اڈے بنانا عظمت کی علامت ہے، جس سے لوگ یہ سمجھیں گے کہ ترکی بھی بڑی ریاست ہے۔ یہ پست سیاسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، کیونکہ ترکی کی تو یہ حالت ہے کہ وہ اپنے ناگزیر حالات کو درست کرنے اور ملک کے قرب و جوار میں پیش آمدہ مسائل حل کرنے سے قاصر ہے،ترکی کی سرحد پر امریکا اپنے مفادات کے مطابق شامی کردوں کو مسلح کر رہا ہے،ترکی اپنے پڑوسی ملک شام کے اندر موثر مداخلت کی پوزیشن میں بھی نہیں، جیسا کہ ایران و روس اور امریکی معیت میں عالمی اتحاد بھر پور مداخلت کرتے ہیں۔ پس ایسا ملک جو اپنے قریبی اور ناگزیر مسائل حل کرنے سے بے بس ہو، اس کے لیے قطر اور خلیجی ریاستوں یا صومالیہ میں اپنے مفادات کو وجود دینا کیسے ممکن ہے؟ اس لیے ان خطوں کے اندر فوجی بیسز کا قیام سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ سب کچھ امریکی خدمت گزاری میں کیا جارہا ہے۔
24/12/2017 کو سوڈان کے دورے میں ترک صدر اردوگان نے سوڈانی جزیرہ "سواکن” کا بھی دورہ کیا اور وہاں عثمانی یادگاروں کی از سر ِنو اِحیاء کے ایک منصوبے کا اعلان کیا،
یہ جزیرہ بحر احمر (Red Sea (میں خلافت ِ عثمانی کاگیریژن ہوا کرتا تھا، اس کو ترک فوجی بیس میں تبدیلی کے معاہدے کے لیےراز دارانہ سفارتکاری کی خبریں زبان زدِ عام ہوئیں۔سوڈان کے صدر البشیر نے اردوگان کے ساتھ ملاقات میں کہا” میں اردوگان کی شخصیت میں ریاست عثمانی کی باقیات دیکھتا ہوں۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اردوگان نے سوڈان جیسے امریکی ماتحت ریاستوں کا چکر لگانا اس لیےضروری سمجھا تاکہ”جدید عثمانی ترکی” کی تصویر کو راسخ کیا جائے، یہ بھی ایک بڑی مراعات ہے جس کا حصول امریکی تائید کے بغیر ممکن نہیں۔ عرب حکام کے بارے میں یہ سوچنا ایک واہمہ سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ ترکی جیسے ممالک کے عسکری اڈے تسلیم کرنے کے حوالے سے آزادانہ فیصلے کرسکتے ہیں، یہ سب اپنے آقا کے پیرو کار ہیں ، چونکہ البشیر امریکی پالیسی کا پیروکار ہے اس لیے اردوگان کے حق میں البشیر کے پیش کردہ مراعات اسی امریکی پالیسی کے تحت ہیں جو آج کل ترکی کو بالادستی عطا کرنے کے حوالے سے طے پائی ہے۔
اردوگان نے چاڈ کے دورے کے دوران اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ” دونوں ملکوں کے تعلقات سولہویں صدی سے شروع ہوتے ہیں، یہ وہ دور تھا جب عثمانی ریاست کا اثر و نفوذ اس خطے تک پھیلا ہوا تھا۔” چاڈ کے صدر ادریس دبی نے اس کے جواب میں کہا” ترکی بڑی ریاست ہے۔ گہری تاریخ کا حامل اور عالمی سطح پر معروف و مشہور ریاست ہے۔ ترکی اہم ریاست ہے جس نے تاریخ میں انسانیت اور اسلامی معاشرے کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ۔” ( اناضول نیوز ایجنسی 26/12/2017 ) اس سے "عثمانی ترکی "کا ٹائٹل لیے جدید ترکی کے رجحانات واضح ہوجاتے ہیں ، اردوگان حکومت کے پہلے سالوں میں ایسا نہیں تھا ، یہ اس کے اواخر میں سامنے آیا۔
رہا "عثمانی ترکی” کے امریکی پلان اور سوچ کی سنجیدگی کا مسئلہ ، تو ہم یہ جانتے ہیں کہ خلافت کے متوقع زلزلے سے امریکی خطرات حقیقی ہیں ، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکا اسی وجہ سے ایسی پالیسیاں بناتا ہے جنہیں نافذ کرنا اس کے عہدیداروں کا کام ہوتا ہے،ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ خطرات محض ریسرچ سنٹرز یا امریکی تھنک ٹینکس کے خیالات نہیں ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکا نے موصل میں بغدادی کی نام نہادخلافت کے اعلان سے بھر پور” فائدہ” اُٹھایا ۔ فائدہ یہ تھا کہ شام کے اندر اس اعلان سے بے چینی پیدا ہوئی، کیونکہ شامی انقلاب نے جس خلافت کا نعرہ اٹھایا اس کے بالمقابل البغدادی کی خلافت کا پہلے اعلان کیا گیا ۔ بغدادی کی خلافت ایک ایسا ملغوبہ بن کر سامنے آئی جس میں خونریزی،قتل و غارت گری اور اغواء شدہ خواتین کے ساتھ متعہ ، مزارات، قبروں اور گنبدوں کو گرانے کے احکامات کی آمیزش کی گئی تھی۔ البغدادی کی مذکورہ خلافت کے ذریعے امریکہ نے عظیم ریاست خلافت کو منفی شکل میں دکھانے کی کوشش تو کی مگر اسےناکامی ہوئی، ایک پہلو یہ تھا ۔ دوسرے پہلو سے ماڈرن اسلامک پارٹیوں کو حکومت و اقتدار تک رسائی دینے کی امریکی اور مغربی پالیسیاں بالعموم فیل ہوئیں،مثلا تیونس کی نہضہ پارٹی کی جزوی حکومت ناکام ثابت ہوئی، یمن میں جزوی اقتدار ناکام ثابت ہوا، غزہ کا تجربہ کوئی خاص شاندار تجربہ نہیں کہلایا جاسکتا، مصر میں الاخوان کا تجربہ مایوس کن رہا۔ ان تجربوں کو ناکام اس وجہ سے کہا جائے گا کیونکہ ان پارٹیوں کے اقتدار تک رسائی سے "ریڈیکل اسلام ” ( خالص اسلام) کی خواہش کو لگام دینا ممکن نہ ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ امریکا نے "ماڈرنسٹ” اسلامی پارٹیوں کو اقتدار تک پہنچانے کی سوچ سے پسپائی اختیار کرلی ہے۔
اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر بغاوت کی صورتحال اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ امریکا کو عرب بہار جیسے حادثات پھوٹنے کا خوف رہنے لگا ہے۔ امریکا بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے براہ راست یا اپنے غلاموں کے توسط سے مختلف پلانوں کا تجربہ کرتا رہتا ہے،یہ تسلی کرنے کے لیے کہ اس کے عالمی مفادات کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ عالم اسلام کے اندر بغاوت و شورش اور نبوت کے نقش قدم پر حقیقی خلافتِ راشدہ کادل دہلا دینے والا زلزلہ برپا کرنے کے لیے امت کی طرف سے مسلسل اقدامات کیے جارہے ہیں ، اس سے پیدا شدہ مسئلے کا حل نکالنے کے لیےامریکا کی طرف سے اس قسم کے نئے پلان کی تلاش و جستجو یقینی امر ہے۔امت کے یہ اقدامات جس سطح پر ہورہے ہیں ، عالم کفر کے لیے حادثات کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔
امریکا نے البغدادی کی طرف سے موصل میں نام نہاد خلافت کے اعلان سےجو "فوائد” حاصل کیےاس بنا پر امریکی نگرانی میں” جعلی خلافت” کے قیام کی سوچ تازہ کرنے کی نئی کوشش خارج از امکان نہیں۔ ترک صدر اردوگان کے خیالات کو اس تناظر میں سمجھناچاہیے۔ اردوگان کے بقول آج کا ترکی 1923 میں خلافتِ عثمانیہ کے انہدام کے اعلان سے قبل والے ترکی کے حالات تک پہنچ چکا ہے،اس طرح کے بیانات کے باوجود امریکا کی طرف سے سوڈان وغیرہ جیسے ماتحت ممالک میں ترکی کو مراعات فراہم کی جارہی ہیں۔ یہ امریکی پلان ابھی تک تیاری کے مراحل میں ہے اور ترک صدر اردوگان اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کے امکانی راہیں ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ اس امریکی پلان کی طرف ایک اشارہ یہ بھی ملتا ہے کہ خلافت ِ عثمانیہ کی نقالی کرتے ہوئے ترکی اب یورپین ریاستوں سے نوک جھونک کرنے لگا ہے،چنانچہ اردوگان نے جرمنی اور ہالینڈ کو نازی بقایاجات قرار دیا ہے۔ یوں اس نے غیر متوقع طور پر ان سے منہ پھیر لیا ہے۔خلاصہ یہ کہ موجودہ ترک ریاست کو” جعلی خلافت” میں تبدیلی کےانتہائی خطر ناک امریکی اشاریوں( انڈیکس) کو نظر انداز کرنا کوئی عقلمندی نہیں، ایک ایسی خلافت کا پلان جو کسی بھی حقیقی خلافت کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو، جی ہاں! حقیقی خلافت جس کے اعلان سے پوری دنیا کانپ اٹھے گی۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جعلی خلافت کے لیے اس قسم کے پلانوں سے مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہونے کا امکان بعید از قیاس نہیں ، بالخصوص "معتدل” کہلائے جانے والی تحریکات کے پیروکاروں میں، جن کے قائدین اردوگان پر اعتماد پیدا کرنے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں، حتی کہ ان قائدین میں سے کچھ نے تو اس کو سلطان کا لقب دے ڈالاہے، باوجودیکہ یہود سمیت کفار کے ساتھ اس کے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں۔ امریکہ جانتا ہے کہ اس قسم کے منصوبوں کی تکمیل مہینوں کاکام نہیں ، اس کے لیے داخلی سطح پر کمالی پارٹیوں کے ساتھ مل کر طویل تیاری کی ضرورت ہے اور بیرونی سطح پر اس کے لیے انہیں بھر پور کوشش کرنی پڑے گی۔
مگر جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہ مخلص مومن جنہوں نے صاف ستھرے اور پاکیزہ اسلام کی رسی کو تھام کر اپنے فکری رجحانات کو شرعی ادلہ کے مطابق جوڑ کر ایک کردیا ہےاور جو اس بات کے سوا کسی اور چیز کے طلبگار نہیں کہ ہمارا عمل خالص اللہ کے لیے ہو۔ ان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ عظیم اسلامی ریاست ِ خلافت علی منہاج النبوۃ کی عمارت کھڑی کرنے کے لیے اپنے قدم مضبوط کریں،وہ خلافت جس کی وفا داریاں صرف اپنے رب کے ساتھ ہوں گی اور اس کے احکامات دین متین کے احکامات ہوں گے۔ جو امریکا و مغرب کو ہلا کر رکھ دے گی اور قائم ہوتے ہی فی الفور ان کے اثر و نفوذ سے اسلامی سرزمین کو پاک کرنے اور ان کے فوجی و عسکری اڈوں کو ہٹانے کا کام شروع کردے گی۔ امت کے جسم سے ان کفار کے ایجنٹوں کی نجاست کو دھو ڈالے گی۔ یہ ریاست عظیم اسلام کے احکامات کا نفاذ کرے گی جس سے انسان سکھ کا سانس لیں گے اور آسمان سے برکتوں کا نزول ہونے لگے گا،امت کی حالت سدھر جائے گی جیسے کہ ماضی میں اس کی حالت اچھی تھی، امت اپنی قوت و طاقت کو یکجا کر لے گی اور اپنے اور اللہ کے دشمنوں کو خوفزدہ کردے گی، یہ وقت دُور نہیں مگر اللہ کے ہاں ہر چیز کاایک وقت مقرر ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ دن قریب ہی ہو ، اس دن مسلمان اللہ کی نصرت اور اسلام کی سربلندی سے خوشں ہوجائیں گے۔
ختم شد