فتنے کے دور میں سچ کی جدوجہد کرو جس کے خاتمے کا و قت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم میں ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
پوری مسلم دنیا میں مسلمان اپنے دین سے محبت اور لگاؤ کی وجہ سے ظلم کے دور سے گزر رہے ہیں۔ مسلمان اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ جو لوگ اسلام کی دعوت دیتے ہیں ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ یہ مظالم اس حد تک ہوتے ہیں کہ حکومتوں کو اس بات کی بھی کوئی شرم و حیا نہیں کہ ان کے مظالم کا شکار، بوڑھے، بیمار اور خواتین بن رہی ہیں۔ اس کی ایک مثال پاکستان کے حکمران ہیں جنہوں نے 30جولائی 2018 کو کراچی میں چار بچوں کی ماں کو اس کے گھر سے صرف اس وجہ سے اغواکرلیاکہ اس کے پاس سے ایسی اسلامی کتب برآمد ہوئیں تھیں جن میں خلافت کی اہمیت،فرضیت اور اس کے ڈھانچے کے متعلق آگاہی فراہم کی گئی تھی۔ حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ حکومتوں کی دین اسلام سے غفلت بلکہ بغاوت مکمل طور پر بے نقاب ہوچکی ہے۔ یقیناً یہی وقت ہے کہ حق وسچ کے لیے جدوجہد کی جائے تا کہ حکمرانوں کی جانب سے پیدا کیے گئے فتنوں کو ختم کیا جاسکے۔
لیکن کچھ مسلمان بجائے اس کے کہ حق و سچ کی جدوجہد کریں خود کو اس جدوجہد سے پیچھے کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ” فتنے کا یہ دور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےعلم سے ہی ہے تو اس معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے”۔ اس طرح وہ سپرانداز ہو کر جمود کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں اور جابروں کی جانب سے ہونے والے ظلم و جبر پر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ خلافت کے داعیوں اور جابروں کے درمیان ہونے والی کشمکش پر تماشائی بن جاتے ہیں جبکہ انہیں اس میں حصہ لے کر جبر کی حکمرانی کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ تو وہ صحافی جو جبر کے متعلق لکھ سکتا ہے لیکن اپنا قلم نہیں اٹھاتا۔ وہ عالم جو خلافت کی دعوت کے حق میں خطبہ دے سکتا ہے اس کے متعلق بات ہی نہیں کرتا۔
وہ انسانی حقو ق کا رہنما یا کارکن جو مظلوموں کے معاملات کو اٹھاسکتا ہے،اپنا منہ موڑ لیتا ہے۔ اور وہ آرمی آفیسر جو نُصرہ دے کر جابروں کوان کے جبر کی انتہا پر روک اور پکڑ سکتا ہے،نُصرہ دینے سے انکار کردیتا ہے۔ لیکن وہ غلطی کا شکار ہو گئے ہیں اورانہوں نے خود کوگناہ میں مبتلاکرلیا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا علم، کہ کب ظلم کے اس دور کا خاتمہ ہوگا، ان کی بے عملی کا کسی صورت جواز نہیں بن سکتا۔
یقیناً جو کچھ ہو چکا ہے، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ اس امت کے ساتھ ہوگا ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس سے پہلے سے باخبر ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلاَ رَطْبٍ وَلاَ يَابِسٍ إِلاَّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ"اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے۔ اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے”(الانعام:59)۔ اس آیت میں جس محفوظ کتاب کا ذکر کیا گیا ہے وہ لوح محفوظ ہے۔ اس کا توثیق اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا یہ کہنا ہے: إِلاَّ يَعْلَمُهَا ‘ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ‘۔ لہٰذا لوح محفوظ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کے متعلق ایک اشارہ (کنایہ) ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ اسلام کی پہلی نسل، جو باقی تمام نسلوں سے بہترین ہے، کبھی بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کو جواز بنا کر بے عملی کاشکار نہ ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نےمسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر دور میں نیک اعمال اختیار کریں اور انہیں اس بات سے منع فرمایا تھا کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کو جواز بنا کر بے عمل نہ ہوجائیں۔ بخاری نے روایت کی ہے کہ علی ؓ نے فرمایا، کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا، مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ الْجَنَّةِ وَمَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ ” تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا ٹھکانا جنت یا جہنم میں لکھا نہ جا چکا ہو”۔ہم نے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کر لیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا، لاَ، اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ ” نہیں !عمل کرتے رہو کہ ہر شخص کو اسی عمل کی توفیق ملتی رہتی ہےجو اسے اس کے ٹھکانے کی طرف لے جائے گا”۔ پھر آپ ﷺ نے تلاوت فرمائی، فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَٱتَّقَىٰ ط وَصَدَّقَ بِٱلْحُسْنَىٰ ط فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ ط وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَٱسْتَغْنَىٰ ط َكَذَّبَ بِٱلْحُسْنَىٰ ط فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ "تو جس نے (اللہ کے رستے میں مال) دیا اور پرہیز گاری کی ، اور نیک بات کو سچ جانا ، اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے ، اور جس نے بخل کیا اور بےپروا بنا رہا، اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا، اسے سختی میں پہنچائیں گے”(اللیل:10-5)۔
لہٰذا ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم پر ایمان کامطلب یہ نہیں ہے کہ اس پر انحصار کیا جائے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےعلم کی کسی کوخبر نہیں ہو سکتی جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اس سے آگاہ نہ کریں۔ تو پھر انسان کو عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے کس چیز پر بھروسہ کرے؟ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے سوال کیا کہ کیا ہمیں اس (تقدیر ) پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، نہیں! یعنی آپﷺنے تقدیر(لکھے ہوئے) پر بھروسہ کرنے سے منع فرمایا۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ صرف اس بات سے ہی مطمئن نہیں ہو گئے بلکہ اس کے بعد اعْمَلُوا ‘عمل’ پر زور دیا، یعنی آپ ﷺ نے عمل کا حکم دیا۔ لہٰذا آپ ﷺ کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم پر انحصار کرنے سےمنع کرنا اور یہ حکم دینا کے عمل کرو اس بات کا مکمل ثبوت (دلیل صریح)ہے کہ عمل کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم سے نہیں جوڑا جاسکتا۔
لہٰذا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مکّہ کے سخت مصائب اور مشکلات کے بعد یمن میں امن وتحفظ کے دور سے آگاہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو اس خبر پر انحصار کرکے بیٹھ جانے اور عمل سے رک جانے کی اجازت نہیں دی تا کہ دین کو سربلندی حاصل ہو۔
خبّاب بن الأرت سے روایت ہے جنہیں بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، "ہم نے رسول اللہ ﷺ سے (کفار کے مظالم کی )شکایت کی جبکہ وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ سے کہا، ‘کیا آپ ﷺ ہمارے لیے مدد طلب کریں گے؟ کیا آپ ﷺ ہمارے لیے اللہ سے دعاکریں گے؟’ آپ ﷺ نے فرمایا، كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ يُحْفَرُ لَهُ فِي الأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيهِ، فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ، فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ فَيُشَقُّ بِاثْنَتَيْنِ، وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ، مَا دُونَ لَحْمِهِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ هَذَا الأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لاَ يَخَافُ إِلاَّ اللَّهَ أَوِ الذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ "( ایمان لانے کی سزا میں) تم سے پہلی امتوں کے لوگوں کے لیے گڑھا کھودا جاتا اور انہیں اس میں ڈال دیا جاتا ۔ پھر ان کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کر دیئے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتے ۔ لوہے کے کنگھوں کو ان کے گوشت میں دھنسا کر اسے ان کی ہڈیوں اور پٹھوں سے نوچا جاتاپھر بھی وہ اپنا ایمان نہ چھوڑتے ۔ اللہ کی قسم یہ امر ( اسلام ) بھی کمال کو پہنچے گا اور ایک زمانہ آئے گا کہ ایک سوار مقام صنعاء سے حضرموت تک سفر کرے گا اور(راستوں کے پرامن ہونے کی وجہ سے) اسے اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہو گا ۔ یا صرف بھیڑئیے کا خوف ہو گا کہ کہیں اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے لیکن تم لوگ جلدی کرتے ہو” ۔ تو اللہ کے اس علم سے رسول اللہ ﷺ کو آگاہ کیا گیا کہ امن کا ایک ایسا دور آنے والاہے لیکن اس کو جواز بنا کر صحابہؓ کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ مظالم کی وجہ سے اسلام کے نفاذ کی جدوجہد سے دستبردار ہوجائیں۔ صحابہ ؓ نے صبر کا مظاہرہ کیا، انہوں نے جدوجہد کی اور وہ کامیاب ہوئے۔ لہٰذا انہوں نے اسلام کے لیے آواز بلند کی، انہیں اسلام کے نفاذ کے لیے نَصرملی اور انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تا کہ اسلام کی بالادستی کو یقینی بنا ئیں۔
اسی طرح ہمارے موجودہ ظلم کے دور کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو خوشخبری سنائی گئی تھی کہ خلیفہ مہدی کی واپسی سے قبل خلافت واپس آئے گی۔ اُمّ سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا: يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، فَيَأْتِي مَكَّةَ، فَيَسْتَخْرِجُهُ النَّاسُ مِنْ بَيْتِهِ وَهُوَ كَارِهٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ، فَيُجَهَّزُ إِلَيْهِ جَيْشٌ مِنَ الشَّامِ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ، فَيَأْتِيهِ عَصَائِبُ الْعِرَاقِ وَأَبْدَالُ الشَّامِ، وَيَنْشَأُ رَجُلٌ بِالشَّامِ، وَأَخْوَالُهُ كَلْبٌ فَيُجَهَّزُ إِلَيْهِ جَيْشٌ، فَيَهْزِمُهُمُ اللَّهُ، فَتَكُونُ الدَّبْرَةُ عَلَيْهِمْ، فَذَلِكَ يَوْمُ كَلْبٍ، الْخَائِبُ: مَنْ خَابَ مِنْ غَنِيمَةِ كَلْبٍ، فَيَسْتَفْتِحُ الْكُنُوزَ، وَيُقِسِّمُ الْأَمْوَالَ، وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ إِلَى الْأَرْضِ، فَيَعِيشُ بِذَلِكَ سَبْعَ سِنِينَ أَوْ قَالَ: تِسْعَ سِنِينَ” ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہو گا تو بنو ہاشم میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے ہوئے نکلے گا ، اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے لیے پیش کریں گے ، اسے یہ پسند نہ ہو گا ، پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگ اس سے بیعت کریں گے ، اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کے خلاف بھیجا جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں گے ، جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے پارسا لوگ اور اہل عراق کے بہترین لوگ اس کے پاس آئیں گی ، حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں گی ، اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا ننہال بنی کلب میں ہو گا جو ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا ، وہ اس پر غالب آئیں گے ، یہی کلب کا لشکر ہو گا ، اور نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے ، وہ مال غنیمت تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا ، اور اسلام زمین پر نافذ ہو جائے گا ، وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا ،یا آپ نے کہاکہ 9 سال تک حکمرانی کرے گا "( اس حدیث کو الطبرانی نے الاوسط میں روایت کیا، اور ہیثمی نے مجمع الزوائدمیں روایت کیا اور کہا کہ اس کے راوی مستند اور صحیح ہیں)۔ حدیث کے راوی اور اس کی شرح کرنے والے اس بات پر متفق ہیں حدیث میں جس خلیفہ کی بات کی گئی ہے وہ مہدی ہیں جبکہ حدیث کے شروع میں آپ ﷺ نے فرمایا، اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ ” ایک خلیفہ کی موت کے وقت اختلاف ہو گا "،مطلب یہ کہ امام مہدی کے آنے سے قبل خلافت موجود ہو گی۔
توبشارت پر مبنی اس حدیث سے ہمیں آج کے دور میں کیا سبق لینا چاہیے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کی ایک حاملِ دعوت اپنی دعوت سے دستبردار ہو کر خاموشی سے بیٹھ جائے؟ یا یہ کہ ایک دینی عالم، انسانی حقوق کا کارکن اور صحافی خلافت کے منصوبے کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے؟
یا یہ کہ ایک آرمی آفیسر نُصرہ فراہم کرنے کی اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ لے؟ نہیں ، کسی بھی صورت اس ذمہ داری سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ اے مسلمانو! رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خبردار کیا تھا اس وقت کے متعلق جب فتنے کے دور میں خرابی پھیل جائے گی۔ لیکن آپ ﷺ نے ان لوگوں کی بھی نشاندہی کی تھی جنہیں اللہ کی رضامندی حاصل ہو گی۔ سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، بدأ الإسلام غريباً وسيعود غريباً كما بدأ فطوبى للغرباء قالوا يا رسول الله ومن الغرباء؟ قال الذين يصلحون عند فساد الناس ” اسلام اجنبی حالت میں شروع ہوا اور عنقریب پھر اجنبی ہو جائے گا،جیسے شروع میں تھا، تو ایسے وقت میں اس پر قائم رہنے والے اجنبیوں(غرباء ) کے لیے خوشخبری ہے "۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا ،”اے اللہ کے رسول ﷺ وہ اجنبی کون لوگ ہیں؟”۔ آپ ﷺ نے فرمایا، وہ جو لوگوں کی اصلاح کریں گے جب لوگوں میں بگاڑ آ چکا ہو”۔ یہ حدیث طبرانی نے الکبیر میں روایت کی ہے۔ اور الاوسط کی روایت میں ہے: يصلحون إذا فسد الناس "وہ لوگوں کی اصلاح کریں گے جب وہ خراب ہو جائیں "۔ لفظ ‘اذا’ یعنی’ جب’ اس کے لیے استعمال ہوتا ہے جو آنے والے زمانے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحابہ کے متعلق نہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے لوگوں کی اصلاح کی بلکہ یہ بعد کے دور کے متعلق ہے کہ جب اصلاح کے بعد دوبارالوگوں میں بگاڑ آ جائے گا۔ پس ہمیں مایوسی اور بے عملی سے نجات حاصل کرنی ہے۔ ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے تا کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوسکیں جوان بشارتوں کا مشاہدہ کریں گےاور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خوشنودی حاصل کریں گے۔
ختم شد