تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت 182-180
فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس :
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (البقرة180) فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة181) فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
(البقرة182)﴾
” تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑ کر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آجائے، تووہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمے ایک لازمی حق ہے۔ پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس میں تبدیلی کریں گے۔ یقین رکھو اللہ ( سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔ ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے، اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرادے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے."
(البقرہ :180-182 ))
ان آیات کریمہ سے یہ واضح ہوتا ہے :اسلام کے ابتدائی دور میں یہ فرض کیا گیا تھا کہ قریب الموت شخص اپنے والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے۔ یہ حکم زیادہ مال یا جائیداد چھوڑ کر مرنے والے کے لیے تھا۔ آیت میں لفظ خَيْرًا آیا ہے، اس سے زیادہ مال مراد ہے ۔ لفظ خَيْرًا وصف ِمفہم ہے اور اس میں کثرت کا معنی پایا جاتا ہے، چنانچہ کسی بھی مال کے لیے خَيْرًا کا لفظ تب استعمال ہوتا ہے جب وہ کافی زیادہ ہو۔ اسی طرح "فلاں مالدار ہے”اسی کو کہتے ہیں جو مال کثیر رکھتا ہے۔
مال کی زیادتی پہچاننے کے لیے کیا پیمانہ ہے؟ تو یہ اس طرح ہے کہ وصیت کے بعد بھی اتنا کچھ باقی رہے جو میت والوں کی روزمرہ کی ضروریات کے لیے کافی ہو، اس لیے مال کی کثرت کی تعین میں تحقیق المناط (حقیقت کی جانچ)کرنا پڑتا ہے۔
متعدد صحابہؓ کا یہی قول ہے۔ حضرت علیؓ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کے پاس گئے جبکہ و ہ جان کنی کی حالت میں تھا اور اس کے پاس سات یا چھ درہم تھے،اُس نے پوچھا :” میں وصیت کردوں؟”۔ علی ؓنے کہا: "نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ نے إِنْ تَرَكَ خَيْرًا فرمایا ہے، تمہارے پاس زیادہ مال نہیں ،اپنا مال اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ دو”۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا:” میں وصیت کرنا چاہتا ہوں”۔ آپؓ نے اُس سے پوچھا: "آپ کے پاس کتنا مال ہے؟”۔ اُس نے کہا:” تین ہزار”۔ عائشہؓ نے پوچھا :” بال بچے کتنے ہیں؟”۔ اس نے کہا : "چار”۔ عائشہ ؓ نے کہا :” اللہ تعالیٰ نے إِنْ تَرَكَ خَيْرًا فرمایا ہے۔آپ کا یہ مال تھوڑا ہے ، آپ اس کو اپنے اہل و عیال کے لیےچھوڑ دیں تو بہتر ہوگا”۔یہی وجہ ہے کہ کثرت( مال کی زیادتی) کی کوئی خاص مقدار مقرر نہیں، یہ لوگوں کے حالات کے مطابق مختلف ہوسکتا ہے۔
2) آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کی موت کا وقت قریب آپہنچا ہو،اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُس شخص سے وصیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ قول دلالت کرتا ہے: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ” تم پروصیت لکھ دی گئی ہے،جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت قریب ہوجائے۔اگر وہ مال چھوڑ کر جارہا ہو”۔ بظاہر اس میں خبر دی گئی ہے کہ تم پر وصیت لکھ دی گئی ہے،مگر عربی اسلوب کے مطابق اس قسم کی خبر سے طلب مراد ہوتی ہے،یعنی جس کی موت کا وقت قریب ہوجائے تو وہ وصیت کرے۔
اوریہ طلب، طلب ِ جازم( لازم ) ہے،اس کا قرینہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ” یہ متقی لوگوں کے ذمہ ایک لازمی حق ہے”، وصفِ مفہم ہونے کی وجہ سے اس میں جزم ( لزوم ) کا معنی موجودہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول:وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ "اورمطلقہ عورتوں کو قاعدے کے مطابق فائدہ پہنچانا متقیوں پر ان کا حق ہے” ( البقرہ:241) ۔ یہی و ہ آیت ہے جس میں ایسی مطلقہ عورتوں کو مال دینے کی فرضیت بیان کی گئی ہے،جنہیں ہمبستری سے قبل طلاق دی گئی ہو اور جن کا کوئی مہر بھی مقرر نہ کیا گیا ہو۔ اس بنا پر جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ وصیت کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بِالْمَعْرُوفِ فرمایا ، یعنی عدل و انصاف، نرمی اور احسن طریقے سے۔
3) اس آیت سے وصیت کی فرضیت ثابت ہوتی ہےمگر اس کی فرضیت میراث سے متعلق نازل ہونے والی آیات سے منسوخ کی گئی ہے، مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ سورۂ النساء کی آیت نمبر11 (يُوصِيكُمْ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ) مذکورہ آیت کے بعد نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ وراثت کے احکامات بیان کیے ہیں۔
چنانچہ پہلے ورثا اور عزیز و اقارب کے لیے وصیت کرنا فرض تھا،جب کسی کی موت کا وقت قریب آجاتا تو وہ وصیت کرتا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو منسوخ کرکے اُٹھا لیا،اس کی جگہ وراثت کے احکام دیے گئے، جس کے بعد وصیت صرف ان کے حق میں مندوب (نفل کی مانند)قرار پائی جو میت کے وارث نہیں۔ وارث کے لیے وصیت کرنا منع ہے۔ وراثت والی آیات یہ ہیں: يُوصِيكُمْ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَ وَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأَمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأَمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَ أَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11)وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمْ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوْ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ "اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں حکم دیتا ہے کہ : مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اور اگر (صرف) عورتیں ہی ہوں، دو یا دو سے زیادہ ، تو مرنے والے نے جو کچھ چھوڑا ہو، انہیں اس کا دو تہائی حصہ ملے گا۔ اور اگر صرف ایک عورت ہو تو اسے ( ترکے کا ) آدھا حصہ ملے گا۔ اور مرنے والے کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا، بشرطیکہ مرنے والے کی کوئی اولاد ہو، اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں ، تو اس کی ماں تہائی حصے کی حق دار ہے۔ ہاں اگر اس کے کئی بھائی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ دیا جائے گا،( اور یہ ساری تقسیم) اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی جو مرنے والے نے کی ہو،یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد۔ تمہیں اس بات کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے کہ تمہارے باپ بیٹوں میں سے کون فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تم سے زیادہ قریب ہے؟ یہ تو اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں؛ یقین رکھو کہ اللہ علم کا بھی مالک ہےاورحکمت کا بھی مالک ہے”۔(11) اور تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر جائیں، اس کا آدھا حصہ تمہارا ہے، بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد ( زندہ) نہ ہو۔ اور اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو اُس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو انہوں نے کی ہو، اور ان کی قرض کی ادائیگی کے بعد تمہیں ان کے ترکے کا چوتھائی حصہ ملے گا۔ اور تم جو کچھ چھوڑ کر جاؤ اس کا ایک چوتھائی اُن (بیویوں ) کا ہے، بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد ( زندہ ) نہ ہو۔اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو اُس وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو تم نے کی ہو، اور تمہارے قرض کی ادائیگی کے بعد ان کو تمہارے ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ اور اگر وہ مرد یا عورت جس کی میراث تقسیم ہونی ہے، ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں نہ اولاد، اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن زندہ ہو تو ان میں سے ہر ایک چھٹے حصے کا حق دار ہے۔ اور اگر وہ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے، ( مگر) جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمے جو قرض ہو اُس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ( وصیت یا قرض کے اقرار کرنے سے) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا ، بُردبار ہے”(النساء:12-11)۔ پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے پہلے وصیت فرض قرار دی اور اپنے ترکے کی تقسیم مسلمانوں پر چھوڑ دی کہ وہ جیسے چاہے اس کے بارے میں اپنے ورثا کے لیے وصیت کریں۔پھر اس کو منسوخ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے وارثوں کے حصے خود ہی متعین کردیے ،اور ورثا کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے اپنے مال میں سے وصیت کرنا ان کے لیے مندوب قرار دیا۔
یہ کہاں سے اخذ کیا گیا کہ وراثت کے احکام فرض ہیں اور اس کی تقسیم اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ خاص کردیا ہے؟ تو یہ انہی آیاتِ وراثت سے واضح ہوتا ہے ،جن میں ورثا کے فرض حصوں کا تعیین کیا گیا ہے۔ آیات ِوراثت کے آخر میں آیا ہے: فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ ، یعنی یہ” فرض ہے ، اللہ کی طرف سے”۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ غیر وارث کے لیے وصیت مسلمانوں پر چھوڑی گئی ہے اور یہ مندوب ہے تو یہ اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انہی آیات وراثت میں وصیت کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی ہے، فرمایا: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ ” اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد ، جو مرنے والے نے کی ہو،یا اگر اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد”(النساء:11)۔
دوسرا یہ کہ اس آیت میں مطلق وصیت کا ذکر ہے مگر سنت رسول ﷺ سے اس کوغیر وارث لوگوں کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : (( إن الله قد قسم لكلّ إنسان نصيبه في الميراث فلا تجوز لوارث وصية )) ” اللہ تعالیٰ نے میراث میں سے ہر انسان کو اس کا حصہ تقسیم کرکے دے دیا ہے ، اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں”( ترمذی 2046، نسائی 3581 ، ابو داؤد 2486 ، ابن ماجہ 273)۔
یہ بات تو اس حوالے سے تھی کہ آیت میں وصیت کا اگر چہ مطلق ذکر ہے مگر اس سے مرادمُقَیَّد وصیت ہے یعنی غیر وارث لوگوں کے لیے وصیت ۔ یہ بات کہ یہ وصیت اب مندوب کی حیثیت رکھتی ہے،تو یہ اس لیے کہ وصیت ثواب و قربت کا عمل ہے جبکہ قرآن میں اس کے ساتھ طلبِ جازم(حتمی مطالبہ) پر دلالت کرنے والاکوئی قرینہ موجود نہیں ، چنانچہ یہ مندوب ہوگی۔
4) (فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ)اللہ سبحانہ و تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ میت کی طرف سے کی گئی وصیت میں کسی قسم کی کمی بیشی کریں گے، خواہ لکھنے والے ہوں ، گواہ ہوں یا جن کے لیے وصیت نہیں کی گئی، تو ان کا یہ گناہ بڑا گناہ ہے ، اور اللہ تعالیٰ سے کوئی شے پوشیدہ نہیں وہ سمیع ہے وصیت کرنے والے کی وصیت سنتا ہے، علیم ہے ،چھپ کر یا اعلانیہ کی جانے والی ہر قسم کی تبدیلی سے باخبر ہے، اور ان لوگوں کو اس کی سزا دے کر رہے گا۔
5) اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ( البقرہ:182)
فَمَنْ خَافَ ” جسے اندیشہ ہو” یعنی توقع ہو اور پتہ ہو۔ جیسے کہتے ہیں ” مجھے بارش کا ڈر ہے” یعنی توقع ہے کہ بارش ہوجائے گی۔
اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی کو محسوس ہویا اسے توقع ہو کہ وصیت کرنے والا وصیت میں زیادتی (variation)کرےگا کہ جن کے لیے وصیت کی جارہی ہے،یعنی والدین اور عزیز اقارب کے درمیان اس سے اختلاف اور جھگڑوں تک بات چلی جائے گی،خواہ یہ زیادتی غلطی سے (Unintentional) ہو یا جان بوجھ کر(intentional) ہو۔ جَنَفًا "بے جا میلان ،جھکاؤ اور طرف داری” مثلاً وصیت کرنے والے کی اپنی اولاد میں سے اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ شفقت و محبت زیادہ ہو، اس لیے وہ وصیت میں اس کے دوسرے بھائیوں سے زیادہ حصہ اس کو دینا چاہتا ہے، اس کے خیال میں اس سے بچے کے حالات درست ہوں گے، تو و صیت میں اس قسم کی زیادتی کو غلطی کہا جاسکتا ہے، گویا اس کی نیت اچھی ہے مگر بے جا ہے۔ جان بوجھ کر زیادتی کرنے کی مثال جیسےوصیت کرنے والا قصداً اپنی اولاد یا رشتہ داروں میں سے کسی کو زِچ کرنا چاہتا ہے ،ان سے متعلق دل میں کچھ باتیں ہیں ، لہٰذا وہ ان کے لیے کسی چیز کی وصیت ہی نہ کرے۔
پس جس کو مُوصِی ( وصیت کرنے والے) کی طرف سے مُوصٰی لہٗ ( جس کی لیے وصیت کی جائے)کے ساتھ ایسی کسی بھی زیادتی کا اندیشہ اور توقع ہو اور وہ اصلاح کی غرض سے مداخلت کرے تاکہ موصِی اپنی وصیت کی وجہ سے گناہ میں مبتلا نہ ہوجائے اور وصیت کرنے والے کی اہل و عیال کے درمیان اختلافات اور تنازعات کا باعث نہ بن جائے، اس قسم کی مداخلت اور اصلاح کی کوشش میں کوئی گناہ نہیں اور یہ تبدیلئ وصیت کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیونکہ یہ تبدیلی موصِی اور موصٰی لَہمُ کے درمیان صلح و آشتی کی غرض سے ہے ،اور وہ یہ کہ جانبین کی رضامندی سے وصیت میں ترمیم کے حوالے سے ان کے درمیان مفاہمت پیدا کی جائے۔
یہ وہ تبدیلی نہیں جس کاذکر گذشتہ آیت میں کیا گیا، کیونکہ اُس تبدیلی سے مراد موصِی اور موصیٰ لہ کے علم میں لائے بغیروصیت میں جعل سازی اور غلط بیانی کے ذریعے تبدیلی کرنا ہے،یہی وجہ ہے کہ ایسا کرنے والااس سے گناہ میں مبتلا ہوگا ، جبکہ مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کاذکر ہے وہ اصلاح کی غرض سے اور موصِی اور موصیٰ لہ کی رضامندی اور ان کو تبدیلی کے بارے میں آگاہی دے کر ترمیم کرنا ہے یا یہ کہ وصیت کے اندر کمی بیشی کی توقع کی صورت میں اصلاح کی ایک کوشش ہے، سو اس میں کوئی گناہ نہیں ، اللہ تعالیٰ غفور ہے،ایسی صورت میں موصِی کی طرف سے جو تبدیلی کی گئی تھی اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیں گے، کیونکہ اب اس کے اندر اصلاح اور ترمیم کی جا چکی ۔ اور اللہ تعالیٰ رحیم ہے ، موصِی اور موصٰی لہم اور ان کے درمیان اصلاح کی غرض سے مداخلت کرنے والے پر رحم فرمائے گا، کیونکہ وہ شرعی احکامات کے مطابق صلح و آشتی کو پسند کرتے ہوئے وصیت میں ترمیم پر متفق ہوئے، جو ایک احسن عمل ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے نیک کام کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔
ختم شد