جب تک سرمایہ دارانہ نظام نافذ رہے گا پاکستان میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عمران خان، دنیامیں آبادی کے لحاظ سے چھٹے بڑے ملک پاکستان کے ایک ایسے و قت میں نئے وزیر اعظم بنے ہیں جب وہ معاشی بحران کے دہانےپر کھڑا ہے۔ پاکستان سودی قرضوں کی دلدل میں اس حد تک دھنس چکاہے کہ اسے پچھلے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضے لینے پڑیں گے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف دو مہینے کی درآمدات کی ضروریات بمشکل پوری کرسکتے ہیں جبکہ اس کا روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر 20 فیصدکھو چکاہے جس کے نتیجے میں عوام کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے۔ جہاں تک بجلی کے شعبے کا تعلق ہے تو نجکاری کی وجہ سے بجلی پیداکرنے والے اداروں ، اس کی سپلائی کرنے والے اداروں اور بینکوں کے درمیان گردشی قرضہ چل رہا ہے جس کی صورتحال بجلی چوری کی وجہ سے خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے اور بجلی کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں ۔
عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اس معاشی مسئلے کوحل نہیں کرسکے گی کیونکہ وہ پچھلی حکومتوں کی طرح سرمایہ دارانہ پالیسی کو ہی جاری رکھے گی جس کا نفاذ مشرف نے نجکاری کے دروازے کھول کر کیا تھا۔ عمران خان کے وزیر اعظم کاحلف اٹھانے سے قبل ہی اسد عمر نے پی ٹی آئی کے انتخابی منشور کے وعدے، کہ وہ پاکستان کو "اسلامی فلاحی ریاست "بنائے گی، پر یہ کہہ کر ٹھنڈا پانی ڈال دیا کہ وہ سرمایہ دارانہ پالیسیاں ہی جاری وساری رکھیں گے۔ فائنینشل ٹائمز میں شائع ہونے والے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ا قتدار میں آنے کے بعد پہلے 100 دنوں میں پی ٹی آئی حکومتی سیکٹر میں چلنے والی 200 بڑی کمپنیوں کو "حکومتی کنٹرول” سے آزاد کردے گی اور ان کے سربراہ نجی شعبوں سے تعینات کیے جائیں گے۔ اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ”تمام کارپوریشنز کو ایک ویلتھ فنڈ میں منتقل کردیا جائے گا جس کو نجی شعبے کے لوگ چلائیں گے۔ ہمارا منصوبہ ہے کہ حکومتی کمپنیوں کو پہلے 100دنوں میں ویلتھ فنڈ کے کنٹرول میں دے دیں”۔
عالمی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف، کی جانب سے ملنے والی ہنگامی امداد سے قطع نظر سرمایہ دارانہ پالیسیوں کاتسلسل پاکستان کی معیشت کومفلوج کررہاہے۔ سرمایہ دارانہ نظام آزادیِ ملکیت کو سب سے زیادہ مقدس آزادی قرار دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نجکاری کے ذریعے نجی کمپنیوں کو ایسی صنعتوں کی ملکیت دے دیتا ہے جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہےجیسا کہ بھاری صنعتیں ، توانائی اور معدنیات کے شعبے وغیرہ۔ اس طرح ریاست کا خزانہ ان بے پناہ وسائل سے محروم ہوجاتا ہے جنہیں لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پھر ریاست کا خزانہ خالی ہوتا چلاجاتا ہے اور حکومت مزید سودی قرضے لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جس کے بعد وہ مزید قرض کی دلدل میں دھنس جاتی ہے۔ حکومت خالی خزانے کو بھرنے کے لیے مزید ٹیکس نافذ کرتی ہے جو مقامی صنعت اور زراعت کومفلوج کردیتا ہے، جس کے بعدمقامی ضروریات کو پورا کرنے والی اشیا کی کمی ہو جاتی ہے اور درآمدات پر انحصار بڑھ جاتا ہے اور برآمدات میں کمی آجاتی ہے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی نجکاری نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیاتا کہ ان کے نئے نجی مالکان کے منافعوں کو یقینی بنایا جاسکےجس کی وجہ سے اس شعبے میں گردشی قرض بڑھتا چلا گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام سےکسی خیر کی توقع رکھنا بے کار ہے اور پی ٹی آئی سے کوئی امیدنہیں رکھی جاسکتی جو پچھلی حکومتوں کی طرح اسی سرمایہ دارانہ نظام کی پیروی کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کا بنایا ہوا نظام ہے جو ہماری اصل استعداد کو استعمال ہونے ہی نہیں دیتا۔ ہمیں اپنے دین کی طرف پلٹنا چاہیے تا کہ ہم اپنی خوشحالی کو یقینی بناسکیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کرسکیں۔ یہ ہمارا دین ہی ہے جس کا معیشت کے
بارے میں اپنا ایک منفرد نقطہ نظر ہے جو لوگوں پربوجھ ڈالے بغیر ریاست کے لیے زیادہ سے زیادہ محاصل کو
یقینی بناتا ہے۔ اسلام منفرد طریقے سے ملکیت کوتین اقسام: نجی، ریاستی اور عوامی،ملکیت میں تقسیم کرتا ہے۔ توانائی کے وسائل جیسا کہ تیل، گیس اور بجلی عوامی ملکیت میں آتے ہیں۔ عوامی ملکیت کی چیز کی نہ تو نجکاری کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اسے ریاستی ملکیت میں لیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ، اس شعبے سے حاصل سے ہونے والے زبردست وسائل کو لوگوں کے امور پر ریاست اپنی نگرانی میں خرچ کرتی ہے۔ کمپنی ساخت کے حوالے سے اسلام کے احکامات نجی کمپنیوں کی مالی استعداد کو محدود کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ معیشت کے ان شعبوں میں بالادستی اختیار نہیں کرسکتیں جہاں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس طرح ریاستی کمپنیاں اس شعبےمیں فعال کردار ادا کر کے خزانے کو زبردست وسائل فراہم کرتی ہیں۔ اسلام نے اس بات کا حکم دیا ہے کرنسی کی بنیاد سونا اور چاندی ہونا چاہیے جن کی اپنی ایک قدر ہوتی ہے، اس طرح یہ کرنسی بین الا قوامی تجارت اور مقامی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کا باعث بنتی ہے۔ اسلام کے مکمل نفاذ سے کم کوئی بھی چیز ہمیں معاشی بحران سے نہیں بچا سکتی۔
ختم شد