سوال و جواب: ترکی کے ِلیرا کا زوال
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس سال کے آغاز سے ترکی لیراتسلسل سے 21 فیصد گرنے کے بعد 10 اگست 2018 کو اپنی قدر میں ایک ہی دن میں 14 فیصدگر گیا۔ قدر میں حالیہ کمی میں تیزی اس وقت دیکھنے میں آئی جب امریکہ نے ترکی سے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پرٹیکس لگایا، اور اس نے ترکی میں2016 ءسے قید امریکی پادری کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ اس سب کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ تنازعہ کہاں جا رہا ہے؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
جواب: جواب کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اول: لیرا کا مسئلہ اور اس کی قدر میں مسلسل بتدریج کمی۔
1۔ لیرا کا استعمال 1927 میں خلافت کے انہدام کے بعد شروع ہوا جب کرنسی کی بنیاد سونے اور چاندی سے ختم کر دی گئی اوراس کی قدر تقریباً ایک ڈالر کے برابر تھی ۔ اور پھر 1933 سے لیرا کے زوال کا آغاز ہوا جب ایک ڈالر دو لیرا کے برابر تھا۔ اس بڑھتے ہوئے زوال میں تیزی آئی حتیٰ کہ 2001 میں ایک ڈالر 1.65 میلین لیرا کے برابر پہنچ گیا۔ ترک معیشت عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کے دباؤ کی وجہ سےکمزور ترین ہو گئی،جس کی وجہ سے ترکی میں برطانیہ نواز بلند ایجوت کی حکومت کمزور پڑ گئی اور 2002 کے انتخابات ہوئے جس میں اردوان اور اس کی پارٹی جیت گئی اور امریکہ کی مدد سے حکومت بنا لی۔ اس کی حکومت نے چھ صفر حذف کرنے کا قانون پیش کیا جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2005 سے شروع ہوا۔ یوں ڈالر 1.79 لیرا کے برابر ہو گیالیکن یہ مستحکم نہ رہ سکا ۔ 2013 سے لیرا پھر گرنا شروع ہو گیا۔ 9 ماہ تک اس کی قدر میں غیر معمولی کمی آئی، یہاں تک کے 2014 کے آغاز میں یہ 30 فیصدگر چکا تھا۔ یہ آج بھی نہیں رکا۔ اردوان کی حکومت نے اس کے زوال کو قابو کرنے اور اسے مستحکم کرنے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئی۔ اس سال کے آغاز سے لیرا قدرے نیچے آیا، یہاں تک کے 2018 کے
وسط تک یعنی صرف 6 ماہ میں یہ سال کے آغاز کی قیمت کا21 فیصدکھو چکا تھا ۔
2۔ پھر اس سال 26 جولائی کو جب ٹرمپ اور اس کے نائب صدر مائیک پینس نے برنسن(امریکی پادری) کو فوراً رہا نہ کرنے کی صورت میں ترکی پر پابندیاں لگانے کی دھمکی دی، تو یہ بحران ڈرامائی انداز میں ابھر کر سامنے آیا۔ پھر جولائی کے آخر میں لیرا مزید گر کر ڈالر کے مقابلے میں4.76 سے 4.91 پر آگیا جبکہ ابھی ترک سینٹرل بینک کی جانب سےشرح سود کو 17.75 فیصدپررکھنے کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ "14 سالوں میں افراطِ زر کے انتہائی درجے تک پہنچنے کے پیش نظرشرح سود میں اضافے کی امید کے برعکس منگل کو سینٹرل بینک نے شرح سود میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔۔۔ بینک نےایک ہفتہ تک دوبارہ خریدنے کی شرح 17.75 فیصد ہی رکھی۔۔۔اس فیصلے کے بعد لیرا سال کے آغاز کے حساب سے 20 فیصد قیمت کھو کر ڈالر کے مقابلے میں 4.91 فیصدپر آگیا جو اس فیصلے سے پہلے 4.7605 پر تھا۔۔۔” (ماخذ: سکائی نیوز عربی: منگل 24 جولائی 2018)۔
3۔ پھر ٹویٹر پر ٹرمپ کا ٹویٹ آگیا اوراس نے ترکی پر پابندیاں لگانے کے فیصلے کا اعلان کیا ، جس کے بعد ڈالر کے مقابلے میں لیرا کا زوال مزید تیز ہو گیا۔ واشنگٹن کے ساتھ بحران کو قابو میں کرنے کے لیے انقرہ نے ترک نائب وزیر خارجہ کے قیادت میں 7 اگست 2018 کو ایک وفد بھیجا کہ اپنے ہم منصب سےمل کر پادری برنسن(Brunson )کے معاملے پر بات چیت کرے مگر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ جیسے ہی یہ وفد واپس آنے کے لیے 9 اگست 2018 کو روانہ ہوا، ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے 10 اگست 2018 کو جلتی پر تیل چھڑک دیا، اور ترکی سے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر ٹیکس بڑھا دیااورایلومینیم پرٹیکس کی شرح کو 20 فیصد اورا سٹیل پر 50 فیصد کر دیا جس سے ایشیائی منڈی میں لیراایک ڈالر کے مقابلے میں 7.24 کی ریکارڈ سطح پر گر گیا۔ ترک کرنسی اس سال کے آغاز سے اب تک 40 فیصدقیمت کھو چکی ہے۔ صرف اگست کے دوسرے ہفتے میں لیرا ڈالر کے مقابلے میں20 فیصدگرا۔ ٹرمپ نے ٹویٹ کی، "میں نے ابھی ابھی ترکی کے لیے ایلومینیم اور اسٹیل میں ٹیکس دوگنا کرنے کا حکم دیا ہے۔۔۔” (https://arabi21.com, 10/08/2018; New York Times, 10/08/2018)
4۔ لہٰذا امریکہ اور ترکی کے درمیان اقتصادی بحران کی وجہ بظاہر پادری برنسن کا معاملہ لگتا ہے،اور یہ کہ امریکی صدر کانگریس کے وسط المدتی انتخابات سے کچھ ماہ قبل بنیاد پرست عیسائی گروہوں میں موجود اپنے ووٹروں کو اطمینان مطمئن کرنا چاہتا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ پادری برنسن کا معاملہ دراصل ترک لیرا کے زوال کی اصل وجوہات کو چھپانے کے لیے تھا، جو کہ یورپ پر ضرب لگانے کے لیے امریکہ کا کھڑا کیا ہوا ایک سیاسی بحران ہے،جس کی ہم بات کریں گے، کیونکہ اس بحران کی علامات ترک امریکہ اختلافات سے پہلے بھی موجود تھیں۔ ترک حکومت نے انتخابات نومبر 2019 کی تاریخ کو تبدیل کر کے اس سال جون میں کرانے کا اعلان کیا ، تاکہ کہیں یہ بحران شدید نہ ہو جائے اور انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو ۔۔۔ اردوان نے خود اعتراف کیا کہ، "الیکشن کی تاریخ متعارف کروانے کا شکریہ جس کہ وجہ سے ہم ایک تباہ کن معاشی زلزلے کی تیاری کر پائیں گے ورنہ ہم اس دور سے نقصان اٹھائے بغیر نہیں نکل سکیں گے” (Turkish news page 20/4/2018)۔ اس کا مطلب ہے کہ لیرا کی قیمت میں کمی پادری کے مسئلے اور ٹیکس عائد کرنے سے پہلے سے تھی۔ برنسن کو 2016 میں قید کیا گیا، لہٰذا یہ بات ناقابل فہم ہے کہ امریکہ ترکی پر اس وقت برنسن کی وجہ سے پابندیاں لگائے، جبکہ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ امریکہ مذہب اور انسانی حقوق میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا۔
5۔ ترک کرنسی کے اس زوال کی بہت سی وجوہات ہیں ، ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:
ا۔ پچھلی دہائی میں خطیر قرضوں کا حجم، خصوصاً نجی شعبے کی طرف سے لیے گئے قرضے ۔ ترک وزارتِ خزانہ نے ستمبر 2017 میں اعلان کیا تھا کہ ترکی کا مجموعی بیرونی قرضہ 438 ارب ڈالر ہے۔۔۔ اور وہ سال 2018 میں 43 ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 11 ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ترک وزارتِ خزانہ نے 31 اکتوبر 2017 کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ "وہ 2018 کے 43.1 ارب ڈالر قرضے کی مد میں 10.92 ارب ڈالر ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں”۔ "افراطِ زر حال میں10 فیصد سے تجاوز کرچکا ہے” (Anadolu Agency 31/10/2017)۔ لہٰذا خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں یہاں تک کہ ترک مشیر خزانہ نے حال ہی میں اعلان کیا کہ "ترکی کا بیرونی قرضہ پہلی سہ ماہی میں،31 مارچ 2018 کو،466.7 ارب ڈالر ہے۔۔۔” (Anadolu Agency 29/6/2018) ۔ یہاں یہ امرقابلِ غور ہے کہ اس قرض کا بڑا حصہ دراصل حکومتی منصوبوں کی وجہ سے ہے لیکن ان کو چلانے اور سرمایہ کاری کرنے کا کام نجی شعبے نے کیا کیونکہ اردوان کی حکومت نے پچھلے 10 سالوں میں حکومتی قرضوں سے بچنے کے لیے یہ منصوبے نجی شعبے کے حوالے کیے جو ان کو چلانے کے لیے بیرونی قرضے لیتے ہیں۔ لہٰذا آج نجی شعبہ قرضوں کے اس حصے کا ذمہ دار ہے جو ایک سیاسی چال ہے تاکہ حکومت اپنے بیرونی قرضوں کے کم ہونے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر سکے!
ب۔ ترک وزارتِ تجارت و کسٹم کے 2 جنوری 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی درآمدات و برآمدات کے مابین تجارتی خسارہ 2017 میں پچھلے سال کے مقابلے میں 37.5 فیصد بڑھ کر 77.06 ارب ڈالر ہو گیا۔ اس کی ادائیگی ہارڈ کرنسی (ڈالر یورووغیرہ )میں کی جاتی ہے۔2017 میں ترکی کی برآمدات 157.1 ارب ڈالر تھیں جبکہ درآمدات 234 ارب ڈالرتھیں (ترک ٹی وی اور ریڈیو 2 جنوری 2018)۔ علاوہ ازیں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ترکی کا افراطِ زر جو سرکاری Turkish Statistical Office نے 3 اگست 2018 کو بتایا وہ 15.85 فیصد تھا (Anadolu Agency، 3 اگست 2018)۔ 2003 میں جب اردوان کی پارٹی حکومت میں آئی، اس وقت سے اب تک یہ افراط زر(مہنگائی) کی بلند ترین سطح ہے۔ مرکزی بینک کا ہدف یورپ کے معیار کے مطابق5 فیصد افراطِ زر کا حصول تھا مگر وہ ناکام ہوا اور 8 فیصد پرآ کر رکا مگر جلد ہی پچھلے سال 10 فیصد پر بڑھا جو آج تقریباً16 فیصدہے۔
ج۔ ریٹنگ ایجنسیوں کے طرف سے ترکی کے معاشی معیار کو گرانے سے ترک لیرا پر دباؤ پڑا اور ترک معیشت اور لیرا پر اعتماد کمزور ہوا۔ موڈیز (ریٹنگ ایجنسی) نے 14 اپریل 2018 کو ترک کرنسی کی کمزوری اور قرضوں میں پھیلاؤ سے خبردار کرتے ہوئے کہا، "ترک کرنسی کی دائمی کمزوری خود مختار قرضوں کی درجہ بندی پر منفی اثرڈالتی ہے اور معیشت کے لیے مسئلہ ہے” اور "ترکی کے کم زرِمبادلہ” کا حوالہ دیا (رائٹرز 14 اپریل 2018)۔ اس ایجنسی نے 13 مارچ 2018 کو ترکی کا درجہ BA1 سے کم کر کے BA2 کر دیا، جس سے ناراض ہو کر اردوان نے کہا:۔”ریٹنگ ایجنسیاں ترکی کومشکلات میں دھکیلنے میں مصروف ہیں اور مالیاتی منڈیوں کو اسے سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے” (ترک پریس 13 مارچ 2018)۔ Standard & Poor’s ریٹنگ ایجنسی نے بھی 2 مئی 2018 کو موڈیز کی تقلید میں اچانک ترکی کے درجہ بندی میں کمی کر دی۔ ایجنسی نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ترکی کومثبت BB درجے سے گرا کرمنفی BB درجہ دے دیا۔ ایجنسی نے اعلان کیا:۔”درجہ بندی میں کمی کی وجہ افراطِ زر میں خرابی اور شرح تبادلہ میں طویل المدتی کمی اور ترک کرنسی میں عدم استحکام سے متعلق تحفظات ہیں”(رائٹرز 2 مئی 2018)۔
ان کے بعد فِچ ریٹنگ ایجنسی(Fitch credit ratings) نے کہا، "ترکی کی درجہ بندی BB+ سے گر کر BB ہو گئی جس کی وجہ افراطِ زر کا بڑھنا،کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور ترکی کی معاشی پالیسی کا غیر یقینی ہونا ہے”(ترک پریس 14 جولائی 2018)۔ یہ جانا جاتا ہے کہ یہ ریٹنگ ایجنسیاں معاشی صورتِ حال پر اثرانداز ہونے کے لیے کردار ادا کرتی ہیں، یہ ملک کے معاشی مسائل کو چھپاتی ہیں اور ابھرنے نہیں دیتی جیسے پچھلے کئی سالوں سے ترکی کے ساتھ کیا، یا راز فاش کرتی ہیں اورصورتحال کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں جیسے ترکی کے ساتھ اب کر رہی ہیں۔ اب یہ ایجنسیاں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قرض دینے والوں کو ترکی کو قرض دینے سے ڈرانا چاہتی ہیں ۔۔۔قرضوں کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہی ہیں اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ملکی مارکیٹ سے ہارڈ کرنسی کو اکٹھا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں ،جس سے لیرا نیچے آ گیا۔
دوئم: یہاں یہ سوال اٹھانا ضروری ہے: اگر لیرا کا مسئلہ کافی عرصے سے تھا، تو پھر اس موقع پر پادری اور ڈیوٹی کے بڑھانے کے مسئلے سے دباؤ ڈالنے کا کیا مقصد ہے؟ اور کیوں لیرا کے زوال کو اتنا ابھارا کہ یہ لگے جیسے لیرا کو گرانے کے لیے ترکی اور امریکہ کے درمیان تناؤ ہے؟ جو کہ خطرناک ہے اور یہ اعلانِ جنگ ہے جس کے نتیجے میں قطع تعلقات یا نیٹو سے بے دخلی وغیرہ ہو سکتی ہے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا! تو اس کے پیچھے سچائی کیا ہے؟ اس کی وضاحت کے لیے ہم مندرجہ ذیل بات بیان کرتے ہیں۔
1۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہمیشہ بااثر کرنسیوں خصوصاً یورو کے مقابلے میں ایک مضبوط ڈالر کا بیانیہ اختیار کیا ہے تاکہ یورو زون میں کم شرح سود کا فائدہ اٹھا سکے۔ اس نے اپنا شرح سود بڑھایا تاکہ یورپ سے امریکہ آنے والوں کو زیادہ شرح سود مل سکے۔ امریکہ کا گمان تھا کہ پیسے کے اس انتقال سے یورو ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہو جائے گا لیکن نتیجہ اس کی خواہشات کے مطابق نہ نکلا اوریورو ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہوتا گیا۔ یورپی مرکزی بینک نے اپنی مالیاتی پالیسی کو مضبوط بنانے کا ارادہ کیا اور monetary easing کے نام پر بانڈز کی خریداری کو کم کرنا یا روکنا شروع کیا، جس کے نتیجے میں سرمایہ امریکہ سے یورپ اور ایشیاء منتقل ہوا تاکہ سرمایہ کاری پر بہتر منافع مل سکے۔ جب ٹرمپ اس میں ناکام ہو گیا تو اس نے درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیا تاکہ تجارت کا توازن اپنے حق میں کر سکے اور ڈالر کو مضبوط کرے اور اس نے کچھ درآمدات پر ٹیکس لگانا شروع کیا۔ "لہٰذا امریکی سیکٹری برائے تجارت وِلبر راس نے جمعرات 31 مئی 2018 کو اعلان کیا کہ اس کا ملک جمعہ (کل) سے یورپی یونین، چین، میکسیکو اور کینیڈا سے درآمد شدہ اسٹیل اور ایلومینیم پر زیادہ کسٹم ڈیوٹی عائد کرے گا” (www.dw.com, 31/5/2018)۔
2۔ لیکن یہ تمام پالیسیاں یورو کے مقابلے میں ڈالر کو مضبوط کرنےکے ٹرمپ کے مقصد کو پورا نہیں کر سکیں۔اب وہ اپنی اس خواہش کو اس طرح پوری کر رہا ہے کہ دباؤ ڈال کر ترک لیرا کو کمزور کرے اور پھر یورپ کی مالیاتی منڈیوں میں افراتفری مچائے کیونکہ یورپ اور ترکی کے درمیان مالیاتی لین دین کا ایک بہت بڑا حجم ہے۔ ترکی میں زیادہ تر سرمایہ کاری یورپ سے ہے جو 2017 میں 42 فیصد بڑھ گئی اور ترکی کی سب سے زیادہ تجارت یورپ کے ساتھ ہے جو 2017 میں 160 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس کا فائدہ یورپ کو ہے۔ دونوں پارٹیوں نے 1995 میں دستخط شدہ کسٹم یونین معاہدے میں ترامیم کیں جس کا مقصد 18مہینوں میں تجارتی حجم کو 200 ارب ڈالر تک لیجانا اور 5 سالوں میں 500 ارب ڈالر تک لیجانا تھا جس کا اعلان ترک وزیرِ اقتصادیات نہت زیبیکی نے کیا (مشرق وسطیٰ 29 ستمبر 2017)۔ ترکی اور امریکہ کے درمیان تجارتی حجم محض 18.7 ارب ڈالر ہے جس میں 11 ماہ میں ترکی کے لیے امریکی برآمدات میں 7.2 ارب ڈالر کا اضافہ کیا گیا (اناطولیہ ایجنسی 21 جنوری 2018)۔ اور اس لیے ترک معیشت اور ترک لیرا میں کسی قسم کا زلزلہ یورپی معیشت میں تہلکہ مچا دے گا۔ یہ معاشی تہلکہ، ٹرمپ کے گمان کے مطابق، یورو کے لیے تقریباً جان لیوا ہو گا۔
3۔ یورپی منڈی پر ترک لیرا کے زوال کے اثر ات ہورہے ہیں ۔
ا۔ ترکی کے بحران سے یورپی بینکوں کے متاثر ہونے پر یورپی مرکزی بینک کو خدشات لاحق ہیں، خصوصاً فرانس کا BNP Paribas بینک، اسپین کا BPA بینک اور اٹلی کا UniCredit بینک۔ ان تین بینکوں کا ترکی میں بہت کام ہے اور ان کے شیئر3 فیصدگر چکے ہیں۔ یورپ اس وقت ترکی سے شدید متاثر ہو رہا ہے جس کی وجہ اس کی ترکی میں سرمایہ کاری اور ترکی کے یورپی واجب الادا قرضے ہیں اور یہ امر بھی کہ دونوں کے درمیان تجارت کا حجم کافی بڑا ہے۔
ب۔ Bank for International Settlements (BIS) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ترکی نے یورپی بینکوں سے تقریباً 224 ارب ڈالر (تقریباً 200 ارب یورو) قرض لے رکھا ہے جس کا بڑا حصہ اسپین کے بینکوں سے لیا گیا ہوا ہےاور ان قرضوں کا ترکی کے بحران سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ کچھ یورپی بینکوں کے شیئرز لیرا کے زوال کے ساتھ10 سے20 فیصدکے درمیان گر گئے جس کی وجہ ترکی کا ان سے لیا گیا قرض ہے(سکائی نیوز 31 مئی 2018)۔
ج۔ ترکی کے قرض سے متعلق ایک اور تشویش ناک پہلو ہے، قرض کی ادائیگی کی صلاحیت کا نہ ہونا۔ ترک سرمایہ کاروں نے اسپین کے بینکوں کے 82.3 ارب ڈالر، فرانسیسی بینکوں کے 38.4 ارب ڈالر اور اطالوی بینکوں کے 17 ارب ڈالرملکی یا غیر ملکی کرنسیوں میں ادا کرنے ہیں۔ اسپین کا بینک BBVA، اطالوی بینک UniCredit، اور فرانسیسی کمپنی BNP Paribas نے اپنے شیئرز کی قیمت کھو دی ہے۔ https://www.ft.com/content/51311230-9be7-11e8-9702-5946bae86e6d
لیرا کی قیمت میں کمی سے یہ اندیشہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ترکی کہیں اپنے ذمے واجب الاداقرضوں سے دست بردار نہ ہوجائے جس کا یورپ پر بہت بڑا اثر ہوگا۔
د۔ ایسی خبریں ہیں جن سے اشارہ ملتا ہے کہ ترکی کی بڑی کمپنیاں بڑے قرضوں میں ڈوب چکی ہیں جو 220 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں، انھوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ لیرا کے گرنے کے بعد ان کو قرض دینے والوں سےتحفظ فراہم کیا جائے ۔ ان کمپنیوں میں Doğuş گروپ شامل ہے جس کو ایک ارب پتی فرٹ شاہنک چلاتا ہے جس نے بینکوں کو اربوں کےڈالر کے بیرونی قرضوں کو ری اسٹرکچر کرنے کا کہا۔ کچھ اندازوں کے مطابق، کل قرضہ جسے ری اسٹرکچر کرنے کا کہا گیا، 20 ارب ڈالر ہے۔ہ۔ جرمنی کی صنعتوں اور چیمبر آف کامرس کی فیڈریشن نے اعلان کیا کہ ترکی میں موجود تقریباً 6500 جرمن کمپنیاں ترک معیشت کی غیریقینی صورتحال سے اثرانداز ہوئی ہیں، جو اشارہ ہے کہ جرمن کمپنیاں ترک منڈیوں میں مزید سرمایہ کاری کے منصوبے ختم کر دیں گی۔ (www.lebanon24.com13/8/2018)
سوئم: لہٰذا امریکی چال کے ذریعے تیزی سے بڑھتے زوال میں لیرا کے بحران کو ابھارنا اس لیے تھا کہ یورپی معیشت کو بڑا جھٹکا دیا جائے اور یورو پر حملہ کر کے اسے ڈالر کے مقابلے میں کمزور کیا جائے۔ گوکہ لیرا پر دباؤ ڈالنے کے امریکی اعمال ترک لوگوں کی زندگیوں پر بھی اثر ڈالیں گے مگر ٹرمپ کو اس کی پرواہ نہیں۔ گو کہ ہم ٹرمپ کی بے رحمی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں جب وہ اپنے خون میں دوڑنے والی cowboy ذہنیت کی وجہ سے کسی بھی ایسی کرنسی کو نشانہ بناتا ہے جو ڈالر سے مقابلہ کرے لیکن افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اردوان نے اس کا ادراک نہیں کیا اور ٹرمپ کے عمل پر حیران ہوا اور سوچا کہ ٹرمپ ایک پادری کے لیے اپنے اتحادی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ "ایک پادری کے لیے ترکی کو دھمکانے کی جرأت کرنا غلط ہے” اس نے اُنیی کے قصبے Black Sea میں ایک ریلی کے سامنے کہا:۔”میں امریکہ میں رہنے والے سے پھر کہتا ہوں: شرم کرو، تم اپنے اسٹریٹیجک نیٹو اتحادی کو ایک پادری کے بدلے چھوڑ رہے ہو” (الانباء ویب سائٹ، اتوار 12 اگست 2018)۔ پھر اس نے دکھ اور گِلہ کرتے ہوئے ٹرمپ سے کہا کہ ترکی نے امریکہ کے لیے بہت کچھ کیا ہے اور اس کی خاطر لڑا ہے!
ایک کالم بعنوان: "اردوان: ترکی امریکہ کے ساتھ تنازعہ کو کیسے دیکھتا ہے”، جو دی نیویارک ٹائمز میں 10 اگست 2018 کو چھپا، میں اردوان نے کہا، "۔۔۔ پچھلی 6 دہائیوں سے ترکی اور امریکہ اسٹریٹیجک شریک اور نیٹو اتحادی رہے ہیں۔۔۔ دونوں ممالک سرد جنگ اور بعد کے حالات میں آنے والے مشترکہ چیلنجوں کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔ پچھلے سالوں میں ترکی نے فوراً امریکہ کی مدد کی، جب بھی ضرورت پڑی۔ ہمارے فوجی مردوں اور عورتوں نے کوریا میں اکٹھے خون بہایا۔ 1962 میں کینیڈی انتظامیہ اٹلی اور ترکی سے جیوپیٹر میزائل ہٹانے ہی کی بنیاد پر سوویت (یونین) کو کیوبا سے میزائل ہٹانے پر مجبور کر سکا۔ 11 ستمبر دہشت گردی کے حملوں کے بعد، جب واشنگٹن اپنے دوستوں اور اتحادیوں پر انحصار کر رہا تھا کہ برائی پر واپس وار کیا جائے، ہم نے اپنے فوجی افغانستان بھیجے تاکہ نیٹو مشن پورا کیا جا سکے”۔ لہٰذا اردوان نے امریکہ کو، جو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن ہے، اپنی وفاداری دکھائی اور اس کا انعام اسے حوصلہ شکنی کی صورت میں ملا۔
چہارم: امریکہ اور ترکی کے درمیان بحران کے مستقبل اور ترک لیرا کے مسئلہ کے بارے میں ہم یہ امید کرتے ہیں:
1۔ ترک لیرا پر امریکی دباؤ کا مقصد، جس سے لیرا کا زوال تیزتر ہوا، یہ تھا کہ یورپی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے یورپ میں افراتفری پھیلائی جائے جس سے یورو گر جائے، جس کی وجہ یورپ اور ترکی کے درمیان مالی اور معاشی تعلقات کی کثرت ہے اور اس کے نتیجے میں یورو ڈالر کے مقابلے میں پہلے ہی گر چکا ہے۔ "۔۔۔ جمعہ کو یورو بری طرح نیچے آیا جب فائینانشل ٹائمز نے دو ذرائع کی بنیاد پر کہا کہ ECB (یورپی مرکزی بینک)سپین، اٹلی اور فرانس کے بینکوں کے ترکی کے معاملے سے متاثر ہونےکے بعد ان کے بارے میں خدشات کا شکار ہے، اور آج یورو 1.13655 ڈالر کی سطح پر آ گیا جو جولائی سے اب تک کی ڈالر کے مقابلے میں کم ترین سطح ہے” (رائٹرز، پیر، 13 اگست 2018)۔ اگر ٹرمپ یورو کو اس انداز سے ضرب لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہےجو اس کے تکبر کی تسکین کرے ،تو وہ شاید دوبارہ ریٹنگ اداروں کے توازن کو بڑھا کرلیرا کی مدد کرے، جیسا اس نے اس وقت کیا تھا جب 2003 میں اردوان آیا تھا، جب لیرا کمزور تھا اور معیشت بلند ایجوت کے دور میں غیرمستحکم تھی اور پھر امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کے ذریعے اور ترکی کی ریٹنگ بڑھا کر مسلسل قرضوں کے ذریعے بڑھتی معیشت کا غبارہ پیدا کیا۔۔۔ اور اس طرح ترکی کی بڑھتی معیشت کو ابھارا گیا، حالانکہ یہ قرضوں اور سود پر مبنی تھی!
2۔ جہاں تک ڈیوٹی کا تعلق ہے، یہ غیر اہم ہے۔ ترکی کی امریکہ کی طرف برآمدات ایک ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہیں (الیوم اصابی 2 اگست 2018)، جو ایسے ملک کو متاثر نہیں کرتیں جس کی 2017 کی برآمدات 157 ارب ڈالر سے زیادہ ہوں (بوابت الشرق 2 جنوری 2018)۔ جیسے نیت یہ تھی کہ ترک معیشت میں عدم استحکام پھیلایا جائے اورپھر ترک لیرا کو اندھیرے میں دھکیلاجائے اور یہ مل کر، یورپ اور ترکی کے درمیان معاشی اور مالی لین دین کے حجم کی وجہ سے، یورپی معیشت اور یورو پر اثر ڈالیں اور ایسا ہی ہوا۔۔۔
3۔ پادری سے متعلق: وہ دو سال سے قید میں ہے اور ترکی اور امریکہ کے درمیان معاملات پرامن تھے لیکن ٹرمپ نے اب انتخابات کے لیے اس کو اٹھا دیا اور امریکہ اور ترکی کے درمیان کشیدگی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے جو مالی منڈیوں پر اثرانداز ہو۔ یہ اس مسئلے کا ایک ضمنی حصہ ہے نہ کہ کوئی اہم حصہ۔ لہٰذا جب یورو کا مقصد حاصل ہو جائے گا جس میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا۔۔۔ پادری کو امریکہ کے حوالے کر دیا جائے گا اورضروری نہیں کہ امریکہ اردوان کی عزت رکھے یا نہ رکھے!
4۔ ترک لوگوں کی مشکلات جو لیرا کے گرنے اور قیمتوں کے چڑھنے اور روزمرہ کی مشکلات سے پیدا ہوئی، ٹرمپ یا اس کے حواریوں یا ایجنٹوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شاید یہ پیروکار اور حمایتی اس سے سبق سیکھیں اور اس امر کی طرف عقلمندی کا مظاہرہ کریں کہ ان کےآقا کی نظر میں ان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ اگر ان آقاؤں کے مفادات یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ وہی کریں جو ان کی مرضی ہے، چاہے یہ ان پیروکاروں کے لیے توہین ہی کیوں نہ ہو یا شرمندگی کا باعث ہو، تو جو شرمندگی کے عادی ہیں ان کو اس توہین سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اختتامیہ:
– وہ بحران جو ٹرمپ نے پیدا کیا یعنی کسٹم ڈیوٹی، پادری کا مسئلہ، ترکی کی ریٹنگ میں کمی، ترکی کے قرضوں کو نمایاں کرنا وغیرہ اور لیرا کا زوال ، اس بحران کا مقصد یورپی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے یورپ میں افراتفری مچانا اور پھر یورپ اور ترکی کے درمیان معاشی اور مالی لین دین کے حجم کی وجہ سے یورو کو زوال پزیر کرنا ہے، جس کے نتیجے میں دراصل یورو ڈالر کے مقابلے میں گرا ہے۔
– اور چونکہ اردوان امریکہ کے دائرہ اثر میں ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ بحران طویل نہیں ہو گا۔ اگر ٹرمپ یورو کے زوال سے مطمئن ہو جاتا ہے چاہے یہ اس کی توقعات کے برعکس ایک knockout نہ بھی ہو، یہ زیادہ دور نہیں جائے گا۔ پھر ٹرمپ نے جیسے یہ بحران کھڑا کیا تھا ویسے ہی اسے ختم کرے گا چاہے اردوان کی عزت بچے یا نہ بچے۔ اور پھر پادری کو چھوڑ دیا جائے گا اور ڈیوٹی ختم یا کم کر دی جائے گی۔ ریٹنگ ایجنسیاں ترکی کی درجہ بندی بہتر کر دیں گی جب واجب الادا قرض مزید قرضے لے کر ٹال دیا جائے گا۔ لہٰذا لیرا کی قیمت بہتر ہو جائے گی چاہے بحران سے پہلی والی حالت پر واپس نہ بھی آئے۔ ٹرمپ اور اردوان دوبارہ دوستی کی پینگیں بڑھائیں گے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں!! وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر ان کے آقاؤں کے مفادات ان کی تذلیل کا تقاضا کرتے ہیں تو یہی ہو گا، لیکن اگر ان کو ہٹانے کی ضرورت ہے تو پھر یہی ہو گا، جو کہ ان سے پہلے کے حمایتیوں کے ساتھ ماضی میں ہوا، کیا ان کو یاد نہیں؟
﴿إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ﴾
"بے شک اس میں شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) قلب ہو یا وہ متوجہ ہو کر (بات کی طرف) کان ہی لگا دے” (ق، 37)
(عربی سے ترجمہ)
12 ذوالحجہ 1439 ہجری
23 اگست 2018 عیسویa