سوال و جواب:احسن طریقےسے قرض کی واپسی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال1:
امیرِ محترم! اسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اگرکسی شخص نے ،مثال کے طور پر،ایک ٹن لوہا قرض لیا ہو، اور وہ قرض دینے والے کی درخواست یا دباؤ کے بغیر اپنی مرضی سے ایک ٹن اوراس سے کچھ زیادہ واپس کرتا ہے … تو کیا اسے قرض کی احسن طریقے پرواپسی نہیں سمجھا جائےگا؟برائے مہربانی یہ ہمارے لئے واضح کریں۔اختتام
اسما جوب
سوال2:
جیسا کہ سُنا ہے کہ کسی شخص کو قرض دیتے وقت یہ توقع کرنا حرام ہے کہ وہ آپ کو کم یا زیادہ کرکے واپس لوٹائے،بلکہ قرض واپس لوٹاتے ہوئے اُتنی ہی مقداراوراُسی جنس کا مال واپس لوٹانا چاہیے،لیکن میں اس جملے سے کہ”احسنطریقےپر قرض کی واپسی”سےکچھ الجھ گیا ہوں اورمیرا سوال ہے کہ اِسے کیوں سود نہیں سمجھا جاتا ؟جبکہ اگر جنس میں بدل یا مقدار میں کوئی اضافہ کیا جائے تو اُسےسودسمجھا جاتا ہے؟ براہ کرم نبیﷺ کی اس حدیث کی وضاحت کر یں کہ جس آپﷺ نے ایک اونٹ قرض پر لیا اورقرض کی احسنطریقےپرواپسی کے لئے قرض لوٹاتے ہوئےایک بہتر چار سالہ اونٹ واپس لوٹایا ، لیکن ہم نے اِس عمل کوسودکہاہے کہ اگرکوئی ایک ٹن لوہا لے اور ڈیڑھ ٹن واپس لوٹائے؟کیاجنس کے فرق اورمقدارمیں اضافہ کرنے کومنع نہیں کیا گیاہے؟جزاک الله خير۔اختتام
اُم احمد
سوال3:
السلام عليكم،ہمارے عزیز شیخ،ایک جواب میں کہا گیا ہے کہ قرض مالک کولوٹاتے ہوئے "فائدے” میں بغیر کسی اضافہ کےواپس ادا کیاجانا چاہئے؛ورنہ دوسری صورت میں یہ سودبن جائے گا۔کیا یہاں اضافے سے مراد ..…قرض دینے والے کی طرف سےقرض دیتے وقت کوئی مشروط اضافہ ہے……کیا بغیر کسی شرط کے اضافہ حرام ہے؟ جزاک اللہ خیر۔اختتام
واثقہ بوعدالله
ختم شد
تینوں سوالات چونکہ ایک ہی موضوع کے بارے میں ہیں لہذاجواب مندرجہ ذیل ہے۔
جواب:
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جیساکہ نبیﷺ کی حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ قرض کواحسنطریقےپر واپس لوٹاؤ،تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُس کی جنس کی مقداریا وزن یا پیمائش میں اضافہ کیا جائے۔بلکہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ قرضےکواُسی مقدار، وزن یا پیمائش،اور اُس ہی جنس میں، لیکن اصل سے زیادہ بہتر معیارمیں ادا کرنے کی اجازت ہے۔لہذا اگر کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کو 10 کلو گرام وزن گندم دیتا ہے، تو دوسرا آدمی اُس سے بہتر گندم واپس دےسکتا ہے، لیکن 10 کلو گرام ہی، اورمثال کے طور پر اگر کسی نے دس صاع چاولوں(25 کلو گرام چاول) کا قرضہ لیا،تو اس سے بہتر چاول واپس دیناجائزہے،لیکن اس ہی وزن میں،یعنی دس صاع۔ اگرکسی نے ایک بھیڑقرض پہ لی ہےتو اُسے اِس کی اجازت ہے کہ وہ ایک بہتر بھیڑواپس لوٹادے،لیکن دو نہیں۔
قرض احسنطریقےپرواپس لوٹانے کامطلب یہ ہے؛ اور یہ وزن یا پیمائش یا مقدار میں اضافہ یا جنس میں بدل نہیں ہے۔
مندرجہ بالا جواب میں اللہ کے رسول ﷺ کی بیان کردہ حدیث کامطلب یہی ہے، جو کہ اس طرح بیان ہوئی: ابو رافع سے روایت ہے:»اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بَكْرًا فَجَاءَتْهُ إِبِلٌ مِنْ الصَّدَقَةِ فَأَمَرَنِي أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ فَقُلْتُ لَمْ أَجِدْ فِي الْإِبِلِ إِلَّا جَمَلًا خِيَارًا رَبَاعِيًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَعْطِهِ إِيَّاهُ فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً« "نبی ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض پر لیا، بعد میں جب اونٹوں کا صدقہ آپﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اُس آدمی کو ایک جوان اونٹ واپس لوٹادو،میں نےبتایا کہ مجھے ایک چار سالہ بہتر اونٹ کے علاوہ کچھ نہیں ملا توآپﷺنےفرمایا:” اُس کو یہی دےدو،بےشک لوگوں میں سے بہتروہ ہیں جوواپس کرنے میں سب سے بہتر ہیں”(ابو داؤد اور دیگر نے روایت کیا)
یعنی،نبیﷺ نے اُس آدمی کو پہلےوالےاونٹ کے مقابلے میں ایک بہتر اوراعلیٰ اونٹ واپس لوٹایا، لیکن اس ہی عدد میں، یعنی، ایک اونٹ ہی واپس لوٹایا۔
لہذاہمارے جواب میں یہی کہاگیا ہےکہ، ایک ٹن لوہا قرض لے کر، ایک اور آدھا(ڈیڑھ) ٹن واپس کرناجائز نہیں ہے،بلکہ اُسے اُتناہی وزن واپس لوٹایا جاناچاہیے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ،قرض احسنطریقےپرواپس لوٹانے کامطلب یہ ہے کہ وزن یا پیمائش یا مقدار میں اضافہ نہیں کیا جائے بلکہ اُسی مقدار، وزن یا پیمائش،اور اُس ہی جنس میں واپس لوٹایا جائے،لیکن اگر قرض لینے والا قرض دینے والےکی بغیرکسی پیشگی شرط کےکوئی بہترمعیارمیں ادائیگی کرنا چاہتا ہے تو یہ جائز ہے، کیونکہ نبیﷺنے قرض دینے والےکوبغیرکسی پیشگی شرط کے بہتر لوٹایا تھا ۔
کتاب "اسلام کانظام اقتصاد ” میں ربا(سود) کے سیکشن میں لکھا ہے:”قرض دینا اور قرض لینا چھ اقسام کی اشیاء میں جائز ہے اور دوسری اشیاءمیں بھی اورکسی بھی ایسی شے میں جو مالکیت میں لی جاسکتی ہو اور جس کی ملکیت قانونی طور پر منتقل کی جاسکتی ہو۔ ان اشیاءمیں سود اُس صورت میں ہوتا ہے کہ اگر قرض واپس لیتے وقت ہم اِس سے کوئی منافع حاصل کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ حارث بن ابی اسامہ نے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے:»أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن قرض جرمنفعة«”نبی ﷺ نے قرض سے فائدہ اُٹھانے کو ممنوع قرار دیا”۔ اور ایک اور روایت میں ہے:»كل قرض جر منفعة فهو رباً«”ہر قرض جس کا فائدہ ہوتا ہے وہ سود ہے۔”
اس میں رعایت یہ ہے کہ جب قرض کسی اضافے کے بغیر احسن طریقے سے لوٹایاجائے تویہ جائز ہے، جیسا کہ ابو داؤد نے ابو رافع سے روایت کیا جنہوں نے بیان کیا:»استسلف رسول الله بكراً فجاءته إبل الصدقة فأمرني أن أقضي الرجل بكره فقلت لم أجد في الإبل إلا جملاً خياراً رباعياً فقال: أعطه إياه فإن خيار الناس أحسنهم قضاءً« "نبی ﷺ نے ایک جوان اونٹ قرض پر لیا، بعد میں جب اونٹوں کا صدقہ آپﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اُس آدمی کو ایک جوان اونٹ واپس لوٹادو،میں نےمطلع کیا کہ مجھے ایک چار سالہ بہتر اونٹ کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا توآپﷺنےفرمایا،” اُس کو دےدو،لوگوں میں سے بہتر وہ ہیں جوواپس کرنے میں سب سے بہتر ہیں۔”
یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ قرض لوٹا تے ہوئےتحفے اور تحائف جائز ہیں،یعنی اگر قرض لوٹاتے ہوئے وزن یامقداروپیمائش میں کسی شرط کے بغیر رضاکارانہ طور پر اضافہ کیا جائے تو جائز ہے،یہ نہیں کہا گیا۔ہاں یہ اُس صورت میں جائز ہوگا اگرتحفے اور تحائف کا یہ معاملہ قرض سے منسلک نہ ہو، لیکن سوالوں میں پوچھا گیا ‘ اضافہ’ قرض سے جڑا ہواہے، اور اس لئے یہ فائدے کے زمرے میں آئےگا،جیسا کہ حارث بن ابی اسامہ نے حضرت علی کی حدیث سے روایت کیا ہے:»أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن قرض جر منفعة« "نبی ﷺ نے کسی بھی قرض جس سے فائدہ اُٹھایا جائے ممنوعہ قرار دیا ہے۔” اور ایک اور روایت میں ہے: »كل قرض جر منفعة فهو رباً«”ہر قرض جس کا فائدہ ہوتا ہے وہ سود ہے۔”
اس کے علاوہ، یہ نہیں کہاگیاکہ ایک ہی طرح کی جنس میں بہتری فائدہ ہے؛یہ اس لئے نہیں کہاگیا کیونکہ نبیﷺ نے اس کی اجازت دی ہےاوریہ قرض کو احسن طریقے پر لوٹانے کےزمرے میں آتا ہے، جیسا کہ ابو رافع نے مندرجہ بالا حدیث میں بیان کیاہے۔
مجھے امید ہے کہ جواب کافی ہوگا، اور جیسااللہ چاہے۔
آپ کا بھائیعطاء بن خليل ابو رَشتہ5 شعبان 1439 ھ،21/04/2018 عیسوی ختم شد