وہ شخص خوش قسمت ہے جو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ رز ق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
یہ سمجھ اور فہم کہ رز ق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ، اسلامی عقیدے کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے۔ اس فہم اور سمجھ کی وجہ سے ایک ایمان والے کے کردار میں بلندی آتی ہے اور اس کا دل و دماغ دولت جمع کرنے کی فکروں سے آزاد ہوجاتا ہے اور وہ اپنے و قت کا زیادہ حصہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول پر صَرف کرتا ہے۔ یہ فہم کہ رز ق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے دولت کی خواہش کے متعلق مسلمان کے تصور میں وسعت پیدا کرتا ہے ، اسے غربت کے خوف سے نجات دلاتا اور مشکل و قت میں وہ غربت کا استقامت اور حوصلے سے سامنا کرپاتا ہے۔ یہ تصور رز ق کے حصول کی کوشش میں اسے حوصلہ دیتا ہے اور وہ رز ق کے حصول کی کوشش میں خود کو اس قدر مصروف نہیں کرلیتا کہ جس سے اس کی دوسری ذمہ داریاں ادا نہ ہوسکیں۔ یہ تصور اس میں قربانی کی خواہش کو جِلابخشتا ہے یہاں تک کہ وہ دوسرے فرائض کی تکمیل کے لیے رز ق کے حصول کی کوشش کو قربان کردیتا ہے۔ یہ سب کچھ وہی شخص کرپاتا ہے جو حقیقی طور پر اور مکمل طور پر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ رز ق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ طرز عمل اس شخص کے بالکل برخلاف ہوتا ہے جس کا رز ق کے متعلق سمجھ اور فہم واضح اور شفاف نہ ہو یہاں تک کہ وہ یہ سمجھے کہ رز ق بندے کے اپنے ہاتھ میں ہے یا دوسرے بندوں کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے دماغ میں مسلسل یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ انہیں اپنے رز ق کی کوشش میں اضافہ کرنا چاہیے تا کہ رز ق میں اضافہ ہو اور اس بات پر وہ اس حد تک عمل کرتے ہیں کہ کسی اور کام یا فرض کی تکمیل کے لیے ان کے پاس و قت ہی نہیں رہتا۔ اور پھر رز ق کے حصول کی کوشش میں اضافے کے لیے تو و قت نکل آتا ہے لیکن عبادت اور اسلام کی دعوت کو پہنچانے کے لیے و قت نہیں نکلتا۔ ان کی تمام کوششوں کا محوریہ ہوتا ہے کہ رز ق کی کوشش میں مسلسل اضافہ کیا جائے اور اس میں بہتری لائی جائے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایسا کرنے سے ہی ان کے رز ق میں اضافہ ہوگا۔ ان کے دماغ میں ہر و قت یہی سوچ چلتی رہتی ہے کہ کس طرح رز ق میں مزید اضافہ کیا جائے یہاں تک کہ دماغ کچھ اور سوچتا ہی نہیں ہے۔ جب انہیں دیگر فرائض کی ادائیگی کی یاددہانی کرائی جاتی ہے تو وہ انہیں صرف اس حد تک ادا کرتے ہیں کہ جس سے ان کے رز ق کے حصول کی کوشش میں کوئی کمی نہ آجائے۔ جب انہیں نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ یہ کہتے ہوئے ہاتھ کھڑے کردیتے ہیں کہ "ہمارا ایمان تو کمزور ہے”، یا بے دلی سے وعدہ کریں گے، ہمیشہ پیچھے رہیں گے تا کہ کفر پر غلبے کے لیے اسلام کے مکمل نفاذ کی کوشش میں اگلی صفوں میں نہیں بلکہ پچھلی سے پچھلی صف میں کھڑے رہیں۔
ہم سب کو اپنے دماغ میں یہ بات بیٹھالینی چاہیے کہ رز ق صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ کتاب اللہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ میں یہ بات بالکل واضح طور پر بغیر کسی شک و شبہ کہی ہے کہ وہ سبحانہ و تعالیٰ ہی ہر مخلو ق کے رز ق کا تعین کرتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، لاَ نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى” ہم تم سے روزی کے خواستگار نہیں۔ بلکہ تمہیں ہم روزی دیتے ہیں اور (نیک) انجام (اہل) تقویٰ کا ہے "(طٰہٰ:132)۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمْ اللَّهُ حَلالاً طَيِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ ” اور جو حلال طیّب روزی اللہ نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور اللہ سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو "(المائدہ:88) ۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ” اور جس کو چاہتا ہے اللہ بےشمار رزق دیتا ہے "(النور:38)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ "بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے”(آل عمران:37)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ ” اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لئے (رنج ومحن سے) نجات (کی صورت) پیدا کرے گا۔ اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے وہم و گمان بھی نہ ہو "(الطلاق:3-2)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ ” اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے وہ جہاں رہتا ہے، اسے بھی جانتا ہے اور جہاں سونپا جاتا ہے اسے بھی۔ یہ سب کچھ کتابِ روشن میں (لکھا ہوا) ہے "(ہود:6)۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم ان آیات پر مسلسل غور کریں، انہیں سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے مطابق اپنے رویے اور عمل کو بدلنے کی کوشش کریں۔ ان آیات کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص کو کتنا رزق ملے گا ، اور یہ کہ رزق کا تعین کر کے اسے لکھ دیا گیا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ مطلب ہے کہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں ہے کہ کسے کتنا رزق دینا ہے۔ یقیناً اللہ سبحانہ و تعالیٰ رازق ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور وہ جس کے لیے چاہتا ہے اس کے رزق میں اضافہ یا کمی کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی رازق نہیں ہے۔ہمیں رزق کو حاصل کرنے کی کوشش (سعی)کرنے کے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کوسمجھنا چاہیے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ الأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ "وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو نرم کیا تو اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اللہ کا (دیا ہو) رزق کھاؤ اور تم کو (قبروں سے) نکل کر اسی کے پاس جانا ہے”(الملک:15)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، فَإِذَا قُضِيَتْ الصَّلاَةُ فَانتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ” پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو اور اللہ کا فضل تلاش کرو "(الجمعہ:10)۔لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ رازق ہے، صرف وہی ہے جو رزق دیتا ہے ، اور کوئی رزق نہیں
دیتا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگ اس کی زمین پر پھیل جائیں اور اس کادیاہوا رز ق تلاش کرنے کی کوشش کریں۔لیکن اس کا مطلب قطعاًیہ نہیں ہے کہ رزق کا سبب محنت وکوشش ہے، اور یہی وہ بات ہے جس سے اس موضوع پر غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ محنت وکوشش رزق کا سبب نہیں ہے بلکہ یہ ان صورتوں میں سے ایک صورت ہے جس کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ رزق فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا ہوسکتا ہے ایک کاروباری شخص منافع کے لیے بہت سخت محنت کرے لیکن اسے نقصان ہوجائے۔ہوسکتا ہے کہ ایک صنعتکار ایک کارخانہ کھڑا کرنے کے لیے سخت محنت کرے لیکن اس کارخانے میں بننے والی اشیا مارکیٹ میں فروخت ہی نہ ہوسکیں اور اس طرح اسے منافع کی جگہ نقصان اٹھانا پڑے۔
دوسری جانب ایک وارث کو وراثت میں ملنے والے مال کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ رزق عطا فرمادیتا ہے۔ یا ایک شخص کو راہ چلتے کوئی مال (لُقطہ) مل جائے، یا کسی سے تحفے میں مال(ھبۃ) مل جائے، یا زکاۃ، یا صدقہ مل جائے۔ان تمام صورتوں میں ایک شخص کو بغیر کسی کوشش (سعی) کے رزق میسر آجاتا ہے۔ اسی طرح عدالت ایک شخص کو کسی دوسرے کو نفقہ دینے کاحکم دیتی ہے جو اس کی ذمہ داری میں ہوتا ہے، اور اس طرح دوسرےشخص کو بغیر کسی کوشش (سعی) کے رزق میسر آجاتا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال معذور اور کمزور لوگوں کے لیے بھی ہوتی ہے جن کی دیکھ بھال ریاست کرتی ہےیا جنہیں ریاست زمین مہیا کرتی ہے ۔ یہ تمام لوگ بغیر کسی کوشش (سعی) کےرزق پاتے ہیں اور یہی چیز اس بات کا ثبوت ہے کہ رزق کا ملنا کوشش (سعی) سے مشروط نہیں ہے بلکہ یہ ان حالات میں سے ایک حالت ہے کہ جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ رزق عطا فرماتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے رزق کے حصول کی کوشش اور ذرائع کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں منظم کرنا چاہیے۔
یہ بات ہمیں اپنے اذہان میں بٹھا لینی چاہیے کہ کامیاب شخص وہ نہیں ہے جو رزق کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے اور دین کے دیگر احکام کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ کامیاب شخص وہ ہے جو اسلام کو اہمیت دیتا ہے اور اسی کے مطابق کوشش (سعی) کرتا ہے اور اس پر صبر و شکر کرتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا۔ عمروبن العاصؓ نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ ” کامیاب وہ ہے جس نے اسلام قبول کیا، جسے اتنا دیا گیا جو اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہو اور جو اللہ نے اسے دیا اس پر صابر و شاکر ہو "(مسلم)۔
بجائے اس کے کہ رزق کی کوشش میں مسلسل پریشان رہا جائے یا رزق کی کوشش کے سلسلے میں جو مواقع کھو دیے ہیں ان پر افسوس کا اظہار کیا جائے، ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ جو کچھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے وہ ہماری ضروریات کے لیے کافی ہوجائے۔ ابوہریرہؓ نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا "اے اللہ! آل محمدکا رزق موافقِ ضرورت رکھنا”(ترمذی)۔ ابو ہریرہؓ نے روایت کی کہ ایک آدمی نے کہا، "اے اللہ کے رسول ﷺ، میں نے پچھلی رات آپ ﷺ کی دعا سنی تھی، اور اس کا ایک حصہ جو میں نے سنا وہ یہ تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي وَوَسِّعْ لِي فِي رِزْقِي وَبَارِكْ لِي فِيمَا رَزَقْتَنِي ” اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے رزق میں کشادگی دے، اورتو جو رزق بھی مجھے عطا فرمائے اس میں برکت دے "۔ آپ ﷺ نے فرمایا، فَهَلْ تَرَاهُنَّ تَرَكْنَ شَيْئًا ” کیا ان( دعائیہ کلمات) نے کچھ چھوڑا؟ "(ترمذی)۔
بجائے یہ کہ ہم دوسری ذمہ داریوں کی قیمت پر رزق کے حصول کی کوشش کریں، ہمیں اس کوشش میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے تا کہ ہم تمام ذمہ داریوں کو اتنا وقت دے سکیں جس کا وہ حق رکھتی ہیں۔ جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ رِزْقَهَا وَإِنْ أَبْطَأَ عَنْهَا فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَجْمِلُوا فِي الطَّلَبِ خُذُوا مَا حَلَّ وَدَعُوا مَا حَرُمَ"لوگو! اللہ سے ڈرو، اور دنیا طلبی میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، اس لیے کہ کوئی اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنی تمام ترروزی پوری نہ کر لے، گو اس میں تاخیر ہو، لہٰذا اللہ سے ڈرو، اور روزی کی طلب میں اعتدال کا راستہ اختیار کرو، صرف وہی لو جو حلال ہو، اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو”(ابن ماجہ)۔
بجائے اس کے کہ ہم اس شخص کی قسمت پر رشک کریں جسے اللہ نے بے حساب دیا ہے، جس پر اللہ اس سے تفصیلی حساب بھی لے گا، ہمیں اس شخص کی پیروی کرنی چاہیے کہ جسے جتنا کچھ بھی دیا گیا وہ اس پر راضی اور مطمئن ہے۔ ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،اِنَّ أَغْبَطَ النَّاسِ عِنْدِي مُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنْ صَلاَةٍ غَامِضٌ فِي النَّاسِ لاَ يُؤْبَهُ لَهُ كَانَ رِزْقُهُ كَفَافًا وَصَبَرَ عَلَيْهِ عَجِلَتْ مَنِيَّتُهُ وَقَلَّ تُرَاثُهُ وَقَلَّتْ بَوَاكِيهِ ” لوگوں میں سب سے زیادہ قابل رشک میرے نزدیک وہ مومن ہے، جو مال و دولت آل و اولاد سے ہلکا پھلکا ہو، جس کو نماز میں راحت ملتی ہو، لوگوں میں گم نام ہو، اور لوگ اس کی پرواہ نہ کرتے ہوں، اس کا رزق بس گزر بسر کے لیے کافی ہو، وہ اس پر صبر کرے، اس کی موت جلدی آ جائے، اس کی میراث کم ہو، اور اس پر رونے والے کم ہوں "(ابن ماجہ)۔
ہمیں رزق کی پریشانی کو اپنے اذہان پر حاوی نہیں کرنا اور نہ ہی اس کے کم ہونے پردل میں کوئی ملال لانا ہے کیونکہ ہم یہ جانتے ہیں ہمارا رزق صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ایک روایت کے مطابق خالد کی دو بیٹیوں حبہؓ اور سواءؓ نے کہا :”ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے جب وہ کچھ کررہے تھے تو ہم نے اس کام کی انجام دہی میں ان کی مدد کی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا، لاَ تَيْأَسَا مِنَ الرِّزْقِ مَا تَهَزَّزَتْ رُءُوسُكُمَا فَإِنَّ الإِنْسَانَ تَلِدُهُ أُمُّهُ أَحْمَرَ لَيْسَ عَلَيْهِ قِشْرٌ ثُمَّ يَرْزُقُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ” تم روزی کی طرف سے مایوس نہ ہونا جب تک تمہارے سر ہلتے رہیں، بیشک انسان کی ماں اس کو لال جنتی ہے، اس پر کھال نہیں ہوتی پھر اللہ تعالیٰ اس کو رزق دیتا ہے "(ابن ماجہ)۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا ” اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل(بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل(بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں "(ابن ماجہ) ۔
ختم شد