تفسیر سورۃ البقرۃ: آیت 185-183
فقیہ اور مدبر سیاست دان امیر حزب التحریر شیخ عطا بن خلیل ابو رَشتہ کی کتاب تیسیر فی اصول التفسیر سے اقتباس :
أعوذبالله من الشيطان الرجيم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 183). أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة: 184). شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنْ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمْ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمْ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرة: 185).
"اے ایمان والو! تم پر روزےلکھ دیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیےگئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں۔ پھر اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا کر( روزے کا ) فدیہ ادا کریں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر تمہیں سمجھ ہو تو روزے رکھنے میں تمہارے لیے زیادہ بہتری ہے۔ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی ہیں اور یہ حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتاہے، لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے، وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔ اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا، تاکہ ( تم روزوں کی) گنتی پوری کرلو، اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی اس پر اللہ کی تکبیر کہو، اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔”( البقرہ 185)
مندرجہ بالا آیات میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے:
1۔ اللہ سبحانہ نے اہل ایمان (اُمّتِ مُسلمہ ) پر روزہ فرض کیا ہے، جیسا کہ گذشتہ اقوام پر فرض کیا گیا تھا، یہاں پچھلی اقوام سے جس مماثلت کا ذکر ہے وہ روزے کی فرضیت ہے ، دنوں کی تعداد اور اس کے لیے مہینے کی تعیین میں مماثلت نہیں۔ کیونکہ قرآن کی یہ آیت فرضیت روزہ کے حوالے سے ہی نص ہے،تعداد اور مہینے کی تعین میں نص نہیں ہے۔ آیت میں ہے کہ:]كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ[” تم پر روزے لکھ دیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیے گئے تھے”۔
2۔ ان آیات سے روزہ کا فرض ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے تو یہ اس لیے کہ :
ا۔ ]كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ [” تم پر روزہ لکھ دیا گیا ہے”، یہاں خبر دی جا رہی ہے مگر اندازطلب کا ہے یعنی روزہ رکھو۔
ب۔ مریض اور مسافر کے روزہ نہ رکھنے پر روزے کی قضا کا حکم لاگو ہونا حتمی طلب کا قرینہ ہے، کیونکہ اگر یہ حتمی طلب نہ ہوتی تو اس کی قضا کا حکم نہ دیا جاتا، قضا کا حکم اگلی آیت میں بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہے: ]فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ[” پھر اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔” اس لیے روزے کی طلب ،طلبِ جازم ( حتمی) ہے ، چنانچہ روزہ رکھنا فرض ہے۔
ج۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا قول ]فَلْيَصُمْهُ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ[” پس تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے” ہر اس شخص سے روزے کی طلب پر دلالت کرتا ہے جو اس ماہِ مبارک میں حاضر یعنی مقیم ہو۔ اس کے بعد یہ قول ]وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ[” پھر اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔” طلب کے حتمی ہونے کا قرینہ ہے۔ کیونکہ اس آیت سے مریض اور مسافر پرروزہ افطار کرنے کی صورت میں قضا کی ذمہ داری ثابت ہوتی ہے ، اس سے بھی یہ معلوم ہوا کہ اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے، وہ حتمی ہے یعنی یہ کہ روزہ فرض ہے۔
د۔ یہ تو اس حوالے سے تھا کہ قرآن سے روزے کی فرضیت ثابت ہے ، جہاں تک سنت کی بات ہے تو اس حوالے سے بہت کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث حضرت عمر ؓ نے روایت کی ہے جس میں وہ رسول اللہ ﷺ کے جبرئیل ؑ کے ساتھ سوال و جواب کو روایت کرتے ہیں ، جبرئیل ؑنے آکر آپﷺ سے دریافت کیا: اسلام کیا ہے؟ تو آپ ﷺنے جواب ارشاد فرمایا ((شهادة أن لا اله إلا الله وأن محمداً رسول الله، وإقام الصلاة المكتوبة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وحج البيت من استطاع إليه سبيلاً)) "اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺاللہ کے بھیجے ہوئے(رسول ) ہیں، فرض نماز کو پابندی کے ساتھ درست طریقے سے ادا کرنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور حج بیت اللہ ( اللہ کے گھر کی زیارت)اُس کے لیے جو وہاں جاسکتا ہو”(ترمذی، مسلم۔)۔ حدیث میں سوال و جواب کا موضوع اسلام ہے جس کو اپنانا تمام لوگوں کے لیے فرض ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:] إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلاَمُ [ "بے شک (معتبر) دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے”۔ (آل عمران:19) اور]وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنْ الْخَاسِرِينَ["اور جو کوئی شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے گا تو اُس سے وہ دین قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ان لوگوں میں شامل ہوگا جو سخت نقصان اٹھانے والے ہیں۔”(آل عمران:85) مذکورہ بالا حدیث میں جبرئیلؑ کا اسلام کے بارے میں سوال اور رسول ﷺ کا اس کے جواب میں روزہ کا ذکر کرنا اس کی دلیل ہے کہ روزہ فرض بلکہ ایک عظیم فرض ہے۔
اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :((بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأنَّ محمداً رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وحج البيت من استطاع إليه سبيلاً))” اسلام کی عمارت ان پانچ چیزوں پر کھڑی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمدﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں، نماز کو اچھی طرح پابندی سے ادا کرنا، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور صاحبِ استطاعت کا حج ادا کرنا۔” کسی شے کا ایسا ہوناکہ جس پر عمارت کھڑی ہوتی ہے ، وصفِ مفہم ہوتاہے جو حتمی طلب کا فائدہ دیتا ہے،حدیث میں ان پانچ امور کو بھی بنیاد اور ارکان اسلام بتایا گیا ہے،جس سے نتیجہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ روزہ فرض ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نےروزے کی ایک حکمت بھی بتائی ہے یعنی تقویٰ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ]لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [” تاکہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔” تقویٰ کے معنی ہیں: اللہ کی خشیت ، اطاعت وفرمانبرداری اور اللہ سبحانہ سے ملاقات کی تیاری میں لگےرہنا، جیسا کہ بعض صحابہ ؓ اس کو ایسے بیا ن کیا ہے: الخوف من الجليل والعمل بالتنزيل والاستعداد ليوم الرحيل جلیل ( اللہ ) کا خوف،تنزیل(قرآن) پر عمل اور رحیل( دنیا سے کوچ کرنے )کے دن کے لیے تیاری۔
روزہ دار پر لازم ہے کہ وہ روزے کی اس حکمت کو پا لینے کی خوب کوشش کرے کیونکہ اللہ سبحانہ نے روزہ کی فرضیت بیان کرتے ہوئے اس کی حکمت تقویٰ قرار دی ہے۔
اس بنا پر اپنے روزے کا جائزہ لینا چاہیے کہ روزہ رکھ کر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ کیا دل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی خشیت بڑھ گئی ہے؟ کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت اور اس کی ملاقات کی تیاری میں اضافہ ہوا؟ اس کو پرکھنے کے لیے یہ دیکھا جائے کہ اعمال صالحہ میں کیا اور کتنا اضافہ کیا؟ ایسا روزہ ہی سچا اور حقیقی روزہ کہلاتا ہے ،ایسے ہی روزے سےرب العالمین کی طرف سے اجر عظیم عطا کیا جاتا ہے، ایسے ہی روزے پررسول اللہﷺ کی بشارت کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا :((كلّ عمل ابن آدم له إلا الصوم فإنه لي وأنا اجزي به )) "اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ابن ِآدم کا ہر عمل اپنے واسطے ہے مگر اس کا روزہ میرے لیے ہے ،میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔” اور فرمایا :((للصائم فرحتان: فرحة عند فطره، وأخرى عند لقائه ربه))”روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک افطار کے وقت دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔” اگر روزے کی اس حکمت یعنی تقویٰ کو حاصل نہیں کیا تو اس کا علاج اس دن کے آنے سےپہلے ضروری ہے، جب مال و اولاد نفع نہیں دے سکیں گے،اس دن صرف وہی شخص نجات پائے گا جو قلب سلیم لے کر آئے گا۔
4۔ ] أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ [ ” چند دن” اس سے مراد تھوڑے دن ہیں، عرب کے لوگ تھوڑے کو معدود ( گنتی کا) کہتے ہیں ، گویا زیادہ چیز گنی نہیں جاسکتی۔ اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ]وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّامًا مَعْدُودَةً [ (البقرۃ: 80) "اور یہود نے کہا : ہمیں چند دن ہی آگ چھوئے گی” یہود کے خیال میں یہ تھوڑے دن ہوں گے۔ اور اللہ سبحانہ کا قول ] وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ [” اُنہوں نے یوسف علیہ سلام کو گنتی کے چند درہم میں بیچ دیا” (یوسف:20) یعنی تھوڑی قیمت میں۔
اس لیے اس]مَعدُودَاتٍ[سے مراد تھوڑے ہیں۔ یہ تھوڑے دن رمضان کا مہینہ ہے جو انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں ایسا ہی آیا ہے((الشهر تسعة وعشرون أو ثلاثون يوماً ))” مہینہ انتیس یا تیس دن کاہوتا ہے”(بخاری، مسلم)۔
5۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے روزے کی فرضیت بیان فرماکر بیماروں اور مسافروں کوروزہ رکھنے یا افطار کرنے کی رخصت دی ، کہ اگربیماری اور سفر کی حالت میں روزہ توڑ دیتے ہیں تودوسرے دنوں میں قضا ان کے ذمے لازم ہوگی۔ یہ اس مریض کے لیے ہے جس کو صحت یابی کی امید ہو، اور بیماری بھی ایسی ہو جس میں اگر وہ روزہ رکھنا چاہے تو رکھ لے یا توڑ دے، اسی طرح یہ حکم اس مسافر کے لیے بھی ہے جس کے لیےروزہ رکھنا ممکن ہو ،ان کو یہ رخصت دی گئی ہے ، چاہے تو روزہ رکھ لیں ورنہ نہ رکھیں اور بیماری اور سفر کے اختتام پر قضا کرلیں۔
بیماری تو واضح ہے، البتہ سفر سے مراد شرعی سفر ہے ، جس میں نمازِ قصر پڑھی جاتی ہے، اس کا تعین صحابؓہ سے نقل کیا گیا ہے۔ ابن عباس ؓ سے کسی نےپوچھا کہ کتنے سفر پر قصر نمازپڑھنی چاہیے؟ تو فرمایا من عسفان للطائف أو جدة للطائف” عسفان سے طائف یا جدہ سے طائف۔”(موطا،امام مالک)۔ دیگر روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ، ثلاثة فراسخ والفرسخ أربعة برد ” تین فرسخ اور ایک فرسخ چار برید ہوتے ہیں”(مسلم، ابو داؤد)۔جس کا اندازہ آج کل کے پیمانے میں 90 کلومیٹر ہے۔
6۔ ] وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ [ یہ بیان فرمانے کے بعد کہ مسلمانوں پر روزہ فرض ہے اور یہ ماہ ِ رمضان کے چند دن ہیں،آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حکم بھی بیان فرمایا جو وقتی یا دائمی طور پر روزے کی طاقت نہیں رکھتے ، اس کا بیان کچھ یوں ہے:
ا ۔] فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ یہ وہ لوگ ہیں جو عارضی اور وقتی طور پر روزہ رکھنے کی قدرت نہیں رکھتے۔
ب۔] وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ [یہ وہ لوگ ہیں جو دائمی طور پر روزہ رکھنے سے بے بس ہوتے ہیں۔
اور]يُطِيقُونَهُ[ کے دو معنی ہیں: ایک وہ جوروزہ رکھنے کی وسعت رکھتے ہیں ، دوسرا وہ جونہایت کوشش اور طاقت صرف کرکے روزہ رکھ سکتے ہیں۔
اگر پہلے معنی کیے جائیں تو آیت کا مطلب کچھ اس طرح بنتا ہے: مسلمانوں سے خطاب ہے کہ وہ ماہِ رمضان کے روزے رکھیں ، لیکن اگر کوئی بیمار ہو یا مسافر تو ان کے لیے روزہ رکھنے اور افطار دونوں کی رخصت دی گئی ہےاور نہ رکھنے پر دوسرے دنوں میں قضا کرلیں۔ اور جو لوگ روزہ رکھ سکتے ہیں تو پھر بھی ان کو افطار کرنے کی اجازت ہے اور افطار کیے گئے ہر دن کے بدلے فدیہ دیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ معنی لیے جائیں تو خطاب کی درستگی برقرار نہیں رہتی، کیونکہ شروع میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا جبکہ اس آیت میں افطار اور فدیہ دینے کا اختیار دیا گیا اور یہ ہے بھی اُس شخص کے لیے جو روزہ رکھ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا خطاب درست خطاب نہیں قرار پاتا ۔ یہ خرابی اس وقت لازم آتی ہے اگر ہم ]يُطِيقُونَهُ[ کے معنی یہ لیں کہ وہ روزے کی وسعت رکھتے ہیں یعنی استطاعت رکھتے ہیں، وسعت سے استطاعت کا معنی اس لیے لیا گیا کیونکہ ان دونوں کے معنی ایک ہی ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ] لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا [” اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا۔”( البقرۃ:286)۔ حدیث میں بھی اسی معنی میں آیا ہے آپ ﷺ فرماتے ہیں: ((ما أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم)) ” جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو وسعت بھر اُسے کر لیا کرو”(بخاری،مسلم)۔
]يُطِيقُونَهُ[کے دوسرے معنی کے اعتبار سے آیت کا مطلب یوں بنتا ہے: وہ لوگ جو انتہائی کوشش اور طاقت لگا کرروزہ رکھتے ہیں اور قریب بہ ہلاکت ہوجاتے ہیں۔ یہ معنی کرکے خطاب درست ہوجاتا ہے کیونکہ اب معنی یہ ہوئے کہ: اے مسلمانو! رمضان کے روزے رکھو ، بشرطیکہ وسعت و طاقت رکھتے ہو۔ اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دِنوں میں قضا کرلو، اور اگر روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو، سوائے یہ کہ اپنے آ پ کو ہلاکت میں ڈال دو،تو اس صورت میں روزہ افطار کرکے اس کے بدلے فدیہ دیدو – جیسے نہایت بوڑھا مسلمان جس کو شیخ کبیر اورشیخ فانی کہتے ہیں یا بوڑھی عورت یا ایسا بیمار جس کی تندرستی کی کوئی امید نہ رہی ہو۔
اس طرح خطاب صحیح ہوجاتا ہے: چنانچہ روزے کا حکم صاحب استطاعت کے لیے اور افطار کی رُخصت اور قضا مسافر اور مریض کے لیے ہے۔ جبکہ سن رسیدہ نہایت بوڑھے مسلمان اور علاج سے مایوس مریضوں کے لیے افطار اور فدیہ کا حکم ہے۔
اس بنا پر جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اسلام کے ابتدائی ایام میں تھا ، شروع میں قدرت رکھنے والوں کو اختیار دیا گیا تھا ،خواہ روزہ رکھے خواہ افطار کرکے اس کا فدیہ ادا کرے، پھر یہ حکم آنے والی آیت ]فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ [سے منسوخ کیا گیا، یہ قول مرجوح ہے اور جن روایات سے انہوں نے استدلال کیا ہے وہ بھی سب مرجوح ہیں، کیونکہ نسخ کے قول پر تب ہی اعتبار کیا جاسکتا ہے جب نسخ کی شرائط پوری ہوں ۔ ان شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ دونوں نصوں کو جمع کرنا ناممکن ہو، یہاں ایسا نہیں ،دونوں کو جمع کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے راجح وہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ فرض روزہ منسوخ نہیں کیا گیا اور یہ بدستور ایک محکم نص ہے، اس کی رو سے مقیم اور طاقت رکھنے والے مسلمانوں پر روزہ فرض کیا گیا اور مریض یا مسافر لوگوں کے لیے افطارمع القضاء کی رُخصت دی گئی جبکہ شیخ کبیر ( شیخ فانی) اور شفا یابی سے مایوس مریضوں کے لیےافطار اور فدیہ کا حکم ہے۔ اسی پر آیت کریمہ کی دلالت واضح ہے۔
بخاری اورابوداؤدوغیرہ نے ابن عباس ؓسے یہی نقل کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں۔ قال ابن عباس ليست منسوخة هو الشيخ الكبير والمرأة الكبيرة لا يستطيعان أن يصوما فيطعمان مكان كلّ يوم مسكينا۔ ابن عباس ؓفرماتے ہیں : یہ آیت منسوخ نہیں ، یہ شیخ کبیر اور بوڑھی عورت کے بارے میں ہے جو روزہ رکھنے سے قاصر ہوں، چنانچہ وہ افطار کریں اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ۔
7۔ ] وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ [ کےبعد ] فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [فرمانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو شخص ہر دن کے بدلے مطلوبہ مقدار سے زیادہ فدیہ دے تو یہ اس کے لیے بہتر اور اللہ سبحانہ کی قربت کا ذریعہ ہے۔
ہر افطار کے بدلے فدیہ کی مقدار کتنی ہے؟ تو یہ اتنا ہو کہ ایک مسکین آدمی کے کھانے کے لیے کافی ہو کیونکہ ]طَعَامُ مِسْكِينٍ [ فدیۃٌ سے بدل(Equivalent Appositive ) کے طور پر لایا گیا ہے، چنانچہ فدیہ مسکین کو ہر ایک افطار کے بدلےکھانا کھلانے کا ہی نام ہے، اس کا اندازہ روزانہ کےمعمول کے کھانے کی مقدار سے لگایا جائے گا۔
8۔ ] وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [ " اور اگر تم کو سمجھ ہو تو روزے رکھنے میں تمہارے لیے زیادہ بہتری ہے۔” اس کا مطلب ہے کہ جن کو افطار(توڑنے) کی اجازت دی گئی ہے جیسے مسافر اور مریض اور جسے افطار اور روزہ رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے، ان سب کے لیے روزہ رکھنا بہتر ہے ، بشرطیکہ سفر اور بیماری ایسی ہو کہ اس میں روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہو اور مشقت اٹھائے بغیر اس کو مکمل کرسکتا ہو۔ اگر بیماری یا سفر ایسا ہو کہ جس میں روزہ رکھنا مہلک ثابت ہوسکتا ہے تو اس صورت میں افطار(توڑنا) افضل ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے((أن رسول اللهﷺ رأى رجلاً قد ظلل عليه فقال: ما هذا؟ قالوا: صائم. قال: ليس من البر الصٍيام في السفر )) وفی روایۃ ((ليس من البر الصيام في السفر، عليكم برخصة الله عز وجل فاقبلوها))” آنحضرت ﷺنے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس پر سایہ کیا گیا تھا، آپﷺنے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے بتایا: روزہ دار ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : دوران ِسفر روزہ رکھنا نیکی کا کام نہیں” (البخاري: 1810، مسلم: 1879، الترمذي: 644، النسائي: 2223)۔ ” ایک روایت میں ہے ” سفر میں روزہ نیکی نہیں ،تم لوگ اللہ عزو جل کی رخصتوں کو قبول کرو جو اس نے تم لوگوں کو عطافرمائی ہیں۔” اس کو نسائی ؒنے روایت کیا ہے۔ ایسے مقام اور حالات میں رخصت قبول کرنےکی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ ایسے وقت میں افطار ہی افضل ہے۔
9۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رمضان المبارک کی خصوصیت یہ بتائی ہے کہ اس میں نزول قرآن کی ابتدا ہوئی۔ فرمایا] شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [اور ] إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ (القدر:1) ] إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ [ (الدخان:3)۔ یہ تمام آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں رسول اللہ ﷺ کی طرف قرآن کا نزول شروع ہوا، وہ برکت والی رات لیلۃ ُ القدر کی تھی۔ پھر اللہ سبحانہ نے وقفے وقفے سے اس کا نزول کرکے تکمیل فرمایا ، اس میں کیا حکمت تھی؟ اس کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے] وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلاً [” اور یہ کافر لوگ کہتے ہیں کہ ان پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ میں کیوں نازل نہیں کیا گیا؟”( اے پیغمبر!) ہم نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کے ذریعےآپ کا تمہارا دل مضبوط رکھیں، اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھوایا ہے”(الفرقان:32)۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآن عظیم:
ا ۔ ] هُدًى لِلنَّاسِ [” لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔” یہ (عربی گرائمر کے لحاظ سے) حال اور منصوب ہے،اس کا مطلب ہے : قرآن حق اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔
ب۔ ] وَبَيِّنَاتٍ مِنْ الْهُدَى [ "یہ پچھلے حال پر معطوف ہےتو یہ بھی حال اور منصوب ہے۔اس کے معنی ہیں : قرآن اس بات پر قطعی و یقینی اور معجزاتی دلائل پیش کرتا ہےکہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ ہدایات میں سے ہے۔
ج۔ ] وَالْفُرْقَانِ [ ” یعنی ایسے دلائل جو حق وباطل ، خیر و شر اور اعمال صالحہ اور اعمال سیّئہ کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہیں۔
10۔پہلی اور دوسری آیت میں اللہ سبحانہ نےفرمایا:] كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ [ (البقرة: 183) اور ]أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ [ اس سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ کہ تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے گزشتہ امتوں پر فرض کیے گئے تھے،یعنی تعداد کے اختلاف کے ساتھ روزہ ان کے لیے بھی فرض تھا اور تم پر بھی ، اس لیے فرمایا ] أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ [ "چند دن”پس دن متعین نہیں کیے ، کیونکہ اس آیت سے مقصود فقط روزے کی فرضیت کی تاکید ہے کہ یہ گذشتہ امتو ں پر بھی فرض کیا گیا تھا ، روزوں کی تعداد کا بیان مقصود نہیں۔
اس کے بعد والی آیت ] شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ [میں یہ تعین کیا گیا کہ امت مسلمہ کس مہینے میں روزے رکھے گی، چنانچہ بتایا کہ وہ ماہِ رمضان ہے جس میں قرآن کا نزول ہوا اور روزہ جیسے عظیم عمل کے لیے بھی اسی مہینے کا انتخاب کیا گیا۔
آیت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان میں روزے کا حکم ذکرکیا اس کے بعد دوبارہ ماہ رمضان کا ذکر کیا اور اسی کی مناسبت سے اس مہینے کے احکام مکرر ذکر فرماتے ہیں۔ ]فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [” لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے، وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔ اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو ہو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔” اس میں مقیم یعنی اپنے گھر پر موجود لوگوں کے لیےروزوں کا تاکیدی حکم دیا گیا، نیز مسافر اور مریض کے لیے رخصت دی گئی ہے،یہ احکام حکمت والی اور خبیر ذات کی طرف سے پے درپے دیے گئے ہیں۔
11۔ ] يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمْ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمْ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [” اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا،تاکہ ( تم روزوں کی) گنتی پوری کرلو، اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی اس پر اللہ کی تکبیر کہو، اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔
اللہ تعالیٰ ان احکامات کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ روزے کی فرضیت میں وہ کریم ذات تمہارے لیےآسانی اور سہولت چاہتی ہے ، تنگی مقصود نہیں۔ تنگی سے مراد مشقت اور ہلاکت ہے۔ یقیناً یہ احکامات ایسے ہیں کہ ان کی روشنی میں ہم بسہولت روزے پورے کرسکتے ہیں: اگر ہم وقتی طور پر روزہ رکھنے سے قاصر ہوں تو ہمیں دوسرے دنوں میں قضا کرنے کا موقع دیا گیا ہے،زندگی بھر روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہے تو ہم فدیہ دے سکتے ہیں، تاہم اگر روزے رکھنے کی صلاحیت و طاقت موجود ہے تو پھر ماہ رمضان کے روزے رکھیں گے، یوں روزوں کی تعداد مکمل کرسکتے ہیں ، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی تکمیل کے بعد اللہ کی بڑائی بیان کریں یعنی عید کے دن۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اس نعمت عظمیٰ پر اس کا شکر بھی ادا کریں کہ اس نے ہمیں اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کی توفیق بخشی۔
] وَلِتُكْمِلُوا [، ] وَلِتُكَبِّرُوا [، ] وَلَعَلَّكُمْ[میں حرفِ تعلیل( لام ) کا استعمال روزے کے اندر اس سہولت کی حکمت بیان کرنے کے واسطے ہے،وہ حکمت یہ کہ تم روزوں کی گنتی پوری کرسکو اور چونکہ تمہیں یہ ہدایت اللہ تعالیٰ نے دی کہ روزے کے فریضہ پر عمل کے لیے کمربستہ ہوئے ،لہٰذا اس پرہم اللہ کی بڑائی بیان کریں اور شکر کریں۔
ہم نے یہ کہا کہ سابقہ آیات کے ذیل میں جو بیان کیا وہ حکمت ہے ،نہ کہ علت ، اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے سے مرتب ہونے والے جن اثرات یعنی ]وَلِتُكْمِلُوا[ ، ] وَلِتُكَبِّرُوا [، ] وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [‘تاکہ ( تم روزوں کی) گنتی پوری کرلو، اور اللہ کی تکبیر کہو، اور تاکہ تم شکر گزار بنو‘ کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہےیہ سب فی الجملہ حاصل ہوتے ہیں ،یعنی کچھ مسلمانوں کو یہ صفات حاصل ہوتی ہیں ، جب کہ کچھ افراد میں یہ ناپید ہوتی ہیں، اصطلاح میں اسی کو حکمت کہتے ہیں، یوں شارع کا مقصود فی الجملہGenerally)) حاصل ہوتا ہے ،مثلاً ] وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلاَّ لِيَعْبُدُونِ ["میں نے انسانوں اور جنات کو صرف اپنی عبادت کے واسطے پیدا کیا”(الذاريات:56)۔ ہم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت مخلوق پیدا کرنے کی حکمت ہے نہ کہ علت، کیونکہ کچھ مخلوق عبادت کرتی ہیں، کچھ نہیں کرتی۔
جہاں تک علت کا تعلق ہے تو یہ وہ ہوتی ہے جس کی موجودگی یا غیر موجودگی کے ساتھ معلول( حکم ) گھومتا رہتا ہے۔ یعنی علت و معلول ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے، کیونکہ علت کا معنی ہی یہ ہے کہ جس کی وجہ سے حکم جاری کیا گیا یعنی یہ تشریع ( قانون سازی) کرنے کا باعث ہوتی ہے۔ مثلاً]لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ [ ” رسول بھیجنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ اللہ کے حضور اپنی نافرمانی کے لیے یہ کہہ کر حجت نہ بناسکیں کہ : آپ ہم سے کیا چاہتے تھے ہمیں تو کچھ معلوم نہیں تھا، کیونکہ آپ نے ہماری طرف رسول نہیں بھیجے تھے”( النساء:165) ۔
اس لیے وہاں آیت] لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ [(النساء:165) بعثتِ انبیاء و رُسُل کی علت بتا رہی ہے،کہ اب جبکہ رسول بھیجے جاچکے لوگوں کے پاس کسی بھی صورت میں کوئی حجت باقی نہیں رہی۔
اسی طرح آپ ﷺ کا یہ فرمان((القاتل لا یرث)) "قاتل کے لیے وراثت نہیں”( الترمذي: 2035، ابن ماجه: 2635، 2725، الدارمي: 2954)،یہ دلالت کرتا ہے کہ میراث محروم کیے جانے کا باعث قتل ِعمد ہے، لہذا کوئی وارث اپنے مورث کو قتل کردے تو یہ قاتل میراث نہیں پائے گا، اس لیے جہاں بھی وارث کی طرف سے قتل عمد کا ارتکاب کیا جائے گا، تو قاتل کو میراث دینا کسی طور درست نہیں ہوگا، کیونکہ جہاں علت موجود ہوتی ہے وہاں معلول یعنی حکم بھی موجود ہوتا ہے اور جہاں علت موجود نہ پائی جائےتو معلول یعنی حکم بھی نہیں پایا جائے گا۔
اور آیت] إِنَّ الصَّلاَةَ تَنْهَى عَنْ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ [ "بے شک نماز برے اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے”(العنکبوت:45)میں حکمت بیان ہوئی ہے ، یعنی نماز پڑھنے میں یہ حکمت ہے کہ یہ بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے،یہ نماز کی علت نہیں، کیونکہ کبھی کبھار نمازی شخص سے بھی برا کام سرزد ہوجاتا ہے ، اس لیے اصطلاح میں اس کو حکمت کہتے ہیں ، جوبعض افراد میں غیر موجودہوسکتی ہے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ : حکم کی حکمت ایسی ہوتی ہے کہ جو عام طور پر حکم کے نتیجے میں پائی جاتی ہے، لیکن بعض مواقع پر یہ حکم کے ساتھ نہیں پائی جاتی۔
جبکہ علت حکم سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتی ، یہ حکم کے ساتھ ہوتی ہے، یعنی علت موجود ہو تو حکم بھی موجود ہو گا اور علت نہ ہو تو حکم بھی لاگو نہیں ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ] وَلِتُكْمِلُوا[ ، ] وَلِتُكَبِّرُوا [، ] وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [یہ سب علم اصول الفقہ کے علما کی اصطلاح کے مطابق روزے کی حکمتیں ہیں علتیں نہیں ۔
ختم شد