بسم اللہ الرحمن الرحیم
وزیر خزانہ اسد عمر نے 7 نومبر2018 کو آئی ایم ایف کے وفد کے ،آئی ایم ایف کے پروگرام پر بات چیت کے لیے ،پاکستان آنے کے حوالے سے یہ کہا کہ”ہم انیسوی بار آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ یہ آخری بار ہو”۔ ہم یہ بات یقینی طور پر جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس انیسوی بار جانا بھی آخری بار نہیں ہوگا کیونکہ آئی ایم ایف کے پروگرام کو اس طرح سے ترتیب دیا جاتا ہے کہ قرضوں پر انحصار کبھی ختم نہ ہو۔ آئی ایم ایف مغربی دنیا کی معاشی برتری کو پوری دنیا پر قائم و دائم رکھنے کے لیے کام کرتا ہے۔ مغربی استعمار ، آئی ایم ایف جیسے استعماری اداروں کے ذریعے دنیا بھر میں وہ پالیسیاں نافذ کرواتا ہے جو وہ خود اپنے لیے کبھی بھی پسند نہیں کرتا ہے۔
آئی ایم ایف اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ پاکستان بھاری صنعتوں، توانائی اور معدنی شعبے میں کام کرنے والی سرکاری کمپنیوں (پبلک سیکٹر انٹرپرائزز) کی نجکاری کرے۔ لہٰذا آئی ایم ایف پبلک سیکٹر میں کام کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری کامطالبہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں ریاست اس شعبے سے حاصل ہونے والے محاصل سے محروم ہوجائے گی۔ نجکاری کے اس عمل کو یہ کہہ کر آگے بڑھایا جاتا ہے کہ پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کو ہونے والے خسارے کا خاتمہ ہوگا اور یہ بے بنیاد تصور عوام کے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ”ریاست اچھے طریقے سے کاروبار نہیں کرسکتی”۔ یوں پبلک سیکٹر کے اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جاتا ہے جو ان سے اربوں کانفع حاصل کرتے ہیں ۔ اس طرح نجکاری کیے گئے ادارو ں سے حاصل ہونے والا منافع معاشرے کے ایک انتہائی چھوٹے سے حصے، اشرافیہ، کی جیبوں کو بھرنے لگتا ہےجبکہ اگر انہیں ریاست ایک اہل انتظامیہ کے ذریعے چلاتی تو اربوں کا یہ نفع پورے معاشرے میں گردش کرتا۔ لہٰذا آئی ایم ایف ریاستی حکام کی نااہلی، کرپشن اور صلاحیت میں کمی کو وجہ بنا کر پبلک سیکٹر کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری پر زور دیتا ہے جن کے ذریعے خزانے کو بھاری محاصل ہوسکتے ہیں اگر انہیں اہل،باصلاحیت اور کرپشن سے پاک انتظامیہ کے ذریعے چلایا جائے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر عمل کرنے سے ریاست غریب ہی رہتی ہے اور اسے قرضوں اور ٹیکسوں کی صورت میں وسائل کی ضرورت رہتی ہے۔امریکا ، خصوصاً ٹرمپ کی صدارت میں، اپنے صنعتی اور زرعی شعبے کے تحفظ کے لیے ملک میں آنے والی درآمدات پر بھاری ٹیکس عائد کرتا ہے لیکن آئی ایم ایف اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ "کاروبار کے ماحول کو بہتر بنانے” کے نام پر پاکستان امریکا جیسا کوئی قدم نہ اٹھائے تا کہ اس کے وسائل اور مارکیٹ کا غیر ملکی استعماری طا قتیں استحصال کرتی رہیں۔ زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیا، درآمدی مشینری اور کیمیائی کھادوں ، پر ٹیکسوں میں بھاری اضافہ کیا گیا ہے اور اسی طرح صنعتی پیداوار کے لیے درکار توانائی اور معدنی وسائل کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقامی پیداوار مفلوج ہو کر رہ گئی ہے اور غیر ملکی استعماری کمپنیوں کو مقامی کمپنیوں پر بالادستی حاصل ہو گئی ہے۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرکے غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان میں صنعتیں قائم کرنے میں آسانی فراہم کی جاتی ہے جس سے انہیں ہماری مارکیٹ میں بالادستی حاصل ہوجاتی ہے اور مزید پاکستان کےمعاشی استحکام کو خراب کرنے کے لیے انہیں اپنے منافع ڈالروں میں باہر لے جانے کی اجازت بھی دی جاتی ہے۔
پاکستان کے موجودہ حکمران اگرچہ پچھلے حکمرانوں کو موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود انہی کے نقش قدم پر ان سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے چل رہے ہیں اور پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف کی غلامی میں ڈبوتے چلے جارہے ہیں۔ اس بات کے باوجود کہ پاکستان کو برطانیہ سے آزادی حاصل کئے 70 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ، پاکستان کے حکمران آج بھی آنکھیں بند کر کے
برطانیہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام نافذ کررہے ہیں جسے
نے مغلوں کی اسلامی حکومت کے خاتمے کے بعد نافذ کیا تھا۔ پاکستان کبھی بھی معاشی گرداب سے نہیں نکل سکتا جب تک وہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام ترک نہ کردے اور اسلام کے نظام کو ایک بار پھر نافذ کردے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے برصغیر پاک و ہند میں 800سال تک اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ کے ذریعے معاشی خوشحالی کا دور بر قرار رکھا اور یہ خطہ صنعت اور زراعت میں دنیاکا صف اول کا خطہ بن گیا ۔ اس خطےکا جی ڈی پی (کُل ملکی پیداوار) ایک و قت دنیا کے کُل جی ڈی پی کا 23 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ اس کا ملکی خزانہ اس قدر دولت سے بھرا ہوا تھا کہ لوگوں کو مفت تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔ اس کی دولت اس قدرزیادہ تھی کہ اس کی کہانیاں سُن کر مغربی یورپ کے غریب ممالک سے لوگ یہاں آتے تھے تا کہ اس سے تجارت کرکے اپنی معاشی حالت کو بدل سکیں۔
استعماریت اور سرمایہ داریت کا و قت ختم ہوچکا ہے۔ اب پاکستان کے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسلام کے نظام یعنی نبوت کے طریقے پرخلافت، کی طرف لوٹ جائیں جو ان کی معاشی خوشحالی کو یقینی بنائے گی۔
ختم شد