سوال و جواب: کیا رسولﷺ نے قرآن کی تفسیر کی اور اس کے معنی کو واضح کیاہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
"الشخصیہ الاسلامیہ جلد سوئم”میں "شرعی حقائق کے وجود” کے موضوع میں درج ہے کہ ” ۔۔۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ شارع نے امت کو اِن الفاظ کو لغوی معنی سے نئے معنی کی طرف منتقل کیے جانے سے آگاہ کیاہے جو کہ شریعت نے ان الفاظ کے لیے مقرر کیے ہیں، یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ان الفاظ کے معانی کی وضاحت کے ذریعے کیا گیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ” یہ ذکر (قرآن)ہم نے آپ ﷺکی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں”(النحل:44)۔ جس کا مطلب ہے کہ اس قرآن کے معنی کو واضح کرنا جن میں شرعی الفاظ کے معنی بھی شامل ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» ” نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھو” (بخاری)۔ لہٰذاآپﷺ نے انہیں کچھ اعمال کا حکم دیا اور ان اعمال کے بارے میں سمجھایا پس آپﷺ نے ان کو ایسا کوئی کام کرنے کا حکم نہیں دیا جسے وہ سمجھ نہ سکیں”۔
کیا اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ رسولﷺ نے قرآن اور اس کے معانی کی تفسیر کردی ہے؟ یا آپ ﷺ کی تفسیر شرعی الفاظ کے معنی کی وضاحت تک محدود ہے؟
اللہ آپ کو جزائے خیر عطاء کرے۔
جواب:
و علیکم اسلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جواب واضح کرنے کے لیے میں مندرجہ ذیل باتوں کا ذکر کروں گا:
پہلا: آپ کا سوال الشخصیہ الاسلامیہ جلد سوئم میں بیان کردہ کے متعلق ہے جہاں بیان ہوا ہے کہ "اصل میں، شرعی اصطلاحات شریعت کے الفاظ میں پائی جاتی ہیں اور لغوی حقائق سے الگ حقائق کے طور پر پائی جاتی ہیں۔ یہ الفاظ عرب استعمال کرتے تھے پھر شریعت نے ان الفاظ کو دوسرے معنی کی طرف منتقل کر دیا اور یہ دوسرے معنی میں مشہور ہو گئے۔ یہ منتقلی مجازی طور پر نہیں تھی بلکہ عُرفی حقیقت کی منتقلی تھی کیونکہ شریعت نے اس کو کسی تعلق کی وجہ سے دوسرے معنی میں منتقل نہیں کیا جیسا کہ استعارے کی شرط ہے۔ مزید یہ کہ یہ دوسرے معنی میں مشہور ہو گیا جبکہ استعارہ ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا اپنا معنی ہوتا ہے پھر وہ کسی تعلق کی وجہ سے کسی دوسرے معنی میں منتقل ہو جاتا ہے لیکن اس دوسرے معنی میں مشہور نہیں ہوتا یعنی یہ دوسرا معنی اس پر غالب نہیں آتا لہٰذا شرعی ناموں کا دوسرے معنی میں منتقل ہونا جس کو شریعت نے مقرر کیا ہے کسی بھی طرح استعارہ نہیں ہے بلکہ یہ شرعی حقیقت میں سے ہے۔ پس یہ ثابت شدہ ہے کہ شارع نے امت کو ان اصطلاحات کو لغوی معنی سے نئے معنی کی طرف منتقل کیے جانے کی اطلاع دی ہے جو کہ شریعت نے مقرر کیے ہیں، اور یہ رسول اللہﷺ کی طرف سے ان کی وضاحت کی بنا پر ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ "یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں”(النحل:44)۔ جس کا مطلب ہے کہ قرآن کے معنی کو واضح کرنا ،اس وضاحت میں شرعی الفاظ کے معنی بھی شامل ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» ” نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھو” (بخاری)۔ لہٰذا آپﷺ نے انہیں کچھ اعمال کا حکم دیا اور ان اعمال کے بارے میں سمجھایا کیونکہ آپﷺ نے ان کو ایسا کوئی کام کرنے کا حکم نہیں دیا جسے وہ سمجھ نہ سکیں ۔۔۔” اختتام
دوم: نبی کریمﷺ نے قرآن میں بیان کی گئی آیات کے بارے میں جو وضاحت کی ہےوہ صرف شرعی الفاظ کے معنی کی وضاحت تک محدود نہیں ہے بلکہ آپ ﷺکی سنت نے قرآن کی جو وضاحت کی ہے وہ درج ذیل ہے:
۱۔ قرآن مجید کے مجمل متن کی وضاحت: جیسے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں اوقات، ارکان اور رکعات کی تفصیل بتائے بغیر نماز کا حکم دیا ہے، لہٰذا سنت نے اس سب کو واضح کیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» ” نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھو” (بخاری)۔ رسول اللہﷺ نے اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کے لیے واضح کیا ہے کہ نماز کس طرح ادا کی جاتی ہے جیسا کہ ابو حمید الساعدی ؓ کی روایت میں ہے کہ» كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اعْتَدَلَ قَائِمًا وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ وَرَكَعَ ثُمَّ اعْتَدَلَ فَلَمْ يُصَوِّبْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُقْنِعْ وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَهْوَى إِلَى الْأَرْضِ سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ جَافَى عَضُدَيْهِ عَنْ إِبْطَيْهِ وَفَتَخَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ عَلَيْهَا ثُمَّ اعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا ثُمَّ أَهْوَى سَاجِدًا ثُمَّ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ ثَنَى رِجْلَهُ وَقَعَدَ وَاعْتَدَلَ حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ ثُمَّ نَهَضَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ« ” رسول اللہ ﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو بالکل سیدھے کھڑے ہو جاتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں مونڈھوں کے مقابل میں لے جاتے، پھر «الله اكبر» کہتے اور رکوع کرتے اور بالکل سیدھے ہو جاتے، نہ اپنا سر بالکل نیچے جھکاتے اور نہ اوپر ہی اٹھائے رکھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، پھر«سمع الله لمن حمده» کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے (یعنی رفع یدین کرتے) اور سیدھے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ جسم کی ہر ایک ہڈی سیدھی ہو کر اپنی جگہ پر لوٹ آتی، پھر سجدہ کرنے کے لیے زمین کی طرف جھکتے، پھر «الله اكبر» کہتے اور اپنے بازوؤں کو اپنی دونوں بغل سے جدا رکھتے، اور اپنے پیروں کی انگلیاں کھلی رکھتے، پھر اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور سیدھے ہو جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آتی، اور آپ اٹھتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے” (اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ یہ صحیح حسن ہے)۔
۲۔ قرآن مجید کی عام نصوص کی وضاحت کرنا: قرآن مجید میں عام نصوص موجود ہیں اور سنت نے ان عام نصوص کو واضح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اولاد اپنے والدین سے وراثت اسی طرح حاصل کرے گی جس طرح اللہ نے اپنی اس آیت میں بیان کیا ہے: (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ) "اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے”(النساء:۱۱)۔ یہ عام حکم ہے جس میں ہر باپ شامل ہے جس کی وراثت منتقل ہو رہی ہے اور ہر بیٹا شامل ہے جو وراثت لے رہا ہے۔ پھر سنت نے واضح کیا ہےکہ اس میں پیغمبروں کے علاوہ باقی باپ مراد ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: «لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» "ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا، جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے” (بخاری و مسلم)۔ اسی طرح سنت نے واضح کیا ہے کہ وارث سے مراد اس وارث کے علاوہ ہے جس نے اپنے مورث کو قتل کیا ہو، آپﷺ کی حدیث ہے: «وَلاَ يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئاً» "قاتل کے لیے (مقتول کی)کوئی وراثت نہیں ہے” (ابو داؤد)۔
۳۔ قرآن میں عام نصوص ہیں پھر سنت نے ان کو کسی پابندی کے ذریعے محدود کر دیا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ((وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ))"اور اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی قربان گاه تک نہ پہنچ جائے البتہ تم میں سے جو بیمار ہو، یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈالے) تو اس پر فدیہ ہے، خواه روزے رکھ لے، خواه صدقہ دے دے، خواه قربانی کرے”(البقرۃ:196)۔ یہ تین الفاظ:’ روزہ، صدقہ، قربانی‘ غیر واضح الفاظ ہیں اور اپنے عام مفہوم میں آئے ہیں جنہیں اس حدیث نے محدود کیا ہے جسے مسلم نے کعب بن عجرہ سے روایت کیا ہے جس میں آپﷺ نے ان سے کہا «فَاحْلِقْ رَأْسَكَ وَأَطْعِمْ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ وَالْفَرَقُ ثَلاَثةُ آصُعٍ أَوْ صُمْ ثلاَثةَ أَيَّامٍ أَوِ انْسُكْ نَسِيكَةً» ” تم اپنا سر منڈوا لو اور ایک فرق کھانا چھ مسکینوں کو کھلا دو، ایک فرق تین صاع کا ہوتا ہے، یا تین دن کے روزے رکھو یا قربانی کے ایک جانور کی قربانی کرو”۔ لہٰذا اس حدیث نے روزے کو تین روزوں تک محدود کر دیا ہے، صدقے کو چھ مسکینوں کو ایک فرق کا کھانا کھلانے تک محدود کر دیا ہے جبکہ ایک فرق تین صاع کا ہوتا ہے اور قربانی کو ایک جانور کی قربانی تک محدود کر دیا ہے۔
4۔ قرآن میں موجود اصل قاعدہ کے ساتھ ایک متعلقہ قاعدے کو شامل کرنا: ظاہری طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ متعلقہ قاعدہ نئی قانون سازی ہے لیکن گہرائی سے مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اپنے اصل سے ہی منسلک ہے اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرائض (قرآن میں مذکور وراثت کے حصے) کا ذکر خاص مقدار کے ساتھ کیا ہے لیکن عصبات (والد کے رشتہ داروں) کی وراثت کا ذکر نہیں کیا سوائے ان آیات کے: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ"اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے”(النساء:۱۱)۔ اور فرمایا: وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ"اور اگر بہنیں اور بھائی دونوں ہوں تو ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے”(النساء: 176)۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہےکہ بیٹوں کے علاوہ عاصب (والد کے رشتہ دار) اور بھائیوں کے لیے خاص مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ فرائض کی تقسیم کے بعد باقی رہ جانے والا اس کے حصے میں آتا ہے۔ نبیﷺ نے اس کی وضاحت کی جب آپﷺ نے کہا: «أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ» "فرائض (قرآن میں مذکور وراثت کے حصے) ان کو دے دو جو ان کو لینے کے حقدار ہیں پھر جو بھی باقی رہ جائے وہ متوفی کے سب سے قریبی رشتہ دار کو ملنا چاہئے”۔ لہٰذا آپﷺ نے عاصب، جو غیر اولاد ہیں ،کو بھائیوں اور بیٹوں کے ساتھ شامل کیا۔ اسی طرح آپﷺ نے بہنوں کو بیٹیوں کے ساتھ عصبہ بنایا، الاسودنے کہا کہ:«أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ وَرَّثَ أُخْتًا وَابْنَةً، فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ، وَنَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ حَيٌّ»"معاذ بن جبل ؓ نے بہن اور بیٹی میں اس طرح ترکہ تقسیم کیا کہ آدھا مال بیٹی کو ملا اور آدھا بہن کو (کیونکہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہے) اور وہ یمن میں تھے، اور اللہ کے نبی کریم ﷺ اس وقت باحیات تھے” (ابو داؤد)۔ اور معاذؓ رسول اللہﷺ کی زندگی میں ایسی صورتحال میں کوئی فیصلہ نہ کرتے سوائے اس کے کہ وہ کوئی دلیل جانتے ہوں کیونکہ اگر وہ کوئی دلیل نہ جانتے تو فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کرتے۔
تیسرا: جہاں تک میرا علم ہے، اللہ کے نبیﷺ سے ہر آیت کے بارے میں حدیث مروی نہیں ہے، اور بہت بڑی تعداد میں موجود حدیث کی کتابوں نے بھی بہت بڑے پیمانے پر تفسیر کرنے کے باوجود ہر آیت کے لیے مستند حدیث کا ذکر نہیں کیا۔ لہٰذا جو کچھ رسول اللہﷺ سے نقل ہوا ہے وہ لیا جائے گا دوسری صورت میں تفسیر کا صحیح طریقہ مندرجہ ذیل ہے۔۱۔ جہاں تک تعلق ہے اس تفسیر کا جو نبیﷺ سے منقول ہے، اگرچہ وہ صحیح ہی ہو تب بھی اسے حدیث کا حصہ ہی سمجھا جائے گا۔ اس کو تفسیر کے ان معنی میں نہیں لیا جا سکتا جو مفسرین کے نزدیک ہیں کیونکہ کسی بھی آیت کی وضاحت میں جو کچھ بھی اللہ کے نبیﷺ سے منقول ہےوہ قرآن کی طرح ہی شرعی متن ہے۔
۲۔جہاں تک تعلق ہے اس تفسیر کا جو صحابہؓ سے منقول ہے تو اس سے مدد حاصل کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ قرآن کی تفسیر میں تمام لوگوں میں سےدرست ترین رائے والےتھے اس وجہ سے کہ وہ عربی زبان میں اعلیٰ درجہ رکھتے تھے اور آپﷺ کی قربت میں تھے جن پر قرآن نازل ہوا تھا۔
۳۔ تاہم، قرآن کی تفسیر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کے فہم اور اس کی تفسیرکے لیے ؛ اس کے ذخیرہ ٔالفاظ اور تراکیب کے لیے،شرعی معانی ، احکامِ شرعیہ اور افکار کے لیے عربی لغت اور سنتِ نبوی کو ہی آلہ و ذریعہ کے طور پر اختیار کیا جائے گا۔ اگر قرآن کی آیت کو واضح کرنے والی کوئی مستند حدیث اللہ کے نبیﷺ سے منقول ہو تو اسی کو اختیار کیا جائے گا، دوسری صورت میں اس آیت کی تفسیر کیلئے عربی زبان کا سہارا لیا جائے گا جس میں قرآن نازل ہوا، لیکن ان اہل زبان سے جو اس کے ماہر ہیں۔
یہ قرآن کریم کی تفسیر کا طریقہ ہے، مفسر کو اسی پر کاربند رہنا ہوگا اور جو بھی قرآن کی تفسیر کرنے کا خواہشمند ہو اس کو یہ ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ بڑی حکمت والا ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ
25 ذو الحج 1439ہجری،
5 ستمبر 2018عیسوی
ختم شد