پاکستان کی حکومت دعوی خلافت راشدہ سے وفاداری کا کرتی ہے لیکن اس شخص کی تعریف میں زمین وآسمان ملارہی ہےجس نے خلافت کو تباہ کیا تھا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پریس نوٹ
عمران خان نےمصطفی کمال کو "بیسویں صدی کا ایک عظیم سیاست دان اور صاحب بصیرت رہنما ” قرار دیا۔ چند گھنٹوں میں مغربی سوچ رکھنے والے سیکولر حلقوں میں اس کامذاق اڑایاجانے لگا جبکہ اسلام سے محبت کرنے والے لوگوں میں یہ بیان مزید مایوسی کا سبب بن گیا۔ باجوہ-عمران حکومت یہ دعوی کرتی ہوئی اقتدار میں آئی تھی کہ خلافت راشدہ ان کے لیے نمونہ ہے اوروہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس شخص کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کردینا جس نے 3مارچ 1924 بمطابق 28 رجب 1342 ہجری کو خلافت کا خاتمہ کردیا تھا ، ایک کھلا تضاد ہے۔ یقیناً صرف عمران خان ہی یو ٹرن کے اکیلے استاد نہیں ہیں بلکہ پوری حکومت یو ٹرن میں ماہر ہے۔ یہ حکومت پھنس گئی ہےجہاں ایک طرف تو یہ امت ہے جو انتہائی استعمار مخالف اور اسلام سے محبت کرنے والی ہے اور دوسری جانب استعماری ٹرمپ ہے جس نے اسلامی طرز زندگی کے خلاف نظریاتی جنگ شروع کررکھی ہے۔ یہ حکومت آئی ایم ایف کی استعماری پالیسیوں پر تنقید کرتی ہوئی اقتدار میں آئی لیکن اب آئی ایم ایف کی تباہ کن شرائط پر عمل درآمد کر کے لوگوں پر مہنگائی کی بمباری کررہی ہے۔ باجوہ-عمران حکومت یہ کہتی ہوئی اقتدارمیں آئی کہ جو بھارت کا یار ہے وہ غدار ہے لیکن حکومت قائم ہوتے ہی جارح ہندو ریاست پر مسلسل نوازشیں برسا رہی ہے۔ باجوہ-عمران حکومت یہ کہتی ہوئی اقتدار میں آئی کہ پچھلے حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے بے وفائی کی، لیکن وہ خود بھی مظلوم کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم پر "تحمل” کامظاہرہ کر رہی ہے جبکہ 2018 میں مودی نے وادی میں اتنے لوگ شہید کیے جتنے کہ 2009 کے بعد کسی سال نہیں کیے گئے۔ یہ دوغلی حکومت چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو غیر منصفانہ کہتی ہوئی اقتدار میں آئی لیکن اب ان کی مکمل حمایت کررہی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایغور مسلمانوں کے خلاف چین کے بدترین مظالم پر اس کی حمایت کررہی ہے۔ اور یہ دوغلی حکومت یہ کہتی ہوئی اقتدار میں آئی کہ پاکستان کو امریکا کی کرائے کی بندوق بنادیا گیا ہے لیکن اب افغانستان میں سیاسی معاہدے کے لیےکرائے کے سہولت کار کا کردار ادا کررہی ہے تا کہ افغانستان میں امریکا کو اپنی سرکاری اور غیر سرکاری نجی فوج رکھنے کاپروانہ مل جائے۔
اے پاکستان کے مسلمانو! رسول اللہ ﷺ نے خبردار فرمایا تھا کہ، لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ ” مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا "(بخاری و مسلم)۔ اس وقت مایوسی کی وجہ سے آپ جو تکلیف محسوس کررہے ہیں وہ اس لیے ہے کیونکہ آپ ایک بار پھر اسی سورخ سے دوبارہ ڈسے گئے ہیں۔ آپ اس لیے دوبارہ ڈسے گئے ہیں کیونکہ آپ نے اس شخص پر بھروسہ کیا جو کفر جمہوری نظام کا داعی ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی نہیں کی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ مخلص اور مضبوط حکمران وہ ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کرے جبکہ غدار اور کمزور حکمران وہ ہوتا ہے جو اپنی خواہشوں کی پیروی کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ” عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشوں پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے "(ترمذی،ابن ماجہ)۔ ہمیں ابو جہل جیسامضبوط حکمران نہیں چاہیے جو کفر اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نافرمانی کرے بلکہ ہمیں حضرت عمر فاروق ؓجیسا مخلص اور مضبوط حکمران چاہیے جو اسلام اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کرے۔ ہمیں اپنی بار بار دہرائی جانے والی غلطی سے سبق سیکھنا چاہیے اور یہ جانتے ہوئے اپنی غلطی پر افسوس اور توبہ کرنی چاہیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے بغیر توبہ مکمل نہیں ہوتی۔ آئیں کہ ہم جمہوریت کواور اس کے داعیوں کو مکمل طور پر مسترد کردیں اور پورے اخلاص سے نبوت کے طریقے پر خلافت کے قیام کی جدوجہد کریں۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
ختم شد