حکومت کی پالیسیاں مزیدمعاشی بدحالی کا سبب بنیں گی کیونکہ ان پالیسیوں کی بنیاد ہمارے مفاد نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی ترجیحات ہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پریس نوٹ
24جنوری 2019 کو وزیر خزانہ اسد عمر نے پچھلی تین دہائیوں کی معاشی ناکامیوں پر تنقید کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ حکومت کی معاشی توجہ "اخراجات اور محاصل میں عدم توازن کی وجہ سے ہونے والے بجٹ خسارے، درآمدات میں برآمدات کے مقابلے میں اضافے اور سرمایہ کاری میں اضافے ” پرہوگی۔ اسد عمر نے آئی ایم ایف کے ساتھ چلنے والی بات چیت کی تصدیق کی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کی ترجیحات نے حکومت کی ترجیحات کا تعین کیا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کی ترجیحات ڈالر میں ہونے والی بین الاقوامی تجارت کا تحفظ کرنا ہے جس سے درحقیقت پاکستان کی مقامی ضروریات نظر انداز اور معاشی بدحالی میں اضافہ ہوتا ہے۔
"بجٹ خسارے”کے حوالے سے آئی ایم ایف کی ترجیح ہے کہ سودی قرضوں کو ڈالر میں واپس کرنے کی حکومتی استعداد میں اضافہ ہو۔ لہٰذا آئی ایم ایف سبسڈی کے خاتمے اور ٹیکسوں میں اضافے کامطالبہ کرتی ہے۔ لیکن ٹیکسوں میں اضافے اور سبسڈی میں کمی کی وجہ سے معیشت دشواری کا شکار ہونا شروع ہو جاتی ہے کیونکہ اشیاء کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جہاں تک "برآمدات (exports)کے مقابلے میں درآمدات (imports)میں اضافے” کا معاملہ ہے، تو آئی ایم ایف کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ مقامی کرنسی کی قدر میں کمی کی جائے کیونکہ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح بیرونی درآمدکنندگان (foreign importers)کے لیے ملکی اشیاءسستی ہوجائیں گی اور یوں حکومت کو زیادہ برآمدارت(exports) اور ڈالر حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ لیکن کرنسی کی قدر میں کمی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے برآمدات(exports) پر منفی اثر پڑتا ہے اور مہنگائی کی لہر پورے معاشرت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جہاں تک "سرمایہ کاری میں اضافے” کا تعلق ہے تو آئی ایم ایف کی یہ ترجیح ہوتی ہے کہ حکومتی اثاثوں کی نجکاری کی جائے تا کہ ان کی فروخت سے حاصل ہونے واپے پیسے کو قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کیا جاسکے۔ لیکن نجکاری کی وجہ سے ان اداروں سے حکومت جو محاصل حاصل کرسکتی تھی وہ اُن سے محروم ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں حکومت کا انحصار ٹیکسوں اور سودی قرضوں پر مزید بڑھ جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نجکاری کےعمل کی وجہ سے مقامی اثاثوں کی ملکیت بیرونی سرمایہ کاروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جو مقامی کمپنیوں کو مارکیٹ سے باہر نکال دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس زیادہ وسائل ہونے کی وجہ سے مقامی کمپنیاں ان کا مقابلہ ہی نہیں کرپاتیں۔
اے پاکستان کے مسلمانو! پی ٹی آئی کی حکومت نے آپ سے "تبدیلی” کاوعدہ کیا تھا لیکن یہ بھی وہی کام کررہے ہیں جو ان سے پہلے کے حکمران کرتے رہے ہیں۔ یہ حکومت پچھلی دہائیوں کی معاشی ناکامیوں کا ماتم کر رہی ہے لیکن ان ناکامیوں کی اصل وجہ کو اپنائے ہوئےہے یعنی آئی ایم ایف۔ لہٰذا اس حکومت کی پالسیاں بھی سابقہ استعماری ایجنٹ حکومتوں جیسی ہی ہیں لیکن یہ بیوقوفانہ حکومت یہ توقع رکھتی ہے کہ اس بار نتیجہ مختلف نکلے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لَا يُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ "”مؤمن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا”(بخاری ، مسلم)۔ حقیقی تبدیلی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نبوت کے طریقے پر خلافت قائم کر کے اسلام کا معاشی نظام نافذ کیا جائے۔ خلافت سودی قرضوں کے نظام کومسترد کردے گی جس نے پاکستان کے وسائل کو کھا لیا ہے۔ خلافت اسلامی محاصل کے نظام کو نافذ کرے گی اور توانائی اور معدنی وسائل کو عوامی ملکیت قرار دے گی تا کہ ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے پورا معاشرہ مستفید ہوسکے۔ خلافت سونے اور چاندی کو کرنسی قرار دے گی جس سے قیمتوں میں استحکام آئے گا۔اور خلافت معیشت کے ان شعبوں میں خود کردار ادا کرے گی جہاں بہت زیادہ سرمایہ کاری درکار ہوتی ہے ، جیسا کہ بھاری صنعتیں، ریلوے، ٹیلی کمیونیکیشن، ٹرانسپورٹ وغیرہ، تا کہ ان سے حاصل ہونے والے بھاری محاصل سے وہ اپنی ذمہ داریاں لوگوں پرٹیکس کابوجھ ڈالے بغیر ادا کرسکے۔
ولایہ پاکستان میں حزب التحریر کا میڈیا آفس
ختم شد