سوال و جواب: مویشیوں پر زکوٰۃ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
ہمارے معزز امیر، اسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
اللہ آپکی کوششوں کو خیر سے شرف بخشے اور آپکے ذریعے فتح اور غلبہ و تمکین عنایت فرمائے۔
کتاب: ‘اموال فی دولۃ الخلافۃ’ (عربی ایڈیشن صفحہ 153) کے باب: ‘مویشیوں پر زکوٰۃ’ میں ذکر ہے کہ: "ان مویشیوں پر زکوٰۃ فرض ہے جو قر یباً ایک سال سے چر رہے ہوں” ‘بھیڑوں پر زکوٰۃ’ صفحہ 155 پر لکھا ہے: بھیڑوں پر زکوٰۃ فرض ہے جو سارا سال چر چکی ہوں اگر ان کی تعداد سب سے کم فرض تعداد کے برابر پورا سال تک رہی ہو”۔
سوال یہ ہے کہ: کیا نہ چرنے والی بھیڑوں پر زکوٰۃ نہیں؟ حالانکہ ان پر سال کے بیشتر وقت پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ اگر ان پر زکوٰۃ ہے، تو وہ کتنی ہو گی؟
ایک اور سوال، اگر آپ جواب دینا پسند کریں: مویشیوں جیسا کہ چوپائے، بھیڑیں اور اونٹوں پر تو زکوٰۃ ہے مگر پرندوں خاص طور پر مرغیوں پر زکوٰۃ کا ذکر نہیں، جن کو ہزاروں کی تعداد میں جدید پنجروں میں پالا جاتا ہے یا ان کو تجارت کا حصہ سمجھا جاتا ہے؟
میرے سوالوں کے خیر مقدم پر اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عطا فرمائے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
جواب:
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
1۔ جی ہاں، ان بھیڑوں اور مویشیوں پر زکوٰۃنہیں جنہیں چارہ مہیا کیا جاتا ہوکیونکہ “چرنا” علت (شرعی وجہ ) کے لیے وصف مفہم (reasoned description)ہے۔ اورعلمِ فقہ میں مفہوم الصفۃ سے مراد ذاتی صفات میں سے کسی صفت سے حکم کا منسلک ہونا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب صفت موجود نہ ہو توحکم بھی غیر موجودہو تا ہےالبتہ اس کی شرط یہ کہ وہ صفت ایسا وصف ہو کہ جس کا کوئی مفہوم ہو یعنی یہ وصف علت (شرعی وجہ )کا کام دےاور اگر یہ صفت وصف مفھم نہ ہو تو پھر اس کا کوئی مفہوم نہیں لیا جاتا۔ میں دوبارہ کہہ دوں کہ فقہ میں "مفہوم الصفۃ ” کے لیے شرط ہے کہ یہ وصفِ مفہم والی صفت ہو،جیسا کہ جب رسول اللہﷺ نے فرمایا: «.. فِي صَدَقَةِ الغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا..» "۔۔۔ چرنے والی بھیڑ پر زکوٰۃ ہے” (بخاری)۔ یہاں ‘بھیڑ’ ایک اسم ہے اور اس کی دو صفات ہیں: چرا گاہ میں چرنے والی بھیڑ یا جس کو چارا دیا جائے ،پس زکوٰۃچرنے والی بھیڑ پر فرض ہے اور نہ کہ اس پر جسے چارا دیا جائے۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ مویشیوں (بھیڑ،چوپائے اور اونٹ) پر زکوٰۃہے مگر دوسرے جانور جیسے پرندے اور مرغیوں وغیرہ پر زکوٰۃ نہیں،تو یہ اس وجہ سے ہے کہ نص میں صرف مویشیوں کا ذکر ہے، سو ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں تین نصوص ہیں:
ابوذرؓ نے رسول اللہ ﷺکی یہ حدیث روایت کی : «ما من صاحب إبلٍ، ولا بقرٍ، ولا غنمٍ، لا يؤدي زكاتها، إلاّ جاءت يوم القيامة، أعظم ما كانت، وأسمن، تنطحه بقرونها، وتطؤه بأخفافها»”کوئی ایسا اونٹوں، چوپائیوں یا بھیڑوں کا مالک نہیں جس نے ان پر زکوٰۃ ادا نہ کی ہو اور پھر قیامت کے دن وہ (جانور) اتنے ہی بڑے اور اتنے ہی تیز جتنے وہ کبھی تھے ، آئیں گے اور اس کو اپنے سینگوں سے زخمی کریں گے اور اپنے کُھروں سے اسے پامال کر یں گے” (متفق علیہ)
ابو داؤد نے ابوبکرؓ سے روایت کیا جنہوں نے رسول اللہﷺ کی ایک لمبی حدیث بیان کی کہ آپﷺ نے کہا: «… وفي سائمة الغنم إذا كانت أربعين، ففيها شاة…» "چرنے والی بھیڑیں اگر چالیس تک پہنچ جائیں تو ایک بھیڑ زکوٰۃ کے طور پر دی جائے…”
اور علیؓ سے مروی ہے: «ليس في البقر العوامل صدقة» "حل چلانے والے مویشیوں پر زکوٰۃنہیں” (بو عبید اور بیہیقی نے روایت کیا)
اور عمرو بن دینار نے روایت کیا کہ انہیں رسول اللہﷺ کی یہ بات پہنچی: «ليس في الثور المثيرة صدقة» "حل چلانے والے مویشیوں پر زکوٰۃ نہیں” (ابو عبیدنے روایت کیا) اور اس کو جابر بن عبداللہؓ نے بھی روایت کیا کہ آپ ﷺ نے کہا: «لا صدقة على مثيرة» "حل چلانے والے چوپائے پر زکوٰۃنہیں۔” اور اصطلاح ‘حل چلانے والے مویشی’ سے مراد وہ جانور ہیں جو زمین کو کھودتے ہیں اور اس کو زراعت کے لیے تیار کرتے ہیں۔
حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں یہ دو صحیح احادیث اخذ کی ہیں جو بھز بن حکیم سے مروی ہیں جنہوں نے اپنے والد کےحوالے سے کہا اور انہوں نے اپنے دادا کے حوالے سے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: «في كل إبل سائمة في كل أربعين ابن لبون..» ” تمام چرنے والے اونٹوں کے کے متعلق یہ ہے کہ ہرچالیس پر ایک دو سال کا اونٹ(زکوٰۃ کے طور پر دینا ہے)۔۔۔” (حاکم نے روایت کیا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے)۔ "چرنے والے جانور وہ ہیں جو چراہگاہوں اور کھیتوں میں چرتے ہیں، چارہ ڈالے بغیر۔”
بہرحال، جیسا کہ اوپر بیان ہے ان تین پالتو جانوروں کے اوپر زکوٰۃادا کی جائے گی چونکہ زکوٰۃچرنے والے جانوروں پر ہے جوسال کا زیادہ تر حصہ چرتے رہے
ہوں ۔
نص کے اند ردوسری اقسام کے جانوروں، پرندوں اور سمندری مخلوق کا ذکر نہیں جیسا کہ یہ نص اوپربیان شدہ پالتو جانوروں کے ذکر پر ہی رک جاتی ہے۔ اور جہاں تک ان جانوروں کا تعلق ہے جو تجارت کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو ان پر زکوٰۃ،تجارت کی زکوٰۃ کے مطابق واجب ہے جیسا کہ کتاب الاموال میں اس سے متعلق باب میں واضح کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ: محتلف انواع کے جانوروں پر زکوٰۃنہیں ماسوائے پالتو جانوروں کہ: جیساکہ بھیڑیں، گائے اور اونٹ۔ اور جہاں تک تجارت والے جانور کی بات ہے، تو ہر جانور پر زکوٰۃہے جو خریدا یا بیچا جائے کیونکہ اس زکوٰۃکے بارے میں نصوص موجود ہیں کہ ہر سامانِ تجارت پر زکوٰۃ ہے چاہے جو بھی شئے ہو، بیج، کپڑے یا جانور وغیرہ۔ ایسے سامان کے بارے میں ہم کچھ نصوص پیش کرتے ہیں:
سمرہ بن جُندب سے روایت ہے جنہوں نے کہا: «أما بعد، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا أن نخـرج الصدقة من الذي نعد للبيع»“ ۔۔۔اس کے بعد یہ کہ رسول اللہﷺ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ جو بھی چیز ہم بیچنے کے لیے رکھتے ہیں، اس میں سے زکوٰۃ نکالیں۔” (ابو داؤد)
ابو ذرؓ نے رسول اللہﷺ سے روایت کیا کہ: «وفي البَزِّ صدقته» "کپڑے پر زکوٰۃ ہے۔” (دارقطنی اور بیہیقی)۔ کپڑے سے مراد سلے اور ان سلے کپڑے ہیں جو تجارت میں استعمال ہوتے ہیں۔
ابو عبید نے ابو عمرہ بن حماس سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ: «مرّ بي عمر بن الخطاب، فقال: يا حماس، أدّ زكاة مالك، فقلت: ما لي مال إلاّ جعاب، وأدم. فقال: قوّمها قيمة، ثمّ أدّ زكاتها»…” عمر بن الخطاب میرے پاس سے گزرے اور کہا: "اے حماس، اپنے مال پر زکوٰۃدو۔ ” تو میں نے کہا: میرے پاس کوئی مال نہیں سوائے اس تھیلے کے اور ایک اور تھیلے کے۔ انہوں نے کہا: ” ان پر ان کی قیمت لکھو اور پھر ان پر زکوٰۃ ادا کرو۔”
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ تسلی بخش جواب ہو گا اور اللہ ہی سب علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے۔
آپ کا بھائی
عطاء بن خلیل ابو الرَشتہ
19 محرم 1440 ہجری
بمطابق 29/09/2018 عیسوی۔
ختم شد