سوال و جواب: اسلامی لباس جو اسلام نے عورت پر حیاتِ عامہ میں واجب کیاہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
حزب التحریر میرے لیے محترم ہے، خصوصاً اس کی کتابوں اور پمفلٹ میں درج آراء کی وحدت جس کی پابندی اس کے ممبران کرتے ہیں۔ ایسی پابندی دیگر اسلامی جماعتوں میں کم ہی ہے، مگر انٹرنیٹ پر موجود حزب کے ممبران کی جلباب پر بحث میری نظر سے گزری؛ کچھ کہہ رہے تھے کہ یہ ایک ہی کپڑا ہے اور کچھ کہہ رہے تھے کہ دو ہیں۔ میرا خیال تھا کہ حزب کی اس پر رائے موجود ہے جس کی اس کے ممبران اتباع کرتے ہیں خصوصاً جب حزب ان اسلامی جماعتوں میں سے ہے جس کا مسلم خواتین میں جلباب کو پھیلانے میں گہرا اثر ہے۔ میرا سوال ہے: کیا حزب نے اپنے ممبران کے لیے حزب کی رائے کی اتباع کرنے کی پالیسی تبدیل کر دی ہے؟ شکریہ۔
جواب:
و علیکم اسلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اولاً جو سوال میں کہا گیا، میں واضح کر دوں کہ حزب کے ذمہ دار ممبران کے لیے حزب کی آراء کی پابندی لازمی ہے اور اس اصول میں کوئی تبدیلی نہیں۔ ان میں اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے: ایک ڈھانپنے والا لباس جو روزمرہ کپڑوں کے اوپر ان کو ڈھانپنے کے لیے پہنا جاتا ہے اور اس کا پاؤں تک ڈھانپنا، کہ پاؤں ڈھک جائیں، لازمی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حزب کا مسلم خواتین میں جلباب کے فروغ پر گہرا اثر ہے، الحمد اللہ۔ حزب نے خواتین کے اسلامی لباس پر کتاب "اسلام کا معاشرتی نظام” میں باب "خواتین کو دیکھنا” میں اس موضوع پر کافی تفصیل درج کی ہے۔ اسلامی لباس کی شرط یہ ہے کہ ایک خمار اور جلباب ہو جو تبرج کے بغیر ستر کو ڈھانپ لے یعنی خواتین کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی بھی لباس میں جو ستر ڈھانپے، باہر جائیں، بلکہ وہ مخصوص لباس پہن کر ہی باہر جا سکتی ہیں جو شریعت نے بیان کیا ہے۔ مندرجہ بالا نکات کی تفصیلات یہ ہیں:
1۔ "اسلامی کے معاشرتی نظام” میں یہ درج ہے کہ خواتین کا حیاتِ عامہ (گھر سے باہر) میں اسلامی لباس جلباب اور خمار ہے جو ستر کو تبرج کے بغیر ڈھانپے۔ اس میں کچھ جو معاشرتی نظام میں اس موضوع پر آیا، وہ بیان کرتا ہوں۔
"اس کی دلیل کہ شارع نے جلد کی رنگت کے ڈھانپنے کو فرض قرار دیا ہے نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے: «لم يَصْلُحْ أن يُرى منها» "۔۔۔ یہ درست نہیں کہ اس کا کچھ بھی نظر آئے۔” اس حدیث سے دلیل واضح ہوئی کہ شارع نے شرط یہ رکھی ہے کہ عورت کا ستر کامل چھپے اور اس کے پار نظر نہ آئے اور عورت کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسا کپڑا استعمال کرے جس سے اندرونی حصہ نظر نہ آئے۔ یہ بحث ستر کو چھپانے کے حوالہ سے ہوئی، تاہم یہ صحیح نہیں کہ اس موضوع کو عورت کے گھر سے باہرعام زندگی میں لباس سے یا تبرج کے لباس سے خلط ملط کردیا جائے۔ چنانچہ اگر کسی لباس سے ستر ڈھک رہا ہو تو اس کے یہ معنی نہیں ہوئے کہ وہ عورت فقط اتنے پر اکتفا کرتے ہوئے عام سڑکوں پر نکل جائے۔ ایسے مقام یعنی گھر سے باہر کے لئے شریعت نے مخصوص لباس متعین کیا ہے اور محض ستر کے چھپا لینے کو کافی قرارنہیں دیا۔ مثلاً پاجامہ، شلوار وغیرہ سے ستر چھپ جاتا ہے لیکن گھر سے باہرعام زندگی کے لئے یہ کافی نہیں، اس کے لئے شریعت نے مخصوص لباس طے کردیا ہے۔
جہاں تک حیات ِ عامہ میں (گھر سے باہر) عورت کے لباس کا تعلق ہے، تو شارع نے اُس پر یہ فرض کر دیا ہے کہ وہ بازار یا عام شاہراہوں پر جاتے وقت اپنے لباس کے اوپر ایک چادر یا جلباب پہنے جس سے اُس کا گھریلو لباس ڈھک جائے اور یہ جلباب اُس کے پیروں تک پہنچتا ہو جس سے قدم بھی ڈھک جائیں، اوراگر عورت کو ایسا جلباب میسّر نہ ہو تو وہ اپنی پڑوسن، سہیلی یا کسی رشتہ دار سے مستعار لے۔ مزید یہ کہ اگر اسے ایسا جلباب اُدھار بھی دستیاب نہ ہو تو اُس کے لئے اس کے بغیر گھر سے نکلنا صحیح نہیں اور اگر وہ اس جلباب کے بغیر گھر سے باہر جائے تو وہ گنہگار ہوگی کیونکہ اُس نے اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے ایک فرض کو ترک کیا۔ یہ بات عورت کے جسم کے نچلے حصے کے لباس کے حوالے سے ہوئی۔ جہاں تک جسم کے بالائی حصہ کے لباس کا معاملہ ہے تو اس کے سر پر خِمار یا اوڑھنی کا ہونا لازمی ہے جس سے مکمل سر، گلہ یا گردن اور سینہ چھپ جاتے ہوں۔ گھر سے باہر نکلتےوقت لازم ہے کہ عورت اِن کا اہتمام کرے جو اس کے بدن کے بالائی حصے کے لئے لازمی ہیں۔ لباس کے اِن دونوں حصوں کے ساتھ عورت کا گھر سے باہر نکلنا صحیح ہوجاتا ہے اور اِن کے بغیر کسی بھی حالت میں عورت کے لئے گھر سے باہر نکلنا صحیح نہیں رہتا کیونکہ اِن کا حکم عام ہے اور اس حکم کی تخصیص میں کچھ وارد نہیں ہوا۔
اِن دونوں، یعنی بالائی اور نچلے حصے کے لباسوں کے فرض ہونے کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول سے ہے: ﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾ "اور اوڑھے رکھیں اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر، اور اپنا بناؤ سنگارظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے”(سورۃ النّور: 31)۔ اور جسم کے بالائی حصہ کو ڈھانکنے کے حوالے سے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاء الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾ "اے نبیﷺ! کہ دو اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہ وہ اپنے اوپر چادرپوری طرح لٹکا لیا کریں”(سورۃ الاحزاب: 59)۔ اِن آیات کے علاوہ امّ عطیہ سے مسلم میں مروی ہے، وہ کہتی ہیں کہ: (أمرنا رسول الله أن نخرجهن في الفطر والأضحى، العواتق والحيّض وذوات الخدور، فأما الحيّض فيعتزلن الصلاة ويشهدن الخير، ودعوة المسلمين. قلت يا رسول الله إحدانا لا يكون لها جلباب، قال: لتلبسها أختها من جلبابها) "کہ اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ دونوں عید وں کے موقعوں پرکنواری جوان لڑکیوں، حائضہ عورتوں اور باپردہ عورتوں کو گھروں سے باہر لایا جائے؛ حائضہ عورتیں نماز نہ پڑھیں لیکن کار ِ خیر اور مسلمانوں کی دعوت میں شرکت کریں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ، ہم میں سے بعض کے پاس جلباب(چادر) نہیں ہوتا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ اپنی بہن سے اُدھار لے لے”۔
اِن دلائل سے واضح ہوجاتا ہے کہ گھریلو زندگی سے باہر حیات ِ عامہ میں عورت کا لباس کیا ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہایت باریکی، وضاحت اور جامعیت سے بیان فرما دیا کہ حیات ِ عامہ میں خواتین کس قسم کا لباس زیب تن رکھیں اور وہ یہ کہ جسم کے بالائی حصہ کے لئے کیا پہنیں، فرمایا: ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ﴾ "اور اوڑھے رکھیں اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر”(سورۃ النّور: 31) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کے بالائی حصہ پر اوڑھنیاں ڈالیں جس سے سر، گردن اور سینہ ڈھک جائے، اور جسم کے نچلے حصے کے بارے میں حکم دیا: ﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾ "اپنے اوپر چادر پوری طرح لٹکا لیا کریں”(سورۃ الاحزاب: 59)۔ اس کا مطلب ہے جب گھر سے باہر جائیں تو اپنے لباس کے اوپر اس طرح چادر نماکپڑا ڈال لیں کہ نیچے پیروں تک پہنچ جاتا ہو۔جہاں تک یہ لباس کس قسم کا ہونا چاہیے تو اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتے ہیں: ﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾”اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے”(سورۃ النّور:31)۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جسم کی زینت جو مثلاً کانوں، ہاتھوں اور پیر کی پنڈلیوں وغیرہ سے ظاہر ہوتی ہے، وہ چھپ جائے سوائے اس کے جو، اِس آیت کی رُو سے، عموماً ظاہر رہتی تھی یعنی ہاتھ اور چہرہ۔ اس بات کو نہایت تفصیل سے بیان کر دینے سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ خانگی زندگی کے باہر عورت کا لباس کیا ہونا چاہئے۔ امّ عطیہ سے مروی حدیث نہایت صراحت سے واضح کرتی ہے کہ عورت کے لئے گھرسے باہر جاتے وقت ایسا جلباب کا پہننالازمی ہے جس سے اُس کا گھریلو لباس ڈھک جاتا ہو۔ جب اُنھوں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ وہ عورت کیا کرے جسے ایسا جلباب میسر نہ ہو تو آپﷺ نے حکم دیا کہ وہ اپنی بہن سے مستعار لے کر پہن لے۔ یعنی ایسالباس نہ ہونے کی شکل میں حکم یہ ہے کہ کسی سے اُدھار لے کر پہنا جائے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر اُدھار بھی نہ مل سکتا ہو تو پھر عورت کے لئے باہر نکلنا ہی درست نہیں رہا۔ یہ اِس بات پر قرینہ ہواکہ اِس حدیث کا حکم فرض کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا گھر سے باہر جاتے وقت عورت کے لئے یہ فرض ہوا کہ وہ اپنے عام لباس کے اوپر جلباب پہنا کرے۔ اور اگر وہ نہ پہنے تو باہر نہ جائے۔
جلباب کے لئے لازمی ہے کہ یہ جسم کے نچلے حصے تک پہنچے اور قدموں کو چھپا لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ﴾ کہ عورتیں اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں، (سورۃ الاحزاب: 59)۔ یعنی وہ اپنے جلباب ،اپنے اوپر لٹکتے ہوئے پوری طرح اوڑھ لیں۔
یہاں یہ یاد رہے کہ آیت میں لفظ مِنْ تبغیضیہ (partative) نہیں یعنی اس سے مراد کُل کا جزونہیں بلکہ یہ من بیانیہ (explanatory)ہے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنی چادر کو اوڑھ کر اسے نیچے تک لائیں (نہ کہ وہ اپنے جسم کے کچھ حصے پر چادر لٹکا لیں) جیسا ابن عمرؓ سے ترمذی میں مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ فَكَيْفَ يَصْنَعْنَ النِّسَاءُ بِذُيُولِهِنَّ قَالَ يُرْخِينَ شِبْرًا فَقَالَتْ إِذًا تَنْكَشِفُ أَقْدَامُهُنَّ قَالَ فَيُرْخِينَهُ ذِرَاعًا لاَ يَزِدْنَ عَلَيْهِ» ”جو کوئی فخر وتکبر سے اپنا لباس اپنے پیچھے زمین پر گھسیٹتا ہوا رکھے، اللہ تعالیٰ روز ِ قیامت اُس کی جانب اپنی نظر ِ کرم نہ فرمائے گا۔ اِس پر اُمِّ سلمہ نے عرض کیا کہ عورتیں اپنے لباس کے کناروں کا کیاکریں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک بالشت تک لٹکا لیں ۔ اِس پر اُمِّ سلمہ نے پھرعرض کیا کہ اس طرح تو اُن کے قدم ظاہر ہوں گے، پھر آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ایک بازو بڑھا لیں لیکن اِس سے زیادہ نہیں”۔یہ حدیث ترمذی نے روایت کی اور حسن صحیح ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کپڑا جو اپنے عام لباس کے اوپر پہنا جائے، وہ نیچے تک پہنچے اور قدموں کو ڈھک لے اور اگر قدم موزوں یا جوتوں سے چھپے ہوئے ہوں تو یہ فعل اس حکم کا نعم البدل نہیں ہوگا اور اِس اوپری لباس کا نیچے تک لٹکنا لازمی باقی رہے گا، البتہ اگر جوتے یا موزوں سے قدم چھپے ہوں پھر اس اوپری لباس سے قدموں کا مزید ڈھکنا ضروری نہیں تاہم لازمی ہے کہ اوپری لباس کا نیچے تک پہنچنا نظر آتا ہو تاکہ یہ پہچان ہوسکے کہ یہ لباس گھر سے باہر نکلتے وقت پہننے کا لباس ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے اُس حکم کی رعایت ہوتی ہو جو سورۃ الاحزاب میں دیا، یعنی ﴿يُدْنِينَ﴾ یعنی کہ عورتیں اپنے اوپر چادر پوری طرح لٹکا لیا کریں۔
اِن تمام سے واضح ہوا کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت کے لئے اپنے عمومی گھریلو لباس کے اوپرایک ڈِھیلا لباس یا جلباب پہننا لازمی ہے، اور اگر اس کے پاس ایسا لباس دستیاب نہ ہو اور اسے گھر سے باہر جانا ہو، تو یہ ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس اپنی بہن یعنی مسلمان خاتون سے اُدھار لے کر پہن لے۔ پھر اگر ایسا لباس اسے مستعار بھی میسر نہ آئے تو وہ گھر کے باہر اُس وقت تک نہ جائے جب تک ایسا جلباب اسے نہ مل جائے۔ اور اگر وہ اپنا پورا ستر چھپا کر لیکن اس کے اوپرجلباب پہنے بغیرگھر کے باہر نکلے، تو وہ گنہگار ہوگی کیونکہ گھر کے باہر جانے کے لئے ایسا ڈھیلا جلباب کا پہننا فرض ہے اور اس کا نہ پہننا اس فرض کی خلاف ورزی ہوگی جو اللہ کے نزدیک گناہ ہے اور ریاست ِ اسلامی کی جانب سے اس پر تعزیری سزا ہوگی۔” اختتام بیان
2۔ اوپر درج کیے گئے متن سے یہ واضح ہے کہ اسلامی لباس ستر کو تبرج کے بغیر ڈھانپے، اور اس لباس میں خمار بھی شامل ہو جو بالوں کو ڈھانپے اور یہ خمار گردن اور قمیض کے گلے کو ڈھانپ لے، اور ایک جلباب ہو جو پاؤں تک ڈھانپ لے اور یہ واضح ہے کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے: ” عمومی گھریلو لباس کے اوپرایک ڈِھیلا لباس یا چادر” اور یہ دیکھنے والے کے لیے واضح ہے، ہر دیکھنے اور سمجھنے والا اسے جانتا ہے، متن میں درج ہے کہ:
۔ شارع نے خواتین کے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ اپنے عام کپڑوں کے اوپر ایک لباس پہنیں۔
۔ اور یہ فرض کیا ہے کہ ان کے پاس کپڑوں کو ڈھانپنے کیلئے ایک چادر ہو۔
۔ اگر ایک عورت اپنے کپڑوں پر لباس (ثوب) پہنے بغیر گھر سے نکلےگی ، تو وہ گنہگار ہو گی۔
۔ لہٰذا اس سے واضح ہے کہ خواتین کے پاس ایک ڈھیلا ڈھالا لباس (ثوب) ہونا لازمی ہے جو وہ باہر جاتے وقت اپنے کپڑوں پر پہنیں۔
لفظ لباس واحد کے صیغے میں آیا ہے ، اورلفظ چادر کو بھی واحد کو طور پر بیان کیا گیا ہے: (کہ اس کے پاس ایک کپڑوں پر پہننے کے لیے ایک لباس ہو۔۔۔ کپڑوں پر پہننے کے لیے ایک چادر ہو۔ اگر وہ کپڑوں پر لباس پہنے بغیر باہر جائے، تو گنہگار ہو گی۔۔۔ باہر جاتے وقت کپڑوں پر پہننے کے لیے ایک لباس ہو۔۔۔ کہ خواتین کے پاس باہر جانے کے لیے کپڑوں پر پہننے کے لیے ایک ڈھیلا ڈھالا لباس ہو۔۔۔) یہ تکرار اس کا ثبوت ہے کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے، یہ ایک ثوب (لباس) ہے جو خواتین اپنے کپڑوں پر پہنتی ہیں۔۔۔ وغیرہ، اور یہ بہت واضح معاملہ ہے۔
مزید وضاحت کیلئے: یہ آیت: ﴿يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ﴾ "عورتیں اپنے اوپر چادرپوری طرح لٹکا لیا کریں” (سورۃ الاحزاب: 59) یہ ظاہر کرتا ہے کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے، حرف "مِنْ ” بیان(وضاحت) کے لیے ہے، یعنی جلباب کو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں نہ کہ جلباب میں سے کچھ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ، جلباب کو لفظ اِدنَا"اس طرح لٹکانا جو پوری طرح ڈھانپ لے”سےجوڑا گیا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے جو نیچے تک ڈھانپتا (لٹکتا) ہے، اور آیت میں استعمال کیے گئے الفاظ کے مطابق یہ دو کپڑے نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ جیسے ہم نے کہا، لٹکے ہوئے انداز سے ڈھانپنا کو جلباب سے جوڑا گیا ہے۔ اگر جلباب دو کپڑے ہوتا تو دونوں کو پیروں تک ڈھانپنا لازمی ہوتا، پھر ایک کے اوپر دوسرا کپڑا ہوتا جو ڈھانپنے کا کام کرتا اور باہر والا کپڑا ہی جلباب ہوتا جو گلے سے پیروں تک ڈھانپتا۔۔۔ لہٰذا لغوی اصطلاح سے اس بات کی تاکید ہو گئی کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے کیونکہ جلباب کو ڈھانپ دینے سے جوڑا گیا ہے۔ فطری طور پر یہ اس میں اضافہ ہے جو ہم نے بیان کیا،یعنی لفظ ثوب کی تکرار۔۔۔ اور جو ہم نے پہلے واضح کیا کہ جلباب ایک ڈھیلا ڈھالا ثوب ہے جو ایک عورت اپنے عام کپڑوں پر پہنتی ہے اور وہ پیروں تک ڈھانپتا ہے۔
۔ اسلام نے اسلامی لباس کی تاکید کی ہے اور جلباب کے بغیر عورت کے باہر جانے کی اجازت نہیں دی، اور یہ کہ باہر جانے کیلئے اسے جلباب کسی بہن سے ادھار لینا ہے اگر اس کے پاس موجود نہیں۔ یہ کافی نہیں کہ وہ اپنا ستر کسی بھی لباس سے ڈھانپے سوائے جلباب اور بغیر تبرج خمار کے۔
3۔ یہ حزب کی تبنی شدہ رائے ہے اور ممبران پر اس کی اتباع لازمی ہے اور کسی دوسرے رائے کو قبول نہ کرنا ضروری ہے۔ مگر ہو سکتا ہے کہ سوال کرنے والے نے انٹرنیٹ پر مختلف آراء پڑھیں اور گمان کیا کہ یہ ممبران کی آراء ہیں جو کہتے ہیں کہ جلباب دو کپڑوں سے بنتا ہے (قمیض اور شلوار سے یا ایک قمیض یا شلوار جس کے ساتھ گھٹنوں تک coat ہو وغیرہ) اور سوچا کہ ممبران میں جلباب پر اختلاف ہے۔ ہم قاری کی غلط فہمی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اس نے شاید کسی ایسے شخص کی رائے پڑھ لی جو حزب چھوڑ چکا ہے، یا حزب نے اس کو سزا دی یا کوئی ناقص (جس نے حزب کی قسم توڑی) یا وہ جو دوسروں کو الجھانا پسند کرتا ہے، اورقاری نے یہ سوچا کہ یہ حزب کے ذمہ دار ممبران ہیں، خصوصاً جب ہم ان لوگوں کا منصب عام نہیں کرتے سوائے مخصوص حالات کے۔ لہٰذا انٹرنیٹ پر قاری الجھن کا شکار ہو سکتا ہے اور یہ سوچ سکتا ہے کہ حزب کے ممبران میں جلباب کے ایک کپڑا یا دو کپڑے ہونے پر اختلاف ہے۔
ہم سوال پوچھنے والے کو تاکیداً بیان کرتے ہیں کہ حزب کے ذمہ دار ممبران میں حزب کی آراء پر کوئی اختلاف نہیں۔ جلباب ایک ہی کپڑا ہے: عورت کے کپڑوں پر لٹک جانے والا لباس جو اوپر پہنا جاتا ہے اور اس کا پیروں تک ڈھانپنا لازمی ہے کہ پیر نہ نظر آئیں۔ جو اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں شاید ان میں سے ہیں جو حزب چھوڑ چکے ہیں، یا سزا پر ہیں یا ناقصین ہیں یا وہ جو الجھن پھیلانا پسند کرتے ہیں! اور وہ باذن اللہ حزب اور اس کے ذمہ دار ممبران کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
میں اسی سے اختتام کروں گا جس سے آغاز کیا: کہ حزب کے ذمہ دار ممبران کے لیے حزب کی آراء کی اتباع لازمی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔ ان میں اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جلباب ایک ہی کپڑا ہے: ایک ڈھانپنے والا لباس جو روزمرہ کپڑوں کے اوپر ان کو ڈھانپنے کے لیے پہنا جاتا ہے اور اس کو پاؤں تک لٹکاناکہ پاؤں ڈھک جائیں، لازمی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ حزب کا مسلم خواتین میں جلباب کے فروغ پر گہرا اثر ہے، الحمد اللہ۔ حزب نے خواتین کے اسلامی لباس پر کتاب "اسلام کا معاشرتی نظام” میں باب "خواتین کو دیکھنا” میں اس موضوع پر کافی تفصیل درج کی ہے۔ اسلامی لباس کی شرط یہ ہے کہ ایک خمار اور جلباب ہو جو تبرج کے بغیر ستر کو ڈھانپ لے یعنی خواتین کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی بھی لباس میں جو ستر ڈھانپے، باہر جائیں، بلکہ وہ مخصوص لباس پہن کرہی باہر جائیں جو شریعت نے بتایا ہے۔
امید ہے کہ یہ جواب یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہو گا کہ جلباب پر حزب کی ایک ہی رائے ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا۔
9 محرم الحرام 1440 ہجری
2018/9/19 عیسوی
ختم شد