اسلام کے مخلص محافظ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تحریر: مصعب عمیر، پاکستان
28 رجب 1342 ہجری بمطابق 3مارچ 1924 عیسوی کو خلافت کے خاتمے کے بعد سے مسلمان مسلم دنیا کے حکمرانوں کے ہاتھوں شدید مظالم برداشت کررہے ہیں۔ یہ حکمران اسلام کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں اور انسانوں کے بنائے قوانین کے مطابق حکمرانی کرتے ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ ” اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکمرانی نہ کرے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں "(المائدہ 5:45)۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی وحی کی بنیاد پر حکمرانی قائم کرکے ان حکمرانوں کے ظلم کا خاتمہ کریں۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ "اگر لوگ ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اُسے اِس سے نہ روکیں تو جلد ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ انہیں سزا دے گا”(ترمذی)۔
یقیناً مسلم دنیا میں موجود بااثر لوگ اور اہلِ قوت اس ظلم کو ختم کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج بھی یہی صورتحال ہے اور رسول اللہ ﷺ کے دور میں بھی یہی صورتحال تھی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پر بااثر لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دعا کی، اور فرمایا، اللهم أعز الإسلام بأحب الرجلين إليك: بعمر بن الخطاب أو بأبي جهل بن هشام "اے اللہ! اسلام کو طاقت دے خاص طور پر ان دو افراد میں سے کسی ایک کے ذریعے جس سے آپ زیادہ محبت کرتے ہیں، عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام”۔ تو ہم نے دیکھا کہ کس طرح عمرؓ اور حمزہؓ کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اسلام کو تقویت حاصل ہوئی۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حمزہؓ اور عمرؓ نے دار الارقم سے صحابہؓ کی قیادت کرتے ہوئے ایک ریلی نکالی اور اپنی طاقت کا عوامی مظاہرہ کیا۔ اسی طرح ہم نے یہ بھی دیکھا کہ معزز انصارؓ نے نُصرۃ (مدد) دی اور ظلم کا خاتمہ ہوا اور مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست قائم ہوئی۔
آج بااثر اور اہل قوت افراد بیک وقت موجودہ نظام سے برا ہ راست فوائد بھی اٹھارہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ اُس تبدیلی کو لانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جس تبدیلی کا بہت شدت سے انتظار کیا جارہا ہے ۔ آج کے جابر حکمران بااثر لوگوں کی وفاداریاں خریدنے کے لیے امت کے خزانے انہیں دینے کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف ان بااثر لوگوں کو بولنے سے روکنے کے لیے یہ جابر دھمکیوں کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ لیکن آخرت کے خزانے ان لوگوں کا انتظار کررہے ہیں جو اپنےامتیازی رتبے کوجابر کی جانب سے رشوت کی پیشکش اور دھمکیوں کے باوجود سچ کی سربلندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بااثر اور اہل قوت افراد کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کو سمجھیں ، چاہے وہ جج ہوں یا صحافی، صنعتکارہوں یا علماء یا افواج کے افسران ہوں۔ بااثر اور اہل قوت افراد کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ بذات خود بھی ایک امتیازی رتبے کے حامل تھے۔ آپ ﷺ کو تمام قبائل میں یہ منفرداعزاز حاصل تھا کہ کعبہ کی تعمیر ِنو کے بعد حجر اسود آپ ﷺ کے ہاتھوں نسب کیا گیا۔ آپ ﷺ الصادق اور الامین کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ ﷺ برضا و رغبت اپنے اعزاز کو داؤ پر لگاتے ہوئے صفاء کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور قبائل کو دین حق یعنی اسلام کی دعوت دی۔ آپ ﷺ نے ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سوا کسی خوف کی پروا نہیں کی، اور اس وقت تک اس آزمائش سے پُر راہ پر چلتے رہے جب تک اللہ کا دین حاوی نہیں ہوگیا۔
بااثر اور اہل قوت افراد کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے بھی کئی قسم کی ترغیبات رکھی گئی تھیں۔ ایک دن مکّہ کے کچھ اہم افراد کعبہ میں جمع ہوئے۔ عتبہ بن ربیعہ،جو ان کا سردار تھا، اس نے یہ تجویز دی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سمجھوتے کی پیشکش لے کر جائے۔ یہ پیشکش کہ اگر رسول اللہ ﷺ اسلام کی دعوت سے دستبردار ہوجائیں تو انہیں منہ مانگی دولت دی جائےگی۔ قریش کے لوگوں نے عتبہ کی تجویز سے اتفاق کیا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائے ۔ عتبہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ، "تم نے ہمارے معبودوں اور مذہب کی بے حرمتی کی اور ہمارے آباؤاجداد اور ذہین لوگوں پر گناہ اور غلطی کا الزام لگایا اور ہمارے درمیان اختلاف پیدا کیا۔ تم نے ہمارے ساتھ تعلقات کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر تم یہ سب کچھ اس لیے کررہے ہو کہ دولت حاصل کرسکو، تو ہم مل کر تمہیں اتنی دولت دے دیتے ہیں جو کسی قریشی کے پاس نہیں ہوگی۔ اگر سرداری کی خواہش کی وجہ سے یہ کام کررہے ہو تو تمہیں ہم اپنا سردار بنا لیتے ہیں ۔ اگر تم بادشاہ بننا چاہتے ہو تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں "۔ رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف ان کی ترغیبات کو مسترد کردیا بلکہ آپ ﷺ نے اس کا جواب اپنے سچے پیغام سے دیا اور قرآن کی آیات تلاوت فرمائیں۔ کیا آج کے بااثر اور اہل قوت افرادکو اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا چاہئے ؟
بااثر اور اہل قوت افراد کو جابروں کی دھمکیوں کے جواب میں رسول اللہ ﷺ کی بھر پور استقامت سے نصیحت لینی چاہیے۔ مشرکین مکّہ نے رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب سے رابطہ کیااور اُن پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے بھتیجے کی سرگرمیوں کو روکیں اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ انہیں اپنے شدید غصے کا نشانہ بنائیں گے۔ ابو طالب اپنے لوگوں کی دشمنی اور کھلی دھمکی کی وجہ سے شدید پریشان ہو گئے لیکن وہ رسول اللہ ﷺ کوبھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے بھتیجے کو بلوایا اور قریش کے لوگوں نے جو پیغام دیا تھا اس سے آپ ﷺ کو آگاہ کرتے ہوئے کہا، "مجھے اور اپنے آپ کو بخش دو اور مجھ پر وہ بوجھ نہ ڈالو جو میں نہیں اٹھا سکتا”۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ یہ سمجھے کہ ان کے چچا ان کا ساتھ چھوڑ دیں گےاور ان کی حمایت نہیں کریں گے چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا، يَا عَمّ ، وَاَللّهِ لَوْ وَضَعُوا الشّمْسَ فِي يَمِينِي ، وَالْقَمَرَ فِي يَسَارِي عَلَى أَنْ أَتْرُكَ هَذَا الْأَمْرَ حَتّى يُظْهِرَهُ اللّهُ أَوْ أَهْلِكَ فِيهِ مَا تَرَكْتُهُ "اے چچا! اللہ کی قسم، اگر وہ میرے سیدھے ہاتھ پر سورج اور میرے بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں، تو بھی میں اس دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا یہاں تک کہ اللہ اس دین کو غالب کردے یا میں اس راہ میں مارا جاؤں” ۔
وہ بااثراور اہل قوت افراد جو اسلام کی حمایت کرنے کے نتیجے میں نقصان سے ڈرتے ہیں تو وہ یہ جان لیں کہ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ نقصان کسی نے نہیں اٹھایا۔ انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللَّهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَىَّ ثَلاَثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلاَلٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ إِلاَّ شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلاَلٍ ” اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ اتنی کسی کو نہ دی گئی ہوں گی، اور میں اللہ کی راہ میں اس قدر ڈرایا گیا کہ اتنا کوئی نہیں ڈرایا گیا ہو گا، اور مجھ پر مسلسل تیس دن اور راتیں ایسی گزریں کہ میرے اور بلال کے لیے کوئی چیز کھانے کی نہ تھی جسے کوئی ذی روح کھاتا سوائے اس کے جو بلال کی بغل کے نیچےپورا آ جائے "(ترمذی)۔
کیا بااثر اور اہلِ قوت افراد کا محض حکمرانوں کی دھمکیوں کے سامنے جھک جانا درست ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے تو ان کے مظالم کا سامنا بھی پوری استقامت کے ساتھ کیا؟ بخاری نے روایت کیا کہ عروہ بن زبیر نے روایت کیا کہ میں نے عمرو بن العاصؓ سے پوچھا، "رسول اللہ ﷺ کے خلاف مشرکین نےجو سب سے بدترین کام کیا مجھے اس کے متعلق بتاؤ”۔ انہوں نے کہا، بَيْنَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي فِي حِجْرِ الْكَعْبَةِ إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَوَضَعَ ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ خَنْقًا شَدِيدًا "رسول اللہ ﷺ کعبہ کے حجر میں نماز پڑھ رہے تھےکہ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر پیغمبر کی گردن کے گرد لپیٹ کر ان کا گلا شدت سےگھونٹنے لگا "۔ ابو بکر آئے اور اسے اس کے کندھے سے پکڑا اور رسول اللہ ﷺ سے دور ہٹایا اور یہ آیت تلاوت کی، أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ ” کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ ‘میرا پروردگار اللہ ہے؟'”(غافر40:28)۔
اور عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ سجدے کی حالت میں تھے کہ ابو جہل بن ہشام، شیبہ ،عتبہ بن ربیعہ، عقبہ بن معیت، امیہ بن خلف اور دو مزید لوگ رسول اللہ ﷺ کےقریب موجود تھے۔ رسول اللہ ﷺ طویل سجدے میں تھے ۔ ابو جہل نے کہا، "کون بنی فلاں کے ذبح کیے گئے اونٹ کی باقیات لائے گا اور اسے محمد پر ڈال دے گا”۔ عقبہ بن معیت،جو اُن میں سب سے زیادہ بد بخت اور گھٹیا آدمی تھا، اٹھااور اونٹ کی اوجھ لا کر رسول اللہ ﷺ کے کندھوں پر ڈال دیں۔ رسول اللہ ﷺ اِس وقت بھی سجدے کی حالت میں تھے۔ ابن مسعود نے کہا، "میں وہاں کھڑا تھالیکن کچھ نہ کہہ سکاکیونکہ وہاں ایسا کوئی نہیں تھا جو میری حفاظت کرتا۔ میں وہاں سے نکل رہا تھا جب میں نے فاطمہؓ ، رسول اللہ ﷺ کی بیٹی، کو دیکھا جو اس صورتحال کے متعلق جان کر وہاں پہنچی تھیں، اور انہوں نےاس گند کو رسول اللہ ﷺ کے کندھوں سے ہٹایا اورقریش کو بددُعا دی”(بزار، طبرانی)۔
کیا اس حقیقت کو جاننے کے بعد بھی اہلِ قوت افراد نُصرۃ فراہم نہیں کریں گے کہ رسول اللہ ﷺ نےنُصرۃ کے حصول کے لیے کس قدر تکالیف برداشت کیں؟ عروہ بن زبیر نے روایت کیا کہ، "جب ابو طالب کا انتقال ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی آزمائشوں میں مزید شدت آگئی لہٰذا آپ ﷺ نُصرۃ کے حصول کے لیے طائف کی جانب روانہ ہوئے اور اس کے تین سرداروں ، عبدیا لیل بن عامر، خبیب بن عامر اور مسعود بن عامر،سے ملے جو آپس میں بھائی تھے اور خود کو ان کے سامنے پیش کیا اور انہیں اپنے لوگوں (قریش) اور ان کے مظالم کے متعلق بتایا۔ ان میں سے ایک نے کہا، "اگر اللہ نے تمہیں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تو میں کعبہ کی چادر نوچوں گا”۔ دوسرے بھائی نے کہا، "اللہ کی قسم! آج کے بعد میں تم سے ایک لفظ بھی بات نہیں کروں گا اگر تم پیغمبر ہو کیونکہ پھر توتمہارا رتبہ بہت اونچا ہے”۔ تیسرے بھائی نے کہا، "اللہ تمہارے سوا کسی اور کو نہیں بھیج سکتا تھا؟” اور پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف طائف میں جھوٹی مہم شروع کردی۔ انہوں نے بنو ثقیف کو جمع کیا،دو قطاریں بنائیں اور آپ ﷺ کا مذاق اڑانے لگے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیے اور جیسے ہی رسول اللہ ﷺ قدم اٹھاتے تو وہ ان کے قدموں پر پتھر مارتے اور آپ ﷺ کا مذاق اڑاتے۔ جب رسول اللہ ﷺ وہاں سے نکلے تو آپ ﷺ کےپیر مبارک خون میں تربتر تھے”۔ تو کیا اہل قوت نصرۃ نہ دینے کے لیے اپنے بہانوں پر نظر ثانی کریں گےجبکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے حصول کے لیے اِس قدر مشکلات اٹھائی تھیں؟
بااثر اور اہل قوت افراد کو اسلام کی مظلوم امت کو ظلم اور مشکلات سے نکالنے والا بننا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم پر چل کر خود کو آخرت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا حق دار ثابت کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ پوری استقامت سے جابروں کی رشوتوں کو مسترد کردیں۔ انہیں اللہ کی رضا کے لیے دھمکیوں اور نقصان کا سامنا کرنا ہو گا۔ اور انہیں اس بات کی تیاری کرنی چاہئے کہ روزِ آخرت انہیں جابروں کے ساتھ نہ اٹھایا جائے۔ اللہ
سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا، وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَ ” اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہمیں رستے سے گمراہ کردیا "(الاحزاب 33:67)۔ اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا،وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِنَ النَّارِ- قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ "اور جب وہ دوزخ میں جھگڑیں گے تو ادنیٰ درجے کے لوگ بڑے آدمیوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تو کیا تم دوزخ (کے عذاب) کا کچھ حصہ ہم سے دور کرسکتے ہو؟بڑے آدمی کہیں گے کہ تم (بھی اور) ہم (بھی) سب دوزخ میں (رہیں گے) اللہ بندوں میں فیصلہ کرچکا ہے”(غافر 48-47)۔
ختم شد